[تحریر: لال خان، ترجمہ: نوروز خان]
حالیہ عرصے میں سفارتی سرگرمیوں، وزرائے خارجہ اور خارجہ سیکرٹریوں کے باہمی دوروں اور تجارتی معاہدوں کی بھرمار کے ساتھ کاروباری افراد، بزرگوں، سرحد پار رشتہ داروں وغیرہ کے لیے ویزے میں نرمی کا بہت واویلا کیا جا رہا ہے۔ ان مخالف ریاستوں کے عوام کے مابین روابط بڑھانے کے ہر قدم کا خیر مقدم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اقدامات کا فائدہ آبادی کے زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد حصے کو پہنچے گا۔ ڈیڑھ ارب آبادی کی وسیع اکثریت کے لیے ویزہ حاصل کرنا اور 1500 کلو میٹر کی سرحد پار کا سفر کرنا ایک دردناک خواب ہی رہے گا۔ دونوں ممالک کے عوام کے لیے یہ ایک دشوار اور تھکا دینے والا عمل ہے جسے دونوں اطراف کے حقیقی آقاؤں اور ریاستی اہلکاروں نے شعوری طور پر عوام کو ایسی یاترا ؤں سے روکنے کے لیے ترتیب دیا ہے۔
پاکستان میں تو اسلام آباد میں واقع نام نہاد ڈپلو میٹک انکلیو میں داخل ہونا ہی ایک کٹھن کام ہے۔ لیکن جو لوگ ’سکیورٹی‘ کے نظام کی اذیت سے گزر کر ہندوستانی سفارت خانے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں انہیں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کے جتھوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بے معنی سوالات پوچھ کر تذلیل کرتے ہیں اور اکثر ان کا رویہ تحقیر آمیز اور معاندانہ ہوتا ہے۔ بہت مضبوط ارادوں والے جو یہ سب جھیل لیتے ہیں انہیں مہینوں یا سالوں تک انتظار کی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حیرانی کی بات نہیں کہ سفر کے اخراجات کے متحمل درمیانے طبقے کے ہندوستانی اور پاکستانی دوبئی، سیلون، نیپال یا خطے کے کسی اور ملک میں جا کر ملاقات کر لیتے ہیں۔ ہندوستانی اور پاکستانی جوڑوں کی کئی شادیاں دوبئی یا کہیں اور ہوئی ہیں۔ عوام کے لیے دونو ں ممالک میں کسی عزیز کی آخری رسومات میں شرکت کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوسری جانب کی کہانی میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ دہلی میں پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کے خواہش مندوں کی تکالیف سفارت کاری کی منافقانہ لفاظی میں چھپائی جاتی ہیں لیکن وہاں بھی مشکلات اتنی ہی اذیت ناک ہیں جتنی کہ پاکستان میں۔ ہر شہر میں پولیس کو رپورٹ کرنے کی کڑی شرط اور جاہل اور بدتمیز پولیس اہلکاروں کے سخت سوالات ہی واحد ذلت نہیں۔ ریڈ کلف لائن کی خونی سرحد پار کے میزبانوں کو بھی سخت اور تکلیف دہ تفتیش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات ریاست سے ان کی وفاداری پر شک کیا جاتا ہے اور سماج میں انہیں سرحد پار سے کسی دوست یا رشتہ دار کی میزبانی کاصلہ سماجی رسوائی کی شکل میں ملتا ہے۔ گھروں پر ایجنسیوں کے چکران کے سماجی تعلقات اور نیک نامی کو برباد کر دیتے ہیں اور علاقے میں ان کا رہنا دشوار ہو جاتا ہے۔ دولت مند اور مشہور لوگوں کے لیے نہ ماضی میں کوئی مسئلہ تھا اور نہ ہی اب ہو گا۔
کاروباری افراد کے لیے طویل مدت کے قیام اور ملٹی پل انٹری ویزوں کے حالیہ معاہدے اس وقت پاکستان اور ہندوستان کی سرمایہ داری کو لاحق شدید بحران کی تشویش ناک کیفیت میں نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ 2008ء میں سرمایہ داری کے عالمی کریش کے بعد سے یورپ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بر صغیر کی برامدآت کی منڈی میں شدید کمی آئی ہے جس کی وجہ مالیاتی بحران اور کھپت میں کمی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی معیشت کی شرح نمو 10 فیصد سے گر کر 5.5 فیصد تک آگئی ہے۔ ہندوستانی روپے کی قدر میں بھی گزشتہ چند مہینوں میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ مغرب میں مالیاتی بحران کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔ پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور شرح نمو1.8فیصد ہے۔ تجارت، بجٹ اور مالیاتی شعبے میں خساروں کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر خطر ناک حد تک نیچے آچکے ہیں۔ باہمی تجارت کے لیے ہندوستان اور پاکستان کی منڈیوں کو کھولنے کا جنون گھبراہٹ کا نتیجہ ہے لیکن اس سے مقامی سرمایہ داروں کی نہ مٹنے والی بھوک کو مٹانے کے لیے شرح منافع میں بمشکل ہی کوئی اضافہ ہو گا۔ چناچہ معاشی بحران کو حل کرنے کے شور شرابے کی ساری مہم محض ایک ناٹک ہے۔
ان سفارتی اقدامات کے ذریعے تعلقات میں بہتری کا بہت واویلا کیا جا رہا ہے اور بڑے بیوروکریٹ اور وزرا اس سفارتی سرکس میں اچھل کود کر رہے ہیں جبکہ بنیادی تضادات اور تنازعات بدستور حل طلب ہیں۔ امن کی تمام لفاظی کے باوجود ریاست اور سماج میں موجود جارحیت پسند قوتیں اس پر قائل نہیں۔ منگل 4 دسمبر 2012ء کو ہندوستان کے نائب وزیر داخلہ ملا پلے راماچندرن نے ہندوستانی پارلیمان کو بتایا ’’پاکستان یا کشمیر میں موجود دہشت گردی کا انفرا سٹرکچر قائم ہے اور سرحد پار سے در اندازی کی کوششیں اب بھی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج ہیں‘‘۔ دونو ں ممالک کے سماج، سیاست اور ریاست میں موجود تاریک اندیش قوتیں ایک دوسرے کے سہارے چلتی ہیں۔ ’امن پسند اور جارحیت پسند‘ کی تقسیم بھی زیادہ درست نہیں۔ اندورنی بغاوتوں اور نیچے سے ابھرنے والی طبقاتی جدوجہد کو دبانے کے لیے حکمران طبقات بیرونی خطرات کو استعمال کر کے بدحالوں اور محروموں کی عوامی تحریکوں کو کچلتے ہیں۔ ایسے حالات میں ’جارحیت پسند‘ ’امن پسند‘ بن جاتے ہیں اور ’امن پسند‘ ’جارحیت پسند، جس کا انحصار اس مخصوص وقت پر استحصال اور جبر پر مبنی طبقاتی اقتدار کو قائم رکھنے کے ضروری طریقوں پر ہوتا ہے۔
بر صغیر کے بٹوارے کا گھاؤ اب تک رس رہا ہے اور وہ مقصد پورا کر رہا ہے جس کے لیے سات ہزار سال پرانی ثقافت کے زندہ جسم کو چیرا گیا تھا۔ ہندستان اور پاکستان کے حکمران طبقات نہ تو ایک مکمل جنگ کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی پائیدار امن قائم کر سکتے ہیں۔ وہ چاپلوس میڈیا کے ذریعے جنگی جنون اور خصی مخالفت کو ابھارتے ہیں یا پھر امن مذاکرات کی شعبدہ بازی کرتے ہیں جن کا آج تک حقیقی نتیجہ نہیں نکلا۔
سامراجی آقا بھی اس مخالفت کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ آخر ہندوستان اور پاکستان پوری دنیا میں سامراج کی جنگی صنعت سے بے پناہ مہنگے داموں جدید تباہ کن اسلحے کے دس بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔ چناچہ ہر وقت سلگتی ہوئی دشمنی ان کی ضرورت ہے جسے کسی بھی وقت طبقاتی جدوجہد کی نئی لہر کے ابھرنے کے خطرے کے پیش نظر ہوا دی جا سکے۔ لیکن عوام نے دھوکے اور فریب کے اس شیطانی چکر کو بہت برداشت کر لیا ہے۔ ہندوستانی اور پاکستانی محنت کش طبقات کے دکھ، غربت، محرومی، استحصال، مصائب اور جبر ایک سے ہیں۔ ان کی جدوجہد کا مقصد سانجھا ہے۔ اگر وہ متحد ہو جائیں تو بر صغیر کی حکمران اشرافیہ کا مقدر تاریخ کا کوڑا دان ہے۔ چناچہ محنت کش عوام کو ویزے دینا ان کے مفاد میں نہیں کیونکہ اس سے لوگوں کو اکٹھے ہونے، تجربات کا تبادلہ کرنے، ایک دوسرے سے سیکھنے اور ان جابروں کے خلاف متحد ہونے کا موقع ملے گاجو خود اندر سے ایک ہیں۔ یہ حکمران طبقات اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے پیامِ مرگ ہو گا۔ اس نظام کے خاتمے کے لیے ان کروڑوں انسانوں کو وہ انقلاب برپا کرنا ہو گا جو ان جعلی رکاوٹوں، ریاستی ڈھانچوں اور نظام کو اکھاڑ پھینکے جو نسل در نسل ان کے جیون کی تذلیل اور اسے برباد کر تا چلا آ رہا ہے۔
ڈیلی ٹائمز، 9 دسمبر 2012ء
متعلقہ:
کشمیر: سامراجیوں کے شکنجے میں
65 واں جشنِ آزادی : حکمران آزادی کا جبر۔۔۔ کب تلک؟