عراقی المیہ

[تحریر: آدم پال]
عراق کا المیہ مزیدطوالت کا شکار ہو چکا ہے۔ وہاں رہنے والے محنت کش عوام ایک کے بعد دوسری بربریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ 1991ء اور 2003ء کی امریکی جارحیت میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور اس سے کہیں زیادہ اپاہج اوربے گھر ہوئے۔ اس سے پہلے ایران عراق جنگ میں بھی مارے جانے والوں کی تعداد بھی دس لاکھ کے قریب تھی۔ صدام حسین کی خونی آمریت کے بعد ’جمہوریت‘ کے نام پر کی جانے والی امریکی جارحیت کے زخم ابھی تازہ تھے کہ مالکی کی کٹھ پتلی حکومت نے فرقہ وارانہ تعصبات کو فروغ دینے اور قتل و غارت پھیلانے کے ساتھ ساتھ بدترین لوٹ مار اور بد عنوانی کی نئی داستان رقم کی۔ اسی دوران شام میں خونریزخانہ جنگی کا آغاز ہواجس میں ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ اسی دوران مالکی کی بد عنوان حکومت لڑکھڑا رہی تھی کہ اسلامی بنیاد پرستوں نے ملک کے بڑے علاقے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور بربریت اور قتل وغارت کی وحشیانہ کاروائیوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
4 جولائی کوعراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے والے ابوبکر بغدادی نے عراقی شہر موصل میں نورالدین زنگی مسجد میں خطاب کے دوران اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا نام خلیفہ ابراہیم رکھا۔ اس نے اپنے آپ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کا خلیفہ قرار دیا اور اپنی تنظیم ISIL کا نام تبدیل کرکے اسلامی ریاست IS (الدولہ ۃالاسلامیہ) کا اعلان کیا۔ بہت سے سنی قبائل مالکی کی حکومت کی مخالفت میں بھی IS کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اپنی ریاست کو پھیلانے کے لیے جہاں IS بہیمانہ قتل و غارت اور وحشیانہ خونریزی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے وہاں مختلف قبائلی گروہوں اور مسلح ملیشیا کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے پیسے، اسلحہ اور پر کشش وعدوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ وہ لیڈر جو بیعت کرنے سے انکار کر دیں یا جن سے مفاد حاصل کر لیا ہو انہیں قتل کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی جاتی۔ حال ہی میں اس عتاب کا شکار ہونے والوں میں نورالدین زنگی مسجد کا امام اور موصل میں درجن سے زائد سنی علماء تھے۔ اسی طرح صدام حسین کی فوج کے سابقہ فوجی افسر جنہوں نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضے میں اہم کردار ادا کیا انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔ لیکن دوسری جانب تازہ ترین مقبوضہ علاقے شام کے شہر دیر الزور میں IS نے مقامی قبائلی سرداروں کو تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدن میں حصہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور شرعی قوانین میں نرمی بھی برتی جا رہی ہے۔ عراقی قبائل سے تعلقات پختہ کرنے کے لیے بغدادی نے مغربی عراق کے ایک اہم قبیلے میں سجا حمید الدلائمی سے شادی بھی کی۔ IS کے لیے لڑنے والے سپاہیوں کو دو سے تین ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ بھی دی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست میں خلیفہ نے اپنی عدالتوں کا بھی آغاز کر دیا ہے جن میں شرعی قوانین کی خلاف ورزی پر موت یا کوڑوں کی سزا سنائی جاتی ہے۔ حال ہی میں فٹبال کا ورلڈ کپ دیکھنے پر نوجوانوں کوڑوں کی سزا دی گئی۔
ابوبکر بغدادی کے متعلق آنے والی تفصیلات کے مطابق وہ القاعدہ کے ایک اہم لیڈر الزرقاوی کے ساتھ 1999ء میں افغانستان آیا اور یہاں القاعدہ کے لیے کام شروع کیا جبکہ اس دوران طالبان سے بھی اس کے قریبی تعلقات رہے۔ یہ لوگ کابل اور ہرات میں اپنی کاروائیاں کرتے رہے۔ IS نے انٹرنیٹ اور خاص کر ٹویٹر پر جو پیغامات نشر کیے ہیں ان میں پاکستان میں موجود طالبان کے مختلف گروہوں کی بغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں بھی خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ الزرقاوی اور ایمن الظواہری کے اختلافات کے بعد ISIL کو القاعدہ سے نکال دیا گیا۔ اسی طرح شام میں القاعدہ کی حمایت یافتہ جبہاۃ النصرہ سے بھی اختلافات شدت اختیار کر گئے اور ISILاور النصرہ فرنٹ میں شدید خانہ جنگی ہوئی جس میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ IS بالآخر النصرہ فرنٹ کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی اور اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس تمام لڑائی میں بشارالاسد کی شامی فوج نے اس خانہ جنگی کے باعث سکون کا سانس لیا اور اپنی توجہ دیگر محاذوں کی طرف مرکوز رکھی۔ لیکن اس کا فائدہ بھی IS نے اٹھایا اور زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کرتے گئے۔ اس دوران بشارالاسد، ایران اور روس کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکہ، سعودی عرب، قطر، ترکی اور دوسری سامراجی قوتوں نے ان بنیادی پرستوں کی پوری شدت سے حمایت کی اور انہیں بے تحاشا پیسہ اور اسلحہ دیا گیا۔ شام پرحالیہ ممکنہ امریکی جارحیت کی منصوبہ بندی کے دوران بھی امریکی جہازوں کو بمباری کے لیے ٹھکانوں کی نشاندہی کے لیے القاعدہ اور دیگر بنیاد پرست گروپوں کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وہی القاعدہ اور بنیاد پرست جن کے خلاف امریکہ افغانستان میں جنگ کر رہا ہے اور پاکستان میں ڈرون حملے۔
لیکن اب اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کو کاٹنا مشکل ہو گیا ہے۔ امریکی سامراج بھی ابھی تک اس کی مختصر سے فوج پر حملہ کرنے سے کترا رہا ہے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق بغدادی کی فوج کی تعداد 7 ہزار سے بیس ہزار تک ہے۔ لیکن اس کے زیر تسلط علاقہ کہیں زیادہ ہے۔ صرف موصل شہر کی آبادی بیس لاکھ سے زائد ہے۔ جبکہ شام کے تاریخی شہر الرقہ اور نئے مفتوحہ علاقے دیر الزور کی کل آبادی پانچ لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ موصل سے مغرب کی جانب واقع الرقہ تک کا فاصلہ 500 کلومیٹر سے زائد بنتا ہے جبکہ موصل سے جنوب میں اردن اور سعودی عرب کی سرحد کے قریب واقعہ الرطبہ تک 800 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ ہے۔ اتنے وسیع و عریض علاقے پر مقامی قبائل گروہوں اور دوسرے بنیاد پرست ملیشیا کی مدد کے بغیر قبضہ کرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح آغاز میں سامراجی ممالک کی مالی معاونت بھی شامل تھی گو کہ اب وہ خود تیل کے وسیع ذخائر پر قابض ہونے کے علاوہ مفتوحہ بینکوں میں موجود کروڑوں ڈالروں پر بھی قابض ہو چکے ہیں۔
عراق کے کردوں نے شمال میں اپنے خود مختار علاقے کو علیحدہ ملک بنانے کے لیے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا ہے اور اس کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔ اس صورتحال کے اثرات ترکی، ایران اور شام میں رہنے والے کردوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ شام کے کرد پہلے ہی اپنے علاقے کو خود مختار بنا چکے ہیں اور اپنی فوج بھی تعمیر کر رہے ہیں۔ بشار الاسد نے خانہ جنگی کے آغاز کے بعد انہیں اپنا دشمن بنانے کی بجائے ان کی خود مختاری کو نیم رضامندی بھی دی ہوئی ہے اور ان پر شامی افواج کی جانب سے حملے نہیں کیے جا رہے۔ شمالی عراق میں واقع کرکوک اور بائے حسن کے تیل کے ذخائر کے لیے بھی کرد فوج پیش مرگ اور IS کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ ان دونوں تیل کے ذخائر کی پیداوار چار لاکھ بیرل روزانہ ہے جن پر اس وقت کردوں کا کنٹرول ہے۔ عراقی وزیر اعظم نے کردوں کے ان تیل کے ذخائر پر قبضے کی شدید مذمت کی ہے جس کے بعد کردوں او رمالکی کے مابین تنازعے میں مزید شدت آئی ہے۔ عراقی حکومت نے لندن میں واقع اپنے سفارت خانے سے عراقی کرد سفارت کاروں کو بھی واپس بلا لیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے لندن میں کردستان کی مکمل آزادی کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ عراقی حکومت بھی اپنے ڈوبتے اقتدار کو بچانے کے لیے وحشیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق 9 جون کے بعد سے اب تک 255 قیدیوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر سزائے موت دی گئی ہے۔ مالکی کی حکومت کے خلاف سنی علاقوں میں نفرت کے ساتھ ساتھ شیعہ آبادی کے علاقوں میں بھی نفرت موجود ہے جس کے باعث مقتدیٰ الصدر کی حمایت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ 2003ء میں امریکی جارحیت کے خلافعراق میں سب سے بڑی مزاحمت الصدر کی جانب سے دیکھنے میں آئی تھی جس کے بعد امریکہ کا عراق میں رکنا مشکل نظر آتا تھا اور یہ جارحیت ایک عوامی تحریک کے ذریعے ختم کی جا سکتی تھی۔ الصدر کی سامراج مخالف تقاریر لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہی تھیں۔ لیکن اس دوران امریکہ بہت سے شیعہ لیڈروں کو الصدر کے خلاف ابھارنے میں کامیا ب ہوا۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق امریکہ ایران گٹھ جوڑ کے نتیجے میں الصدر کو 2007ء میں ایران بلا کر نظر بند کر دیا گیا۔ 2011ء میں عراق واپسی پر بھی اس کی حمایت اسی طرح موجود رہی اور ابھی تک اس کی مہدی ملیشیا عراق کی اہم قوت ہے۔ اب الصدر نے مالکی کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کر دیا ہے اور حکومت میں سنی قبائل کی زیادہ نمائندگی کی بات کی ہے۔ ایران اور سامراجی طاقتیں اپنے مفادات کے دفاع کے لیے موجودہ صورتحال میں الصدر کو IS کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس دوران اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ الصدر کی ممکنہ کامیابی کے بعد یا دوران ابھرنے والی عوامی تحریک الصدر کو سامراجی پالیسیوں کی زیادہ مخالفت پر مجبور نہ کر دے۔ اس خطرے سے پیشگی نپٹنے کے لیے دیگر شیعہ قائدین کو بھی قیادت کے طور پر موجود رکھنے کے امکانات ہیں اور الصدر کا کردار کم سے کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ لیکن اتنی پیچیدہ صورتحال میں کوئی بھی ایک واقعہ تمام منصوبہ بندی کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے۔
عراق کی صورتحال اب پہلے سے کہیں زیادہ خطے کے دیگر ممالک سے جڑی ہوئی ہے۔ اس نومولود رجعتی ریاست کو ختم کرنے میں جہاں امریکی سامراج اپنی تمام تر وحشت کے باوجودبے بس نظرآتا ہے وہاں خطے کی سامراجی طاقتیں سعودی عرب اور ایران بھی خوفزدہ ہیں۔ عراق اور سعودی عرب کی مشترکہ سرحد سے عراقی فوجیوں کے فرار کے بعد سعودی عرب ممکنہ جارحیت کے خلاف مزاحمت کے لیے وہاں تیس ہزار فوجی تعینات کرنے پر مجبور ہوا ہے جس میں اکثریت پاکستانی اور مصری فوجیوں کی ہے۔ القاعدہ کی جانب سے یمن سے سعودی عرب کی سرحدی چوکیوں پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں جس سے سعودی عرب اپنے دفاع کو مضبوط کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سعودی شاہی خاندان کا داخلی انتشار پھیلتا جا رہا ہے۔ اور ملک کے بانی سامراجی کٹھ پتلی السعود کے ضعیف العمر آخری تین بیٹوں کے بعد سعودی عرب کے ممکنہ بادشاہ کے چناؤ کی سازشوں کا آغاز ابھی سے ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 2011ء کے عرب انقلاب کی گونج سعودی عرب میں ابھی تک سنائی دیتی ہے اور حکمران عوامی نفرت سے نپٹنے کے لیے کبھی اصلاحات کے پیکج اور کبھی سخت ترین قوانین لاگو کر رہے ہیں۔ بحرین کی سرحد پر واقع القطیف کے مشرقی صوبے میں پہلے ہی ’’الموت یا سعود‘‘ کے نعرے ہزاروں کے مجمع میں گونجتے رہے ہیں جن پر سعودی سکیورٹی اہلکاروں نے تیزاب ملا پانی پھینکا تھا۔ 2011ء کے عرب انقلاب کے دوران خلیجی ممالک میں سب سے بڑی تحریک بحرین میں ابھری تھی جس میں لاکھوں لوگ بادشاہ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ سعودی عرب اور ایران نے اپنے اپنے سامراجی مفادات کے تحت اس تحریک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جس میں انہیں شدید ناکامی ہوئی۔ اس کے بعد سعودی عرب کی جانب سے بحرین میں فوجی دستے بھیجے گئے جنہوں نے بربریت اور خونریزی کا بازار گرم کیا۔ اس دوران سے پاکستان سے بھی فوجی فاؤنڈیشن کے تحت سینکڑوں سکیورٹی اہلکار بھرتی کر کے بھاری تنخواہوں پر تحریک کچلنے کے لیے بحرین بھیجے گئے۔ سینکڑوں انقلابیوں کو ریاستی تحویل کے دوران بدترین تشدد کر کے قتل کیا گیا۔ لیکن اس تمام تر جبر کے باوجود بحرین میں احتجاجی تحریک مکمل طور پر کچلی نہیں جا سکی اور اب بھی مختلف مواقع پر احتجاجی مظاہرے نظر آتے ہیں۔ جہاں اس تحریک کے اثرات سعودی عرب کے مشرقی حصوں میں موجود ہیں وہاں سعود ی عرب کے اندر حکمران طبقے کی عیاشیوں کے خلاف نفرت بھی موجود ہے۔ سعودی شہریوں میں بیروزگاری اور غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے نپٹنے کے لیے غیر ملکی محنت کشوں کے لیے قوانین سخت کیے جا رہے ہیں اور سعودی شہریوں کو پہلی دفعہ زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سعودی محنت کشوں کی کم پیداواریت (Productivity) کے باعث محنت کا شدید ترین استحصال کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ان قوانین پر عملدرآمد سے ہچکچا رہی ہیں جس سے ایک اور تناؤ پیدا ہو رہا ہے۔ خواتین کے لیے بد ترین جابرانہ قوانین کے حامل اس ملک میں خواتین کی گاڑی چلانے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو مغربی ذرائع ابلاغ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن اسی دوران تعلیمی اداروں میں کام کرنے والی خواتین برطرفیوں اور اجرتوں میں اضافے کی جدوجہد بھی کر رہی ہیں جسے بورژوا میڈیا سامنے نہیں لاتا۔ اس جدوجہد میں وزارت تعلیم کے باہر خواتین اساتذہ کے کئی مظاہرے بھی ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں عراقی سرحد پر ہونے والا کوئی بھی انتشار داخلی تضادات کو شدت سے ابھار بھی سکتا ہے۔ سعودی عرب میں ریاست کی ٹوٹ پھوٹ پاکستان، افغانستان سمیت پورے خطے میں گہرے اثرات مرتب کرے گی اور رجعتی قوتوں کے مزید انتشار کا باعث بنے گی۔
سعودی عرب اور عراق کا ہمسایہ اردن کا بادشاہ بھی اس خلیفہ بغدادی سے خطرہ محسوس کر رہا ہے اور سامراجی طاقتوں سے مدد طلب کرنے کے علاوہ اپنے ملک میں اس خلیفہ کے مخالف بنیاد پرستوں کوتیار کر رہا ہے۔ اردن کا بادشاہ خطے میں امریکی سامراج کی اہم کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتا ہے۔ اردن کو امریکہ سے ہر سال 300 ملین ڈالر فوجی امداد کی مد میں ملتے ہیں۔ لیکن اس وقت اس ملک کی عراق کے ساتھ 112 میل لمبی اور شام کے ساتھ 225 میل لمبی سرحد شدید تناؤ کا شکار ہے۔ 22 جون کو IS نے عراقی شہر الرطبہ پر بھی قبضہ کر لیا جو اردن کی سرحد سے صرف 90 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کی سرحدی گزر گاہ طریبیل بھی IS کے قبضے میں ہے۔ اس واقعے کے بعد اردن نے F-16 طیاروں سمیت ٹینک اور اہم فوجی دستے بھی اس سرحد پر تعینات کر دیے ہیں۔ گزشتہ سال 2013ء میں امریکہ نے اردن کو ایک ارب ڈالر اپنے دفاع پر خرچ کرنے اور دیگر اخراجات کے لیے دیے۔ سامراجی گماشتہ اردن کے بادشاہ کے خلاف عوام میں شدید نفرت موجود ہے۔ 2011ء کے عرب انقلاب کے دوران اردن میں بھی بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے جس کے بعد بادشاہ کو اپنے وزیر اعظم کو متعدد دفعہ تبدیل کرنا پڑا۔ بیرونی جنگ کے خطرے کی آڑ میں دفاعی اخراجات بڑھائے جا رہے ہیں جس سے اسلحہ ساز اداروں کے منافعوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ اسی بیرونی دشمن کے خوف کو ابھار کر کمیونسٹ پارٹی اور دیگر انقلابی قوتوں پر سخت ترین حملے کیے جا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیوں کے باعث عوام کا معیار زندگی بھی تیزی سے گر رہا ہے۔ معاشی طور پر پسماندہ حصوں الرصیفہ، زرقا اور مان سے شام کی خانہ جنگی کے لیے بنیاد پرست بڑی رقوم دے کر بھرتیاں بھی کر رہے ہیں۔ لیکن تمام تر منصوبہ بندیوں کے باوجود عراق کی صورتحال اردن پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
قطر کے سامراجی عزائم بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور مصر، تیونس اور یمن سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ میں اخوان المسلمین کی حمایت ا ور سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کی دشمنی اسے مہنگی پڑ رہی ہے۔ شام اور عراق میں مختلف بنیاد پرست گروہوں کی حمایت کرنے کے باوجود، جس میں ISIL بھی شامل تھی، قطر کے حکمران ابھی تک کوئی واضح کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ مصر میں جنرل السیسی سعودی حمایت سے برسر اقتدار آچکا ہے اور اخوان المسلمین سمیت قطر کے حمایت یافتہ تمام دھڑوں پر حملے کر رہا ہے۔ قطرکے ٹی وی چینل الجزیرہ کے بہت سے صحافی بھی مصر کی جیلوں میں قید ہیں۔ سعودی تیل کا مقابلہ اپنی گیس سے کرنے کا دعوے دار قطرامریکی آشیر باد سے شام سمیت خطے کے تمام ممالک میں مداخلت کر رہا ہے جس سے اس کے دیگر سامراجی قوتوں سے اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بھی گیس بیچنے کا ایک بڑا منصوبہ بن چکا ہے جو سعودی عرب اور پاکستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے تعلقات کا امتحان ہے۔ الجزیرہ پر ایک ڈاکو منٹری میں مصر کے اسرائیل سے گیس کی فراہمی کے خفیہ معاہدوں کو بے نقاب کیا گیا اور السیسی کو اسرائیل سے حسنی مبارک دور کے تعلقات بحال کرنے کا الزام لگایا گیا۔ لیکن تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود السیسی اس وقت سعودی بادشاہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔ السیسی کے صدر بننے پر اسے مبارکباد دینے والا پہلا غیر ملکی سربراہ سعودی شاہ عبداللہ تھا۔ گو کہ 90 سالہ عبداللہ کا مصر میں قیام مختصر تھااور وہ اس دوران اپنے جہاز میں ہی موجود رہا اور جنرل السیسی کو ملنے کے لیے خود جہاز کے اندر آنا پڑا۔ عراق میں IS کے قیام کے بعد مصری حکومت بھی دہشت گردی کے خطرے کو انقلابی تحریک کچلنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ نہر سویز کے ساتھ واقع سینا میں دہشت گرد گروہوں اور IS کی موجودگی کو اخبارات میں زور و شور سے پیش کیا جا رہا ہے۔ 22 جون کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مصر کے دورے کے دوران بھی اس موضوع پر گفتگو کی گئی۔ اس دورے کے دوران امریکہ کی جانب سے مصر کو دی جانے والی 1.3 ارب ڈالر کی سالانہ امداد بحال کرنے کا بھی اعلان کیا گیا جس کی 575 ملین ڈالر کی پہلی قسط جاری کر دی گئی ہے۔ مصر کے نام نہاد بائیں بازو سمیت بہت سے لوگوں کے السیسی کی ترقی پسندی کے متعلق ابہام دور ہوتے جا رہے ہیں اور وہ وحشیانہ انداز میں سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں لاگو کر رہا ہے۔ حالیہ اعلان کردہ بجٹ میں سبسڈی کے خاتمے کے بعد تیل بجلی اور گیس سمیت تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ المونیٹر کے مطابق مہنگی گاڑیوں کے لیے استعمال ہونے والے تیل کی قیمت میں 7 فیصد، عام گاڑیوں کے تیل میں 41 فیصد جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور بسوں کے لیے استعمال ہونے والے تیل کی قیمت میں 78فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ قدرتی گیس کی قیمت میں 175 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ 2011ء اور 2013ء کے عظیم الشان انقلابات کے بعد محنت کشوں کے معیار زندگی پر یہ حملے انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ناگزیر ضرورت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک کی داخلی صورتحال اور خطے کے حالات کو دیکھتے ہوئے مصرمیں مستحکم حکومت کا قیام مشکل نظر آتا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے موجودہ تنازعے کو بھی اس ساری صورتحال سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسرائیل اگربراہ راست خلیفہ کے خلا ف بشارالاسد، ایران یا کسی اور حکمران کی حمایت کرتا ہے تو عوامی رائے عامہ کاایک رجعتی حصہ خلیفہ کی حمایت میں جا سکتا ہے جو ابھی تک اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں سروے کرنے والی برطانوی تنظیم ORB کے مطابق اس سال مئی میں شام کے صرف 4 فیصد لوگ خلیفہ کو اپنے مفادا ت کا درست ترجمان سمجھتے ہیں۔ خلیفہ کے سب سے بڑے گڑھ شام کے علاقے الرقعہ میں اس کی مقبولیت 24 فیصد ہے۔ خلیفہ بغدادی نے اسرائیل کے خلاف لڑنے سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ ہماری پہلی لڑائی ہمارے اندرونی دشمنوں سے ہے اور اس کے لیے تاریخی حوالے دیے ہیں۔ لیکن فلسطین میں موجودہ جارحیت سے اسرائیل خطے میں اپنی عسکری برتری کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ داخلی طبقاتی تضادات کو دبانے کی کوشش کر رہاہے۔ ۔
اہم سوال یہ ہے کہ عراقی خلیفہ کی اندرونی دشمنوں سے کیا یہ لڑائی IS کی مکمل فتح پر منتج ہو سکتی ہے۔ عراق کے ایک بہت بڑے حصے پر قائم ہونے والی یہ رجعتی ریاست اپنے آپ کو کتنا عرصہ برقرار رکھ سکے گی؟ اس کا جواب جو بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ بنیاد پرستی کا یہ زہر اب اس نظام کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے اور عوا م کو مسلسل تاراج کرتا رہے گا۔ سامراجی جنگوں یا فوجی آپریشنوں سے القاعدہ یا کسی اور گروہ اور اس کی قیادت کو تو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن بنیاد پرستی کے عفریت کو نہیں۔ یہ ایک ایسا دیو ہے جس کا ایک سر کاٹیں گے تو کئی نئے سر جنم لیں گے جو پہلے سے زیادہ بربریت اور عدم استحکام کے جنم کا باعث بنیں گے۔ اس مسئلے کا واحد حل بنیادی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے۔
نظام کے خاتمے کی اس جدوجہد کے لیے عراقی محنت کشوں کے پاس ماضی کی عظیم روایات ہیں۔ یکم مئی 1959ء کو دس لاکھ لوگوں نے بغداد میں عراقی کمیونسٹ پارٹی کے جھنڈے تلے مظاہرہ کیا۔ اس وقت کے امریکی سی آئی کے سربراہ ایلن ڈلس نے کہا کہ یہ صورتحال ’’آج کی دنیا میں سب سے خطرناک ہے‘‘۔ اس وقت عراقی کمیونسٹ پارٹی کے 25 ہزار ممبر تھے اور مغربی اخبارات کے مطابق وہ بغداد کی گلیوں کو کنٹرول کرتی تھی۔ اس کے نوجوانوں کے فرنٹ کی ممبر شپ 84 ہزار تھی جبکہ 3500 کسان کمیٹیوں میں سے 60 فیصد اس کے کنٹرول میں تھیں۔ لیکن اتنے بڑے انقلاب کو غلط سٹالنسٹ نظریات کے باعث ضائع کر دیا گیا۔ ترقی پسند بورژوازی سے اتحاد کی غلط پالیسی کے باعث سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کا موقع گنوا دیا گیا۔ بعد ازاں بعث پارٹی کی ’سوشلسٹ ‘ پالیسیوں اور اصلاحات کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام اپنی جگہ پر موجود رہا اور آج اس نظام کا زوال لاکھوں انسانوں کی موت کا باعث بن رہا ہے۔

آج عراق کے محنت کشوں کی انقلابی روایات کو اجاگر کرنے اور انہیں فرقہ پرستی اور قومی تعصب کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ظلمت کی تاریکی میں ایک مختصر قوت کی بالشویک پارٹی بھی لاکھوں عراقیوں کے لییمینارۂ نور ثابت ہو سکتی ہے۔ عراق کے عوام نے پہلے بھی سامراجی جارحیت اور صدام کی آمریت کے خلاف بے مثال جدوجہد کی ہے۔ موجودہ رجعتی بربریت اور سامراجی سازشوں کے خلاف بھی ان میں نفرت ابل رہی ہے۔ ایسے میں پورے مشرقِ وسطیٰ کے کسی ایک ملک میں محنت کش طبقے کی ایک کامیابی، ایک آگے کا قدم عراق اور پورے خطے کے محنت کشوں کو نیا جوش اور ولولہ دے گا۔ اس دوران کسی ایک ملک میں بالشویک قوت کی تعمیرپورے خطے میں سوشلسٹ انقلاب کی نوید بنے گی۔ یہ سوشلسٹ انقلاب مشرقِ وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے جنم کا باعث بنے گا جو اس طویل المیے کو ختم کر کے امن اور ترقی کے نئے دور کا آغاز کرے گی۔