اداریہ جدوجہد:-
عظیم مارکسی استاد ٹیڈگرانٹ نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’ماضی کے بغیر کسی مستقبل کا تعین نہیں ہوسکتا۔‘‘ آج جب وقت رک سا گیا ہے تو ناگزیر طور پر ماضی عود کر آیا ہے۔ ماضی کا بھیانک اور اذیت ناک دور آج بھی ایک ’’جمہوری‘‘ ڈھونگ میں عوام کی معاشی اور سماجی زندگی کو برباد کیے جارہا ہے۔ زرداری ہو یا نواز شریف‘ عمران خان ہو یا ملاؤں کی دوسری مختلف کیفیتیں سب آج کے وقت میں ایک لبرل شکل میں ضیاالحقیت ہی کررہے ہیں، ایم کیو ایم اور فرقہ وارانہ مذہبی گروہ بھی اسی کے خصوصی ہتھکنڈے تھے۔ ایک ہی ذریعے سے جڑے مالیاتی معاملات ان گروہوں کے مابین باہمی مسابقت اور تضادات کو جنم دیتے ہیں۔ مالی مفادات میں سے حصہ دیے بغیر فوج کے خلاف زرداری کی احتجاجی گفتگو سے معمولی سا غیر معمول بھی واپس نہیں آئے گا۔پھر شیری رحمن جیسے کاسہ لیس کس مرض کی دوا ہیں؟معافی ناموں کے انداز بھی کیا کیا ہوتے ہیں؟ بیانات تو آتے ہی رہتے ہیں۔ اقدامات بھی ہوتے رہے ہیں۔ لیکن سودا پھر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح ہو ہی جاتا ہے۔ ضیا الحق جیسے درندے کے دور میں زرداری نے الیکشن لڑے ‘نواز شریف اسکے گورنر پنجاب جیلانی کے احسانات کی پیداوار تھے۔ عمران کو کرکٹ میں دوبارہ ضیا الحق ہی لایا تھا۔ شاید اس درندے کے ذہن میں عمران خان کا حالیہ کردار بھی منڈلا رہا تھا۔ ولی خان نے بھی مصالحت کی تھی، اسفند یار بھی آج منڈی کی معیشت کا سب سے بڑاوکیل بنا ہوا ہے ۔ مسلم لیگیں بھی رجعتیت کا تسلسل ہیں۔ اسلامی پارٹیاں بھی دراصل اسکی ہی جدید شکل میں پیداوار ہیں۔ ایسے میں زرداری کا فوج کے بارے میں بیان تنقید نہیں مری ہوئی ساکھ کو ابھارنے کا نامراد ہتھکنڈا ہے۔ جب کسی کی بدعنوانی پر کوئی بڑا بدعنوان ہی ہاتھ ڈالے تو تکلیف تو تھوڑی زیادہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن یہ کیسا المیہ ہے کہ زرداری نے خیبر سے لے کر کراچی تک بغاوت کی دھمکی بھی دے دی۔جانے یہ لیڈر کس سیارے کی مخلوق ہیں۔ بھٹو کے قتل پر عوامی بغاوت کو عیاری سے کچلنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت کی آج اس بیہودہ بے معنی پرفریب بیان بازی پر عوام بغاوت کریں گے، کیسی بے ہودگی کا تصور ہے!
پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو اب سیاسی زندگی میں میڈیا ا ور ریاست کی ’’لائف سپورٹنگ ڈرگز‘‘ پر ہی زندہ رکھا جارہا ہے۔اگر حکمران پیپلز پارٹی کا یہ سطحی تصور اور وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکے تو پھر ان کے پاس عوام کو متبادل دینے کے لیے کچھ بچے گا ہی نہیں۔
موجودہ سیاست کا افق نہ صرف متروک ہو چکا ہے بلکہ عوام کی نظروں میں مسترد بھی۔ نہ بلاول کسی صورت میں پیپلز پارٹی کو زندہ کرسکتا ہے اور نہ ہی اسکی کوئی بہن یا رشتہ دار ! بھٹو نے پیپلز پارٹی اپنی شخصیت سے نہیں بنائی تھی بلکہ سوشلسٹ نظریہ دے کر مقبولیت پائی تھی۔ نظریات کو ذاتیات میں تحلیل کردیا گیا تو نہ پارٹی رہی اور نہ اسکی حمایت۔ ایک مصنوعی اور فروعی سیاست ہے جس کو این جی اوز سے لے کر اسلامی بنیاد پرست سبھی عوام پر مسلط کررہے ہیں۔ میڈیا کے پاس سوائے بے بنیاد ایشوز، ان کی تصوراتی علامات کو مسلط کرنے اور حکمرانوں کے بے مقصد اور بے ہودہ تضادات کے گرد تکرار اور لفظی تصادم کے علاوہ ریٹنگ کے لیے رہ بھی کیا گیا ہے؟یہاں محنت کرنے والے ایک اذیت اور کرب میں مبتلا ہیں۔ بے ہودگی کے راج کو بس برداشت کررہے ہیں۔ یہ فوج زندگیوں کو تلخ کرنے میں برسرپیکار ہے۔ یہ ریاست ناکام ہے! یہ نظام ایک بلادکار ہے۔ اس کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔