تحریر: لال خان
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو با ضابطہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا سب سے بڑھ کر تاریخ کی طاقتور ترین سامراجی قوت کے زوال کی نشانی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں دراڑیں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس دونوں ہی ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف تھے۔ ان کو صہیونی انتہاپسندوں کے ’تین کے ٹولے‘ نے کنارہ کش کر دیا ہے جن میں جیسن گرین بلیٹ، ڈیوڈ فرائڈ مین اور ایوانکا ٹرمپ کے شوہر جیرڈ کشنر شامل ہیں۔ کشنر نے اسرائیلی آبادکاری میں سرمایہ کاری کی ہے اور وہ اس وقت وائٹ ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں کا مختار کل ہے۔ یہ بے دھڑک اقدام محض ٹرمپ کی ڈانواڈول بڑھکوں کا تسلسل نہیں ہے بلکہ امریکی ریاست اور سماج میں گہرے تضادات کی غمازی کرتا ہے جو بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور افغانستان، عراق، شام اور حالیہ سالوں میں دوسرے محاذوں پر ہونے والی شکستوں سے جنم لینے والی پراگندگیوں کا نتیجہ ہیں۔
ٹرمپ نے یہ اقدام اپنے مواخذے کے خطرے کو ٹالنے کے لئے بھی کیا ہے۔ اس نے خطے میں اپنے قریبی اتحادیوں سعودی عرب، مصر، اردن اور دوسرے ملکوں میں موجود بادشاہوں اور آمروں کو ایک دن پہلے فون کیا تھا۔ یہ فون کال ان حکمرانوں کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہوگی جن کی حکومتیں پہلے سے ہی عوامی بے چینی کی وجہ سے لرز رہی ہیں۔ بحران کے پیش نظراپنی بقا کے لیے امریکہ پر ان کا زیادہ سے زیادہ انحصار ایک خطرناک حکمت عملی ثابت ہوا ہے۔ ان عرب اور مسلمان حکمرانوں نے دہائیوں تک فلسطینی تنازعے کو ایک بیرونی مسئلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اندرونی بغاوتوں کو کچلا ہے۔ اب وقتِ حساب آچکا ہے۔ اس پھرتیلے فیصلے سے مشرق وسطیٰ میں مزید آگ بھڑکے گی۔
امریکی سامراج کا سامنا کرنے اور فلسطینیوں پر جبر کے خلاف واضح اقدام کرنے میں نااہلی کی وجہ سے ان ملکوں میں عوامی غم و غصہ اور بغاوتیں جنم لے سکتی ہیں جن کا حکمران سامنا نہیں کر پائیں گے۔ یہ اقدام ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ جیسے اداروں کے خصی پن کو واضح کرتا ہے جس کی قراردادوں کو اسرائیل کے صہیونی حکمران پچھلے ستر سالوں میں کسی خاطر میں ہی نہیں لائے ہیں۔ یہ نام نہاد ’عالمی برادری‘ محض بورژوا حکمرانوں کا ایک کلب ہے جہاں منافقانہ سفارتکاری سے وہ عوامی بغاوتوں کو خاموش کراتے ہیں۔ لیکن اس انتہاپسندانہ اقدام سے عوامی بغاوتیں اور سرکشیاں جنم لے سکتی ہیں۔
ٹرمپ کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے فلسطینی علاقوں میں اِس متوقع اقدام کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ فلسطینی رہنماؤں نے امریکی سامراج کی اس قلابازی کے خلاف تین دن کے ’یوم الغضب‘ کا اعلان کیا ہے۔ سامراجی کاسہ لیسی کرتے کرتے محمود عباس کی ساکھ گر چکی ہے۔ مسلم دنیا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے ’’مذمت‘‘ صرف اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ امریکی سامراج سے قریبی تعلقات کی وجہ سے کہیں وہ عوامی غیض و غضب کا نشانہ نہ بن جائیں۔ اس اقدام نے سامراجی سرمایہ دارانہ ریاستوں اور نظام کے اندر رہتے ہوئے فلسطین اسرائیل تنازعے کے حل کے لئے مذاکراتی عمل کے ڈھکوسلے کو بے نقاب کر دیا ہے۔
’الیکٹرانک انتفادہ‘ کے علی ابونما نے الجزیرہ کو بتایا، ’’امریکہ پر بطور ایماندار بروکر صرف وہی یقین کرسکتا ہے جو پچھلی چند دہائیوں میں کسی اور سیارے میں رہا ہو۔ یہ امریکی پالیسی کا ایماندارانہ اظہار ہے۔ یعنی اسرائیل کو غیر مشروط طور پر قبول کرنا‘ بشمول مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آبادکاریوں اور تعمیرات کے۔ سالوں سے امریکہ کی بنیادی پالیسی یہی رہی ہے اور ٹرمپ نے محض اس کا اظہار ہی کیا ہے۔‘‘ حتیٰ کہ پوپ فرانسس نے ویٹیکن میں اپنے ہفتہ وار خطاب میں کہا، ’’یروشلم کی الاقصیٰ مسجد میں حالات کو پہلے کی طرح ہی قائم رہنا چاہیے۔ ‘‘ فرانسیسی صدر میکرون کی تنقید دراصل یورپی سامراجی سفارتکاری کی منافقت کا واضح اظہار ہے۔
اقوام متحدہ کے 1947ء کے تقسیم کے منصوبے کے مطابق فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تھا، جسے عالمی سامراجی طاقتوں اور سٹالنسٹ روس نے بھی ووٹ دیاتھا۔ یروشلم کو ایک اسپیشل سٹیٹس دیا گیا اور اسے ’عالمی اقتدار اور کنٹرول‘ میں رکھا جانا تھا۔ تین ابراہیمی مذاہب کی مذہبی اہمیت کی وجہ سے یروشلم کو یہ اسپیشل سٹیٹس دیا گیا تھا۔ 1948ء کی جنگ میں صہیونی فوج نے شہر کے مغربی حصے پر قبضہ کر لیا اور اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں بشمول مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا اور اس شہر کو اپنا ’ابدی اور غیرمنقسم‘ دارالحکومت قرار دے دیا۔ 1968ء میں یروشلم کے اس وقت کے میئر ’ ٹیڈی کولیک‘ نے اسرائیلی حکومت کے قبضے کی حکمت عملی کو بیان کیا: ’’ہمارا مقصد یہ ہے کہ پورا یروشلم ہمیشہ کے لیے اسرائیل کا حصہ بن جائے۔ اگرہم نے اس شہر کواپنا دارالحکومت بنانا ہے تو پھر ہمیں اسے اپنے ملک کا لازمی حصہ بنانا ہوگا اور اس کے لیے ہمیں یہودی آبادی کی ضرورت ہوگی۔‘‘
1980ء میں اسرائیل نے ’یروشلم کا قانون‘ (Jerusalem Law) منظور کرکے شہر کے مشرقی حصے پر اپنے قبضے کو قانونی شکل دے دی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ’’مکمل اور متحدہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔‘‘ اسرائیلی حکومتی ادارے بشمول پارلیمنٹ یا ’کنیسٹ‘ اور سپریم کورٹ اب یروشلم میں تھے۔ بعد کی آنے والی اسرائیلی حکومتوں نے وسیع اراضی پر قبضے کیے، یہودی بستیوں کی تعمیر کی اور فلسطینیوں پر ایک جابرانہ نظام رائج کیا تاکہ ان کی روزمرہ زندگیاں تنگ ہوجائیں اور وہ شہر چھوڑ کر چلے جائیں۔
آج مشرقی یروشلم کا 86 فیصد اسرائیلی حکام اور یہودی آبادکاروں کے قبضے میں ہے۔ تقریباً دو لاکھ آبادکار اُن بستیوں میں رہتے ہیں جنہیں فلسطینی سرزمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔ دیہاتوں کو تقسیم، شہروں کو چیرتی اور خاندانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والی یہ دیوار، جسے اسرائیل نے 2002ء میں تعمیر کرنا شروع کیا، مغربی کنارے کے علاقوں سے گزرتی ہے۔ یروشلم میں اس دیوار نے 140,000 فلسطینیوں کو شہر کے باقی حصوں، بنیادی ضروریات زندگی اور انفراسٹرکچر سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں 2600 سے زائد لوگوں کے گھروں کو مسمار کرکے انہیں بے گھر کردیا گیاہے۔
یروشلم کے 324,000 فلسطینیوں میں سے صرف 56 فیصد شہر کے پانی کے نظام سے منسلک ہیں۔ 1967ء میں منصوبوں پر پابندی کی وجہ سے مشرقی یروشلم میں پانی اور دوسری ضروریات بشمول پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی بد سے بد تر ہوچکی ہے جبکہ آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 1967ء سے شہر کے باسیوں پر ’ارنونا میونسپل ٹیکس‘ نافذ کیا گیا ہے۔ اسے عام طور پر امتیازی سلوک کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ اس سے فلسطینی متاثر ہوتے ہیں اور کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے سالانہ کرائے کا خرچہ بڑھ جاتا ہے۔
اس نظام نے بہت سے فلسطینیوں کو اس تحقیر آمیز سلوک سے فرار ہو کرمقبوضہ مغربی کنارے میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یروشلم کے فلسطینی باسی بنیادی طور پر بے وطن ہیں۔ وہ نہ تو اسرائیل، نہ اردن اور نہ ہی فلسطین کے شہری ہیں۔ اسرائیلی حکومت مشرقی یروشلم میں ان فلسطینیوں کے ساتھ بیرونی تارکین وطن جیسا سلوک کرتی ہے جو وہاں اپنے حق کی بنیاد پر نہیں بلکہ ’ریاست کی مہربانی‘ سے رہ رہے ہیں باوجودیکہ ان کی پیدائش وہیں کی ہے۔ وہ مستقل طور پر اس خوف میں جی رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ان کی رہائش منسوخ نہ کر دی جائے۔
اس سرزمین کی تقسیم اور اسرائیل کی تخلیق کا آغاز ’بالفور ڈیکلیئریشن‘ سے ہوتا ہے جو 1917ء میں برطانیہ کی جانب سے ایک عوامی وعدہ تھا کہ فلسطین میں ’’یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن‘‘ تعمیر کیا جائے گا۔ یہ بیان اس وقت کے برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھر بالفور کی جانب سے ایک خط کی شکل میں سامنے آیا جو ’لائینل والٹر روتھ چائلڈ‘ کے نام لکھا گیا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کا سرخیل تھا۔ یہ منصوبہ پہلی عالمی جنگ کے دوران تیار کیا گیا اور اسے ’فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ‘ کی شقوں کا حصہ بنایا گیا جو سلطنت عثمانیہ کے لیوانت صوبے(جس میں مشرق وسطیٰ کے بیشتر علاقے شامل ہیں) سے نئے ممالک بنانے کا منصوبہ تھا۔ یہ علاقے مصنوعی ملکوں میں تقسیم کردیئے گئے جو دراصل جنگ میں فاتح سامراجی طاقتوں (فرانس اور برطانیہ) کے حصے میں مال غنیمت کے طور پر آئے۔ یہ نام نہاد مینڈیٹ سسٹم، جسے اتحادی طاقتوں نے تخلیق کیا تھا، دراصل قبضے اور نوآبادیات کی ہی ایک شکل تھا۔
بالفور ڈیکلیئر یشن میں یہودیوں کے لیے ایک وطن کا وعدہ کیا گیا تھا جہاں مقامی لوگ آبادی کے 90 فیصد کو تشکیل دیتے تھے۔ برطانیہ نے 1916ء کے ایک الگ ’سائیکس پیکٹ معاہدے‘ کے تحت فرانس سے وعدہ کیا کہ فلسطین کا اکثریتی علاقہ عالمی کنٹرول میں ہوگا جبکہ خطے کے باقی علاقوں کو جنگ کے بعد دونوں آپس میں بانٹیں گے۔ ڈیکلیئریشن کے تحت فلسطین برطانیہ کے قبضے میں آنا تھا اور وہاں رہنے والے فلسطینی عرب آزادی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج کا بطور عالمی تھانیدار زوال ہوا جس کی جگہ امریکی سامراج نے لے لی۔ اس وقت سے اسرائیل مشرق وسطیٰ میں تنازعات بھڑکانے اور خطے میں عدم استحکام لانے کے لئے امریکی سامراج کا آلہ کار ہے۔ سامراجی پالیسی سازوں نے ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کے نسخے استعمال کرتے ہوئے مذہبی، نسلی، قومی اور فرقہ وارانہ تنازعات کے ذریعے خطے میں وسائل کی لوٹ اور اسٹریٹجک کنٹرول کو قائم کرنے کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔
بنیامین نیتن یاہو اور دوسری رجعتی صہیونی قیادتیں ٹرمپ کے اِس اعلان کی خوشی سے بدمست ہیں لیکن شاید انہیں بہت جلد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ایک اور انتفادہ کا سامنا کرنا پڑے جس میں اسرائیلی عوام بھی عرب مظاہرین کے ساتھ اسرائیلی شہروں میں نکل سکتے ہیں۔ ان سامراجی بٹواروں کا خوفناک المیہ یہ ہے کہ پچھلے ستر سالوں سے نہ صرف فلسطینی عوام محکوم ہیں بلکہ اس خطے میں ہر قومیت، نسل اور مذہبی فرقے کے محکوم طبقات اِن سامراجیوں کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں جو مذہبی دیومالائی کہانیوں کی بنیاد پر رجعتی تعصبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس جبر کا شکار وہ اسرائیلی محنت کش اور غریب بھی ہیں جنہیں پوری دنیا سے اسرائیل میں لایا گیا اور جو غیر مذاہب اور اقوام کے نرغے میں مسلسل خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیون ٹراٹسکی نے اپنے ’آبائی وطن‘ میں ہجرت کرنے والے یہودیوں کو ایک خوفناک زندگی سے متنبہ کیا تھا۔ 22 دسمبر 1938ء میں اس نے لکھا تھا، ’’یہودی مسئلے کو یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کے ذریعے حل کرنا یہودی عوام کے ساتھ خوفناک مذاق ہے۔‘‘ کارل مارکس نے لوٹ مار کے لئے سامراجیوں کی جانب سے مذہبی انتہاپسندی کو استعمال کرنے کے پیچھے مالی مفادات کا بخوبی تجزیہ کیا تھا۔
اسرائیل کا معاشرہ بھی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ یہاں کے محنت کشوں اور غریبوں کو بھی معاشی استحصال اور ریاستی جبرکا سامنا ہے۔ لیکن اس سخت گیر صیہونی ریاست نے ’بیرونی دشمنوں ‘کے حصار کے خوف کو جس شدت سے مسلط کر رکھا ہے اس سے طبقاتی کشمکش بہت بڑی رکاوٹ اور سبوتاژ کا شکار ہے۔ لیکن جب سماج کی کوکھ میں سلگنے والی طبقاتی کشمکش پھٹے گی تو پورے خطے کی صورتحال کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے۔ 2011ء میں عرب انقلاب کا سب سے غیرمعمولی پہلو اسرائیلی محنت کش عوام کا عرب دنیا میں اپنے طبقے سے یکجہتی کے لئے اپنے صہیونی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنا تھا۔ اسرائیل میں ہونے والے اِن مظاہروں میں سات لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی تھی اور مصر کے انقلاب کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دیا تھا۔ جب دوبارہ خطے میں عوامی بغاوت ابھرے گی تو اسرائیل بھی اس کی زد میں آئے گا۔ اسرائیل کی جابر صہیونی ریاست اور اس کے سامراجی آقا ایک نئی بغاوت کو کچل نہیں پائیں گے۔ یہ انقلابی صورت حال پورے مشرق وسطیٰ میں پھیل کر سامراجی غلامی کی زنجیروں کو توڑ تے ہوئے صہیونی ریاست اور رجعتی عرب بادشاہتوں اور حکومتوں کو اکھاڑ پھینکے گی۔ امریکی سامراج کا یہ بانسری بجاتا ’’نیرو‘‘ تاریخ کے انتقام کا نشانہ بنے گا!