شام: کیا بشار الاسد جیت رہا ہے؟

| تحریر: لا ل خان |

تقریباً چار سال کے بعد بشار الاسد کی شامی حکومت نے ’’باغیوں‘‘ کو شکست دیتے ہوئے حلب شہر پر پھر سے قبضہ کر لیا ہے۔ ان باغیوں کو امریکی اور یورپی سامراج اور مشرق وسطیٰ میں ا ن کی گماشتہ رجعتی بادشاہتوں کی پشت پناہی اور حمایت حاصل ہے۔ منگل کے روز شام کی سرکاری افواج نے پیش قدمی کرتے ہوئے پرانے تاریخی شہر پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ بی بی سی کے مطابق ’’باغی پرانے شہر کے آخری علاقوں سے بھی نکل چکے ہیں۔ سرکاری میڈیا کے مطابق فوج نے سارے پرانے شہر پر قبضہ کر لیا ہے‘‘۔ شامی مبصر برائے انسانی حقوق کے مطابق رات کو باغیوں نے پرانے شہر میں اپنے زیر قبضہ آخری علاقے بھی خالی کر دئیے اور سرکاری فوج نے پرانے شہر سے منسلک باب الحدید اور القیول کے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

aleppo-syrien
سارا حلب تباہی کے ایسے مناظر پیش کر رہا ہے۔

مشرقی حلب 2012ء سے باغیوں کے قبضے میں ہے اور وسط جولائی سے حکومتی فوجوں کے محاصرے میں ہے۔ بین الاقوامی امداد ختم ہو چکی ہے اور خوراک انتہائی محدود رہ گئی ہے۔ نومبر کے وسط میں ہونے والے حکومتی حملے کے وقت ایک اندازے کے مطابق شہر میں اڑھائی لاکھ عام شہری موجود تھے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی SANA کے مطابق جب شامی فوج حلب پر قبضہ کر رہی تھی تو اس وقت دارالحکومت دمشق کے مضافات میں المزہ ائیر بیس پر متعدد اسرائیلی میزائل داغے گئے۔
اسی دوران شامی حکومت نے حلب میں مزید کسی جنگ بندی کو خارج از امکان قراردیا ہے اور سوموار کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس اور چین نے ایک ہفتے کی جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ویٹو کر دیا ہے۔ بدھ کے روز کریملن (روس) کے ترجمان ڈمیٹری پیسکوف نے حلب میں باقی رہ جانے والے تمام باغیوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیا ہے اور انہیں ماضی میں النصرہ فرنٹ کے جہادی گروپ کا اتحادی کہا ہے۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق باغیوں کی گولہ باری سے ایک روسی فوجی مشیر بھی ہلاک ہوا ہے۔
ستمبر 2015ء میں روس کی جانب سے شام کی خانہ جنگی میں براہ راست مداخلت نے فیصلہ کن طور پر اس کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ سرد جنگ کے دوران بھی سوویت یونین کے دمشق حکومت کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے۔ اب روس شامی فوجی افسران کو تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ شام کی فوج کو مختلف مخالف قوتوں سے ایک ساتھ لڑنا پڑ رہا تھا جن میں کئی طرح کے اسلامی بنیاد پرست گروپ شامل ہیں جنہیں کویت، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسی رجعتی حکومتوں کی مدد حاصل ہے۔ ان کے علاوہ سامراجیوں کی سیکولر کٹھ پتلیاں بھی ہیں جو ان مذہبی جنونی قاتلوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں۔ شامی حکومت کی عسکری، سیاسی اور سفارتی حمایت بڑھا کر روسیوں نے شام کی شکستہ فوج میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔
لیکن پیوٹن کوئی لینن نہیں اور روس کے مقاصد ر تی برابر بھی انقلابی نہیں ہیں۔ ان کا مقصد شام کے مظلوم عوام کی نجات نہیں بلکہ روس کا اپنا قوی ایجنڈا ہے۔ اس مداخلت کے پیچھے پیوٹن کے محرکات جتنے خارجی ہیں اتنے ہی داخلی ہیں۔ شام کے قدیم دارالحکومت میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے ’’سیاہ پرچم ختم کرنے‘‘ کا روسی دعویٰ زیادہ سے زیادہ جزوی طور پر درست تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی بنیاد پرستوں کا خطرہ واقعی درست ہے لیکن بشار الاسد کو مضبوط کرنے کا فیصلہ ماسکو کی جانب سے کئی محاذوں پر ایک سوچی سمجھی چال ہے۔ شام کے میدان جنگ میں ایک چھوٹے کھلاڑی کی بجائے اب روس اس خونی کھلواڑ میں ایک اہم قوت بن چکا ہے اور اس کے اثرات سارے مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

mideast-syria
تازہ اطلاعات کے مطابق شامی فوجیں حلب کے نوے فیصد حصے پر قابض ہو چکی ہیں۔

شام میں روس کا اہم ترین اثاثہ بحیرہ روم میں اس کی واحد طرطوس کی بندر گاہ ہے، اس کے ساتھ شمال مشرق میں حال ہی میں تعمیر کردہ خمی میم ائر بیس مشرق وسطی میں اس کا واحد فوجی ہوائی اڈہ ہے۔ اکتوبر میں روسی پارلیمنٹ نے ایک سمجھوتے کی توثیق کی جس سے ایک برس قبل کا خفیہ معاہدہ منظر عام پر آ یا ہے جس کی رو سے روس کو شام سے افراد اور سامان کی نقل و حمل کی مکمل آزادی حاصل ہے اور شامی حکام کسی قسم کی جانچ پڑتال یا رکاوٹ نہیں کھڑی کر سکتے۔ گزشتہ برس کے دوران محاذ پر مزید فوجی اور بڑی تعداد میں اسلحہ بھیجا گیا ہے جس میں جدید میزائل سسٹم بھی شامل ہیں۔ روسی میڈیا نے روسی سپیشل فورسز اور فوجی کمپنیوں کے لیے کام کرنے والے ہزاروں افراد کی شام میں موجودگی کی خبریں بھی دی ہیں۔
روس کے عوام میں قوم پرستی کے جنون کو ابھارنے کے لیے پیوٹن خارجی محاذ کا سہارا لے رہا ہے اور نیٹو ممالک کے ساتھ سرد جنگ جیسے نئے تناؤ کو یوکرین کی سرحد اور اس سے بھی آگے لے جا رہا ہے۔ پہلی مرتبہ اس جنگ میں روس اور ایران ایک ہی جانب کھڑے ہیں اور لبنانی حزب اللہ بھی ان کے ساتھ ہے۔ ایران کی ملا اشرافیہ کے داخلی اور علاقائی مفادات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔ وہ لبنان میں حزب اللہ تک زمینی راستہ محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، خطہ لیوانت میں شیعہ آبادی پر اثر و رسوخ اور سعودیہ عرب جیسے طاقت ور سنی مخالفین کے مقابلے میں خطے میں جغرافیائی اور سیاسی بالا دستی کے خواہاں ہیں۔
اگر چہ ایران اور روس بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں اور وہ ان کی بات بھی سنتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ وہ من و عن ان کا ہر حکم تسلیم کر رہا ہے۔ شام کا یہ صدرانتہائی شاطر ہے اور اپنے مفادات کے لیے اپنے غیر ملکی دوستوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔ گزشتہ مارچ میں جب پیوٹن نے یک دم شام سے روسی افواج کی ’اکثریت‘ کے انخلا کا اعلان کیا تو دمشق نے یہ خلا پر کرنے کے لیے فوراً ایران کا رخ کیا۔
کافی عرصے سے یہ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اسد کے اہم ترین اتحادی اس کی جگہ کسی دوسرے نسبتاً کم متنازع لیڈر کو لا سکتے ہیں۔ لیکن فی الوقت اس کا بر سر اقتدار رہنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب کم از کم داعش اور القاعدہ سے ماضی میں منسلک’’ النصرہ فرنٹ‘‘ کے نام سے پہچانے جانے والے گروپوں کے خلاف شام اور روس سے تعاون کے عندیہ کے بعد بالخصوص یورپی سامراجوں کے منصوبہ سازوں کے لیے صورتحال بہت پیچیدہ ہو چکی ہے۔ بشار الاسد پہلے ہی مسٹر ٹرمپ کو ’’فطری اتحادی‘‘ قرار دے چکا ہے۔

aleppo_rnw
حلب کی لڑائی میں عام شہری بالخصوص بچے، خواتین اور بوڑھے بری طرح بربادی اور موت کا شکار بنے ہیں۔

اگرچہ حلب کی شکست مغربی سامراجوں اور خلیجی بادشاہتوں کے لیے ایک سنجیدہ دھچکا ہے لیکن یہ کسی طور پر بھی اس ظالمانہ جنگ کے خاتمے یا امن کی کسی بڑی پیش رفت کا پیش خیمہ نہیں۔ 2000ء میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد شام میں منصو بہ بند معیشت کے خاتمے کا عمل بہت تیز ہو گیا تھا۔ اس سے عام شہریوں کے لیے مشکلات اور محرومی پیدا ہوئی۔ بالآخر 2011ء کی عرب انقلابی تحریک میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ تحریک کی قیادت پر رجعتی مذہبی قوتوں کے قبضے اور ریاست کے ہولناک جبرسے ایک خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔ اسد حکومت کے خلاف اندھی نفرت میں امریکی سامراج ان بنیاد پرست گروہوں کو براہ راست یا بالواسطہ امداددیتا رہا ہے۔
خلیجی ریاستوں اور دیگر رجعتی عرب حکومتوں کی شامی حکومت سے تاریخی اور سماجی و معاشی دشمنی رہی ہے۔ نہ تو ان کی مداخلت رکنے والی ہے اور نہ ہی اسد حکومت سارے ملک پر تیزی سے اور جلد مکمل گرفت حاصل کر سکتی ہے۔ عراق سے یمن تک ریاستیں گر رہی ہیں اور سماج بنیاد پرست دہشت اور سامراجی جارحیت کے ہاتھوں تاراج ہو رہے ہیں۔ جنگیں اور بحران پہلی عالمی جنگ کے بعد سامراجیوں کی بنائی ہوئی سرحدوں کو پار کر چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے عوام کا مقدر اب پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ 2011ء کی تحریکوں کی ناکامی اور موجودہ خونریزی کے باوجود ایک نئی بغاوت لازم ہے۔ یہ تحریک مذہب، فرقے، قومیت، عقیدے اور نسل کے تعصبات کو مٹا کر صرف طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو سکتی ہے۔ اسرائیل سے جزیرہ نما عرب تک محنت کش طبقات کی سماجی و معاشی تبدیلی کی یہ تحریک ایک منزل کی جانب سفر کا آغاز ہو گی۔ مارکسی قیادت میں ایک ایسی تحریک اس تاریخی خطے کے عوام کو ہمیشہ کے لیے جبر، جنگوں اور خونریزی سے آزاد کروا سکتی ہے اور مشرق وسطیٰ کی متحدہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ایک حقیقت بن سکتا ہے۔

متعلقہ:

شام: ’جنگ بندی‘ کا انتشار

موصل: حملے کے پس پردہ عزائم!