تحریر: لال خان
کئی سالوں سے عدلیہ کی مختلف ریاستی، معاشرتی اور اقتصادی شعبوں میں مداخلت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ریاست کے اس ادارے کے مقننہ اور انتظامی معاملات کو سلجھانے کے اقدامات بنیادی طور پر اس ریاستی اور سیاسی نظام کے اندر سے کھوکھلے ہونے اور اس کے بحران کی شدت کی غمازی کرتے ہیں۔ حال ہی میں اعلیٰ عدالت کے جج صاحب نے ہرسرکاری اور معاشرتی شعبے میں اردو کو نافذ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، لیکن یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ ایسے قوانین اور فیصلے حکمرانوں کے ایوانوں میں ہوتے رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد آج 70 سال بعد بھی نہیں ہوسکا۔ ہمارے حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس نااہلی کی بنیادوں سے یا تو بالکل ہی بے بہر ہیں یا پھر یہ جانتے ہوئے کہ اس مروجہ نظام کے اندر موجود وسائل میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ترقی پر درکار اخراجات کرسکیں، ایسے ایشوز کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں۔ اردو برصغیر کی نسبتاً نئی زبانوں میں شامل ہوتی ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں فارسی زبان کئی صدیوں تک سرکاری و کاروباری معاملات میں استعمال ہوتی تھی۔
انگریزشاید وہ واحد بیرونی حملہ آور تھے جو یہاں کی تہذیب اور معاشرت میں سموئے نہیں گئے۔ ان سے پیشتر جتنے بھی بیرونی حملہ آور آئے، جن میں آریاؤں سے لے کر مغل سلطنت کے بادشاہ شامل تھے، نسبتاً پسماندہ، کٹھن اور غیر زرخیز علاقوں سے آئے تھے۔ سندھ اور گنگا کے دریائی سلسلوں اور ہمالیہ سے نکلنے والی پانی کی لہروں میں مٹی کے جزیات اس زرخیزی اور لہلاتے کھیتوں اور جنگلات کا باعث بنے۔ اس لیے یہاں کی مخصوص سماجی پرتوں اور ڈھانچوں کو چھیڑے بغیر بیرونی حملہ آور عسکری طاقت سے حاکمیت تو حاصل کرسکتے تھے لیکن یہاں کی بنیادی دیہات اور کھیتوں کی زندگی صدیوں سے ایک ہی طرزِارتقا پر چلتی رہی۔ انگریز اس لیے یہاں کی ثقافت اور معاشرت میں نہیں سموئے تھے کیونکہ برطاینہ میں ایک صنعتی انقلاب ہوچکا تھا اور اس نے ٹیکنالوجی کو اتنی لمبی پھلانگ دی تھی کہ برصغیر میں موجود ذرائع پیداوار وتکنیک سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی تھی۔ انکے قبضہ کرنے اور دو سو سال تک وحشیانہ جبر کی حاکمیت میں ا س فرق کا بھی بہت کردار تھا۔ انگریزوں کے آنے سے برصغیر کی نئی ابھرنے والی اشرافیہ نے جہاں انگریزی سیکھنے کی ضرورت کو محسوس کیا، تاکہ وہ بالادست پرتوں کا حصہ بن سکیں، وہاں انگریزوں نے یہاں ہر شعبے میں ہر طرح کی’’ترقی‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ کو سامراجی غلبے اور لوٹ مار کے نقطہ نظر سے ترویج کیا۔ انکے ہر عمل کے پیچھے ان کے راج کے مفادات اور تقاضے ہوتے تھے۔ یہاں کے مقامی باسیوں کو تقسیم کرنے کا قدیم روم والا طریقہ کار ہر طرح سے رائج کیا گیا۔ اور اس میں زبانوں کی تقسیم بھی تھی۔ جہاں ہندو بنیاد پرستوں نے سنسکرت کو ابھارا وہاں انگریزو ں نے مذہبی تفریق کو ابھارنے کے لیے اردو کو ایک محدود حد تک ترقی دی۔ یہ کام زیادہ تر فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور گورنمٹ کالج لاہورجیسے اداروں میں کیا جاتا رہا۔ لیکن انگریز سامراج کے تحت اردو کو ایک مسخ اور ناہموار انداز میں رائج کیا گیا۔ سائنس، قانون اور دوسرے کلیدی ریاستی اور اقتصادی شعبوں میں انگریزی ہی حاوی رہی۔ پاکستان بننے کے بعد جن علاقوں میں اس ملک کی سرحدیں تھیں وہاں کہیں بھی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقات کی ایک نئے ملک، ریاست اور معاشرے کے تہذیبی واقتصادی اور ثقافتی مظاہر کے لیے کوئی زیادہ تیاری نہیں تھی۔ اسی لیے پاکستان بننے کے 70 سال بعد بھی پاکستان ایک جدید صنعتی ریاست اور سماج نہیں بن سکا ہے۔ یہی زبان اور ثقافت کا بھی مسئلہ ہے۔
کارل مارکس نے لکھا تھا کہ ’’کسی سماج پر حاوی زبان اس معاشرے کے تجارتی تعلقات کے لیے درکار زبان ہوتی ہے۔‘‘ انگریزی زبان کا دنیا بھر میں غلبہ میں انکے اقتصادی اور معاشی، سامراجی تسلط کی وجہ سے ہی ہے۔ اس گلوبلائزیشن کے عہد میں یہ زبان ضرورت سے زیادہ مجبوری بن گئی ہے۔ عمومی طور پر جدید سائنس اور علوم کے لیے زبان کو ان معیاروں پر ترقی دینا ناگزیر ہوتاہے کہ اس زبان میں یہ پیچیدہ امور طے کیے جاسکیں۔ عدلیہ کا ہی سلسلہ دیکھ لیں کہ آج بھی بیشتر عدالتی فیصلے اور معمولات انگریزی میں ہی چلتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ اہم طب، جراحی، انجینئرنگ، کمپیوٹنگ، ریاضی اور دوسری بے شمار ایڈوانس سائنسز کے مضامین ہیں۔ اگر ہم ذرا غور کریں تو ڈاکٹری ادویات اور نسخے سبھی انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ بہت سے جدید آلات، نئی ایجادات اور معمول کی عام اشیا کے نام اور محاورے انگریزی میں کسی ان پڑھ انسان کے لیے بھی پڑھنا یا سمجھنا آسان ہے۔ اگر کسی ایک شعبے میں ہی زبان تبدیل کرنی ہو تو اس کے لیے بھی بے پناہ اخراجات، محنت اور وسیع کام درکار ہے۔ یہی صورتحال تمام سائنسی اور جدید علوم کی ہے۔ لیکن اس نظامِ زر اور حکمران طبقے کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ عام انسانوں کو علاج، غذا، تعلیم، پانی، بجلی اور دوسری بنیادی اور اجتماعی ضروریات فراہم کرسکے تو یہ زبان کی ترقی پر کیا خرچ کرسکتے ہیں اور اسے کیسے جدید بنا سکتے ہیں ! اس کے لیے بہت سے ادارے بنتے رہے ہیں اور بن بھی رہے ہیں، اردو مختلف قومیتوں اور علاقوں کے درمیان عام سمجھ بوجھ اور ہمکلامی کی زبان تو کسی حد تک بنی ہے لیکن جب گفتگو اور موضوعات زیادہ پیچیدہ اور ایڈوانس ہوتے جاتے ہیں وہاں اسکے استعمال کی محدودیت رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اسی طرح علاقائی زبانوں کو بھی قطعاً ترقی نہیں دی جاسکی۔ سندھی کے علاوہ ہر مقامی و علاقائی زبان زوال پذیر ہوتی گئی ہے۔ پنجاب کے حکمرانوں نے سب سے زیادہ بربادی تو پنجاب کی ثقافت اور پنجابی زبان کی کی ہے۔ یہ درست ہے کہ اِس میں 1947ء کے بٹوارے کا ایک تباہ کن کردار تھا، لیکن اردو کو ہی ترقی دیتے دیتے ان حکمرانوں نے پنجابی کو اب زوال پذیر زبانوں کی فہرست میں شامل کروادیا ہے۔ لیکن اردو کو بھی اتنی ترقی نہیں دے سکے کہ وہ ایک جدید قومی اور سائنسی زبان بن سکتی۔
جب 1948ء میں اسرائیل کی مصنوعی ریاست ایک صیہونی اور سامراجی سازش کے ذریعے تشکیل دی گئی تو سامراجیوں نے ایک متروک اور قدیم ’عبرانی ‘زبان کو زندہ کر کے اور اسکو جدیدیت دینے کے لیے اس وقت کے 80 ملین ڈالر صرف کیے تھے، جو آج کی قیمتوں میں اس سے 10 گناہ زیادہ رقم بنتی ہے۔ لیکن پاکستان کی ریاست تو آغاز سے ہی اُسی نوآبادیاتی ڈھانچے پر چلانی پڑی تھی جس کو برصغیر میں انگریزوں نے رائج کیا تھا۔ آج بھی وہی ڈھانچے موجود ہیں۔ رویے اور طریقہ کار بھی گوروں کی جگہ گندمی حکمرانوں کے آنے سے قطعاً نہیں بدلے لیکن آغاز سے ہی اس معاشی طور پر کنگال اور سماجی طو ر پسماندہ مملکت میں اتنی مالیاتی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ اردو کو ترقی دے سکے۔ مسئلہ یہی ہے کہ جب حکمران اپنی سماجی اور سیاسی حیثیت ہی بدعنوانی اور ناجائز ذرائع کے بغیر قائم نہیں رکھ سکتے تووہ روٹی روزی سے لے کر زبانوں کی ترقی کی فراہمی کو کیسے حقیقت بنا سکتے ہیں! جو نظام محرومی اورکنگالی کا شکار ہو وہاں معاشرے کی زندگی، ثقافت اورتہذیب بھی ناہموار، پیچیدہ اور اذیت ناک بن جاتی ہیں۔