ملک فتح خان گزشتہ 32سال سے مزدور تحریک میں سرگرم ہیں اور واپڈا کے محنت کشوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپیئن کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی اور ایک تفصیلی انٹرویو کیا جو طبقاتی جدوجہد کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
آپ نے واپڈا میں کب ملازمت اختیار کی اور کتنے عرصے سے واپڈا کے محنت کشوں کی سیاست کر رہے ہیں؟
ج۔ 1973ء میں ملازمت اختیار کی اور 1981ء سے واپڈا ہائیڈرویونین کے پلیٹ فارم سے واپڈا کے محنت کشوں کی سیاست کررہا ہوں۔ میں نے بطور ڈویژنل چیئرمین،زونل چیئرمین اور ممبر ایگزیکٹو ہائیڈ رویونین کے ذریعے محنت کشوں کی اپنی بساط کے مطابق خدمت کی۔
موجودہ سیاسی صورت حال کے بارے میں کچھ کہیں گے؟
ج۔ بات یہ ہے کہ پاکستان کے 98%لوگوں کو اپنے حقوق کا ہی نہیں پتا۔ سب سے پہلے لوگوں کو شعوری طور پر یہ بآور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس طاقت کیاہے اور اس طاقت کے ذریعے ہم کیا کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ پورے ملک میں 2% حکمران طبقات نے 98% لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
واپڈاکی تباہی کی کیا وجوہات ہیں؟
ج۔ دیکھیں جی اگر حقائق کاباریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو 1995ء تک واپڈا ایک خود کفیل اور منافع بخش ادارہ تھا۔ اس پر کسی قسم کا قرضہ نہیں تھا۔ اسی عرصہ میں جب غیر ملکی پرائیوٹ کمپنیوں (IPPS) کے ساتھ حکومت نے جو معاہدے کیئے ان معاہدوں میں اس طرح کی شرائط رکھی گئیں جو سمجھ سے بالا تر ہیں۔ کہ اگرواپڈا ان IPPS سے بجلی نہ بھی خریدے تو بھی ان غیر ملکی کمپنیوں کو سالانہ کروڑوں ڈالرز کی Payment کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک یہ کمپنیاں اربوں ڈالر بٹور کر اپنے ملکوں کو واپس بھیج چکی ہیں۔ جبکہ واپڈا اور ملازمین کی حالت دن بدن بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔
جب یہ معاہدات ہو رہے تھے تو آپ کی یونین نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟
ج۔ ایسا نہیں کہ ہم نے احتجاج نہیں کیا۔ بلکہ بڑے پیمانے پر احتجاج کیئے گئے جس کے نتیجے میں حکومت ہم سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئی۔ حکومتی نمائندوں سے بات چیت اُس وقت ہائیڈرو یونین کے صدر میاں منیر نے کی۔ حکومتی موقف تھا کہ ہم نے یہ معاہدے کرنے ہیں۔ آپ اپنے ادارے کے محنت کشوں کے مطالبات بیان کریں۔ ایک 17نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جسمیں مختلف الاؤنسز، تعلیم، صحت، روزگار، رہائشی کالونیاں و دیگر مطالبات تھے جو حکومت نے نہ صرف تسلیم کیئے، بلکہ تمام پر عمل درآمد بھی ہوا۔
کیا یہ مراعات و دیگر مراعات جواب تک دی گئی ہیں ان سے آپ مطمئن ہیں؟
ج۔ یقیناًنہیں۔ واپڈا کے محنت کش خانفشانی اور اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر دن رات کام کرتے ہیں۔ ہر سال کم و بیش 50 سے 100 ملازمین کرنٹ لگنے سے یا دیگر حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ملنے وای حادثاتی رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ دوسری طرف طبقاتی تفریق کا یہ عالم ہے کہ محنت کشوں اور آفیسر کی مراعات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
کیا پبلک پرائیویٹ پارٹز شپ نجکاری کی ایک شکل نہیں ہے؟
ج۔ یقیناً نجکاری کی ہی ایک شکل ہے،بلکہ نجکاری کی جانب پہلا قدم ہے۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ نجکاری نے ہمیشہ محنت کشوں کا معاشی قتل کیا ہے۔ اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمام پبلک و پرائیویٹ اداروں کو قومی تحویل میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ کیونکہ W.T.O اور I.M.F کی پالیسیوں سے کوئی بھی ملک خوشحال نہیں ہوا بلکہ بھوک،ننگ، بیماری،بے روزگاری اور لاعلاجی ان ملکوں کا مقدربن جاتی ہے۔
کیا کوئی ادارہ اپنی لڑائی اکیلئے لڑکر جیت سکتا ہے؟
ج۔ قطعاً نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان حکمران طبقات چاہے وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں سب کے سب ایک ہیں اور یہاں کے 98% لوگوں کا خون نچوڑ رہے ہیں تو پھر ہمیں بھی تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر مکمل صفا بندی کرنی ہو گی اور مشترکہ جدوجہد کا آغاز کرنے پڑے گا۔ PIA کی تحریک اس کی واضع مثال ہے جسمیں مختلف اداروں کے محنت کشوں نے یکجا ہوکر PIA کو بکنے سے بچایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ نوجوان محنت کشوں کی سیاسی تربیت کرکے انہیں آگے لانے کی ضرورت ہے کیونکہ نوجوان ہی کسی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔
آنے والے 2013ء کے عام انتخابا ت سے کیا توقعات ہیں؟
ج۔ کوئی اچھی توقعات نہیں ہیں۔ کیونکہ انتخابات میں حصہ لینے والے جاگیردار، سرمایہ دار، ریٹائر ڈ جرنیل اور روایتی ملاں ہیں جن کا ہمارے مسائل سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ ان کی دنیا اور ہے ہماری اور۔ وہ اپنی دنیا میں خوشحال ہیں اور ہماری دنیا میں بھوک،ننگ،بیماری بے روزگاری نے گزشتہ 65سالوں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کالے انگریزوں نے جو زخم، جو اذیتیں دی ہیں اتنے زخم اور اذیتیں تو شاید انگریز بہادر نے بھی نہیں دیں۔ اور گزشتہ 5سالوں میں پیپلز پارٹی جو محنت کشوں کی روایت ہونے کا دعوٰی کرتی ہے جو اذیتیں دی ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ دیگر کسی پارٹی سے آنے والے الیکشن میں توقعات وابستہ کرنا دیوانے کا خواب نظر آتا ہے۔
آپ کے نزدیک حل کیا ہے؟
ج۔ محنت کش طبقہ اور عام لوگ ان حکمران طبقات، سیاسی شعبدہ بازوں کے مکروفریب اور جھوٹ پر مبنی باتوں سے تنگ آچکے ہیں۔ اس کا واضح اظہار ابھی نہیں ہو رہا لیکن عوام اپنے ذہنوں میں ان حکمران طبقات کے خلاف ایک بغاوت کا لاوا تیار کررہے ہیں۔ اور وہ جلد یا بدیر پھٹے گا۔ اور اس وقت 98% لوگ اس جاگیردارنہ، سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے حقیقی معنوں میں محنت کی حکمرانی قائم کریں گے۔ یہی واحد حل اور راستہ ہے۔ انقلاب زندہ باد، محنت کش عوام پائندہ باد۔