بھارت چین دوستی؟

| تحریر: لال خان |

مودی کے دورہ چین پر یہاں کے کچھ چین نواز حکمران تلملا سے گئے ہیں۔ اب یہ تو پتا نہیں کہ بھارت چین دوستی ہمالیہ سے اونچی ہے یا نیچی لیکن ’’پاک چین دوستی‘‘ کی طرح جیبوں سے گہری ضرور معلوم ہوتی ہے۔ مرزا غالب کے بقول:

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

modi visits china (1)
مودی نے چین میں زیادہ تر وقت سیلفیاں لیتے ہوئے گزارا

بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے 14 مئی کو شروع ہونے والے دورہ چین میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ان کی آؤ بھگت اس سے کم نہیں تھی جس کا اہتمام پاکستان کے حکمرانوں نے چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران کیا تھا۔ مودی نے چین کے ساتھ 22 ارب ڈالر کے 26 معاہدے طے کئے۔ اس سے قبل ستمبر 2014ء میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ ہندوستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط ہوئے تھے۔ کل ملا کر بھارت چین تجارتی معاہدوں کی مالیت 42ارب ڈالر بنتی جو 46 ارب ڈالر کے پاک چین معاہدوں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ان دوستیوں میں بھی اس سے زیادہ فرق شاید نہیں ہے۔
جعلی مسکراہٹ کے تبادلے، قومی ترانوں کی دھنیں، گارڈ آف آنر، لڑاکا جہازوں کی سلامی وغیرہ۔ بیرونی سربران مملکت کے دوروں کے دوران ہر جگہ ایک سے تماشے ہی ہوتے ہیں۔ یہ ناٹک درحقیقت عوام کو حکمرانوں کے جاہ و جلال سے مرعوب کرنے اور ان کی نفسیات کو ماؤف کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے بڑی کمرشل فلموں سے بھی زیادہ اخراجات کئے جاتے ہیں، محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت کو بے دریغ اڑایا جاتا ہے۔
یہ دورے حکمران طبقے کے کاروباری معاملات کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں ’’ملک و قوم‘‘ کی دوستی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس دوستی کی لفاظی اور نعرہ بازی کروانے کے لئے کرائے کے شاعر اور دانش وروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ڈھونگ رچایا جاتا ہے کہ یہ ’’منصوبے‘‘ عوام کی ترقی اور فلاح کے لئے ہیں۔ کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہونے والے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ اس فریب میں محروم طبقات کو اس حد تک غرق کر دیا جاتا ہے کہ وہ تلخ حقائق کا سامنا کرنے سے ہی کترانے لگتے ہیں۔
’’پاک چین دوستی‘‘ کے کتنے چرچے ہیں۔ لیکن پھر چین کے حکمرانوں کی جانب سے پاکستان دشمنی کی سیاست کرنے والے نریندرا مودی کا شاندار استقبال اور اس کے دورے کو ذاتی ’’ٹچ‘‘ دینا، کچھ اور ہی بتاتا ہے۔ مودی کی اس حد تک پزیرائی کی گئی کہ اس کو شی جن پنگ نے اپنے آبائی قصبے میں مدعو کیا۔ وہاں اس کا روایتی ثقافتی انداز میں خیر مقدم کیا گیا جس کے بعد ہی دو طرفہ ’’مذاکرات‘‘ بیجنگ میں شروع ہوئے۔ اس نجی و سرکاری ملن کا حتمی مقصد دونوں ممالک کے سرمایہ داروں کے لین دین اور معاشی اشتراک کو مستحکم کرنا تھا۔ مختلف ممالک کے حکمرانوں کے درمیان طے پانے والے مشترکہ اقتصادی مفادات کے معاہدے درحقیقت ان ’’اقوام‘‘ کے اکثریتی عوام کے لئے استحصال میں اضافے کے فرمان ہوتے ہیں۔ ہر ’’قوم‘‘ میں بالادست، درمیانے اور محنت کش طبقے کی شکل میں کئی قومیں بس رہی ہوتی ہیں۔ محنت کش اور حکمران طبقے کے مفادات متضاد اور متصادم ہوتے ہیں۔ طبقاتی سماج میں ’’قومی مفادات‘‘ آخری تجزئیے میں حکمران طبقے کے مفادات ہوتے ہیں۔

17718502211_c4fb4a923b_o
چین کے شہر لنشوئی میں کچھ دن قبل ہونے والا احتجاجی مظاہرہ

ہندوستان کے 125 کروڑ انسانوں میں سے 80 کروڑ ویسے ہی معاشی سائیکل سے باہر ہیں جن کی زندگی میں ان معاہدوں سے کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ 2008ء میں عالمی سرمایہ داری کے مالیاتی کریش کے بعد سے دنیا کا 68 فیصد جی ڈی پی رکھنے والی یورپ اور امریکہ کی منڈیاں مسلسل سکڑ رہی ہیں۔ ان منڈیوں کے انہدام سے چینی معیشت کی شرح نمو 14 فیصد سے گر کر 25 سالوں کی کم ترین سطح 6.8 فیصد پر آگری ہے اور مزید گراوٹ کے امکانات حاوی ہیں۔ جنوبی افریقہ کے بعد امارت اور غربت کی سب سے بڑی خلیج چین میں موجود ہے اور یہ معاشی بحران ہر روز اس ملک کے محنت کشوں کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ اس پولیس سٹیٹ میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے اور خوفزدہ چینی حکمران سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ خسارے کی سرمایہ کاری سمیت ہر حربہ استعمال کر کے عوامی قہر سے بچا جاسکے۔ یہ حکمرانوں کا خوف ہی ہے جس کے تحت چین کی ’’داخلی سکیورٹی‘‘ کا بجٹ بیرونی دفاع سے بھی زیادہ ہے۔ بحران سے نکلنے کی اس ’فرسٹریشن‘ میں کون سی دوستی اور کیا دشمنی؟
ادھر ہندوستان کے کارپوریٹ سرمائے کو اپنے بحران کا سامنا ہے۔ مودی چین جاتے ہوئے بیان دے کر گیا ہے کہ ’’چین دنیا کی پیداواری فیکٹری ہے اور ہم اس کا سیلز دفتر بن سکتے ہیں۔‘‘ دونوں ممالک کا سرمایہ دار طبقہ تاریخ طور پر متروک، معاشی طور پر کرپٹ اور سیاسی طور پر رجعتی ہے۔ ان کا نظام مر رہا ہے جس کے پیش نظر یہ معاہدے زیادہ گنجائش پیدا نہیں کر سکیں گے۔ تعمیراتی ٹھیکوں اور لین دین کے ان معاہدوں کی حیثیت چند قطروں سی ہے جس سے بلند شرح منافع کی پیاس مٹنے والی نہیں۔
ویسے ہندوستان اور چین کی فوجی اشرافیہ خوش ہوگی نہ ہی اسلحہ ساز کمپنیاں ان معاہدوں کو پسند کریں گی۔ چین ہندوستان کا محاذ ہو یا پاک بھارت دشمنی، بڑی جنگوں کا وقت شاید گزر گیا ہے لیکن اسلحہ ساز کمپنیوں اور فوجی اشرافیہ کو مسلسل تناؤ اور بعض اوقات حالت جنگ کی صورتحال بہرحال درکار ہے۔ مودی کے اس دورے سے اس تناؤ اور عوام پر اس کو مسلط رکھنے کے طریقہ حکمرانی کو کچھ ٹھیس ضرور پہنچے گی۔ کھلی جنگ کے امکانات کم و بیش معدوم ہونے کی وجہ سے جنگی شعبے میں زیادہ منافع ممکن نہیں ہے لہٰذا تجارتی معاہدوں اور تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے شرح منافع کو بڑھانے کی ناکام سعی کی جارہی ہے۔
اس سارے کھلواڑ کے لئے منافقت کا جو فن استعمال کیا جارہا ہے اسے ’’سفارتکاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ سفارتکاری کی اس فنکاری سے ایسا فارمولا ایجاد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے دوستی اور دشمنی کا کوئی ملغوبہ تیار کیا جا سکے، تاکہ تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ عسکری شعبے سے بھی منافع خوری کا عمل جاری رہے۔ اس فارمولے کے تحت کبھی کوئی سرحدی جھڑپ کروا دی جاتی ہے یا پھر متنازعہ علاقے پر ملکیت کی بڑھک لگائی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ’’مختلف سطحوں پر مذاکرات‘‘ بھی جاری رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ دوستیاں اور دشمنیاں حکمرانوں کے مالی مفادات کے لئے ہی ہیں۔ حب الوطنی، قومی سالمیت، غیرت، جنگی جنون، حتیٰ کہ مذہبی تعصبات کے عفریت کو ابھارنا بھی انہی پالیسیوں کا حصہ ہے۔
modi visits china (2)ہندوستان ایک سیکولر جمہویت اور ’’سوشلسٹ‘‘ آئین کا واویلا کرتا ہے جہاں دائیں بازو کی مذہبی بنیاد پرست پارٹی اقتدار میں ہے۔ دنیا کی ’’ سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کے چھوٹے حکمران بھی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے معاملات میں ’’را‘‘ کے ہی مرہون ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ چین میں ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ کی حکومت ہے جو ’’کمیونسٹ‘‘ ہے نہ پارٹی بلکہ مافیا سرمایہ دار ٹولے کا ایک گینگ ہے۔ ہندوستان کے ’’سیکولر‘‘ حکمران ہوں یا پھر نریندرا مودی جیسے مذہبی جنونی ، سب کے سب سرمائے کے دلال ہی ہیں۔ چین کے حکمرانوں نے کمیونزم کو جتنا بدنام اور ذلیل و رسوا کیا ہے اتنا شاید سٹالن نے بھی نہ کیا ہوگا۔ چینی کھرب پتیوں کے اس ’’کمیونزم‘‘ نے دنیا بھر میں مارکسزم اور سوشلزم کی جتنی رسوائی کی ہے اس کے سامنے سوویت یونین کے ٹوٹنے اور دیوار برلن کے گرنے کے واقعات بھی ماند پڑ جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے اور تب تک ہی ہوسکتا ہے جب تک چین کا محنت کش طبقہ ایک اور سوشلسٹ انقلاب کے لئے تاریخ کے میدان میں نہیں اترتا۔ دوسری طرف مودی کا اقتدار ہندوستان میں رد انقلاب کا وہ تازیانہ ثابت ہو سکتا ہے جو انقلابی سرکشی کو جنم دے گا۔ چین میں بکھری صنعتی ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے اگر ایک تحریک میں یکجا ہوتے ہیں تو محنت کش عوام ان ’’کمیونسٹ‘‘ حکمرانوں کو بتائیں گے کہ کمیونزم ہوتا کیا ہے۔ ان چینی سرمایہ داروں کا ایسا عبرت ناک انجام ہو گا کہ آئندہ کسی کو انسانی نجات کے سچے نظرئیے کی تضحیک کی جرات نہ ہوگی!

متعلقہ:

پاک چین دوستی یا کاروبار؟

’’ابھرتی‘‘ معیشتوں کی لڑکھراہٹ

چین کی معاشی تنزلی

ہندوستان: کوئلے سے اٹھتی چنگاری

ہندوستان: فریب جلد ٹوٹے گا!