عراق: وحشت کے ساتھ وحشت کا تصادم!

[تحریر: آدم پال]
نائن الیون کی تیرہویں برسی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے عراق پر ایک دفعہ پھر جارحیت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس دفعہ داعش یا ISIL نامی بنیاد پرست اور رجعتی قوت کو ’’جڑ سے اکھاڑنے‘‘ کے لیے امریکی سامراج عراق پر حملہ آور ہو گا۔ اس اعلان سے چند روز پہلے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قابض خلیفہ ابوبکر بغدادی کے سپاہیوں نے دو امریکی صحافیوں جیمز فولی اور سٹیون سولٹوف کو ذبح کر کے ان کی ویڈیو انٹرنیٹ پر جاری کر دی تھی۔ اوباما کے اس اقدام پر مغربی ممالک کے بورژوا ذرائع ابلاغ اسے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ امریکی جارحیت سے عراق میں بنیاد پرستی کا قلع قمع ہو جائے گا۔ لیکن سب سے پہلے سوال یہ ہے کہ یہ بنیاد پرست عراق میں پہنچے کیسے اور اس بنیاد پرستی کو پیدا کرنے والا اور پروان چڑھانے والا کون ہے۔ دوسرا یہ کہ عراق پر پچھلی دو امریکی جارحیتوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے جو کہ اس دفعہ مختلف ہو گا! در حقیقت ان جنگوں نے خود امریکی سامراج کو بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے جو خود اوباما کی تقریر میں واضح طور پر نظر آتا تھا۔ 2003ء میں جب عراق پر حملہ کیا جا رہا تھا اس وقت جارج بش کی رعونت آسمان کو چھو رہی تھی۔ وسیع پیمانے کی تباہی کے ہتھیاروں اور القاعدہ کی موجودگی کا ننگا جھوٹ بول کر عراق پر سامراجی جارحیت کا بہانہ تراشا گیا۔ اس وقت بھی جارج بش کہہ رہا تھا کہ برائی کو ’’جڑ سے اکھاڑ ‘‘ دیا جائے گا۔ مارکسسٹوں نے اس وقت بھی واضح کیا تھا کہ اس جنگ کا آغاز کرنا تو امریکہ کے بس میں ہے لیکن اس کا انجام ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ جنگ کے کچھ ہی عرصے بعد بش نے ’’فتح‘‘ کا اعلان کر دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی پر محیط اس جنگ نے نہ صرف امریکی معیشت کو نچوڑ لیا بلکہ امریکی فوج کو بھی عراق میں شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ جن ’’وسیع پیمانے پر تباہی‘‘ پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلاش کرنے گئے تھے وہ کبھی بھی نہیں ملے اور اس دوران لاکھوں افراد کو قتل کیا گیا بلکہ اس سے زیادہ تعداد میں لوگ بیماری اور بھوک کی وجہ سے مارے گئے۔ اس سب کے بعد عراق میں مذہبی فرقہ واریت اور قوم پرستی کی نفرت کے ایسے بیج بوئے جو اب تناور درخت بن چکے ہیں۔ عراقی سماج کا تانا بانا ادھیڑ کر اس کو اپنی لوٹ مار کے لیے تاراج کر دیا گیا۔ سامراج کی قائم کردہ نام نہاد جمہوریت اور پارلیمنٹ نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر زیادہ شدت سے عمل کیا اور شیعہ سنی تضاد کو سماج کی نس نس میں اتارتے ہوئے پورے سماج میں یہ زہر پھیلا دیا۔ اسی زہر اور غلاظت پر داعش جیسی دیگر بنیاد پرست قوتیں پلتی رہیں اور پروان چڑھتی رہی۔ خطے کے دیگر ممالک کے سفاک حکمرانوں نے ان زہریلے سانپوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دودھ پلانا شروع کر دیا۔ خطے میں اپنا سامراجی تسلط قائم کرنے کے لیے سعودی عرب، قطر، ایران، ترکی اور دیگر ممالک نے ان کی بھرپور مالی امداد کی اور اس دیو کو مضبوط کیا جو اب خود انہیں ڈرا رہا ہے۔
عراق پر حملے کا حالیہ اعلان خود امریکی خارجہ پالیسی کی ایک اور بڑی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پچھلے سال ا وباما شام میں بشار الاسد کے خلاف جارحیت کے لیے پر تول رہا تھا اور اس کے لیے شام میں موجود القاعدہ اور دیگر بنیاد پرست قوتوں کی زمینی حمایت حاصل کی جا رہی تھی۔ سعودی عرب کے شدید دباؤ کے تحت امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ بھی شام کے قریب بھیجنے کا اعلان کر دیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے جائیں گے اور زمین پر موجود بشار الاسد کی دشمن قوتوں کی جانب سے اطلاعات حاصل کی جائیں گی۔ زمین پر موجود دشمن قوتوں میں القاعدہ اور اسی کی شاخیں النصرہ فرنٹ اور داعشہی تھے۔ اسی القاعدہ کی حمایت حاصل کی جارہی تھی جس کے خلاف افغانستان میں امریکی افواج جنگ لڑ رہی ہیں۔ لیکن اس ممکنہ حملے کے خلاف یورپ اور امریکہ میں شدیدعوامی رد عمل سے خوفزدہ ہو کر اس جارحیت کو ترک کر دیا گیا۔ امریکہ کے اتحادیوں برطانیہ اور فرانس کی حکومتیں بھی اپنے عوام کے دباؤ کا سامنا نہ کر سکیں اور امریکہ کا ساتھ چھوڑ گئیں۔
اب مکمل یوٹرن لیتے ہوئے بشارالاسد کے دشمن خلیفہ بغداد ی پر فضائی حملوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اوباما نے ہچکچاتے ہوئے تقریباً 500 مزید امریکی فوجی عراق بھیجنے کا اعلان کیا ہے جو عراقی اور کرد فوجیوں کی مشاورت کریں گے۔ اوباما نے کہا ہے کہ امریکی فوجی عراق کی زمین پر نہیں لڑیں گے۔ امریکہ کی عراق میں تیسری جارحیت خود امریکہ کے لیے باعث ہزیمت ہے۔ سامراجی نظریات کا حامل جریدہ اکانومسٹ خود لکھتا ہے، ’’2011ء میں یہ اعلان کرتے ہوئے کہ عراق میں امریکہ کی جنگ جلد ختم ہو جائے گی، اوباما نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ صرف تین سال بعد۔ ۔ ۔ اسے یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ وہ عراق میں 500 مزیدفوجی دیگر سینکڑوں( امریکی) فوجیوں میں شامل کرنے کے لیے بھیج رہا ہے‘‘۔ اس صورتحال سے سامراج کی سیاسی بصیرت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
اسی جارحیت میں جہاں ناٹو ممالک نے امریکہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے وہاں دس عرب ممالک نے بھی داعش کے خاتمے کے لیے امریکی جارحیت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس جارحیت کے دوران جہاں امریکی فوجی فضائی حملے کریں گے وہاں عرب ممالک زمینی حمایت فراہم کریں گے۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے ’’نرم‘‘ (Moderate) اپوزیشن گروہوں کی سعودی عرب میں تربیت بھی کی جائے گی۔ یہ وہی سعودی عرب ہے جہاں سے ماضی میں پوری دنیا کے بنیاد پرست گروہوں کو کھربوں ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔ آج بھی پاکستان، افغانستا ن سے لے کر لیبیا تک درجنوں بنیاد پرست گروہوں کی مالی امداد یہاں سے ہی ہو رہی ہے۔ یہ کون سے ’’نرم ‘‘ گروہ ہیں جنہیں اب آزاد شامی فوج FSA کی بجائے شامی نیشنل کونسلSNC کہا جائے گا اس کا تعین کون کرے گا یہ کسی کو نہیں معلوم۔ شام میں سعودی امداد پر چلنے والی النصرہ فرنٹ اب بہت سی جگہ پر داعش کی حلیف بن چکی ہے۔ اس پر بھی اوباما نے کوئی بات نہیں کی۔ اس پالیسی سے لگتا ہے کہ ایک جانب امریکہ داعش پر جارحیت کر رہا ہے اور دوسری جانب اسی داعش کے حلیفوں کو مسلح بھی کیا جا رہا ہے اور تربیت بھی دی جا رہی ہے۔
امریکہ کی جانب سے بیان دیا گیا ہے کہ عراق پر حملے کے دوران ایران کے ساتھ کوئی عسکری ہم آہنگی موجود نہیں ہوگی تا ہم اس کے ساتھ کسی تعلق کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تعلق کتنا گہرا ہو گا اس پر بات نہیں کی گئی۔ کیونکہ ایران شام میں بشار الاسد کی حمایت کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اور سعودی عرب کے خطے میں سامراجی مفادات کا ٹکراؤ بھی موجود ہے۔ عراق میں اب بھی ایران کی کٹھ پتلی حکومت موجود ہے اور وہ شیعہ علاقوں میں داعش کے خلاف عوامی بغاوت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ اسے خطے میں اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کر سکے۔ داعش سے زیادہ ایرانی حکمران طبقات اس کے خلاف ابھرنے والی بغاوت سے خوفزدہ ہیں۔ اگر یہ بغاوت پھیلتی ہے تو اپنی قیادتیں خود تراشے گی جو ایرانی حکمران طبقے کی حاکمیت کو بھی چیلنج کرے گی اور خود ایران میں ایک وسیع عوامی ابھار کو جنم دے سکتی ہے۔ اس لیے غیر مقبول ہو چکے نوری المالکی کی جگہ حیدر العابدی کو بطور وزیر اعظم لایا گیا ہے۔ لیکن اس سے کچھ بھی حل نہیں ہو گابلکہ تضادات کی شدت بڑھتی جائے گی۔
بشار الاسد کے دشمنوں پر حملہ کرنے والا امریکہ یہ بھی نہیں بھولا ہوگا کہ الاسد کا ایک بہت بڑا ہمدرد روس بھی ہے جس کیخلاف امریکہ یوکرائن میں نہ صرف سفارتی لڑائی لڑ رہا ہے بلکہ اس پر سخت پابندیاں بھی لگائی جا رہی ہیں۔ داعش کے خلاف عراقی حکومت کو مسلح کرنے کے لیے سب سے پہلے روس نے جنگی طیارے فراہم کیے تھے اور بشارالاسد کے خلاف امریکی جارحیت کو روکنے میں بھی پیوٹن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اب بظاہر لگ رہا ہے کہ داعش کیخلاف تمام حکمران قوتیں متحد ہیں لیکن حقیقت میں سب ایک دوسرے پر گھاؤ لگانے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں۔
اس صورتحال میں خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اسرائیل ہے جس نے اسی ماہ غزہ پر بمباری کر کے سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا لیکن اس کے خلاف جارحیت تو دور مذمت کا ایک بیان بھی نہیں دیا گیا۔ خطے میں امریکہ کے اتحادی سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنی عوام کو شاید یہ بتانا بھول گئے ہیں کہ اس جارحیت میں اسرائیل بھی ان کا اتحادی ہے اور شام کے ساتھ اس کی بھی سرحد لگتی ہے۔ دوسری جانب خلیفہ بغدادی نے بھی اسرائیل کی مذمت نہیں کی۔ شاید وہ بے گناہوں کے اتنے بڑے قتل عام سے تسکین لے رہا تھا۔ موصل پر قبضے کے بعد سے خلیفہ بغدادی کی فوج کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق اس کے پاس 30 ہزار تک فوجی موجود ہیں۔ عراق پر جارحیت کے لیے عوامی رائے عامہ بنانے کے لیے اس رپورٹ میں مبالغہ آرائی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ داعش کی قوتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس کے قبضے میں موجود تیل کے کنویں اور لوٹے ہوئے بینکوں میں موجود لاکھوں ڈالر ہیں۔ اسی طرح شکست خوردہ عراقی فوج سے حاصل کیا گیا اسلحہ بھی ان کے قبضے میں ہے جس کی وجہ سے ان کی وحشت بڑھتی جا رہی ہے۔ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں یزیدی، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے قتل عام کے علاوہ وہ شیعوں اور سنیوں کو بھی بڑے پیمانے پر قتل کر رہے ہیں۔ ان سنی قبائل کے سرداروں کو بھی قتل کر دیا گیا جنہوں نے موصل پر قبضے کے دوران ان کا ساتھ دیا۔ اوباما نے کہا ہے کہ عراق میں اب سنی علاقوں میں دوبارہ قبائل پر مشتمل کونسلیں متحرک کی جائیں گی جو داعش کا مقابلہ کریں گی۔ پہلے بھی ان کونسلوں نے داعش کے ساتھ مل کر موصل پر قبضہ کیا تھا کیونکہ عراقی وزیر اعظم مالکی کے خلاف ان میں شدید نفرت موجود تھی۔
عراق کی موجودہ صورتحال میں کرد وں کا قومی مسئلہ بھی پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شمالی عراق میں انہوں نے اپنی علیحدہ نیم ریاست قائم کر لی ہے اور اپنے زیر اثر علاقوں میں موجود تیل کو ترکی کے ذریعے سستے داموں بیچ رہے ہیں۔ داعش کے مقبوضہ علاقوں سے بھی تیل کی فروخت ترکی کی کالے دھن کی منڈی کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اسی لیے ترکی ناٹو کا رکن ہوتے ہوئے بھی امریکی جارحیت میں شمولیت پر ہچکچا رہا ہے۔ اس نے بہانہ بنایا ہے کہ امریکہ چونکہ خود براہ راست مداخلت کی بجائے مقامی لوگوں کی مدد سے جنگ لڑے گا اس لیے اس کا فراہم کیا گیااسلحہ بعد میں ترکی یا دیگر ممالک کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اسی طرح کردوں کے ساتھ ترکی کے تعلقات دوبارہ خراب ہو سکتے ہیں۔ اوباما نے بھی اس مسئلے پر خاموشی اختیار کی اور بتانا بھول گیا کہ کردستان بنے گا یا نہیں۔
صورتحال 2003ء کی نسبت کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے جس کی بنیاد پھر امریکی جارحیت ہی تھی۔ لاکھوں لوگوں کا خون بہانے کے بعد اب مزید خون بہانے کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں حکمران طبقات گدھ کی طرح عراق کی لاش کو نوچیں گے۔ امریکی سامراج جس دشمن کی تلاش میں رہتا ہے وہ اسے اب داعش کی شکل میں مل گیا ہے۔ اسلحے کی صنعت کے مالکوں کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ سابقہ امریکی نائب صدر اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سربراہ ڈک چینی بھی اس موقع پر واشنگٹن پہنچ گیا اورری پبلکن پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ اس نے کہا کہ ہمیں اس جارحیت کی حمایت کرنی چاہیے۔ بہت سے جرائد نے ایسے مضامین شائع کرنے شروع کر دیے ہیں جس میں کہا جا رہا ہے کہ یہ جنگ امریکی معیشت کو بحران سے نکال سکتی ہے۔ 2011ء میں امریکی دفاعی اخراجات اپنی بلند ترین سطح 751 ارب ڈالر پر تھے جو 2014ء میں کم ہو کر 594 ارب ڈالر پر آ گئے ہیں۔ امریکہ پوری دنیا کے دفاعی اخراجات کا ایک تہائی خرچ کرتا ہے اور دنیا میں دوسرے نمبر پر دفاع پر خرچ کرنے والے ملک چین سے تین گنا زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیاں اس جارحیت سے دوبارہ اپنے منافعوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ کر سکیں گی۔ 2010ء میں امریکہ نے جی ڈی پی کا 4.7فیصد دفاع پر خرچ کیا جو 2014ء میں کم ہو کر 3.5 فیصد ہو گیا ہے۔ کہا جار ہا تھا کہ 2024ء میں یہ جی ڈی پی کا 2.7 فیصد ہو جائے گا۔ لیکن اب اس جارحیت سے اس کا رخ دوبارہ اوپر کی جانب کرنے کا واویلا کیا جا رہا ہے۔ دو صحافیوں کے ذبح ہونے کے بعد عوامی رائے عامہ بھی اس جارحیت کے لیے ہموار ہو چکی ہے۔
لیکن رائج الوقت دانشوروں کی اکثریت کی رائے کے برخلاف اس جارحیت سے کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مذہبی بنیاد پرستی ایک ایسا دیو ہے جس کا ایک سر کاٹیں گے تو درجنوں نئے سر اُگ آئیں گے۔ ایک خلیفہ کا خاتمہ کئی نئے خلیفوں کو جنم دے گا۔ القاعدہ کے خلاف لڑائی پہلے ہی کئی نئے گروپوں کو جنم دے چکی ہے۔ پاکستان میں طالبان کے خلاف ہر آپریشن کئی نئے طالبان کو جنم دیتا ہے۔ کیونکہ جب تک وہ زرخیز زمین ختم نہیں کی جاتی جس پر یہ زہریلی قوتیں پلتی ہیں اس وقت تک ان کے خلاف لڑائی یا آپریشن صرف ایک دھوکہ ایک فریب ہے۔ یہ زہر وہ مالیاتی بنیادیں ہیں جو اس سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں۔ نظام کا زوال ریاستوں اور سامراجی قوتوں کو بھی ٹوٹنے اور بکھرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ان قوتو ں کواپنی باہمی لڑائی میں ایسے گروہوں کی ضرورت پڑتی ہے جن میں انہیں اپنے سامراجی مفادات کے لیے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ گروہ طاقتور ہو کر اپنے مالک کے خلاف ہی اٹھ کھڑے بھی ہوتے ہیں۔ اور جس طرح اب عراق میں ہو رہا ہے کہ دیو اپنے مالک کے خلاف ہی بر سر پیکار ہو جاتا ہے۔ اس بلا کے خاتمے سے نظام کا زوال ختم نہیں ہو گا بلکہ اس میں شدت آئے گی۔ ان حکمرانوں کے لیے ایسی قوتوں کی ضرورت موجود رہے گی اور یہ خونی سلسلہ زیادہ شدت کے ساتھ جاری رہے گا۔
داعش اور اس جیسی دیگر مذہبی بنیاد برست وحشتوں کو ختم کرنے کے لیے سامراجی جارحیت نہیں بلکہ ایک سماجی معاشی انقلاب کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے 2011ء کا عرب انقلاب مشعل راہ ہے۔ گو کہ اس انقلاب سے ظاہری طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور دوبارہ وہی ریاست اسی نظام کے تحت موجود ہے۔ لیکن اس انقلاب نے نہ صرف محنت کشوں کی انقلابی قوت کو عیاں کیا ہے بلکہ امید کا ایک راستہ بھی روشن کیا ہے۔ اگر 2011ء میں مصر یا تیونس میں بالشویک طرز پر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو آج پورے مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال مختلف ہوتی۔ عرب انقلاب سے پہلے امریکی سامراج کی جانب سے اسامہ بن لادن کو عرب عوام پر مسلط کیا گیا تھا اور تمام بحثیں اور منصوبہ بندی اسی خطرے کے گرد ہوتی تھیں۔ لیکن عرب انقلاب نے اس کوغرق کر دیا اور بنیادی طبقاتی تضاد کو اجاگر کیا۔ اسی انقلاب نے عرب حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں اور واشنگٹن میں خطرے کے الارم بجنے لگے۔ پورے خطے میں ایسی کوئی بھی تحریک اگر دوبارہ ابھرتی ہے تو تمام صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کی عدم موجودگی میں سامراجی وحشت اور بنیاد پرستی کی وحشت بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنا جاری رکھیں گی۔ دوستیاں دشمنیوں میں بدلیں گی اور دشمن دوست بنیں گے۔ نظام کا زوال ان حکمران طبقات اور ان کی بنائی ہوئی ریاستوں کو مسلسل کھوکھلا کرتا چلا جائے گا۔ مشر قِ وسطیٰ میں پہلی عالمی جنگ کے بعد لگائی گئی لکیریں خود اس نظام کے زوال میں مزید بکھریں گی۔ موجودہ عہد میں استحکام، مضبوط ریاست اور معاشی خوشحالی جیسے الفاظ ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ اس بد قسمت خطے کے محنت کش عوام کے پاس آگے بڑھنے کا واحد رستہ سوشلسٹ انقلاب ہے جس کے لیے مارکسی نظریات سے لیس ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایسی ہی ایک مضبوط قوت ایک انقلاب کی قیادت کر کے تمام مصنوعی لکیروں کا خاتمہ کرتے ہوئے قوم، رنگ، نسل، فرقے اور مذہب سے بالا تر ہو کر ایک طبقاتی لڑائی کا انت کرے گی۔ مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن ہی اس خطے کے عوام کو اس اذیت ناک زندگی سے نجات دلا سکتی ہے جس میں سامراجی جبر کا بھی خاتمہ ہو گا اور بنیاد پرستی کی جڑیں بھی اکھاڑ دی جائیں گی۔

متعلقہ:
ایک سکے کے دو رخ
’’یورپی جہادی‘‘
بکھرتا ہوا عراق!
عراق: کالی آندھی کا اندھیر!