ایران میں صدارتی انتخابات: عوام کا نیا ابھار، خامنائی پر کاری ضرب

[تحریر :حمید علی زادے، ترجمہ:اسدپتافی]
ایران میں صدارتی الیکشن ہو چکے ہیں اور روحانی ملک کا نیاصدر بن گیاہے۔ یہ ملک پر براجمان خامنائی کی واضح شکست ہے۔ صرف اس کی ہی نہیں بلکہ ایرانی ریاست کے سیکورٹی ڈھانچے پر کاری ضرب ہے۔ الیکشن نتائج سامنے آتے ہی لوگ گھروں سے باہر نکل پڑے اور ملک بھرکی سڑکیں لوگوں سے بھرنی شروع ہو گئیں۔ لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر امڈے ہوئے تھے، جیسے ان میں کوئی بجلی کوند گئی ہو۔ بیشتر مقامات پر یہ جشن احتجاج اور نعرے بازی میں بھی تبدیل ہوگیاجن میں ’’سیاسی قیدیوں کو رہاکرو‘‘، ’’یاحسین، میر حسین‘‘ (میر حسین موسوی، اصلاح پسند لیڈر کی طرف اشارہ جسے نظربند رکھاہواہے )، ’’الوداع الوداع احمدی الوداع‘‘ جیسے نعرے شامل تھے۔ ملک کے ہر بڑے شہر میں لوگوں نے یہ نعرے لگائے۔ ایک فوٹوگرافر نے بتایا کہ میں نے زندگی میں آج تک لوگوں کو اس قدر خوش نہیں دیکھا۔ ایران کے دوسرے بڑے شہرمشہد سے ملنے والے ایک اطلاع کے مطابق’’لوگ صبح ڈھائی بجے تک گرمجوشی کی کیفیت میں رہے۔ ایسی صورتحال اس سے پہلے تب دیکھی گئی تھی کہ جب ایران اور آسٹریلیا کے مابین فٹبال میچ ہوا تھا۔ تیس لاکھ آبادی کا یہ شہر لوگوں سے کھچا کھچ بھراہوا تھا۔ شاید دس لاکھ لوگ ہوں گے جو کہ سڑکوں پر تھے۔ دور دور تک نہ تو کہیں پولیس نظر آئی نہ ہی باسیج۔ احمد آباد اور تقی آباد جو کہ زیادہ تر مڈل کلاس پر مشتمل شہر ہیں، وہاں بھی سیاسی نعرے بازی کی گئی جن میں سیاسی قیدی رہاکرنے جیسے نعرے شامل تھے۔ یوں ایسا لگ رہاتھا کہ جیسے ان شہروں میں کوئی جشن منایا جارہاہو کیونکہ لوگ حددرجہ خوش تھے‘‘۔ جو بات حیران کن تھی وہ یہ کہ اتنی بھیڑچال اور ہجوم میں بھی لوگ بہت ہی مطمئن تھے۔ عام طورپر لوگ پریشان حال اور غم وغصے کی حالت میں ہوتے ہیں۔
چار سال پہلے کے صدارتی الیکشن کے بعد سامنے آنے والی تحریک کو تب حکومت نے سختی سے کچل دیاتھا۔ اس کے بعد سے لوگوں میں یاسیت اور چڑچڑاپن آگیاتھا۔ لیکن آج ایسا لگ رہاتھا کہ یہ عام لوگ ایک بارپھر اپنی قوت مجتمع ہی نہیں کر چکے بلکہ اسے محسوس بھی کررہے ہیں۔ انہیں ادراک تھا کہ وہ حکومت کادھڑن تختہ کرچکے ہیں۔

ووٹ کس کیلئے؟
الیکشن جیتنے والے روحانی نے ایک ہفتہ پہلے ہی حکومت مخالف ووٹ کو اپنے گرد اکٹھا کرلیاتھاایران بھر میں ہونے والے اس کے جلسوں میں نئی نسل نے بھرپورطریقے سے شرکت کی۔ ان جلسوں کے دوران ہونے والی نعرے بازی کی شدت نے الیکشن کو ریڈیکل بنانا شروع کردیا۔ حالانکہ روحانی یہ کہہ چکاتھا کہ وہ نہ تو حکومت کا مخالف ہے اور نہ ہی وہ کوئی اصلاحات کا خواہاں ہے۔ لیکن جیسا کہ جریدے فنانشل ٹائمز میں رپورٹ ہوا ہے ’’ساری دنیا میں لوگ ایک شخص کو ووٹ دے کر جتواتے ہیں، لیکن یہاں ہم سب نے ووٹ دیا کہ ’’ایک امیدوار نہ جیتنے پائے‘‘۔ اور یہی وہ راز ہے جو روحانی کی کامیابی کے پیچھے پنہاں ہے۔
اگر حقیقی قومی سطح کی تنظیمیں موجود نہ ہوں توعوام لامحالہ اسی کو ہی آزمائیں گے کہ جواس وقت ان کے سامنے ہوگااور اسی طرح سے ہی وہ اپنی امنگیں ا ور آرزوئیں سامنے لاتے ہیں۔ اس کیفیت میں روحانی کو ملنے والی وسیع عوامی تائید اس کی ذات یا اس کی سیاسی سوچ کیلئے نہیں تھی بلکہ عوام کیلئے وہ ایک ایسا مرکز بن گیا جس کے ذریعے وہ حکومت سے اپنی نفرت وحقارت کا سیاسی اظہار کر سکتے تھے۔ روحانی کی حمایت کو ملائی آمریت اور جمہوری حقوق کی عدم فراہمی، غربت، بے یقینی، بدعنوانی، انقلابی گارڈز اور خامنائی سمیت حاوی ڈھانچے کے خلاف احتجاج سمجھا جانا ضروری ہے۔

عوام کی دوبارہ بیداری
عوام کی اس نوعیت اور شدت کی مداخلت نے مکمل طورپر ایرانی حکمران طبقات کے منصوبوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیاہے۔ روحانی نے ایک سرچڑھے لیڈر کی طرح نوجوانوں سے پر جوش خطابات کے باوجود یہ کوشش بھی کی کہ عوام کا جوش وجذبہ کسی طور کسی تحریک کی صورت نہ اپنالے۔ اپنی ساری مہم کے دوران وہ خود کو نئی نسل کا نمائندہ قراردیتارہا اور الیکشن کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں اس نے اپنی فتح کو ’’دانش، جدت، ترقی، شعور، استقامت، شدت پسندی اور بے راہروی کے خلاف رواداری و شائستگی کی فتح‘‘ قراردیا۔
لیکن اس سب لفاظی سے الگ تھلگ اس کے جلسوں میں شریک ہونے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ ایک واضح اشارہ کرتے ہیں کہ سطح کے نیچے لوگ اب دوبارہ شکتی حاصل کر چکے ہیں۔ لوگوں کا یہ دیوہیکل دباؤ ہی ہے جو حکمران طبقات کو آپس میں سرپھٹول پر مجبورکررہاہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو ہر قسم کے جبروتشددکے ذریعے نیچے سے لوگوں کی تحریک کو کچلنے کا کہہ رہے ہیں تو دوسری جانب وہ جو اصلاحات کر کے لوگوں کا اضطراب اور غم وغصہ کم کرنا چاہ رہے ہیں۔ درحقیقت دونوں درست سمجھ رہے ہیں۔ حکمران ایسی حالت میں ہیں کہ ان کے پاس اب سازش اور منصوبہ بندی کی گنجائش کم رہ گئی ہے۔
صورتحال میں نئی نسل کی شمولیت مستقبل میں ممکنہ انقلابی ابھار کا واضح اعلان ہے۔ نوجوان ہی کسی سماج کا بیرومیٹرہواکرتے ہیں اور یہاں وہ اپنا انقلابی رحجان اور موڈ دکھا بھی چکے ہیں۔ فطری طورپر وہ اپنا اظہار جمہوری طورطریقوں سے کریں گے۔ اس کے علاوہ راستہ بھی کیا ہے ؟ ایک دم گھونٹ کے رکھ دینے والی آمریت اور کسی انقلاب کی نام لیوا پارٹی کی غیر موجودگی میں انقلاب کی آرزومند نئی نسل کے پاس چارہ ہی کیا بچتاہے ؟
فی الوقت عوام روحانی کے گرد جمع ہوئے ہیں کہ اور کوئی متبادل ہی دستیاب نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اب لوگوں کو اصلاح پسندی کے سکول سے سبق حاصل کرنے ہیں۔ روحانی عوام کا نہیں، بازار، نجی سرمائے اور لبرل بورژوازی کا نمائندہ ہے۔ اس کا تانا بانا ایران کی بوسیدہ حکمرانی سے مرتب شدہ ہے جس کا عوام سے کسی طور کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ چاہے تو بھی صورتحال کو نہیں بدل سکتا۔ ایران پر عائد پابندیاں جن کے ختم ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے، ان کی وجہ سے ایرانی حکمران اب بیتابی سے چین کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات استوارکرنے کے چکر میں ہیں۔ لیکں چین کی اپنی معاشی ترقی سستی اور پسپائی کی کیفیت میں جارہی ہے۔
روحانی کے لئے سب سے بہتر راستہ یہی ہوسکتاہے کہ روحانی ایک ’’قومی مفاہمت‘‘ کی حامل حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے جس کے ذریعے مغرب کے ساتھ تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کیلئے کسی حد تک ایران میں جمہوری حقوق بحال کئے جا سکتے ہیں۔ ایسا کر کے روحانی کچھ وقت تواپنے لئے حاصل کرلے گا لیکن اس سے کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہو گا۔ ایران کے تیل کے ذخائر پر حکمرانوں کی لوٹ مار اور اس پر جھگڑے برقراررہیں گے۔
عوام کا جہاں کا تعلق ہے، شاید انہیں سانس لینے کوکچھ کھلا ماحول میسر آجائے جس دوران انقلابی تحریک خود کو ازسرنو منظم اور مرتکز کرلے۔ لیکن جلد یا بدیر، شاید جلد ہی، روحانی نوجوانوں سے غداری کرے گا اور انہیں اپنا مخالف کرلے گا۔ ایران کا محنت کش طبقہ ایک شدید کربناک صورتحال سے دوچار ہے۔ افراط زرایک سو فیصدکے لگ بھگ ہے۔ جبکہ عمومی اجرتوں میں صرف پچیس فیصد اضافہ ہواہے۔ چالیس فیصد آبادی تو روزگار سے ہی باہر ہے اور اگر یہاں کوئی روزگار میسر بھی آجائے تو آپ کو مہینوں کیا سالوں بھی اجرتیں ملنے کے آثار نہیں ہوتے۔ عالمی معیشت کی موجودہ بحرانی کیفیت میں کہ جب سبھی مرکزی صنعتوں کو زائد پیداواری صلاحیت کے بحران اور حقیقی سرمایہ کاری میں شدیدگراوٹ کا سامنا ہے، روحانی کس طرح سے معاملات سے نمٹ یا ان کو سنبھال پائے گا؟
ایسا ہی تضاد روحانی کو اس وقت اپنی لپیٹ میں لے گا جب وہ جمہوری حقوق پر توجہ دے گا۔ آخری تجزیے میں جمہوریت کا سوال روٹی کا ہی سوال ہے۔ جب لوگوں کو روٹی اور روزگار ہی میسر نہیں آئے گا تب کیسے روحانی محنت کشوں، نوجوانوں اورغریبوں کومنظم ہونے اور احتجاج کرنے کا حق دے گا کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کیلئے جدوجہد کریں!ہر جمہوری حق کو عوام، حکومت کے خلاف استعمال کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں ایک مرحلے پر روحانی کا تخت گرجائے گا۔
لوگوں کو یہ بات بتدریج سمجھ آئے گی کہ آمریت، بدعنوانی، غربت اور محرومی، محض چند افرادیا گروہوں کی کارستانی نہیں ہواکرتی۔ بلکہ یہ سب وہ مظاہر ہیں جن کی جڑیں سرمایہ د ارانہ نظام میں سے نکلتی ہیں۔ چنانچہ یہ بات ناگزیر ہے کہ ایک مرحلے پر پہنچ کر تحریک خود نظام کو اپنا ہدف بنائے گی۔
الیکشن کے نتائج نے حکمران طبقات کی بنیادیں ہلا کے رکھ دی ہیں۔ عوام کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے اور اس کی وجہ سے وہ پر اعتماد بھی ہیں اور یہی وہ واحداہم ترین عنصر ہے جو آنے والے وقت میں کام دکھائے گا۔ تمام تر کجی اور کمزوری کے باوجود اس کیفیت نے خامنائی کو اس قدر گھائل کردیاہے کہ جس کا بآسانی مداوا نہیں ہوسکے گا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عوام کو سوائے اپنی طاقت کے کسی اور طاقت پر بھروسہ نہیں ہے۔ انہیں لامحالہ پرعزم، منظم رہناہوگا اورمستقبل کی جانب پیش قدمی کرنی ہوگی۔ سبھی علاقوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں میں ایکشن کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئیں اور ان سب کو مقامی اور ملکی سطح پر باہم منسلک و مربوط ہونا چاہئے تاکہ تحریک کے اگلے مراحل کی طرف بڑھا جاسکے۔
ایران کے عوام طویل اور شاندار انقلابی روایات کے امین ہیں۔ اس ہفتے عوام کا تحرک ملک کے انقلابی مستقبل کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جس کے اثرات مشرق وسطیٰ میں دور تک محسوس کئے جائیں گے، یہی نہیں بلکہ یہ ساری دنیا کو متاثر کرے گا۔ یہ ترک عوام کی مزاحمت کو بھی شکتی فراہم کرے گااوراس کی وجہ سے عرب انقلاب میں آیا ہوا جمودبھی ٹوٹ جائے گاجس سے یہاں اسلامی بنیادپرستی کے خلاف جدوجہدآگے بڑھے گی۔ مارکس وادیوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ واقعات پر گہری نظر رکھیں اور محنت کشوں نوجوانوں کے شانہ بشانہ ان کی جدوجہد میں شریک ہوں۔ ہمیں ہر حالت میں نوجوانوں کو سننا چاہئے اور بہت ہی صبروتحمل کے ساتھ ان پر واضح کرنا چاہئے کہ اس متروک اور گلے سڑے نظام کو اکھاڑ کر ہی انہیں وہ آزادی مل سکتی ہے جس کیلئے وہ نجانے کب سے جستجو اور جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں۔

*تمام سیاسی قیدیوں کو رہاکیا جائے۔
*سب کیلئے اظہار رائے اور منظم ہونے کی آزادی۔
*عوام کو لوٹنے والوں، ان پر جبروتشددکرنے والوں اوران سے زندگیاں چھیننے والوں کو سزائیں دی جائیں۔
*سبھی بنیادی اشیا کو سبسڈائزکیا جائے۔
*آمریت مردہ باد۔
*ایران اور مشرق و سطیٰ کا سوشلسٹ انقلاب زندہ باد۔