اسرائیل میں عوامی تحریک اور مسئلہ فلسطین

[تحریر : لال خان، ترجمہ: عمران کامیانہ]

اسرائیل میں گزشتہ سال ابھرنی والی عوامی تحریک کی یاد میں تل ابیب میں گزشتہ دنوں ایک ریلی نکالی گئی۔ریلی کے اختتام پر ایک اسرائیلی شہری موشے سلمان نے سرِ عام خود کو آگ لگالی، لیکن اس دلخراش واقعے کی میڈیا میں رپوٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔حکمرانوں کی جانب سے ایک ایسے واقعے پرمجرمانہ خاموشی اختیار کرنا، جو اسرائیلی سماج میں پائی جانے والی شدید بے چینی کی غمازی کرتا ہے، لازمی تھا۔ستاون سالہ سلمان سماجی انصاف کے لئے چلائی جانے والی تحریک کا سرگرم رکن تھا اور اس جدوجہد میں حصہ لینے کے لئے حیفہ سے تل ابیب آیا تھا۔اسرائیل کی جابراور مطلق العنان حکومت نے غزہ کو ایک وسیع قید خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔اس حکومت نے نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو ظالمانہ طریقے سے جاری رکھا ہے جس نے عام اسرائیلی شہریوں کی زندگیاں بھی قابلِ ترس بنا دی ہیں۔اگست 2011ء میں اسرائیل کی ستر لاکھ کی کل آبادی میں سے پانچ لاکھ لوگ حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اسرائیل کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی عوامی بغاوت تھی۔اس سال مظاہرین کی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے بے بسی کے عالم میں سلمان نے شاید محمد بوعزیری کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے خود کو آگ لگا لی تاکہ تیونس کی طرح اسرائیل میں بھی انقلابی تحریک شروع کی جاسکے۔اس نے اپنے آخری تحریری پیغام میں لکھا’’اسرائیل کی ریاست نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ہے، میرے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔۔ یہ حکمران سماج کے غلیظ ترین لوگ ہیں۔‘‘
پچھلی تین دہائیوں میں اسرائیل میں بننے والی ہر حکومت نے ایسی مالیاتی پالیسیاں نافذ کی ہیں جنہوں نے اسرائیل کے عوام کا معیارِ زندگی کم کیا ہے جبکہ سماجی محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔صحت، تعلیم اور رہائشی سہولیات کے فنڈ میں 56فیصد تک کٹوتی کی گئی ہے۔اجرتوں میں کمی ہوئی ہے جبکہ پنشنوں کی صورتحال بھی غیر یقینی ہے۔یہ سب کچھ ان حالات میں ہورہا ہے جب معیشت کی شرح نمو نسبتاً بہتر ہے اور اسرائیل امریکی امداد کا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے۔
اسرائیل کا قیام 1948ء میں اقوامِ متحدہ کی ایک قرار دادکے ذریعے زبور کی ایک افسانوی داستان کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔فلسطینیوں کو اسرائیل چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور جو نہیں گئے انہیں دوسرے درجے کے شہری قرار دیا گیا۔لیکن درحقیقت اسرائیل کو تیل کی دولت سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ میں سامراج کے قلعے کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔اس وقت سے لے کر آج تک سامراجیوں نے ’’تقسیم کر کے حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کو غیر یقینی کی صورتحال اور نت نئے تنازعے پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا ہے تاکہ خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کی جاسکے۔
ماضی میں اسرائیلی ریاست جمہوری، سیکولر اور یہودی ہونے کا دعویٰ کرتی آئی ہے لیکن یہ دعویٰ اپنی اساس میں ہی تضاد کا شکار ہے۔مذہب کے نام پر قائم ہونے والی تھیوکریٹک ریاست سیکولر کس طرح ہو سکتی ہے۔اسرائیل میں بننے والی تقریباً ہر حکومت نے ان یہودی پارٹیوں کے ساتھ الحاق کیا ہے جو مذہبی تعصب اور عدم برداشت کا پرچار کرتی ہیں۔کینیسٹ(اسرائیلی پارلیمنٹ)جس میں آبادی کے بیس فیصدحصے عرب اسرائیلیوں کی علامتی موجودگی بھی ہے، نے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی پر مبنی 33قانون پاس کئے ہیں۔امریکی میں جسے یہودی لابی کہا جاتا ہے وہ دراصل تیل کی کمپنیوں اور اسلحہ ساز اداروں (Military Industial Complex)کی لابی ہے جو صیہونی ریاست کے پیدا کردہ تنازعات کو اپنے منافعوں اور لوٹ ما ر کے لئے استعمال کرتی ہے۔اپنے پینسٹھ سالہ وجود کے دوران اسرائیل نے تمام تر عالمی قوانین کو پامال کیا ہے، دوسرے علاقوں پر قبضے کئے ہیں، بڑی تعداد میں لوگوں کو ہجرت پر مجبور، منظم طریقے سے قتل یا پھر بے رحم جبر کا نشانہ بنایا ہے۔اس سب کے باوجود اسرائیل کے لئے مغربی سامراج کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔
زبانی کلامی مذمت اور دشمنی کا دکھاوا کرتے ہوئے سعودی و خلیجی بادشاہتیں اور دوسری رجعتی حکومتیں صیہونی ریاست کے ساتھ خفیہ الحاق کئے ہوئے ہیں۔سامراج کی ایما پر یہ حکومتیں فلسطینی تنظیموں کو امداد دے کر ان کی پالیسیوں کو کنٹرول کرتی ہے اوران سے وقتاً فوقتاً ابھرنے والی جارحانہ انقلابی لہروں کو زائل کروانے کا کام لیتی ہیں۔اپنی مطلق العنان طرز حکمرانی کی وجہ سے ابھرنے والے اندرونی تضادات کو دبانے اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے یہ حکومتیں فلسطین کے مسئلے کو استعمال کرتی ہیں۔نیتن یاہو مصری انقلاب سے شدید خوفزدہ ہے جس نے خطے میں اس کے قریب ترین اتحادی حسنی مبارک کی حکومت کو گرا دیا ہے۔مغربی کنارے کی فلسطینی قیادت اسرائیل کے ساتھ خفیہ طور پر تعاون کرتی آرہی ہے۔درحقیقت فلسطین کی حکومت دوسری عالمی جنگ کے دوران فرانس میں بننے والی کٹھ پتلی وچی حکومت کی طرز کی حکومت بن چکی ہے۔
غزہ میں زیادہ ریڈیکل فلسطینیوں پر حماس کی حکومت کا جبردراصل اسرائیلی ریاست کے جبر ہی کا تسلسل ہے۔یہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حماس اور اسلامی جہاد دونوں ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی پیداوار ہیں جنہیں ماضی میں بائیں بازو کی ریڈیکل فلسطینی تنظیموں کو تباہ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔فلسطینی عوام نے تمام تر نا مسائد حالات کے خلاف لڑنے کی قوت کا بار بار اظہار کیا ہے۔1987ء کے انتفادہ نے پہلی بار صیہونی ریاست کو ہلا کے رکھ دیا تھا اور فلسطینیوں کو امید کی کرن نظر آنے لگی لیکن قیادت نے سامراجی ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے ہوئے مذاکرات کے ’’لائحہ عمل‘‘کے نام پر تحریک کو زائل کردیا۔
اسرائیل پر آج تک خوف کی سیاست کے ذریعے سے حکومت کی گئی ہے اور عوام کو بیرونی خطرات سے ڈرا کر محکوم رکھا گیا ہے۔ گزشتہ سال سماجی انصاف کے لئے ابھرنے والی عوامی تحریک نے پہلی بار خوف کی اس سیاست کومسترد کیا ہے۔اس شاندار ابھار نے اسرائیل کے بارے میں ایک رجعتی اکائی ہونے کے غلط تصور کو بھی پاش پاش کردیا ہے۔اس نے نہ صرف اسرائیل کی داخلی سیاست میں طبقاتی جدوجہد کو منظرِ عام پر لا کھڑا کیا ہے بلکہ فلسطینیوں کی جدوجہد اور خطے میں پائے جانے والے دوسرے تنازعات کو ایک انقلابی حل کی سمت فراہم کی ہے۔یہ تحریک عرب انقلاب ہی کا تسلسل ہے جو پچھلے سال کے موسم بہار میں پورے خطے میں پھیل چکا تھا۔اس انقلابی عمل میں 1931-37ء کے ہسپانوی انقلاب کی طرح اتار چڑھاؤ آئیں گے۔صیہونی ریاست اور سامراج کی مکمل شکست کے بغیر اس خطے کے لوگوں کو آزادی نصیب نہیں ہو سکتی۔پچھلے پینسٹھ سال کے تجربے نے یہ بات کسی شک و شبے کے بغیر ثابت کردی ہے کہ سماجی، معاشی و سیاسی آزادی قومی جنگوں، مذاکرات، انفرادی دہشت گردی اور مذہبی رجعتیت کے ذریعے حاصل نہیں کی جا سکتی۔اسرائیلی پرلتاریہ اور فلسطینی عوام وہ فیصلہ کن عناصر ہیں جو اس نظام اور ریاست کو اکھاڑ پھینک سکتے ہیں۔اسرائیلی محنت کشوں، فلسطینی عوام اورخطے کی دوسری اقوام کے درمیان اتحاد صرف طبقاتی بنیادوں پر ممکن ہے۔طبقاتی جدوجہد کی فتح مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام پر منتج ہوگی، جو اس خطے کے عوام کے لئے قومی، ثقافتی اور معاشی آزادی کی ضامن ہو گی۔

ڈیلی ٹائمز، 19اگست 2012ء

متعلقہ:

ایران اسرائیل جنگ: سامراجی جنگ طبقاتی جنگ کو ابھارے گی