| تحریر: لال خان |
بڑے میاں صاحب کو بڑے منصوبوں کے افتتاح کرنے کا بڑا ہی شوق ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کا افتتاح کرتے ہوئے موصوف نے فرمایا کہ ’’یہ نیا پاکستان ہے۔ یہ نئی سحر کی کرن ہے۔ اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ یہ ڈیلیور کر سکتی ہے۔ اسے موقع دینا چاہئے۔‘‘اس کے بعد بڑے اور چھوٹے میاں صاحب نے اپنے حواری سیاستدانوں اور وزرا کے ساتھ اس شاندار بس میں جناح ایونیو کی سیر کی۔ میڈیا بھی اس ’’ترقی‘‘ کی نمائش میں پیش پیش تھا۔
ہر ترقیاتی منصوبے سے سماج میں امید کی مبہم سی کرن ضرور پیدا ہوتی ہے جسے تلخ زمینی حقائق جلد ہی یاس میں بدل دیتے ہے۔ میاں صاحب کو راجہ بازار یا ڈھوک الٰہی بخش جیسے کسی علاقے کی سیر بھی ’چنگ چی‘ پر بیٹھ کے کرنی چاہئے تھے۔ اسی صورت میں انہیں ’’نیا پاکستان‘‘ کا کچھ عملی تجربہ ہوسکتا ہے۔
میاں برادران چند ایک نمائشی منصوبوں کی اربوں روپے سے تشہیر کر کے سیاست چمکانے میں اب گھاگ ہو چکے ہیں۔باقی حکمران یہ واردات کرنے سے قاصر ہیں۔اس میٹرو بس سروس کی طرف سول سوسائٹی اور ’’اپوزیشن‘‘ جماعتوں کی تنقید بھی بڑی پھیکی سی ہے جو اکثریتی آبادی کے مسائل سے مطابقت نہیں رکھتی۔ منصوبے کی تعمیر کے لئے 759 قدیم تناور درخت کاٹے گئے ہیں جن کے متبادل درخت اگر لگائے بھی گئے ہیں تو انہیں نشونما کے لئے کئی عشرے درکار ہوں گے۔نئے درخت لگانے کے ٹھیکے میں بھی خاصی ہیرا پھیری ہو گی لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں انسان معاشی اور سماجی طور پر غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، وہاں ایسے مسائل عوام کے لئے ثانوی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔
اس طرح یہ تنقید بھی پست درجے کی اصلاح پسندانہ سوچ کی غمازی کرتی ہے کہ 45 ارب روپے کو ایک منصوبے کی بجائے ’پھیلا کر‘ لگانا چاہئے تھا۔ 45 ارب روپے کو بھلا کتنا پھیلایا جاسکتا ہے؟ زخم بہت گہرے ہیں! انفراسٹرکچر کی زبوں حالی اور بربادی بہت زیادہ ہے۔ ملک میں مساوی بنیادوں پر ترقی دینے کے لئے جو ریاستی سرمایہ کاری درکار ہے وہ اس زوال پذیر معیشت میں ممکن ہی نہیں ہے۔ معاشرے کی تعمیر نو کے لئے مکمل معاشی اور اقتصادی تبدیلی درکار ہے جس کے ذریعے تمام وسائل انسانی ضروریات اور اشتراکی ترقی کے لئے صرف ہو سکیں۔ اس نظام میں یہ حکمران میٹرو بس جیسی پھلجڑیاں ہی چھوڑ سکتے ہیں۔
جہاں تک ایسے منصوبوں سے قرضوں کے ہجم میں ’’سنگین اضافے‘‘ کا تعلق ہے تو ایسی تنقید بھی اسی نظام کو حتمی ماننے کی پست ذہنیت کی پیداوار ہے۔ اس نظام زر میں رہنا ہے تو پھر قرضے تو لینے ہوں گے۔ اور ان قرضوں کا بوجھ بھی مختلف عیارانہ ہتھکنڈوں سے عوام پر ڈالنا ہوگا۔ یہ آج کی سرمایہ داری کے قوانین ہیں۔ مفلوج سرمایہ داری عالمی سطح پر بھی قرضوں کی بیساکھی پر ہی چل رہی ہے۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے مجموعی عالمی قرضے میں 40 فیصد (57 ہزار ارب ڈالر) اضافہ ہوا ہے۔یہ قرضہ وہ آکسیجن ہے جس پر ونٹی لیٹر پر پڑے سرمایہ دارانہ نظام کو زندہ رکھا جا رہا ہے۔ اس بوسیدہ نظام کے ’میکرو اکنامک‘ اہداف صرف قرضوں کے ذریعے ہی نسبتاً کم جھوٹ اور ملاوٹ کے ساتھ پیش کئے جاسکتے ہیں۔یہ کیسی منطق ہے کہ ایک نظام کو قبول کر کے اس کے ناگزیر نتائج پر تنقید کی جائے؟ اصلاح پسند سیاستدان عوام پر اس نظام کی بربادیوں کا بوجھ کم کر سکتے ہیں نہ ہی میاں صاحبان کی طرح نمائشی منصوبوں کے ذریعے پذیرائی کی مہمات چلاتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں چند ہزار لوگوں کو تھوڑے عرصے کے لئے ہی سہی، تیز رفتار اور نسبتاً آرام دہ سفر کی سہولت میسر آئے گی۔ یہ لوگ اس کے گن تو گائیں گے اور دوسروں کو بھی سنائیں گے۔اور یہ میاں صاحبان جنہوں نے زندگی میں کبھی ’چنگ چی‘ ایک جھٹکا نہیں کھایا، اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھائیں گے۔
میاں برادران نظریاتی یا سیاسی طور پر اصلاح پسندانہ سرمایہ داری پر یقین نہیں رکھتے۔وہ اس نظام اور سرمایہ دار طبقے کے مستند نمائندے ہیں اور کھل کر نجکاری اور دوسری نیو لبرل پالیسیوں کی یلغار کئے ہوئے ہیں۔ ان معاشی حملوں کو ’’بیلنس‘‘ کرنے کے لئے وہ بڑی مہارت سے اشتہار بازی اور نمائشی ترقی کو استعمال کرتے ہیں۔ منصوبوں کے اعلانات کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان میں چند ایک مکمل بھی کر لئے جاتے ہیں لیکن ان میگا پراجیکٹس کی چمک چمک کے نیچے غربت اور محرومی کے اندھیرے، تاریک سے تاریک ہوتے جاتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ اس نظام میں غربت ختم نہیں ہو سکتی، لہٰذا کوشش بھی نہیں کرتے۔وہ آبادی کے مخصوص حصوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں اور یہ درمیانہ طبقہ ان کے پراپیگنڈہ کا اوزار بن کر عوام پر ان کی ساکھ مسلط رکھتا ہے۔
قرضوں پر قرضے لے کر، باہر سے سرمایہ کاری منگوا کر، اپنی سرمایہ کاری باہر کر کے، مہنگائی بہت بڑھاکر اور پھر اس میں تھوڑی سی کمی کر کے یہ حکومت عوام کے جذبات سے کھیل رہی ہے اور انہیں سرمائے کے گھن چکر میں غرق بھی کرتی جارہی ہے۔ اس ملک میں ٹرانسپورٹ کا ایشو بھی دوسرے بہت سے مسائل کی طرح سلگ رہا ہے۔ لیکن موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی بھرمار جاری ہے۔ بیس بائیس کروڑ کی آبادی میں سے کم و بیش چار کروڑ کا درمیانہ طبقہ ہے جو معاشی سائیکل اور منڈی کا کلیدی جزو ہے۔ سارا سیاسی کھیل بھی اسی کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ گاڑیاں بڑھ رہی ہیں، چلانے کے لئے سڑکیں اور پارکنگ کے لئے جگہ نایاب ہو رہی ہے۔ سفر اور ڈرائیونگ عذاب مسلسل بن گئے ہیں لیکن یہ خلقت اس اندھی دوڑ میں بھاگتی چلی جا رہی ہے۔ چند شہروں کے چند مخصوص راستوں پر یہ نمائشی بسیں چلانے سے آمدو رفت کا مسئلہ سلجھنے کی بجائے الجھ ہی رہا ہے۔ لیکن کسے پرواہ ہے؟ کون پوچھنے والا ہے؟ کیا ’’اپوزیشن‘‘، کون سی اسمبلیاں اور کیسی عدلیہ؟ فوجی مارشل لا کا خطرہ بھی کب باقی بچا ہے!
اس سماج کے گلنے سڑنے کے ساتھ ریاست اور سیاست بھی انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔ لیکن اس انتشار میں بھی ایک ضبط ہے۔ سب اپنی اپنی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ حصہ داری میں کبھی کبھار ثانوی سا اختلاف بہرحال ہو جاتا ہے۔ میاں صاحبان کی موجیں ہیں۔ دولت کے انبار بھی لگا رہے ہیں اور عوام کے اربوں روپے سے اپنی مشہوری بھی کر رہے ہیں۔ اس نظام میں تو یہی ہو سکتا ہے۔ کوئی اس پر سوال اٹھانے یا سائنسی متبادل دینے کو تیار نہیں۔ تمام سیاست اس کی باندی بنی ہوئی ہے۔ بظاہر تو اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن اپنے بحران کے تحت یہ جس خونریزی پر اتر آیا ہے اور جس وحشت سے معاشی قتل عام جاری ہے ، اس کے سامنے تو مذہبی اور لسانی دہشت گردی بھی ماند پڑ جاتی ہے جس کا میڈیا پر اتنا شور مچایا جاتا ہے۔
آمدو رفت کی بات کریں تو تیز رفتار، سستی اور آرام دہ ٹرانسپورٹ کے لئے ملک کے ہر شہر میں زیر زمین ٹرینوں کے جال بچھانے ہوں گے۔ علاقوں کو آپس میں ملانے کے لئے ریلوے کا جدید نظام تعمیر کرنا پڑے گا۔آلودگی، مہنگے تیل کی کھپت، ٹریفک جام اور نفسا نفسی سے نجات کے لئے ذاتی گاڑیوں کو بتدریج پبلک ٹرانسپورٹ سے تبدیل کرنا ہو گا۔رکشوں اور دوسری چھوٹی ٹرانسپورٹ کا خاتمہ کر کے ان سے وابستہ افراد کو باعزت متبادل روزگار دینا ہوگا۔یہ دیوہیکل اقدامات قرضوں کے بلبوطے پر ہو سکتے ہیں نہ ہی نجی شعبے میں اتنی سکت اور گنجائش ہے۔ اتنی بھاری نجی سرمایہ کاری بھاری شرح منافع کی متقاضی ہو گی جو اس غریب سماج سے نہیں مل سکتا۔
موجودہ معاشی و سیاسی نظام میں ایسے نمائشی منصوبے ہی بن سکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب یا بلوچستان جیسے پسماندہ خطوں کے عوام بس ٹیلیوژن پر ہی میٹرو بس کے نظارے کر سکتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شریف خاندان خود کو مغلیہ خاندان ہی سمجھنے لگا ہے۔ ان کی عادات، غذائی معمول، لباس، رہائش وغیرہ سے تو یہی لگتا ہے۔ کچھ حضرات کا تو خیال ہے کہ بڑے میاں صاحب دل ہی دل میں خود کو قائد اعظم ثانی کے ساتھ ساتھ شاہجہان ثانی بھی سمجھتے ہیں۔ مغلیہ خاندان کے بھی یہی لچھن تھے۔ رعایا بھوک سے مرتی تھی اور محلات، مقبرے، باغات، مینار، مساجد زیر تعمیر رہتی تھیں۔ آج کے حالات اس سے کہیں بدتر ہیں۔ تاج محل پر ساحر لدھیانوی کے اشعار شریفوں کے منصوبوں پر بھی پورے اترتے ہیں۔
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے؟
لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہء دہر کے ناسور میں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق!
متعلقہ: