| تحریر: راہول |
ناکام فوجی بغاوت، مسلسل سیاسی انتشار اور اس سے قبل استنبول کے ہوائی اڈے ’’اتاترک انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘‘ پر ہونے والے خودکش حملے اور دھماکے نے ترکی میں ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے۔ اس دھماکے میں تقریباً 50 افراد ہلاک جبکہ 239 سے زائد زخمی ہوئے۔ اتاترک ائیرپورٹ کا شمار دنیا کے چند ایک بڑے اور سب سے مصروف ہوائی اڈوں میں ہوتا ہے، صرف پچھلے سال یہاں سے تقریباً چھ کروڑ دس لاکھ مسافروں نے گزر کیا، اس سے واضح طور پر اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس حملے کا مقصد بھی ایک بڑی تباہی مچاناتھا۔
یوں تو اس دھماکے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے نہیں قبول کی لیکن ایک خاص بیان دھماکے کے فوری بعد ترکی کے وزیر اعظم کی جانب سے منظر عام پر آیا جس میں اس دھماکے کا ذمہ دار داعش کو قرار دیا گیا۔ یہ ترکی میں ہونے والے پچھلے سات بڑے دہشت گردی کے حملوں میں ایسا تیسرا حملہ تھا جس کا ذمہ دار داعش کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ اس سے قبل جنوری اور مارچ میں استنبول کے سلطان ایمٹ اسکوائر اور استیکال اسٹریٹ پرمبینہ طور پر داعش کی جانب سے خودکش حملے کئے گئے جس میں 17 افراد ہلاک ہوئے۔ ا طلاعات کے مطابق حملہ آورکیکشائی تھے اور روسی زبان بولتے تھے جبکہ ان کا تعلق ازبکستان اور سینٹرل ایشائی ممالک سے بتایا جارہا ہے۔
اس حملے سے چند روز قبل ہی ’’روس اور ترکی‘‘ اور’’ ترکی اور اسرائیل‘‘ کے درمیان تعلقات کی بحالی بھی دیکھی گئی جو کہ برباد ہوتی ترک معیشت کی وجہ سے اردگان کی مجبوری بن چکی تھی اور اسے بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ حالیہ حملے کے پیچھے درحقیقت آخر کون سی قوتیں کارفرما ہیں لیکن ترک وزیراعظم کی جانب سے داعش کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرانا ہی بنیادی طور پر ایک نئی جنگ اور بربادی کا آغازمعلوم ہوتا ہے کہ جس میں آگے چل کر ان دہشت گردوں اور ان کے مالکان کے درمیان ہونے والی اس چپقلش میں بربادی محنت کش عوام کو ہی بھگتنی پڑے گی۔
جون 2014ء میں اپنی ’’خلافت‘‘ کے اعلان کے بعد سے داعش نے اس وقت تک دنیا کے 23 ممالک میں حملے کئے ہیں جن میں 1735 لوگ ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔ ویسے تو یورپ سمیت دنیا کے کتنے ہی ممالک داعش کے حملوں کی زد میں ہیں لیکن ترکی کے حکمران نہ صرف اس خطے میں داعش کے بہت بڑے مددگاررہے ہیں بلکہ داعش کے ذریعے شام میں اپنے پنجے گاڑنے اور کرد حریت پسندوں کے خاتمے کے لئے پچھلے کئی سالوں سے مصروف عمل ہیں۔ ترکی سے شام روانہ ہونے والے دو ٹرکوں میں دو سال قبل ہتھیاروں اور جنگی سامان کا بر آمد ہونا اور پھر داعش سے تیل کی بڑی پیمانے پر تجارت وغیرہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ اپنے ’’سلطانی‘‘ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے طیب اردگان کی حکومت اب مشرقی وسطیٰ میں بربادی پھیلانے میں دوسری کئی سامراجی طاقتوں کی طرح پوری طرح ملوث ہے۔ حالیہ حملے میں یہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اردگان کی اپنی کی ہوئی منصوبہ بندی اب اس کے گلے پڑنے لگی ہے جیسا کہ اس طرح کے معاملات میں ہمیشہ ہوتا ہے اور جس طرح امریکی سامراج اور پاکستان کے اپنے پیدا کردہ ’’مجاہدین‘‘ یا طالبان اب ان کے لئے وبال جان بن چکے ہیں۔
امریکی سامراج کے مشرق وسطیٰ میں قدم رکھنے سے ہی خطے کا امن برباد ہوا اور لاکھوں بے گناہ لوگ اس خونی سامراجی کھیل کا ایندھن بن گئے۔ عراق جنگ کے بعد یہ بربادی اپنے دوسرے پڑاؤ کی طرف بڑھتی نظر آئی، یہ پڑاؤ شام کی تباہی کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں اسد حکومت کے خلاف اس جنگ میں درجنوں دہشت گرد گروہوں کو پالا گیا۔ بنیادی طور پر امریکی سامراج کی شام کے خلاف مہم جوئی اور دشمنی کی وجہ یہی ہے کہ انقلابی ماضی کی روایات رکھنے والے شام نے اپنی معیشت پر امریکی اور دوسری مغربی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی یلغار نہیں ہونے دی، اگرچہ بشارالاسد رفتہ رفتہ شام میں سرمایہ داری کی بحالی کا عمل آگے بڑھا رہا تھا لیکن اس میں مغربی سامراجیوں کو لوٹ مار میں حصہ نہیں مل پا رہا تھا۔ شام خطے میں روس کا سب سے پرانا اور قابل اعتماد ساتھی بھی تھا۔ سامراج اپنی تمام سیاسی پالیسیاں سرمایہ داری کو استوار کرنے اور عالمی اجارہ داریوں کے استحصال کو تحفظ دینے کے لئے استوار کرتا ہے، جہاں اس کو مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ملک ’’دہشت گرد‘‘ اور ایسی حکومتیں ’’آمریت‘‘ بن جاتی ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں سامراجیت کے اس جوہر اور منافقت کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جہاں بدترین آمریتیں اور بادشاہتیں امریکی سامراج کی سب سے بڑی اتحادی ہیں۔
ترکی جوکہ اس خطے میں بہت پہلے سے ہی سامراجی گماشتہ رہا ہے اور نیٹو کا حصہ ہونے کی بدولت سامراج سے اس کی قربت کا اندازہ خوب لگایا جاسکتا ہے۔ عرب انقلاب اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ پایا اور شام جیسے ممالک میں تحریک انقلابی سمت سے ہٹ کر رجعتی خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامراجی قوتیں اپنی مداخلت کرنے لگیں۔ ایسے میں طیب اردگان خود کو خطے کا نیا ’’سلطان‘‘ اور ایک نئی عثمانیہ طرز کی سلطنت کے خواب میں مشغول ہوگیا جس نے نہ صرف خطے کے عدم استحکام میں اضافہ کیا بلکہ سعودی عرب کی ہی طرح ترک حکمران بھی امریکہ سامراج کے مقابل اپنی سامراجی پالیسیاں اختیار کرنے لگے۔ پرانے دوست دشمن اور دشمن دوست بنتے چلے گئے۔ سعودی عرب، ایران اور ترکی سے لیکر عرب امارات تک تمام علاقائی طاقتیں اس وقت اپنے سامراجی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بھوکے گِدھوں کی طرح شام اور عراق کو نوچ رہی ہیں اور ایک دوسرے سے بھی برسر پیکار ہیں جس سے صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ مسلسل خلفشار اور ریاستوں کے ٹوٹ کر بکھرنے سے پورا خطہ دہشت گرد گروہوں کا عالمی گڑھ بن چکا ہے۔
اس سال کی گلوبل ڈیفنس ٹریڈرپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ’’دفاعی سامان‘‘ (اسلحہ) خریدنے والا خطہ ’’مشرقی وسطیٰ‘‘ بن چکا ہے جہاں پچھلے سال 21.6 بلین ڈالر کی مالیت کے ہتھیار و دیگر جنگی سامان خریدا گیا۔ سب سے زیادہ خریداری کرنے والے ممالک میں سعودی عرب نمایاں ہے جبکہ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سعودی معیشت کی مسلسل زوال پزیری کے باوجود بھی سعودی عرب اسلحے کی خریداری میں اول نمبر پر ہے، لازمی طور پر یہ تمام ہتھیار ’’امن‘‘ کے لئے نہیں بلکہ دھونس اور جارحیت کے لئے خریدے گئے ہیں۔ امریکی سا مراج کی کمزور ہوتی رٹ اور داخلی کمزوری کی وجہ سے سعودی عرب سے لے کر اسرائیل تک اس کے کئی اتحادی آج خود سر اور باغی ہوتے نظر آتے ہیں۔ امریکی سامراج کی حالت اس خطے میں آج جتنی پتلی اور بے بس ہے شاید ہی ماضی میں کبھی رہی ہو۔
روس کی شام پر پچھلے عرصے میں کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں ترکی اور امریکہ کے درمیان بھی اختلافات زور پکڑتے گئے ہیں۔ روس ایسے گروہوں کو نشانہ بناتا رہا ہے جن کو ترکی کی حمایت حاصل ہے جبکہ امریکہ کو اپنا اور اپنے اتحادیوں کا ڈالا ہوا گند صاف کرنے کے لئے اب روس کی ضرورت ہے۔ شامی خانہ جنگی کی شروعات سے ہی اردگان اس مسئلے کو ترکی اور شام میں کردوں کی بغاوت اور حریت کی تحریک کو کچلنے کے لئے ایک سنہرے موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا اور داعش کے قیام کے بعد وہ مسلسل اسے کردوں کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اس نے ترک قوم پرستی کو خوب ہوا دی اور کردوں کی بغاوت کو کچلنے کی نعرہ بازی کرتا رہا۔ اس نے واضح طور پر بیان دیا تھا کہ ترکی کے لئے کردوں کی نسبت داعش چھوٹی برائی ہے۔ جب روس نے شام میں کاروائی کا آغاز کیا اور داعش پر وسیع بمباری شروع کی تو اردگان نے نیٹو کو روس کے خلاف اکسانے کے لئے روس کا طیارہ مار گرایا تاکہ روس ترکی کے خلاف جوابی کاروائی کرے اور ترکی کے نیٹو کا رکن ہونے کے ناطے نیٹو اور روس کا براہ راست ٹکراؤ ہو جائے، تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب روس کے بھی اپنے سامراجی عزائم ہیں اور وہ کسی صورت خطے میں اپنے سب سے اہم اتحادی یعنی بشارالاسد کے اقتدار کو بچانا چاہتا ہے۔ اب اردگان نے اپنی گرتی ہوئی معیشت اور سیاحت کی صنعت کو بربادی سے بچانے کے لئے روس کے ساتھ ’’مصالحت‘‘ کر لی ہے جس کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ داعش اس ’’بے وفائی‘‘ کا انتقام مزید دہشت گردی کی شکل میں لے گی جس میں بے گناہ ترک عوام ہی نشانہ بنیں گے۔
ترکی کو پاکستان جیسے ممالک کے لئے ہمیشہ سے ہی ’’معاشی رول ماڈل‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اس کے جی ڈی پی کو لیکر ہمیشہ ہی مبالغہ آرائی کی جاتی ہے۔ ترکی معیشت اگرچہ بلند شرح سے ترقی کرتی رہی ہے لیکن جیسا کہ سرمایہ داری میں ہوتا ہے کہ اس معاشی نمو کا تمام تر ثمر سرمایہ دار ہی لے جاتے ہیں۔ مثلاً ترکی کا گروتھ ریٹ 2009ء میں 6.69 فیصد تھا جو مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ 2015ء کے پہلے کوارٹر میں 1.30 فیصد رہا لیکن اس دوران ترکی میں غریب افراد (جو اعداد و شمار میں آتے ہیں) کی تعداد 11.1 ملین سے بڑھ کر 11.3 ملین ہوگئی۔ اسی کے ساتھ ساتھ ترکی آمدنی میں عدم مساوات کے حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہے، یہ اس حوالے سے OECD ممالک میں بدترین ملک قرار دیا گیا ہے جہاں معاشی نابرابری سب سے زیادہ ہے۔ چند ایک رپورٹوں میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک چھوٹی تعداد مڈل کلاس میں شامل ہورہی جبکہ اسی کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی تعداد غربت میں غرق ہو رہی ہے۔ دوسری جانب حالیہ دنوں دہشت گردی کے واقعات سے بھی ترکی کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ترکی دنیا کا ایسا چھٹا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ سیر پر آتے ہیں اور اس کی معیشت میں سیاحت کا ایک بہت بڑا حصہ بھی ہے، ہر سال تقریباً تین کروڑ 70 لاکھ افراد ترکی کی سیر کرتے ہیں جن سے 28 ارب ڈالر سالانہ آمدن ہوتی ہے، جبکہ ترکی کی 8 فیصد ورک فورس صرف سیاحت پر انحصار کرتی ہے۔ پچھلے سال سے ابھی تک تقریباً چالیس فیصد کمی اس سیاحت میں آئی ہے جس سے معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت بڑی بیروزگاری بھی آنے والے دنوں میں ترکی میں دیکھی جائے گی۔ پہلے ہی عالمی معاشی بحران کے پیش نظر ترکی کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے اور جی ڈی پی کی شرح نمو سکڑ کر ایک فیصد کے آس پاس ہی منڈلا رہی ہے۔ ترکی میں 2013ء میں غیزی پارک کی تحریک سے شروع ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اگرچہ اردگان کی جمہوری آمریت کو اکھاڑنے میں ناکام رہے لیکن سطح کے نیچے شدید غم و غصہ موجود ہے جو ناگزیر طور پر نئی تحریکوں کی شکل میں اپنا اظہار جلد کرے گا۔
شام اور عراق سمیت مشرق وسطیٰ کی تاریخ انقلابی روایات سے لبریز ہے، یہ وہی ممالک ہیں جہاں ایک وقت میں سرمایہ داری کو اکھاڑ کر منصوبہ بند معیشتیں نافذ کی گئی تھیں۔ اسی خطے میں سوشلسٹ یونائیٹڈ عرب ریپبلک بنی تھی جس نے سامراجی لکیروں کو چیلنج کیا تھا۔ سرمایہ داری کے تحت بربادی اور بربریت سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو اپنی انقلابی روایات کو بلند تر پیمانے پر دہرانا ہوگا اور ایک نیا عرب انقلاب سامراجیوں، ان کے مقامی گماشتوں اور ان کے نظام کے خلاف برپا کرنا ہوگا۔