[اہتمام: PTUDC مظفرآباد]
طارق جاوید چوہدری ڈی جی آفس ہیلتھ کے ملازم اور بیس سال سے ہیلتھ ایمپلائز کے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں۔ آج کل ہیلتھ ایمپلائز آرگنائزیشن کے صدر ہیں۔ اور ملازمین کی حالیہ علامتی ہڑتال جوکہ دو ماہ سے جاری ہے۔ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
آپ نے سیاسی جدو جہد کا آغاز کب سے کیا؟
جواب: جب میں نے CMH مظفرآباد میں ملازمت اختیار کی تو وہاں پر اوقاتِ کار کا کوئی شیڈول نہیں تھا۔ جمعہ کو بھی چھٹی نہیں ہوتی تھی اور انتظامیہ جب چاہے کام پر بلا سکتی تھی میں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی، ملازمین نے پروپیگنڈہ کیا اور ہم اپنے لئے اوقات کار کا شیڈول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس طرح اپنی ملازمت کے آغاز سے ہی میں نے استحصال کے خلاف آواز بلند کئے رکھی۔
حالیہ ہڑتال اور تحریک کے حوالے سے کچھ بتائیں؟
جواب: ہمارے ملازمین بہت استحصال کا شکارتھے۔ انتظامیہ میں ہماری نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ ہمارا یہ مطالبہ تھا کہ انتظامی عہدوں میں ڈاکٹروں کے ساتھ دوسرے ملازمین کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کی طرح ہمیں بھی ہارڈ ایریا الاؤنس ملنا چاہیے اور سروس اسٹرکچر کے تحت ہمیں مراعات ملنی چاہئیں۔ اس حوالے سے ہم نے دو ماہ سے علامتی ہڑتال جاری رکھی۔ اور ابھی بھی ہم جد وجہد کر رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل کے درمیان اختیارات کی جنگ ہے؟
جواب: یہ سراسر پروپیگنڈہ ہے۔ ہیلتھ ایمپلائز میں ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ ہم ان کے مسائل سے بھی آگاہ ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ PMA اور ہیلتھ ایمپلائز ایک ہی پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوکر جدو جہد کریں۔ ڈاکٹروں کے مساوی اختیارات کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بات سننے والا بھی کوئی ہو۔ اور ہمارے نمائندے ہر جگہ ہوں جیسے DHO کے ساتھ اسسٹنٹ ہمارا ہو۔ ایم ایس کے ساتھ ڈی ایم ایس ہمارا ہو۔ ہمیں ہیلتھ کے حوالے سے ہر پلیٹ فارم پر نمائندگی کا موقع دیا جائے۔ تاکہ ہم اپنے مطالبات پیش کر سکیں۔ جب ہارڈ ایریا الاؤنس کا فیصلہ ہوا تو ہمیں نظر انداز کر دیا گیا حالانکہ دور دراز علاقوں میں ڈاکٹر بہت کم جاتے ہیں۔ وہاں ہم ہی لوگ صحت کی سہولیات دے رہے ہیں۔
ساری دنیا میں محنت کش اپنے حقوق کے لئے اٹھ رہے ہیں۔ آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
جواب: ہم خود کو عالمی محنت کش طبقے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسی لئے ہم کارل مارکس کے دیئے ہوئے نعرے ’ساری دنیا کے محنت کشو ایک ہوجاؤ‘ کے تحت اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں۔
آپ کیا سمجھتے ہیں اپنے مسائل کے حوالے سے محنت کشوں کا اتحاد کس حد تک ضروری ہے؟
جواب: پوری دنیا کے حکمران طبقات آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ہم اس بات کو سمجھتے ہیں۔ جب تک ہم محنت کش آپس میں متحد ہوکر ایک ہی پلیٹ فارم پر نہیں آتے کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہ طبقاتی جنگ ہے۔ اسے منظم انداز میں لڑنا ہوگا۔ محنت کشوں کو ایک ہونا پڑے گا۔
اس حوالے سے آپ نے کیا کوشش کی ہے؟
جواب: ہم نے جوائنٹ سپریم کونسل بنائی ہے۔ جس میں 22 ٹریڈ یونین کے ملازمین ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوپائے اس کے علاوہ پاکستان سے باہر بھی ہم محنت کشوں کی تنظیموں سے رابطے میں ہیں۔ اس حوالہ سے ہمیں یکجہتی کے لئے اکثر پیغامات موصول ہوتے ہیں۔
آپ کے علم میں ہوگا کہ سرمایہ داری کے عالمی بحران کے تمام تر اثرات محنت کشوں پر مرتب ہو رہے ہیں بے روزگاری، مہنگائی اور کٹوتیاں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، حل کیا ہے؟
جواب: جیسے کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ طبقاتی لڑائی ہے۔ حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں IMF، ورلڈ بینک اور دوسری اجارہ داریوں نے دنیا کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جب تک دولت اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی یہ جنگ جاری رہے گی۔ محنت کشوں کو رنگ، نسل، کام اور مذہب جیسے تعصبات سے بالا تر ہو کر متحد ہونا ہوگا صرف اسی صورت میں جیتا جا سکتا ہے۔
مستقبل کی جد وجہد اور حالا ت کے حوالے سے آپ کیا ارادہ رکھتے ہیں؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تو لڑائی کا آغاز ہے۔ یہ تو لمبا سفر ہے۔ طبقاتی جنگ ناگزیر ہے۔ محنت کشوں کے پاس جد وجہد کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ ہم نے اپنے مطالبات کے حق میں ابھی منشو ر چھاپنا ہے۔ اور جہاں تک ہوسکا دوسرے ملازمین کے پاس بھی جائینگے اور حتمی فتح تک لڑائی جاری رکھیں گے۔ میں آپ لوگوں کا اور PTUDC کا بھی شکر گزار ہوں۔ ہمیں مل کر محنت کشوں کی نجات کے لئے لڑنا ہوگا۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کا اعتماد بھی جیتنا ہوگا۔