تحریر: لال خان
4 نومبر کو لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے سعودی عرب کے نیم سرکاری دورے پر ایک غیر معمولی اقدام کیا جب اس نے ایک دوسرے ملک کے دارالحکومت سے خصوصی ٹیلی ویژن پیغام میں اپنا استعفیٰ دے دیا۔ ایسے اقدامات دنیا کی حالیہ تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ محض ایک استعفیٰ نہیں ہے بلکہ یہ اقدام خطے میں کئی اقسام کی جنگوں، خانہ جنگیوں اور پراکسی جنگوں کی غارت گری کی آگ کے لبنان میں داخل ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔ برطانیہ کے سینئر صحافی رابرٹ فِسک، جس نے اپنی عمر کا ایک طویل حصہ لبنان میں بِتایا ہے، نے ’انڈیپنڈنٹ‘ میں لکھا، ’’جن حالات میں (حریری نے) یہ استعفیٰ دیا ہے وہ پرتعیش محصوری ،گرفتاری، اغوا یا ایک شاہی مہمان کی حیثیتوں میں سے کوئی بھی ہوسکتے ہیں۔‘‘ سعد حریری کے بچے اور خاندان پہلے سے ہی ریاض میں قیام پذیر ہیں اور سعودی شاہی خاندان سے اس کے تعلقات بھی کافی پرانے ہیں۔
پچھلے عرصے میں لبنان میں جونئی مخلوط حکومت بنی اس میں شیعہ گروپ ’حزب اللہ‘ کی شمولیت سے سعودی فرمانروا نالاں تھے۔ چند ہفتے قبل ایران کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے علی اکبر ولایتی کی سربراہی میں لبنان کا دورہ کیا اور سعد حریری نے ان کے ساتھ چند معاہدے بھی کیے۔ جرمن خبررساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق یہ ملاقات حریری کے ’’جبری‘‘ استعفے کا باعث بنی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حریری سے اس کا موبائل فون تک قبضہ میں لے لیا گیا تھا۔ عجیب لگتا ہے کہ ایک ملک کا وزیر اعظم دورے پرجاتا ہے اوردور دراز کے شہروں میں اس کا استعفیٰ ٹیلی ویژن پر سنوایا جاتا ہے۔ اتوار 12 نومبر کو ریاض میں حریری نے لبنان کے ہی ایک ٹیلی ویژن چینل کو دو گھنٹے کا طویل انٹرویو دیتے ہوئے ایران اور حزب اللہ کی جانب سے لبنانی حکومت کو یرغمال بنائے جانے کا دعویٰ کیا۔ اس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں حزب اللہ کو یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ اگر لبنان کو بچانے میں آپ کی دلچسپی ہے تو لبنان سے دور دراز علاقوں میں مداخلت بند کر دی جائے۔ یمن میں آپ کی مداخلت سے پیشتر (سعودی ) بادشاہت کی حزب اللہ کے خلا ف اتنی سخت پوزیشن نہیں تھی۔‘‘
اس استعفے کے واقعہ سے کچھ روز قبل سعودی عرب پر یمن سے ایک ایرانی ساخت کا میزائل داغا گیا تھا۔ اس کا الزام سعودی حکام نے حزب اللہ پر ہی عائد کیا۔ گو پچھلے چند سالوں کی پورے خطے میں شدت پکڑتی ہوئی پراکسی جنگوں کی لبنان میں بڑی مداخلت نہیں رہی تھی لیکن لبنان کی اپنی تاریخ میں بہت سے ایسے ادوار ہیں جہاں خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ خونریزی رہی ہے۔ لبنان ‘1516 ء سے 1918ء تک سلطنت عثمانیہ کے اس خطے پر مبنی صوبے ’لیوانت‘ کا حصہ تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب مغربی سامراجیوں خصوصاً برطانیہ اور فرانس نے اس خطے کے وسائل کولوٹنے اور بندر بانٹ کے لیے لیوانت کو مختلف ملکوں میں تقسیم کیا تو لبنان فرانسیسی سامراجیوں کے ’’حصے‘‘ میں آیا تھا۔ لیکن جن حصوں پر لبنان تشکیل دیا گیا ان میں دروز، شیعہ، میر ونائٹ عیسائی اور سنی آبادیوں کے تناسب بڑے تھے۔ فرانسیسی سامراجیوں نے لبنان کو مزید گرفت میں کرنے کے لئے ان مذہبی تفریقوں کواتنا طول اورابھاردیا کہ 1946ء کے بعد کے آئین،جو نام نہاد آزادی کے بعد لبنان میں رائج ہوا تھا، کے مطابق حکومتوں کی تشکیل بھی انہی مذاہب کے گرد ہوئی۔ اس آئین کے تحت صدر کامیرونائیٹ عیسائی ہونا (موجودہ مائیکل آؤن)، وزیر اعظم سنی مسلمان ( موجودہ سعد حریری) اور پارلیمانی سپیکر شیعہ (موجودہ نبی بیری) ہونا قرار پایا تھا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد لبنان میں قدرے امن اور خوشحالی کے ادوار بھی آئے۔ زراعت اور سیاحت معیشت کے بڑے حصے تھے۔ لبنان کو 1960ء کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ کا سوئٹر ز لینڈ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ لبنان میں سرسبز اور خوبصورت پہاڑوں سے لے کر بحر روم کے ساحل تک حسین مناظر پائے جاتے ہیں۔ بیروت کو مشرق کا پیرس بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن لبنان میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر مستقل امن ، ترقی اور استحکام ممکن نہیں تھا۔ اس لیے 1970 ء کے بعد لبنان میں خونریزی اور فرقہ وارانہ و مذہبی خانہ جنگی کا آغاز ہوا جو 1975 ء سے1990 ء تک جاری رہی۔
1990ء کے ’’امن‘‘ کے بعد اس خانہ جنگی سے سب سے مضبوط ہو کر باہر آنے والا جنگجو گروپ حزب اللہ تھا۔ اس کے باوجود کہ بعد کے عرصے میں سعودی عرب ،خلیجی بادشاہتوں، امریکہ اور چند یورپی ممالک نے حزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ لیکن اسکی قوت میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس کا پہلا بڑا اظہار اس وقت ہوا جبکہ 2006 ء میں اسرائیل لبنان جنگ برپا ہوئی تھی۔ جس میں1200 لبنانی باشندے اور 160 اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے۔ لیکن یہ جنگ لبنانی قومی فوج کی نسبت کہیں بڑے پیمانے پر حزب اللہ نے لڑی تھی۔ اسرائیلی حملے کی ایک بڑی وجہ بھی حزب اللہ کے خاتمہ کی کوشش تھا۔ لیکن اتنی شدید مزاحمت کے بعد اسرائیلی فوجوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ یہ حزب اللہ کے مشرقِ وسطیٰ میں وسیع تر اثرورسوخ کا باعث بنا۔ اس وقت بھی حزب اللہ کی عسکر ی طاقت لبنان کی قومی فوج سے زیادہ ہے۔ ایران کے ساتھ چونکہ حزب اللہ کے فرقہ وارانہ اور سٹرٹیجک تعلقات ہیں اس لیے حزب اللہ کو ایرانی ملاں اشرافیہ اپنے علاقائی غلبے کے مفادات کے لئے استعمال کرتی رہی ہے۔ موجودہ وقت میں حزب اللہ کی عسکری قوتیں شام، عراق، یمن اور دوسرے خطوں میں چلنے والے تنازعات میں سعودی بادشاہت کے لیے سب سے زیادہ دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شام میں2015ء تک بشار الاسد کی حکومت کے پاس صرف ایک تہائی حصہ رہ گیا تھا لیکن حزب اللہ کے عسکری ونگ کی مداخلت اور کسی حد تک روسی و ایرانی پشت پناہی سے اب شام کی سرکاری فوج کو دو تہائی سے زائد شامی سرزمین پر دوبارہ قبضہ حاصل ہوچکا ہے۔
ایرانی ملاؤں نے ہمیشہ بیرونی تصادموں کو داخلی تسلط قائم رکھنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ پہلے صدام کے عراق سے جنگ، پھر امریکہ سے سفارتکارانہ پراپیگنڈہ جنگ اور اب سعودی عرب کے ساتھ پورے خطے پر غلبے کی باہمی پراکسی جنگوں میں جہاں بیرونی تسلط کے عزائم ہیں وہاں داخلی مقاصد زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری جانب سعودی حکمرانوں کو پورے خطے میں اپنے اثرورسوخ کے سکڑنے اور ایرانی پھیلاؤسے شدید تشویش لاحق ہے۔ یہ تناؤ اب مزید بلاواسطہ تصادموں کو ابھار رہا ہے۔ سعد حریری اور لبنانی’’سنی‘‘ سرمایہ داروں کے سعودی عرب سے جو مالیاتی تعلقات ہیں اب ان کو استعمال کرکے وہ لبنان میں حزب اللہ کے گڑھ پر ضرب لگانا چاہتے ہیں تاکہ پورے خطے میں پھیلتی ہوئی اس کی عسکری کاروائیوں کو روکا جاسکے۔ لیکن قطر پر پابندیوں سے لے کر یمن کی جنگ تک ان کے تمام منصوبے ناکام ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس لئے ایران سے تناؤ اور خطے میں مزید بربادیوں کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے یہ بیان دیا ہے کہ اب سعودی عرب اسرائیل سے حملہ کروا کے حزب اللہ پر وار کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسرائیلی دباؤ کو زائل کرنے کے لئے حزب اللہ براہ راست سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر حملہ کر دے۔
یہ رجعتی حاکمیتیں اب فرسودہ، کھوکھلی اور زیادہ زہریلی ہو کر عام انسانوں کی زندگیوں کو تاراج کر رہی ہیں۔ 2011ء میں پورے خطے میں انقلابی لہر ایک بغاوت بن کر ابھری تھی۔ اس کی قیادت نے اسکے مقصد پر جمہوریت کی چھاپ لگا کر اس کو ڈبو دیا۔ اس پسپائی کا نتیجہ آگ اور خون کی اس ہولی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ لیکن نوجوانوں اور محنت کشوں نے اس خطے میں جس تلخ تجربے کے انجام میں زندگیاں برباد ہوتی ہوئی دیکھی ہیں وہ اب جب ابھریں گے تو ان کامقصد پورے نظام کے خلاف انقلاب ہوگا۔ اس نظام کو اکھاڑے بغیر اب یہاں امن واستحکام ممکن نہیں۔