[تحریر: لال خان]
سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ بھی بری خبر ہی لائی ہے۔ اس ملک میں پہلے بھی کم ہی کوئی اچھی خبر سننے کو ملتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بری خبروں کا تواتر اور شدت بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ حالیہ رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ تجارتی خسارے سے ادائیگیوں کا توازن بے قابو ہے، آنے والے عرصے میں بجلی اور گیس سمیت تمام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے کی شرح مزید بڑھ جائے گی، مہنگائی مزید خوفناک ہو جائے گی۔ عوام کے مجروح ذہنوں پر اس خبر نے ایک اور وار کر ڈالا ہے۔ جمہوریت، آمریت، دھرنوں اور مارچوں کے ناٹک میں اس نظام کا معاشی کشت و خون جاری ہی نہیں ہے بلکہ تیز تر ہوتا جارہا ہے۔
حکمران طبقے کی روایتی پارٹی کا یہ اقتدار ایک طرف سرمایہ داروں کے شرح منافع میں مزید اضافے کے لئے عوام پر ایک کے بعد دوسرا معاشی حملہ کر رہا ہے تو دوسری طرف اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے عوام کو مزید ذلتوں میں دھکیلا جارہا ہے۔ میٹرو بس جیسے بھاری منافعوں کے منصوبوں پر اتنے اخراجات کئے جاچکے ہیں کہ کسی دوسرے کام کے لئے رقم ہی نہیں بچی۔ لیکن منافع کی ہوس بھلا کب مٹتی ہے۔ نئے نمائشی منصوبوں کے لئے مزید قرضے لئے جارہے ہیں۔ بھاری سود اور تلخ شرائط پر ملنے والے یہ قرضے حکمران نے تو واپس کرنے نہیں ہیں۔ محنت کشوں کے آنے والی نسلوں کو بھی گروی رکھ کر معاشی بوجھ میں دبایا جارہا ہے۔ اس ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ کم و بیش ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو کر دنیا میں آتا ہے۔ ان منصوبوں کے چمکیلے مگر زہریلے دکھاوے پر کھربوں روپے خرچ کر دئیے گئے ہیں لیکن انگریز کے بنائے گئے خستہ حال نظام آبپاشی کی مرمت کے لئے ’’فنڈ نہیں ہیں۔ ‘‘وزارت خزانہ کی حالت یہ ہے کہ جی ڈی پی کی3.3 فیصد شرح نمو کو 4.3 فیصد کرتی پھر رہی ہے۔ اس ملک میں غربت اور بے روزگاری کو اپنی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لئے بھی 8 سے 10 فیصد سے معاشی شرح نمو درکار ہے اور خود اسحاق ڈار کے مطابق 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
محکمہ آبپاشی کے کئی سینئر اور تجربہ کار انجینئرز کے مطابق حالیہ سیلاب میں کئی مقامات پر بند توڑنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ انجینئر اور کچھ افسران اس بات کی وضاحت کرتے رہ گئے لیکن حکمرانوں نے اپنی ملوں، جاگیروں اور فیکٹریوں کو صرف خطرے سے بچانے کے لئے کئی بند توڑ دینے کے احکامات صادر فرما دئیے۔ غریبوں کی آبادیاں برباد ہو گئیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، زندگیاں اجڑ گئیں اور ذمہ داران مگر مچھ کے آنسو بہا کر فوٹو سیشن کرواتے اور سیاست چمکاتے رہے۔ اب کبھی چھوٹے میاں صاحب پانی میں کودتے پھر رہے ہیں، کبھی عمران خان کنٹینر پر براجمان ہو کر متاثرین کی مدد کررہا ہے اور کبھی بلاول زرداری پانی کے جوہڑ میں کھڑا ہوکر غریب عورتوں سے پیار لینے کے سکرپٹ کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ مقامی بیوروکریسی دورہ کرنے والے ان مسیحاؤں کے لئے تین تین لاکھ روپے کے ہیلی پیڈبناتی پھر رہی ہے۔ معاشی اور سیاسی طور پر مہلک بحران سے دوچار اس معاشرے میں برباد ہونے والی دہقانوں کی یہ بستیاں بھلا کیسے آباد ہوسکیں گی؟ تباہ کاری کے بہت سے واقعات دانستہ طور پر کروائے جاتے ہیں تاکہ خود کو ’’اچھا‘‘، ’’شریف‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ حکمران بنا کر پیش کیا جاسکے۔ اس حکمران طبقے کا ہر ’’ترقیاتی‘‘ منصوبہ محنت کش عوام کی زندگیوں کو مزید تنزلی سے دو چار کر دیتا ہے۔
درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
سرمائے کی اس جمہوریت کا پول حالیہ سیاسی بحران میں کھل گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھی سرمایہ داروں کی تمام سیاسی پارٹیوں کی لوٹ مار میں ’’مفاہمت‘‘ اور ’’مصالحت‘‘ بے نقاب ہو گئی ہے۔ حکمران طبقے کا ایک دوسرا دھڑا اس مال غنیمت میں بڑی حصہ داری کے لئے بے صبری کے عالم میں ’’انقلاب‘‘ کرتا پھر رہا ہے۔ نورا کشتی کے اس دنگل میں محروم اور مظلوم ہی کچلے جارہے ہیں۔ اس انقلابی مارچ اور دھرنوں کا مقصد دراصل انقلاب کو اتنا ذلیل و رسوا کرنا ہے کہ لوگ اس کے نام سے ہی تنگ آ جائیں۔ عوام کو کسی حقیقی تحریک اور انقلابی عمل سے اس قدر بیزار کر دیا جائے وہ بہتر زندگی کی آرزو کو خود ہی کچل کر انقلاب سے توبہ تائب ہو جائیں۔ سکڑتی ہوئی مڈل کلاس تذبذب کے عالم میں ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ سن کر جھوٹی امید لگائے ایک یاس بھری آس سے ٹیلیوژن سکرینوں پر یہ سرکس دیکھتا ہی چلا جارہا ہے۔
عمران خان کی ’’آزادی‘‘ ہر مشکل اور تکلیف کا بار بار ذکر تو کرتی ہے لیکن سرمائے کی جن زنجیروں نے عوام کو ذلتوں میں جکڑ رکھا ہے انہیں توڑ دینے کا ذکر کرنے سے بھی قاصر ہے۔ انسان اور انسانی سماج کی آزادی کا نقطہ آغاز ہی معاشی آزادی ہے۔ جب تک انسان روٹی، تعلیم، علاج، رہائش جیسی بنیادی اور سلگتی ہوئی ضروریات سے آزاد نہیں ہوتا تب تک ہر آزادی جھوٹی ہے۔ اس سماج میں یہ تمام ضروریات دولت سے میسر آسکتی ہیں جو سماج کی وسیع اکثریت کے پاس ہے ہی نہیں۔ دولت کے انباروں پر پھن پھیلائے بیٹھے ناگ، جو رات کے کنسرٹ میں عمران خان کے ارد گرد کھڑے بھی نظر آتے ہیں، بھلا سرمائے کی حاکمیت اور جبر کا خاتمہ چاہیں گے؟ انتخابات میں دھاندلی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک انتخابی عمل میں سے سرمائے کا زہریلا کردار ختم نہیں ہوتا۔ جب تک دولت کا راج رہے گا انتخابات کبھی ’’شفاف‘‘ نہیں ہو سکتے۔
’’فوج کا کردار‘‘ بھی لا یعنی، بے معنی اور لامتناہی بحث اور چہ مگوئیوں کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ فوجی حکومت ہو یا ’’جمہوریت‘‘، مالیاتی سرمائے کی آمریت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ شرح منافع میں مسلسل اضافے کی یہ جارحیت محنت کرنے والے انسانوں کے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہاں سیاست، آئین، قانون اور انصاف، سب سرمائے کی لونڈیا ں ہیں جنہیں تبدیل کر دینے سے ’’تبدیلی‘‘ آسکتی ہے نہ سرمایہ دار حکمرانوں اور سامراج کا کردار بدل سکتا ہے۔ استحصالی نظام معیشت کی حدود و قیود کو مقدس مان کر سطحی اصلاحات کرنے کے مطالبات اصلاح پسندی کہلاتے ہیں، انقلاب نہیں۔ لیکن ایسا نظام جب گل سڑ کر اس حد تک بوسیدہ ہوچکا ہو کہ اپنے قوانین کے مطابق بھی نہ چل پائے تو کسی اصلاح اور بہتری کی گنجائش ہی ختم ہوجاتی ہے۔ پھر کیا تبدیلی اور کیسی ترقی؟
حکمران طبقہ ہمیشہ نان ایشوز کے ذریعے عوام کے حقیقی ایشوز کو دبانے اورا نہیں اس نظام زر کا تابع رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیاست دان، نام نہاد دانش وار، مُلّا، خود ساختہ تجزیہ نگار، ٹی وی اینکرز اور سماجی شعور پر اثر انداز ہونے والے دوسرے پیشے اور شخصیات حکمران طبقے اور سامراج کے زر خرید غلام ہوتے ہیں۔ عوام کو اس نظام کی فیوض و برکات سمجھانے اور اسے ازلی و ابدی ثابت کرنے والوں کے اپنے مفادات اور مراعات اس نظام سے وابستہ ہوتے ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں اور قومی شاونزم سے لے کر جعلی سیاسی لڑائیوں اور دھرنوں تک ، عوام کو گمراہ رکھنے کے ہتھکنڈے صدا کامیاب نہیں ہوسکتے۔ محنت کشوں کو ہمیشہ ان تماشوں میں الجھانا ممکن ہوتا تو تاریخ میں کبھی انقلابات برپا ہی نہ ہوتے، غلام داری سے سرمایہ داری تک سماجی و معاشی نظام نہ بدلتے اور انسانی سماج ارتقاء پزیر نہیں ہوتا۔
بظاہر جمود اور یکسانیت کے طویل ادوار کے بعد ایسے عہد بھی آتے ہیں جب دہائیوں کا تسلسل ایک دھماکہ خیز انداز میں ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، حکمران طبقات کے تمام حربے ناکام و نامراد ہوجاتے ہیں، محنت کش اور نوجوان تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنا مقدر خود تراشنے لگتے ہیں۔ مارکس کے بقول ’’انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔‘‘ آج حکمرانوں کے تمام دھڑے، ان کے تمام فنکار اور شعبدے باز اپنی تمام چالیں چل چکے ہیں۔ یہ کتنی ہی بیہودگی پر اتر آئیں، کتنے ہی ناٹک اور رچا لیں، ناکامی ان کا مقدر بن چکی ہے کیونکہ جس نظام زر کو بچانے کی کوشش وہ کررہے ہیں اس کا وقت گزر چکا ہے۔ تاریخ کا پہیہ واپس نہیں مڑ سکتا۔ شاید وہ لمحے قریب آن پہنچے ہیں جن کے بارے میں ساحر نے کہا تھا
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج!