| تحریر: لال خان |
17 مارچ کو ہونے والے عام انتخابات میں تمام تر تجزیوں اور پیشین گوئیوں کے برعکس نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی ’’لکھود‘‘پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کی کل 120 میں سے اس کی نشستیں 19 سے بڑھ کر 30 ہوگئی ہیں۔ یہ ’’حیران کن کامیابی‘‘ اتنی بھی حیران کن نہیں ہے۔ اس کی اہم وجہ اسرائیلی حکمرانوں کی دہائیوں سے جاری وہی واردات ہے جس کے تحت ’’ملک کا وجود مٹ جانے کا خوف‘‘ عوام کے شعور پر مسلط رکھا جاتا ہے۔ نیتن یاہو نے انتخابی مہم میں انتہا پسندی اور مذہبی جنون کو خوب ہوا دی اور دائیں بازو کے ووٹرز کو اپنی حمایت پر اکسانے میں کسی حد تک کامیاب رہا۔
ان انتخابات سے چند ماہ پیشتر تک اسرائیل کے عوام میں روزگار، تعلیم، رہائش اور علاج جیسے بنیادی ایشوز پر رائج الوقت حکومت کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی۔ قومی امکان تھا کہ عوام دشمن معاشی پالیسیاں اپنانے والی نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کو شکست ہو جائے گی لیکن حزب مخالف کی پارٹیاں عوام کی خواہشات کے مطابق کوئی لائحہ عمل اور معاشی پروگرام فراہم کرنے سے قاصر رہیں۔ اسرائیل کی لیبر پارٹی (جو لیبر کی کم صیہونی ریاست کی نمائندہ زیادہ بن چکی ہے) اپنی غداری اور نظریاتی انحراف کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئی۔ لیبر پارٹی درحقیقت سکڑ کر چھوٹا سا سیاسی گروہ بن چکی ہے۔
نیتن یاہو کی ’’لکھود‘‘ جہاں صیہونی عزائم کی علمبردار ہے وہاں آزادی منڈی کی جارحانہ سرمایہ دارانہ پالیسیاں نافذ کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔ اسرائیل کو عمومی طور طبقاتی کشمکش سے پاک ایک سماجی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر صریحاً غلط ہونے کے ساتھ گمراہ کن بھی ہے۔ ہر سرمایہ دارانہ سماج کی طرح اسرائیل میں بھی طبقات موجود ہیں جن کے تضادات اور تصادم کئی بار واضح ہو کر سامنے آئے ہیں۔ گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران کے سیاست پر اثرات بعض اوقات غیر متوقع اور الٹ ہوتے ہیں۔ اسرائیلی انتخابات کے نتائج پاکستان، ہندوستان اور بہت سے دوسرے ممالک سے مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں ہونیو الے انتخابات میں بھی سرمایہ دار طبقے کے سفاک نمائندے نواز شریف اور نریندرا مودی کی شکل میں برسراقتدار آئے ہیں۔ ایسے انتخابی نتائج عوام کی امید نہیں بلکہ یاس اور ناامیدی کی جھلک ہوتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے 20 مارچ کو اپنے ادارئیے میں لکھا ہے کہ ’’مسٹر نیتن یاہو اپنے چوتھے دور حکومت میں جو راستہ اختیار کرے گا وہ اتناہی پراسرار اور مبہم ہو گا جتنا وہ خود ہے۔‘‘ نیتن یاہو نے اپنے ہر دور حکومت میں حکمران طبقے اور سامراج کی خدمت گزاری کرتے ہوئے عوام پر سفاک معاشی اور سماجی حملے کئے ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 41 فیصد آبادی مقروض ہے اور انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔ گھروں کی قیمت اور کرائے میں پچھلے دو سال میں 55 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔محنت کشوں کی اجرت طویل عرصے سے منجمد ہے اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ سوشل ویل فیئر اور تعلیم و علاج کی ریاستی سہولیات واپس چھینی جارہی ہیں۔یہ سلسلہ پچھلے کچھ عرصے میں شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیکل بائیں بازو کو پہلی بار اسرائیل کی پارلیمنٹ میں اتنی نشستیں حاصل ہوئی ہیں کہ وہ ایک متحرک حزب مخالف کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
بائیں بازو کو صرف عرب اسرائیلیوں میں ہی نہیں بلکہ یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں میں بھی حمایت مل رہی ہے۔ لیبر پارٹی سے الگ ہونے والے بائیں بازو کے باغی لیڈر ایمن اودھے نے ایک گروپ ’’اتاش‘‘ کے نام سے تشکیل دیا ہے اور کھل کر صیہونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اپنے ایک بیان میں ایمن اوھے نے کہا ہے کہ’’سرمایہ داروں اور کاروباری سیٹھوں کی یہ ریاست اسرائیل میں بسنے والے محروموں کے خلاف برسر پیکار ہے۔‘‘
اس پس منظر میں اگر گہرائی میں اسرائیلی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو محنت کش عوام کے دل و دماغ میں یہودی حکمران طبقے کے خلاف نفرت کے شعلے سلگ رہے ہیں جو کسی بھی وقت پورے سماج میں بغاوت کی آگ بھڑکا سکتے ہیں اور نیتن یاہو کی یہ جیت پوری صیہونی ریاست کی شکست میں بدل سکتی ہے۔ اگست 2011ء کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جب لاکھوں اسرائیلی محنت کش اور نوجوان تل ابیب، یروشلم، ہائفہ اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر تھے۔انقلاب مصر سے متاثر اس تحریک کا بنیادی نعرہ ’’ایک مصری کی طرح آگے بڑھو‘‘ تھا جو ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل کے عوام مذہبی جنون اور صیہونی ریاست کی دہشت گردی کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ خود اس کا شکار بھی ہیں۔ ان مظاہروں میں چے گویرا کے پوسٹر بھی نمایاں تھے اور ’’مبارک، اسد، بی بی (نیتن یاہو) مردہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعرے بھی لگائے گئے۔
داخلی سطح پر عوامی بغاوت کو زائل کرنے کے لئے صیہونی حکمران خارجی سطح پر جنگ اور انتشار کو مزید ہوا دیں گے۔ خطے میں عدم استحکام مزید بڑھے گا ۔امریکی سامراج کے بڑھتے ہوئے معاشی زوال اور سفارتی کمزوری کے پیش نظر مشرق وسطیٰ کی مختلف علاقائی قوتیں بہت خود سر ہوگئی ہیں جن میں ترکی، ایران،سعودی عرب، قطر اور اسرائیل سر فہرست ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران نیتن یاہو نے امریکی صدر اور وائٹ ہاؤس کو مطلع کئے بغیر ری پبلکن پارٹی کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا۔ امریکی کانگریس میں اس کی تقریر اوبامہ کی کھلی تذلیل کے مترادف تھی جس میں اس نے ایران کے ساتھ امریکہ کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انتخابات جوں جوں قریب آتے گئے نیتن یاہو کی زہر آلود لفاظی بھی بڑھتی چلی گئی جس میں آخر کار اس نے فلسطینی ریاست کے نظرئیے اور قیام کو ہی یکسر مسترد کر ڈالا۔ اس کا کم از کم ایک فائدہ تو خطے کے عوام کو یہ ہو گا کہ ’’امن مذاکرات‘‘ کا ناٹک اب نہیں چل پائے گا۔ دہائیوں کے واقعات اور تجربات نے فلسطین کے عوام، خاص کر نوجوانوں پر یہ ٹھوس حقیقت واضح کی ہے کہ ایک انقلابی لڑائی لڑے بغیر صیہونی ریاست کے قبضے اور درندگی سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے نہ ہی ان کٹھ پتلی عرب حکمران کے تخت اکھاڑے جاسکتے ہیں جو اس کچل دینے والے استحصالی نظام میں خود عیاشیاں کر رہے ہیں اور عرب عوام غربت اور محرومی میں غرق ہیں۔
اکانومسٹ اپنے 14 مارچ کے ادارئیے میں لکھتا ہے کہ ’’عرب دنیا میں جہادیوں اور شیعہ ملیشیاؤں کی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے ان کی بندوقوں کا رخ اسرائیل سے ہٹ کر ایک دوسرے کی طرف ہو گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اور اسی خلفشار میں اسرائیلی ریاست نے مصر اور عرب بادشاہتوں سے نیم خفیہ طور پر قریبی تعلقات استوار کر لئے ہیں۔‘‘ نیتن یاہو اور عرب بادشاہتوں کے ایران امریکہ مذاکرات اور دوسرے معاملات پر بیانات ہوبہو ایک سے ہیں اور ان کی پالیسیاں مشترک ہیں۔ عوام کو مذہب، قوم اور نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے یہ حکمران اپنے مفادات کے لئے یکجا ہیں۔ یہ سب کچھ اب بے نقاب ہو رہا ہے۔ خطے کے نہ ختم ہونے والے خونریز انتشار سے نجات اور آزادی فلسطین اس نظام کے خاتمے سے منسلک ہے جس کو مسلط رکھنے کے لئے یہ سب کیا جاتا ہے اور کیا جارہا ہے۔ اس نظام کے خلاف بغاوت میں کلیدی کردار اسرائیل کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کا ہے۔ اسرائیل کے صیہونی حکمرانوں اور ریاست کو اسرائیل کے عوام ہی شکست دے سکتے ہیں۔ سامراج اورسامراج کے نظام کے خلاف انقلابی جنگ کی فتح ہی مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کو جنم دے سکتی ہے جو سرمایہ دارانہ استحصال اور جنگ کی وحشت سے نجات کی ضمانت بنے گی۔
متعلقہ: