اداریہ جدوجہد:-
میڈیا پر خبریں تقریباً ختم ہوگئی ہیں۔ تمام ٹاک شوز پر ایک ہی موضوع زیر بحث ہے۔ عوام کے سلگتے ہوئے مسائل سے دور حکمرانوں کی سیاست اور ریاست کے ایوانوں میں اس رجعتی بالادست طبقے کے باہمی تضادات پھٹ رہے ہیں۔ مالیاتی سرمائے کے بھاری اخراجات سے حاصل کردہ امیروں کے اس کلب (اسمبلی) کی ممبر شپ لے کر، حصہ داری اور دولت وطاقت کی ہوس میں اندھے حکمرانوں کے یہ دھڑے اب اسی کلب میں دست وگریبان ہوگئے ہیں۔ یہ ہاتھا پائی ان کے غلیظ ثقافتی معیار اور بدتہذیبی کی ہی علامت ہے۔ اس رجعتی بالادست طبقے کے باہمی تضادات ایک عدالتی تصادم میں تبدیل ہو کر معاشرے کے لیے درد سر بن گئے ہیں۔ اس ملک کی سب سے مہنگی عدالت میں اس ملک کی تاریخ کا سب سے بے معنی مقدمہ چل رہا ہے… نواز شریف کی کرپشن اور پاناما کا ڈرامہ!
انصاف کے اس مندر پر چڑھنے کے لیے جتنی سڑھیاں ہیں، یہ عمارت جتنی اونچی ہے، اس کا مقصد یہاں کے محنت کش عوام کو اتنا ہی نیچا دکھانا مقصود ہے۔ اس سپریم کورٹ کی تاریخ بھی اتنی ہی داغدار ہے جتنااس ملک کے حکمرانوں کا کردار رجعتی اور سیاہ ہے۔ جسٹس منیر کے 1950ء کی دہائی کے فیصلے سے لے کر جسٹس انوارالحق کے بھٹو کو عدالتی قتل کرنے کے فیصلے تک، اس عدالت کے فیصلے جن ججوں نے کئے ہیں، انہوں نے ہی ریٹائر ہونے کے بعد انہیں غلط اور ’’دباؤ‘‘ کے تحت کیے گئے فیصلے قرار دیا ہے۔ مفلس عوام کی تو ان سیڑھیوں تک رسائی کی اوقات نہیں ہے۔ ان کو یہاں کے انصاف پر بھلا کیا دسترس حاصل ہوسکتی ہے۔ لیکن حکمرانوں نے ایک مخصوص فنکاری سے جو عدلیہ اور ریاست کے دوسرے ’’کلیدی اداروں‘‘ کا بھر م ٹھونسا ہوا ہے وہ اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ یہاں کسی انصاف کے حصول کے لیے کوئی مقدمہ نہیں چل رہا، ایک تماشا ہورہا ہے۔
ہر روز بلاناغہ اسی حاکمیت کے میڈیا پر حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے لیڈر، جن کی آج کل سب سے اہم قابلیت ان کی جگت بازی او ر بدزبانی سمجھی جاتی ہے، حاضری دے کر اس سرکس میں اپنے ’فن‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو شاید اور کوئی کام نہیں ہے۔ نہ ان کا روٹی روزی کا مسئلہ ہے، نہ بچوں او ر خاندانوں کی تعلیم اور علاج کی کوئی فکر ہے، نہ انہوں نے کسی فیکٹری کے گیٹ پر کوئی اندراج کروانا ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی ایسی معاشی یا سماجی فکریں لاحق ہیں جن میں معاشرے کے پسے ہوئے طبقات غرق ہورہے ہیں۔
جج صاحبان اس سرکس کے شہنشاہ ہیں۔ تضحیک کے ’ریمارکس‘ دے کر وہ اپنے مزے لے رہے ہیں۔ میڈیا پر اپنی عظمت کے گن سننے والے لوگ کس قدر ستائش کے بھوکے ہیں۔ لیکن اب عظمتیں بھی سطحی اور نمائشی رہ گئی ہیں۔ یہ جج کسی کی دستاویزات، شواہد اور ثبوتوں پر اتنا غور نہیں کررہے ہیں۔ وہ درحقیقت اس پرکھ میں ہیں کہ اس دولت کی سیاست اور ریاست کے حکمران دھڑوں کے درمیان طاقت کا توازن کس طرف ہے۔ فیصلہ بھی اسی طرف کا ہوگا۔ ویسے جو بھی فیصلہ آیا وہ معاملے کو گول مول اور ملتوی کرنے کی واردات پر ہی مبنی ہوگا۔ لیکن پھر کیا ہوگا؟ حکمرانوں کا جہاں معاشی اور سماجی نظام مسلسل بگاڑ کا شکار ہے وہاں ان کے اداروں پر اعتبار بھی کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی حکمرانوں کی تبدیلی اور بات ہے۔ لیکن ریاستی اقتدار اور اداروں کی تبدیلی سرمایہ دار طبقات کے اس سہارے اور تحفظ کا خاتمہ ہوتا ہے جس کے بلبوتے پر وہ ظلم واستحصال کرتے ہیں، لوٹتے ہیں اور دولت کے انبار لگاتے چلے جاتے ہیں۔
محنت کش عوام اس تماشے سے اکتا بھی گئے ہیں اور سخت بیزار بھی ہیں۔ میڈیا اسے چلائے جا رہا ہے۔ حکمران الزام تراشیوں کی بھرمار سے اپنے ہی طبقے کو بے نقاب کررہے ہیں۔ کروڑوں کی فیس لینے والے وکلا کی چاندی لگی ہوئی ہے۔ سیاست عدالت میں گھل گئی ہے اور عدلیہ اس سیاسی کھلواڑ میں برہنہ ہو کر انصاف کا تماشا کررہی ہے۔ سیاست، ریاست اور صحافت عوام سے کٹ چکے ہیں اور عوام اور اس حاکمیت کے درمیان یہ خلیج ایک گہرا خلا بن چکی ہے۔ آج اگرچہ محنت کش عوام کی وسیع تر پرتیں میدان میں اتری نہیں ہیں لیکن ان کے اندر اس حاکمیت سے نفرت اس سارے نظام کا استرداد بن گئی ہے۔ اسی عرصے میں حاکمیت کے تقدس ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ احترام بغاوت میں بدل رہا ہے اور عوام کے شعور میں حکمران طبقے کے اصل کردار سے دھند چھٹ رہی ہے۔
اس مقدمے یا سپریم کورٹ کے کسی فیصلے سے عوام کا مقدر نہیں بدلنے والا۔ اس تماشے کے خاتمے کے بعد اب حکمران کون سا تماشا لگا ئیں گے؟ ان کے مداری مسترد ہورہے ہیں۔ ان کے مقدس اداروں کا تقدس بس سٹوڈیو تک رہ گیا ہے۔ شعور کو ادراک مل رہا ہے۔ اس کے بیدار ہونے کا وقت شاید دور نہیں ہے۔ پھر انقلابی ٹریبونل گلیوں میں، محلوں میں، وہیں موقع پر، اُسی لمحے انقلابی انصاف کریں گے۔ نہ حکمران طبقات کی دولت اور نہ ان کی ریاست ان کو محنت کشوں کے اس غیض وغصب سے بچا سکے گی۔ یہ وہی انصاف ہو گا جس کی جستجو ان محنت کرنے والوں کو صدیوں سے نسل در نسل رہی ہے۔