[انٹرویو: شیرجان]
راجہ ظریف 9 سال سے یونین میں بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہو رہے ہیں اور محنت کشوں کے حقوق کے لئے سیاست کر رہے ہیں۔
آپ مزدور سیاست میں کیوں آئے؟
ج: ہمارے پی ڈبلیو ڈی کے مزدور بہت زیادہ پِسے ہوئے ہیں۔ ہمارے مزدوروں کو مختلف طریقوں سے ہر وقت دبایا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی جس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنے محنت کش بھائیوں کیلئے جدوجہد کا آغاز کروں۔
اس میں کس حد تک کامیاب ہوئے؟
ج: زیادہ تو نہیں البتہ اعلیٰ افسران اور سیاسی قائدین کے تسلط کو کافی حد تک کم کیا اور ہمارے ادارے کے مزدور سُکھ کا سانس لے رہے ہیں۔
ٹریڈ یونین سیاست کے زوال کی کیا وجوہات تھیں؟
ج: جب مزدور سیاست سے نظریات ختم ہو جائیں، مشترکہ مفادات کی بجائے ذاتی مفادات حاوی ہو جائیں تو مزدور سیاست زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسرا ٹریڈ یونین قیادت کی باہمی چپقلش نے محنت کشوں کا قیادت پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔
اس صورتِ حال میں آپ نے کچھ نہیں کیا؟
ج: متعدد بار کوششیں کی گئیں۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ سنجیدہ کوشش 2007/2008ء میں ہوئی جب پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کے پرویز ملک کی کاوش سے مختلف اداروں کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی تا کہ ہر ادارے کے محنت کش ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کریں۔
یہ کمیٹی کس حد تک فعال رہی؟
ج: ہم نے تسلسل کے ساتھ مختلف اوقات میں کامیاب اجلاس کئے۔ 2008ء میں حکومت پنجاب نے پی ڈبلیو ڈی کے 900 ڈیلی ویجز ملازمین کی تنخواہوں کی بندش اور نوکریوں سے نکال دئیے جانے کا فرمان جاری کر دیا۔ اس صورت حال میں ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی اور 9ماہ کی مسلسل مشترکہ جدوجہد کے نتیجہ میں ملازمین کی تنخواہیں اور مطالبات تسلیم کر لئے گئے۔ اس مشترکہ کاوش نے ہر ادارے کے محنت کشوں کو ایک جرات اورحوصلہ دیا۔
کیا موجودہ معاشی صورت حال سے مطمئن ہیں؟
ج: محنت کشوں کو تو صرف اتنے پیسے ملتے ہیں جس سے جسم اور جان کا رشتہ ہی بحال رکھا جا سکتا ہے۔ بچوں کو اچھی تعلیم، صحت، اچھی خوراک دینا تو خواب بن چکے ہیں۔
الیکشن سے کیا توقعات ہیں؟
ج: وقتی طور پر کسی بھی نئی آنے والی حکومت سے توقعات اور امیدیں تو وابستہ ہوتی ہیں کہ وہ شاید عام لوگوں کیلئے بھی سوچیں لیکن 65 سال میں ہم نے صرف یہ دیکھا کہ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 2 فیصد حکمران طبقات پاکستان کے تمام تر وسائل پر قابض ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھنے والے سیاستدان اور بیوروکریٹ، جنرل، جاگیردار، سرمایہ دار۔ ۔ ۔ ان تمام طبقات کا غربت، بھوک، بیماری، بیروزگاری، لاعلاجی جیسے بنیادی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ آنے والی حکومت بھی اگر عام لوگوں کو کچھ نہ دے پائی تو پھر اس ملک کے مزدور، کسان، طلباء، بیروز گار نوجوان ان حکومتوں کو زیادہ وقت نہیں دیں گے اور پھر پاکستان کے 18 کروڑ عوام اپنی تقدیروں کا فیصلہ خود اپنے ہاتھوں سے کریں گے۔