| تحریر: لال خان |
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ، اس کے دانشور اور معیشت دان ’’سرمایہ کاری‘‘ کو معاشی ترقی کا جادوئی نسخہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔سامراج کے حکم پر نافذ کی جانے والے دوسری نیو لبرل پالیسیوں کی طرح ’’فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ‘‘ کا مفروضہ ناقص ہی نہیں بلکہ محنت کش طبقے اور پورے سماج کے لئے تباہ کن ہے۔ اس کے باوجود سیاسی افق پر موجود مذہبی دائیں بازو سے لے کر نام نہاد ’’ترقی پسند‘‘ اور سیکولر پارٹیوں تک، سرمایہ داری کو مقدس ماننے والا ہر سیاسی رجحان ’’سرمایہ کاری‘‘کی معاشی پالیسی کا اسیر ہے۔ میڈیا پر ویسے تو معیشت پر بحث ہوتی نہیں کیونکہ معاشی زوال اس قدر شدید ہے کہ حکمران طبقے کے نمائندے اس بارے بات نہ کرنے میں ہی آفیت سمجھتے ہیں۔ معاشی پالیسیوں کی بات اگر کبھی چھڑ بھی جائے تو ’’نجی شعبے‘‘ اور ’’بیرونی سرمایہ کاری‘‘ کے قصیدے ہی پڑھے جاتے ہیں۔گزشتہ تقریباً چار دہائیوں سے دنیا بھر میں نافذ کی جانے والی نیو لبرل پالیسیوں کے معاشی اور سماجی مضمرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن سامراج کے یہ کمیشن ایجنٹ اپنے آقاؤں کی رٹائی ہوئی گردان دہرانے کے سواکر بھی کیا سکتے ہیں؟
عوام کے مقدر کو یرغمال بنانے والے یہ حکمران اور ان کے نمائندے یہ بات کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ جس نظام کو یہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ تاریخی طور پر متروک ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ہی سرمایہ داری بربریت کا روپ نہیں دھار رہی ہے بلکہ ترقی یافتہ مغرب میں بھی آبادی کی اکثریت کا معیار زندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ شرح منافع میں مسلسل اضافے کے پاگل پن پر مبنی یہ نظام پوری انسانیت کو برباد کر رہا ہے۔مختصر ترین وقت میں کم سے کم سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لئے جنگیں بھی کروائی جارہی ہیں اور محنت کا بدترین استحصال بھی جاری ہے۔ملٹی نیشنل اجارہ داریاں پیداواری طریقوں میں مسلسل جدت لا رہی ہیں لیکن اس جدید ٹیکنالوجی کا مقصد نسل انسان کی فلاح نہیں بلکہ شرح منافع میں اضافہ ہے۔ پیداواری صلاحیت آج اس قابل ہے کہ کرہ ارض پرسے غربت، بھوک اور محرومی کو چند سالوں میں ہمیشہ کے لئے قصہ ماضی بنایا جاسکتا ہے اور کام کے اوقات کار کئی گنا کم ہوسکتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتائج بالکل الٹ برآمد ہورہے ہیں۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں کارپوریٹ سرمایہ کاری کا کردار یکسر تبدیل ہو گیا۔ یہ سرمایہ کاری نیا روزگار پیدا کرنے کی بجائے روزگار چھین رہی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے وابستہ ’گوگل‘ جیسی کمپنیوں کے مالکان یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ شرح منافع میں اضافے کے لئے انسانی محنت کو تیزی سے روبورٹس اور مشینوں سے تبدیل کیا جارہا ہے۔ صرف مینوفیکچرنگ میں ہی نہیں بلکہ زراعت اور سروسز کے شعبوں میں بھی یہی رجحان نظر آتا ہے جس کے تحت بیروزگاری ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
دنیا کے مختلف خطوں میں سرمایہ کاری کرنے والی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں وحشیانہ انداز میں ملازمین کو فارغ کر رہی ہیں اور روزگاری کے مواقع مسلسل سکڑ رہے ہیں۔ 1988ء میں اپنے عروج پر، فوٹوگرافی کی مشہور امریکی کمپنی کوڈک (Kodak) کے ملازمین کی تعداد 145000 تھی۔ 2012ء میں یہ کمپنی دیوالیہ ہوئی اور Instagram نے اس کی جگہ لے لی جہاں صرف 13 ملازمین تین کروڑ صارفین کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ملازمین اور صارفین کے تناسب میں تیز گراوٹ کی یہ واحد مثال نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب فیس بک نے 19 ارب ڈالر کے عوض WhatsApp کو خریدا تھا تو اس کمپنی میں صرف 55 ملازمین ساڑھے چار کروڑ صارفین کو سہولیات فراہم کر رہے تھے۔
صرف 2005-06ء میں بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کی طرف سے ختم کی جانے والی نوکریوں کے اعداد و شمار صورتحال کو واضح کر دیتے ہیں۔آٹوموبائل کے شعبے میں مرسڈیز بنانے والی کمپنی نے 2006ء میں چھ ہزار نوکریاں ختم کیں اور یہ عمل تاحال جاری ہے۔ فورڈ نے 2012ء میں اپنے 14پلانٹ بند کئے اور تیس ہزار ملازمین کو فارغ کیا۔ Sony نے 2006ء میں بیس ہزار ملازمین کو فارغ کیا۔ سونی کی حریف کمپنی Sanyo نے بھی اسی سال 14 ہزار نوکریاں ختم کیں۔ ہندوستان کے ارب پتی لکشمی متل نے 2005ء میں اپنی سٹیل انڈسٹری میں سے چند سالوں میں 45 ہزار نوکریاں ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بات کریں تو ’اوریکل کارپوریشن‘ نے 2005ء میں پانچ ہزار ملازمین کو فارغ کیا۔ اس کی حریف کمپنی HP نے اسی سال تقریباً بیس ہزار ملازمین کو فارغ کیا۔AT&T اور SBC کے انضمام کے بعد دس ہزار سے زائد نوکریوں کا خاتمہ کیا گیا۔اسی طرح AOL نے MCI کارپوریشن کو خریدنے کے بعد سات ہزار ملازمین کو فارغ کیا۔ ’پراکٹرایند گیمبل‘ کے سی ای او نے مارچ 2005ء میں بڑے فخر سے بیان دیا کہ ’’ہم اپنے ملازمین کی تعداد 40 ہزار سے کم کر کے 28 ہزار پر لے آئے ہیں۔‘‘بینکنگ سیکٹر میں ’بینک آف امریکہ‘ نے 2006ء میں 35 ارب ڈالر کا منافع کمایا اور ایک کمپنی کو ضم کرنے کے باوجود بھی چھ ہزار نوکریاں کم کر دیں۔
ورلڈ اکانومک فارم کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے رابرٹ رائیک کے مضمون کے مطابق ’’نئی ٹیکنالوجی صرف جسمانی محنت کی ہی نہیں بلکہ ذہنی کام کی جگہ بھی لے رہی ہے۔ جدید سنسر، آواز کو پہچاننے والے آلات اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس وغیرہ کے ذریعے ذہین روبورٹ بنائے جارہے ہیں جو انسانی حرکات و سکنات اور حتیٰ کہ ایک دوسرے سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کا خیال ہے ’’پروفیشنل‘‘ ہونے سے آپ کی نوکری بچ سکتی ہے تو اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں…پروفیشنل نوکریاں فراہم کرنے والے دو شعبے، یعنی تعلیم اور صحت پر ’کاسٹ کٹنگ‘ کا دباؤ سب سے زیادہ ہے اور یہاں بھی جدید مشینیں انسانوں کی جگہ لینے کو ہیں۔ جب کم سے کم لوگ زیادہ سے زیادہ کام کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ منافع چند ہاتھوں میں مرتکز ہورہا ہے…جبکہ باقی لوگوں کے لئے وہ بچی کھچی ذاتی نوعیت کی نوکریاں ہیں جو فی الحال مشینیں نہیں کر سکتی…لیکن ان نوکریوں میں اجرت بہت کم ہے۔‘‘
نوکریوں میں کمی کا مطلب قوت خرید میں کمی ہے جس کا ناگزیر منڈی میں سکڑاؤ اور معاشی بحران ہے جو 2008ء کے بعد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ’فوربز‘ پر شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ’’امریکہ میں 1950ء میں فیکٹری میں کام کرنے والا ایک اوسط امریکی محنت کش 19500 ڈالر کی پیداوار کر رہا تھا، 1976ء میں فی مزدور پیداوار دوگنا ہو کر 38500 ڈالر ہو گئی، 1997ء میں یہ پیداوار ایک بار پھر دوگنا ہو کر 74400ڈالر ہوگی اور 2010ء میں پھر سے فی مزدور پیداوار دوگنا ہو کر 152800 ڈالر ہو گئی۔ پچھلے سال فی مزدور پیداواری صلاحیت 1947ء سے دس گنا زیادہ تھی۔‘‘(تمام اعدادوشمار 2011ء کے ڈالر میں)
جس نظام کے تحت ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بیروزگاری اور غربت مسلسل بڑھ رہی ہو تو پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں صورتحال کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا۔ بیروزگاری کے اعداد و شمار تو دور کی بات یہاں ریاست کو ملکی آبادی کا بھی پتا نہیں ہے۔ یہ حکمران اور ان کے سامراجی آقا تاریخی طور پر متروک، معاشی طور پر دیوالیہ اور اخلاقی طور پر انسان دشمن نظام کو واحد ’’متبادل‘‘ بنا کر اپنی سیاست اور صحافت کے ذریعے پورے سماج پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ منڈی کی انارکی، استحصال اور منافع پر مبنی اس معیشت کو انسانی ضروریات کے تابع سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت سے تبدیل کرنے کی بات بھی یہاں کے ’’دانشور‘‘ سننے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن تاریخ میں بھلا کب، کوئی حکمران طبقہ نے اپنی ملکیت، مراعات اور عیاشیوں سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہوا ہے؟ انقلاب اور صرف سوشلسٹ انقلاب اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں چلنے والی وہ معیشت استوار کر سکتا ہے جس میں پیداوار کا مقصد منافع کی بجائے سماجی ضروریات کی فراہمی ہو گا اور ٹیکنالوجی زحمت بننے کی بجائے انسانی زندگی کو سہل بنائے گی۔
متعلقہ: