| تحریر: لال خان |
جنگیں قومی ہوں یا طبقاتی، زیادہ تر جانیں عام سپاہیوں اور غریب طبقات کے بچوں کی ہی جاتی ہیں۔ جنگی فتوحات کی عظمتوں سے سرفراز سپہ سالار، جرنیل اور اعلیٰ افسران ہی ہوتے ہیں۔ عام سپاہی جانیں ہزاروں لاکھوں میں گنواتے ہیں، نام صرف چند ایک کے ہی یاد رکھے جاتے ہیں۔ چھوٹے عہدوں کے اعزاز بھی چھوٹے ہوتے ہیں اور شہرت بھی کم۔ لیکن قومی اور ملکی جنگوں میں چونکہ منظم ریاستیں اور افواج برسر پیکار ہوتی ہیں اس لئے ان گمنام سپاہیوں کی کم از کم یادگاریں تو بنا دی جاتی ہیں۔ ایسی جنگیں کبھی کبھار ہوتی ہیں لیکن ان کے چرچے نسلوں چلتے ہیں، سرکاری تاریخوں کا حصہ بنتے ہیں۔ دولت اور طاقت سے اقتدار حاصل کرنے والے بڑے بڑے حکمران ان گمنام سپاہیوں کی یادگاروں پہ مختلف ممالک میں پھول چڑھانے کی مصنوعی رسمیں تو ادا کرتے ہیں لیکن اس جرات سے عاری ہوتے ہیں جو کسی بھی جنگ کے سپاہی کا جینا مرنا ہوتی ہے۔
قومی جنگوں کے برعکس طبقات کی جنگ میں محنت کش طبقے کے پیچھے نہ تو کوئی ریاست ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اعزاز یا انعام کا کوئی امکان۔ لیکن ظلم و جبر اور استحصال کے خاتمے کی اس عظیم اور بے لوث جدوجہد میں مالی یا مادی انعام یا پھر اعزاز اس جنگ کے سپاہیوں کے لئے عزت افزائی نہیں بلکہ تضحیک کا باعث ہی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایسی جدوجہد کسی مطلب کے لئے کی جائے تو نظرئیے اور مقصد کی موت بن جاتی ہے۔ طبقاتی کشمکش مسلسل جدوجہد اور جنگ کا نام ہے۔ کبھی کٹھن حالات میں برداشت کی جنگ لڑنا پڑتی ہے، پسپائی کے ادوار میں اپنی قوتوں اور ساتھیوں کی باہمی حوصلہ مندی درکار ہوتی ہے، ایسے میں صبر و تحمل کے ساتھ ایک جمود کی کیفیت میں اس جدوجہد کی تڑپ کو قائم رکھنے کا عمل جنگ لڑنے سے بھی زیادہ دشوار بن جاتا ہے۔ لیکن جہاں بھی طبقاتی سماج ہو گا وہاں طبقاتی کشمکش کسی نہ کسی سطح پر موجود ضرور ہوتی ہے۔
پاکستان اور اس پورے خطے میں بھی یہ کشمکش طبقات پر مبنی سماج کے وجود کے جنم سے ہی جاری رہی ہے۔ اس جنگ میں ایک بڑا معرکہ اور تصادم 1968-69ء میں ہوا لیکن محنت کش طبقہ حکمرانوں کے جبر و تسلط کو شکست دے کر حتمی فتح حاصل نہیں کر سکا۔ انقلابی پارٹی کا فقدان بنیادی وجہ تھی جس کے تحت ایک پورا انقلاب پاکستان کا محنت کش طبقہ اصلاح پسندی کے ہاتھوں ہار گیا۔ لیکن جنگ تو جاری ہے اور رہے گی۔ محرومی اور بہتات کی لڑائی ہے، امیر اور غریب کا تضاد ہے، محنت اور سرمائے کی ٹکر ہے۔
ایک سرمایہ دارانہ سماج میں ہر جنس چونکہ قیمت رکھتی ہے اس لئے ذرائع ابلاغ سے لے کر سیاست اور ریاست کے تمام پہلو سرمائے کی طاقت کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ مفلس اور محروم محنت کش طبقے کی اس زر کے نظام میں نہ کوئی سنوائی ہوتی ہے نہ ان کا کسی بھی عمل پر بس چلتا ہے۔ حکمرانوں کے معاشی اور سماجی وار اس کو مسلسل گھائل بھی رکھتے ہیں۔ اس نظام کا استحصال ان کو صرف اتنی سانس لینے کی مہلت ہی دیتا ہے کہ بس نبض چلتی رہے اور وہ اپنی محنت لٹواتے ہوئے سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتے رہیں۔
ایسے ’معمول‘ کے کٹھن حالات میں، جو بعض اوقات بہت طویل بھی ہو جاتے ہیں بہت سے انسان بک جاتے ہیں، جھک جاتے ہیں، اپنے طبقے سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن انتہائی نامسائد حالات میں بھی بہت زیادہ نہ صحیح لیکن ایسے انقلابی ضرور ہوتے ہیں جو نظریات پر چٹان کی طرح جمے رہتے ہیں اور جدوجہد کا سفر آخری دم تک جاری رکھتے ہیں۔ رہنماؤں کا تو نام اور پہچان بن جاتی ہے لیکن بہت سے بے لوث کارکنان اور محنت کش گمنامی میں بھی بربادیوں کو برداشت کرتے اور ان سے ٹکراتے ہیں۔ اس جدوجہد میں ان کو کوئی نام نہیں ملتا لیکن طبقاتی جدوجہد کے یہی وہ گمنام سپاہی ہوتے ہیں جو تاریخ کے دھارے موڑ دیتے ہیں، انقلابات سے معاشروں کو بدل دیتے ہیں، استحصال کے نظاموں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں۔ کبھی ریاست اور دہشت گردی سے ٹکراؤ میں گھائل ہوتے ہیں اور کچھ غربت اور محرومی کی اذیت میں سفر کی تکمیل کئے بغیر ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
محنت کش طبقے کا ایسا ہی ایک گمنام سپاہی رحیم یار خان کا رئیس کجل تھا جو 24 جولائی کو ہیپاٹائٹس کے موذی مگر قابل علاج مرض سے انتہائی غربت میں لڑتے ہوئے وفات پا گیا۔ کجل نے اپنی تقریباً تمام باشعور زندگی میں ہر مادی مفاد سے بالاتر ہو کر پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور اور محنت کش طبقے کے مفادات کی لڑائی پارٹی کے اندر اور باہر جاری رکھی۔ وہ سوشلسٹ انقلاب کے سفر کا نہ تھکنے اور نہ جھکنے والا راہی تھا جس نے ہر طرح کی مصلحت پسندی اور مفاہمت سے ہمیشہ انکار کیا اور ناقابل مصالحت جدوجہد میں مزدور دشمن طبقات کے ساتھ برسرپیکار رہا۔ کئی بار پیپلز پارٹی کو ملنے والی حکومتوں میں بھی اس نے کوئی مفاد حاصل کیا نہ اپنی جدوجہد کی قیمت لگوائی اور نہ ہی اپنی بیماری کے علاج کے لئے پیپلز پارٹی پر مسلط کسی سرمایہ دار یا جاگیردار کے سامنے جھولی پھیلائی۔ اس کی بیماری کی بنیادی وجہ بھی غربت کے حالات زندگی تھے۔ اس کے ساتھیوں نے بہت کاوشیں کیں لیکن جگر کی پیوندکاری کے لئے درکار رقم بھلا وسائل سے محروم انقلابیوں کے پاس کہاں سے آتی؟
ایسے حالات بار بار اس سماج کی یہ تلخ حقیقت سامنے لے آتے ہیں کہ اس نظام میں جسم و جان کا رشتہ بھی دولت کا محتاج ہے اور دولت سے محرومی کا مطلب موت بن جاتا ہے۔ ایوب سے لے کر ضیا آمریت اور آج تک چھوٹے یا بڑے پیمانے پر یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے اس نظام کی حاکمیتوں سے کسی اقتدار کے لئے نہیں بلکہ اس نظام کے خاتمے کے لئے ٹکر لی ہے جس نے زندگی کو سرمائے کی چوکھٹ پر گروی رکھ دیا ہے۔ یہ جدوجہد ایسے نظام کے لئے ہے جو غربت، افلاس، بیماری، محرومی اور ناانصافی کا خاتمہ کر سکے۔ ان محنت کشوں اور محروم عوام نے پیپلز پارٹی کے اسی بنیادی منشور اور نعروں کی بنیاد پر نسل در نسل اپنی جانیں گنوا کر بھی اس کو اقتدار میں پہنچایا لیکن پھر سرمائے کے اقتدار میں روایتی قیادتوں نے محنت کے خلاف سرمائے کا ہی ساتھ دیا۔ لیکن اس طبقاتی جدوجہد اور جنگ کے ان گمنام سپاہیوں کی نسلیں ختم نہیں ہوئیں۔ ہر نئی نسل میں نئے سپاہی اس جدوجہد میں شامل ہوئے ہیں۔
کامریڈ کجل جیسے گمنام سپاہیوں کو خراج عقیدت ان کے مجسمے اور یادگاریں بنا کر نہیں پیش کیا جا سکتا۔ نہ ہی ان کی برسیاں یا موت کا ماتم کر کے ان کی جدوجہد کا معترف ہوا جا سکتا ہے۔ وہ ایک زندہ لڑائی لڑتے ہوئے گمنامی میں مرے ہیں۔ استحصال کرنے والوں اور استحصال سہنے والوں کی یہ لڑائی جاری ہے اور جب تک معاشرہ طبقاتی بنیادوں پر قائم ہے، جاری رہے گی۔ محنت کش طبقے کے ان گنت گمنام شہیدوں کو ان کی زندگی اور موت سے بھرپور جدوجہد کا صلہ اس جدوجہد کا حصہ بن کر ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس سماج میں جتنا دکھ اور اذیت ہے اس کو قبول کر کے ذاتی مفادات کے لئے حکمران طبقات سے مصالحت اور ان کے نظام کی اطاعت نہ صرف انسانیت کی تضحیک ہے بلکہ آخری تجزئیے میں لاحاصل بھی ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آدمی محض ایک شکست خوردہ انسان کے طور پر بے معنی زندگی جیتا ہے یا پھر کجل جیسے انقلابیوں کی طرح زندگی کو زندگی سے بڑے مقصد کے لئے وقف کرتا ہے!