[تحریر: لال خان]
پچھلے چند دنوں سے عراق میں شدت اختیار کرنے والی اسلامی بنیاد پرستوں کی وحشت ناک کالی آندھی عرب ریگستانوں کو تاراج کررہی ہے۔ بڑی عرب بادشاہتوں کی تیل کی اندھی دولت سے بنیاد پرستی کی اس یلغار کی فنانسنگ بھی جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان بادشاہتوں کا محافظ اور سرپرست بھی امریکی سامراج ہے۔ اس خطے کا تیل عوام کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔ شمال میں ISIL (عراق اور لیوانت کی اسلامی ریاست) کے مذہبی جنونی جتھوں نے عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا ہے۔ صدام حسین کے آبائی شہر تکریت اورطلافار سمیت دوسرے کئی علاقے بھی انکے کنٹرول میں آگئے ہیں۔ مغرب میں ISIL نے فلوجا، رمادی اور دوسرے شہروں پرقبضہ کرلیا ہے۔ سرکاری فوجیں اور شیعہ ملیشیا سمارا کو ISIL سے چھڑانے کی کوشش کررہی ہیں۔ کردستان میں موجودہ شیعہ مرکزی حکومت اور سنی ISIL سے برسرِپیکار کرد ’’پیشمرگا‘‘ باغیوں نے کرکوک کے علاقے میں تیل کے بڑے ذخائر پر قبضہ کرلیا ہے۔
سنگین ہوتی ہوئی صورتحال نے ساری دنیا میں ہل چل مچا دی ہے۔ تیل کی قیمتیں 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں۔ موصل کی لڑائی میں امریکی سامراج کی بنائی گئی عراقی فوج موم کی طرح پگھل گئی ہے۔ سامراجی غلامی میں بنی فوجیں نہ لڑسکتیں ہیں، نہ دفاع کرسکتی ہیں۔ عراق کے وزیرِ خارجہ ہوشیار ذبیری نے اعتراف کیا کہ’’ عراق کی فوجیں موصل میں ٹوٹ کر انہدام کا شکار ہوگئیں اور اپنا اسلحہ اور سازوسامان وہیں چھوڑ گئیں۔‘‘ISIL کے جتھوں نے بہت سے پرانے اور چالو امریکی اڈوں میں موجود جدید اسلحے، بارود اور گاڑیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ ان مذہبی جنونیوں نے 1700 عراقی فوجی قیدیوں اور شیعہ افراد کو گرفتار کرکے گولیوں سے چھلنی کیا اور اس قتل عام کی ویڈیو بھی جاری کی گئی۔ اس ساری صورتحال میں سامراجیوں کا ردِعمل ایک شکست خوردہ نفسیات کا غماز ہے۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل آندرز فوگھ راسموسن نے کہا ہے کہ ’’عراق میں اب ناٹو کا کوئی کردار نہیں بنتا۔‘‘ صدر اوبامہ نے امریکہ کے سب سے اعلیٰ فوجی ادارے ’’ویسٹ پوائنٹ‘‘ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عراق یا کسی اور مقام پر فوجی مداخلت یا فوجیں بھیجنے کا مخالف ہے۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ اورمستقبل میں ممکنہ امریکی صدر ہیلری کلنٹن نے بیان دیا ہے کہ ’’اب ہم ان کی لڑائی نہیں لڑسکتے کیونکہ ایک ناکارہ، بدعنوان، غیر نمائندہ اور جابرانہ ( نورالمالکی کی ) حکومت کے لیے ہم ایک امریکی فوجی کی زندگی بھی قربان نہیں کریں گے۔‘‘ اوبامہ کی تقریر پر برطانوی اخبار گارڈین نے یہ تبصرہ کیا کہ ’’واشنگٹن نے لاغر اور لاچار نور المالکی حکومت اور شام کی مغرب نواز دہشت گردتنظیموں کو اصل پیغام یہ دیا گیا ہے کہ جب پسپائی شکست فاش بننے لگے گی تو وہ اکیلے ہی ہوگے۔‘‘ ان بیانات کے بعد امریکہ کے باتونی وزیر خارجہ (جس کی بات کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا) کا عراق پر ’’دور‘‘ سے فضائی حملے کرنے کا عندیہ بڑا مضحکہ خیز ہے۔
’’جمہوریت‘‘، ’’آزادی‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر جارحیت کرکے بستیوں کی بستیاں اجاڑنے والے امریکی سامراج کو آج مکافاتِ عمل کا سامنا ہے۔ 2003ء سے پہلے عراق میں القاعدہ اور اسلامی بنیاد پرستی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ان سامراجی درندوں نے جن ’’وسیع تباہی کے ہتھیاروں‘‘ (WMD) کی موجودگی کا الزام لگا کرعراق کو تاراج کیا ہے ان کا بھی سرے سے کوئی وجود نہیں تھا۔ اس ملک میں صدیوں سے ایک خاندان کی طرح رہنے والے شیعہ، سنی اور مذہبی اقلیتوں میں نفرت کے زہر بھی امریکہ نے ہی اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کے لئے بوئے تھے۔ پھر عراق اورافغانستان کی ’’قومی‘‘ افواج کی تشکیل کا بہت شور مچایا گیا لیکن 20 ارب ڈالر کی مالیت سے عراق میں جو’’ قومی فوج‘‘ کھڑی کی گئی وہ مذہبی جنونیوں کے پہلے وار پر رائی کے پہاڑ کی طرح ڈھیر ہوگئی۔ 2008ء کے بعد جب امریکی سرمایہ داری شدید بحران کا شکار ہوگئی تو انھوں نے عراق سے دم دبا کر بھاگنے کا راستہ اختیار کیا۔ پورے ملک کو برباد کر کے، لاکھوں بے گناہ شہریوں اور اپنے ہزاروں فوجیوں کا خون بہا کر 2011ء میں پسپائی اختیار کی گئی لیکن عراق میں لوٹ مار جاری رکھی گئی۔ ایک طرف امریکی اجارہ داریاں تیل چوستی رہیں تو دوسری طرف ’’عراق کے تحفظ‘‘ کے لیے انتہائی مہنگے داموں امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا اسلحہ فروخت کیا جاتا رہا۔ پچھلے ہفتے’’وائٹ ہاؤس‘‘ کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں تسلیم کیا کہ ’’ہمارے اسلحے کی ترسیل کے دوران300 ہیل فائر (Hell Fire) میزائل، چھوٹے اسلحے کے لاکھوں راؤنڈ، ٹینکوں کے ہزاروں گولے، ‘ ہیلی کاپٹروں سے فائر کیے جانے والے راکٹ، مشین گنیں، گرنیڈ، سنائپر رائفلیں، M16 اور M4 رائفلیں عراقی سکیورٹی ایجنسی کو بھیجی گئیں۔ ‘‘اس سال جنوری میں امریکی کانگریس نے 24 اپاچی ہیلی کاپٹروں کے ایک سودے کی منظوری دی جس سے 6.2 ارب ڈالر منافع کمایا گیا۔ آج جب ضرورت پڑی ہے تو یہ سارااسلحہ کہاں گیا ہے؟
سنی بنیاد پرستوں کی یلغار کو مقامی آبادی کی کچھ پرتوں کی حمایت بھی نورالمالکی کی جابرانہ اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملی ہے۔ عراق کے بہت سے شہریوں کے نزدیک مذہبی جنونیوں اور امریکہ کی قائم کردہ ’’جمہوری‘‘ حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ا نبار صوبے میں 2013ء میں مالکی حکومت نے ایک شیعہ یونٹ سے 8,300 سنیوں کو قتل کروایا تھا۔ آج مالکی کو ظالم، جابر اور فرقہ پرست کہنے والی ہیلری کلنٹن اور دوسرے سامراجی حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ شخص امریکی’’جمہوریت‘‘ کی پیداوار اورانہی کا بغل بچہ ہے۔ سامراجی سنگینوں کے سائے تلے ہونے والے انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان سمیت پسماندہ ممالک میں مالیاتی سرمائے کی نہ نظر آنے والی سنگین انسانوں کے دل ودماغ کو چھلنی کرتی چلی جارہی ہے۔ یہ انتخابات اور جمہوریتیں عوام کے لیے نہیں ہیں۔ ان کے لبادے میں سرمائے کی وحشیانہ آمریت لپٹی ہوئی ہے۔
ISIL کے نام میں ’’لیوانت‘‘ کے معنی عراق، اردن، قبرص، جنوبی ترکی، شام، اسرائیل اور دوسری خلیجی ریاستیں اور بادشاہتیں ہیں جنہیں پہلی جنگ عظیم کے بعد سامراج نے اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحت مصنوعی طور پر تخلیق کیا تھا۔ 1918ء سے پیشترلیوانت سلطنت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ آج یہ قومی ریاستیں اور سرحدیں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جعلی، مصنوعی اور بے معنی بن چکی ہیں لیکن عرب بادشاہتوں کی مالی حمایت سے چلنے والی یہ رجعتی کالی آندھی اس خطے کو خوشحال بنانے کی بجائے مزید برباد کرے گی۔ یہ مذہبی جنونی اور فرقہ پرست عناصر انسانی سماج کو ماضی بعید کے اندھیروں میں غرق کرنے کے درپے ہیں لیکن عوام مرے نہیں ہیں۔ 60 لاکھ کی آبادی والے بغداد پر قبضہ کرنا ان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔
موصل اور تکریت وغیرہ پر قبضہ ISIL کی فتح نہیں بلکہ امریکہ کی کٹھ پتلی عراقی حکومت کی شکست ہے۔ مالکی حکومت اس قدر کرپٹ اور نااہل ہے کہ کوئی سپاہی اس کے لئے لڑنے کو تیار نہیں۔ اب آیت اللہ علی سستانی اور مالکی فرقہ وارانہ بنیادوں پر جو شیعہ ملیشیا (عرا ق میں موجودایران کے ’’ریولوشنری گارڈز‘‘ کے ذریعے) منظم اور متحرک کر رہے ہیں اس سے ISIL اور بھی مضبوط ہوگی۔ فرقہ وارانہ منافرتیں بھڑکیں گی اور ISIL کو سنی آبادی کے مزید حصوں کی حمایت ملے گی۔
سامراجی کھیل میں دشمن دوست اور دوست دشمن ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ایرانی ملاؤں اور امریکی سامراج کا خفیہ تعاون بڑھا ہے۔ ISIL انہی دہشت گرد گروہوں میں سے برآمد ہوئی ہے جنہیں امریکہ، شام میں امداد دیتا رہا ہے۔ قطری حکمران مصر میں اپنی ہزیمت کا انتقام شام میں لے سکتے ہیں۔ قطری دولت اور گیس کا رخ بشار الاسد کی طرف بھی مڑ سکتا ہے۔
حکمرانوں کی ان ریشہ دوانیوں میں غریب عوام ہی برباد ہورہے ہیں۔ عراق، شام، یمن اور خطے کے دوسرے ممالک میں 1950ء، 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں بائیں بازو کے کئی انقلاب برپا ہوئے۔ مسخ شدہ بنیادوں پر ہی سہی لیکن سوشلسٹ بعث پارٹیوں اور بائیں بازو کی حکومتوں نے سرمایہ داری کو ختم کرکے منصوبہ بند معیشتیں قائم کیں جس سے عوام کو مفت علاج، تعلیم، رہائش اور روزگار جیسی بنیادیں سہولیات میسرآئیں۔ یہ سب کچھ سرمایہ داری کے تحت کبھی ممکن نہیں تھا۔ ان حکومتوں کے انہدام کے بعد آج سرمایہ داری اور سامراج پورے خطے کو بربریت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ اس بربادی، سامراجی استحصال اور معاشی محرومیوں سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ پورے خطے کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں یکجا کرکے ہی فرقہ وارانہ، قومی، مذہبی اور نسلی تعصبات سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔
متعلقہ:
سامراجی جارحیت کی غارت گری
امریکی سامراج: ماضی، حال اور مستقبل
مشرقِ وسطیٰ: سامراجی کٹھ پتلیوں کا میدان جنگ