تحریر: راہول
اقتدار کے آخری سال میں داخل ہوئی مودی سرکار کا بحران ہر روز سرچڑھتا نظر آرہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں پھیلتی تحریک ہو، ’JNU‘ میں طلبہ کی اٹھان یا حالیہ کسان تحریک ، ہر تحریک اس نظام کے سنگین ہوتے بحران اور عوامی صبر کے لبریز ہوتے پیمانے کا اظہار ہے ۔ یہ بنیادی طور پر اُس چمکتے بھارت کے کھوکھلے جھوٹ کا پول ہے جسے ترقی کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عوام سے بولا جاتا رہا۔ہندوستان میں جاری حالیہ کسان تحریک نے نہ صرف مودی سرکار کے ’’اچھے دنوں‘‘ کے واویلے کو بے نقاب کیا ہے بلکہ اپنے آغاز ہی سے یہ تحریک ایک ایسی آواز میں تبدیل ہوگئی جسے ان سُنا کرنا ممکن نہیں تھا۔
مغربی ہندوستان کی ریاست مہاراشٹرا نہ صرف ہندوستان کا مالیاتی اور کمرشل مرکز ہے بلکہ پوری دنیا میں ہندوستان کی پہچان سمجھے جانے والا شہر ممبئی بھی اسی ریاست کا دارلحکومت ہے ۔ مہاراشٹرا دراصل ایک ایسی ریاست تصور کی جاتی ہے جہاں قدرتی اسباب سے اکثر کسانوں کی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں جو کسان بینکوں سے قرض لیکر کھیتی کرتے ہیں اکثر دیوالیہ ہوجاتے ہیں اوراسی صدمے میں اکثر انہیں اپنی زندگی ختم کرنی پڑتی ہے۔ یوں کہیں کہ جیسے سب کچھ لٹانے کے باوجود بھی ایسے کسانوں کو سوائے موت کے اور کچھ نصیب نہیں ہوتا ۔ کسانون کی اسی بدترین صورتحال کے خلاف ’اکھل بھارتیہ کسان سبھا‘کی قیادت میں ناسک سے ممبئی تک 6 مارچ کو ایک احتجاجی مارچ شروع ہوا۔ جس نے قرض معافی کے نعرے تلے مہاراشٹرا اسمبلی کا گھیراؤ بھی کیا ۔
ناسک سے ’اکھل بھارتیہ کسان سبھا‘ کی قیادت میں شروع ہوئے اس کسان مارچ میں ریاست بھر کے ہزاروں کسان شریک ہوئے جوکہ انقلابی نعروں سمیت حکومت کی ناکامی کے خلاف نعرے بلند کر رہے تھے۔ محتاط اندازوں کے مطابق 35 سے 50 ہزار کسان اس مارچ میں شریک تھے۔ مارچ میں شامل کسانوں کا مطالبہ تھاکہ ریاست کے کسانوں کو انکی پیداوار کا مناسب معاوضہ دیا جائے اور ان کا کُل قرضہ فوری طور پر معاف کیا جائے۔ کسانوں کا مزید مطالبہ ہے کہ سوامی ناتھن کمیشن کی تمام سفارشات لاگو کی جائیں۔ ویسے تو پورے ملک میں کسانوں کی حالت اچھی نہیں ہے لیکن مہاراشٹرا میں کسانوں کے حالات اتنے خراب ہیں کہ وہاں پر کسانوں کی خودکشی کرنے کی تعداد پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔
اس مارچ کے اثرات پورے ہندوستان پر اس قدر پڑے کہ کچھ ہی روز بعد ’’چلو لکھنو‘‘ و دیگر نعروں کے ساتھ کئی اور ریاستوں میں اس قسم کے مارچ شروع ہوگئے اور ہندوستان کے کسانوں کے سلگتے مسائل کو بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہوئی۔ چھ رو ز تک 112 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد کسانوں کی ایک بڑی تعداد ’ودیا بھون‘ پر جمع ہوئی جہاں ریاستی حکومت نے چند مطالبات تسلیم کرتے ہوئے اس دھرنے کا خاتمہ کروایا ۔تحریک کے کئی مطالبات پر اب تک عمل درآمد نہیں کروایا جاسکا حالانکہ ان میں سے بیشتر مطالبات مودی کے الیکشن پروگرام کا حصہ بھی تھے ۔ حکومت نے آئندہ چھ ماہ میں ان میں سے کچھ مطالبات کو منظور کرنے کا ’’وعدہ ‘‘کیا ہے ۔ لیکن ایسے وعدے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں جن پر اب تک عمل درآمد نہیں کروایا جاسکا۔ اس تحریک میں جہاں کسانوں کی انتھک جدوجہد دیکھنے میں ملی وہیں انقلابی نظریات سے انحراف کرتی پارلیمانی تنگ نظری کا شکار کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کا کردار بھی کھل کر سامنے آیا ۔ جہاں ایک طرف بڑی کارپوریشنز اور دیگر سیکٹرز کو نشانہ بنا کر اس تحریک کو دوسرے محنت کش عوام تک پھیلایا جاسکتا تھا وہیں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے اسے محض مودی حکومت کے خلاف محدود رکھا۔
برطانوی راج کے خاتمے کے ستر سال گزرنے کے باوجود بھی یہاں کی طرح بھارت کی دیہی آبادی کی اکثریت کے حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی اور اکثر کسانوں کے حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کی ایک ارب تیس کروڑ آبادی میں سے تقریباً ستر فیصد آبادی (تقریبا آٹھ سو ملین) دیہی آبادی پر مشتمل ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت سے منسلک ہے۔ ہندوستان کی یہ زرعی آبادی اس کے جی ڈی پی کا 16 فیصد پیدا کرتی ہے ۔ہندوستان دنیا میں سب سے زائد کپاس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ گنا ، چاول اور چینی پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک بھی ہے ۔ صرف پچھلے سال یہاں 275 ملین ٹن غذاجبکہ 300 ملین ٹن پھل اور سبزیاں پیدا کی گئیں۔ ایک منافع بخش پیداواری ریاست ہونے کے باوجود بھی ہندوستان عام کسانوں کے لئے ایک بدترین ملک تصور کیا جاتا ہے ۔ کسانوں کی اکثریت حکومت کے مقرر کردہ ریٹ سے کم پر اپنی اشیا بیچنے پر مجبور ہے جبکہ قرضوں کے بھاری بوجھ ، بارشوں میں کمی اور قحط سالی کے باعث اب کسانوں میں خودکشیوں کی شرح ماضی سے کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ اس ساری کیفیت میں حکومت اپنی طے شدہ قیمتوں کا اطلاق کروانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ مارچ کے بعد کسانوں کو یقین دہانی کرواتے ہوئے فنانس منسٹر ارون جیٹلے کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی سرکار ’Minimum Support Price‘ پر عمل درآمد کروانے کے لئے خصوصی اقدامات کر رہی ہے جس سے آنے والے عرصے میں یہ بحران ختم ہوجائے گا لیکن اسی حوالے سے جوڑے گئے کمیشن کی حال ہی میں جاری ہوئی عبوری رپورٹ دیتے ہوئے سماجی تنظیم سوارج ابھیان کے صدر یوگیندر یادو نے انکشاف کیاکہ ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں حکومتی مقرر کردہ ریٹ سے کئی گنا کم پر کسان اپنی پیداوار فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یادو کا مزید کہنا تھا کہ ان کے مطابق ہر سال کسانوں کو 14,474 کروڑ کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جو سراسر ’’کسانوں کی سرکاری لوٹ مار‘‘ ہے۔
اس ساری صورتحال میں ہندوستان کے کسانوں میں دیوالیہ پن کے باعث خودکشی اب ایک عام بات بنتی جا رہی ہے ۔حکومتی اعداد کے مطابق بھارتی کسانوں پر قرض کا تقریباً 60 فیصد ادارہ جاتی ذرائع سے لیا گیا ہے یعنی حکومت اور بینک وغیرہ۔ وزیر زراعت کے مطابق غیر ادارہ جاتی ذرائع سے لئے گئے قرض میں ساہوکاروں، زمینداروں، رشتہ داروں اور دوستوں وغیرہ سے لیا گیا قرض شامل ہے۔ ایک زرعی خاندان پر قرض کی اوسط رقم تقریباً 47000/- روپے بنتی ہے۔
ان قرضوں کے بوجھ تلے دبے کسانوں کے پاس سوائے خودکشی کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ زراعت کے وزیر رادھاموہن سنگھ نے 2014ء اور 2015ء کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار اور سال 2016ء کے آخری اعداد و شمار کے حوالے سے لوک سبھا میں جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں سال 2014ء سے 2016ء تک کے تین سالوں کے دوران قرض، دیوالیہ پن اور دوسری وجوہات سے تقریباً 36 ہزار کسانوں اور زرعی مزدوروں نے خودکشی کی ہے۔خودکشی کرنے والے کسانوں کی اکثریت ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے جن کے پاس ایک ایکڑ یا اس سے بھی کم زمین ہے ۔لوک سبھا میں وکیل جوئیس جارج کے سوال کے تحریری جواب میں زراعتی وزیر نے مزید کہا کہ وزارت داخلہ کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی خودکشی سے جڑی رپورٹ کے مطابق سال 2014ء میں 12360 کسانوں اور زرعی مزدوروں نے خودکشی کی جبکہ سال 2015ء میں یہ تعداد 12602 تھی۔ سال 2016ء کے لئے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے آخری اعداد و شمار کے مطابق 11370ء کسان اور زرعی مزدورخودکشی کرچکے ہیں۔
مودی سرکار کے اقتدار میں آنے سے لیکر اب تک کسانوں سے کئے گئے کم و بیش سبھی وعدے‘ دھوکہ اور جھو ٹ ثابت ہوئے ہیں۔ 2022ء تک کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کا مودی الیکشن کمپئین کا وعدہ ا ب ایک المیہ انگیز مذاق معلوم ہوتا ہے۔ گجرات میں حالیہ انتخابات میں شکست ہونے کے بعد اس سال زرعی بجٹ میں برائے نام ’’اضافہ‘‘ بھی کیا گیا ہے جسے معاشی تجزیہ کار جیاتی گھوش نے محض ’’باتیں‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق مختص کی گئی رقم میں سے مشکل ہی سے کچھ خرچ کی جائے گی ۔جہاں ایک طرف مودی حکومت کسانوں سے ’’ہمدردی‘‘ کا واویلا کرتی نظر آ رہی ہے وہیں اس کا عمل بالکل برعکس ہے ۔ گزشتہ کچھ دنوں سے مختلف احتجاجوں پر پولیس کے لاٹھی چارج میں تقریباً 20 کسان ہلاک ہوچکے ہیں۔ اسی کے ساتھ ملک کی ’’ترقیاتی ضرورت‘‘ کے نام پر کئی کسانوں کو زمینوں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ دوسری طرف بڑے سرمایہ داروں اور زمینداروں کو چھوٹ دینے کا سلسلہ ہر سطح پر جاری رکھا ہوا ہے۔
کسانوں کی یہ حالیہ تحریک ’BJP‘ حکومت کے لئے شدید مشکلات کھڑی کرسکتی ہے ۔ مہاراشٹرا میں ہوئی فتح نے پہلے ہی تحریک کے حوصلے بلند کردیئے ہیں ۔ اسی تحریک کے دباؤ میں آنے والے بجٹ سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس میں زراعت کے لئے کچھ خاص رقم مختص کی جائے گی۔ درحقیقت وہ رقم محض کاغذوں تک ہی محدود رہے گی جس کے نتیجے میں مزید تحریکیں امڈ سکتی ہیں۔
ظاہری اعداد و شمار کی چمک دمک کے باوجود ہندوستانی معیشت آج بحران سے دوچار ہے۔ الجزیرہ کو دیئے ایک انٹرویو میں بھارتی فنانس منسٹری کے سابقہ مشیر موہن گروسوامی کے مطابق ’GDP‘ کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا ہے حالانکہ اس سال اس کی گروتھ 6.5 فیصد سے کسی طور بھی زیادہ نہیں ہوسکتی ۔اِس گروتھ کے ثمرات بھی صرف بالائی طبقات تک ہی محدود ہیں۔ اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے جوکہ 43 بلین ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے ۔ جہاں غربت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہیں ہر ماہ دس لاکھ سے زائد نئے نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہوکر بیروزگاری کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔ اس نازک کیفیت میں مودی سرکاری کے لئے کئی نئی مشکلات سامنے آسکتی ہیں۔ مودی کا لگایا ’’اچھے دنوں‘‘ کا نعرہ اب اس کے برے دنوں میں تبدیل ہو رہا ہے۔ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا انقلاب کو آگے بڑھانے کا کام بعض اوقات رد انقلاب کا تازیانہ کرتا ہے۔ آنے والے عہد میں زیادہ بڑی بغاوتوں کے امکانات ہیں۔ پچھلے چھ ماہ میں کسانوں کی یہ دوسری بڑی تحریک اور مودی سرکار کے دورِ اقتدار میں تاریخ کی سب سے بڑی مزدور ہڑتالیں اس بات کا واضح اظہار ہیں کہ استحصال زدہ لوگ اس گھٹن زدہ ماحول سے تنگ آکر ایک نئی تبدیلی کے لئے نکلنے کو تیار ہیں لیکن سیاسی متبادل کی عدم موجودگی کے باعث کوئی بھی تحریک اپنے حتمی اہداف حاصل نہیں کرسکتی۔ تریپولا اور منی پور میں ہوئے حالیہ انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی مصالحت پسندی اور اصلاح پسندی کا ناگزیر نتیجہ شکست کی صورت میں نکلا ہے۔ ایسے میں حالیہ کسان تحریکیں یقیناًعوامی شعور کو جھنجھوڑنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن تحریک کی حتمی کامیابی اسی صورت ممکن ہے جب اس کا ملاپ مزدور طبقے سے ہو۔ آنے والے عرصے میں حالات محنت کش طبقے کی بڑی تعداد کو میدان عمل میں اترنے پر مجبور کریں گے۔ محنت کشوں کی زیادہ باشعور اور ہراول پرتیں بہت جلد ان واقعات سے انقلابی نتائج اخذ کریں گی۔ مذہبی بنیاد پرستی اور رجعت کی یلغار کے زور پر محنت کش طبقے کو صدا نڈھال اور بے عمل نہیں رکھا جا سکتا۔ آج بڑے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے ایجنٹ کے طور پر بی جے پی حکومت کا کردار بالکل بے نقاب ہوچکا ہے۔مزدوروں اور کسانوں کی ان ہڑتالوں نے نسل در نسل غربت، ذلت اور استحصال کی بھٹی میں جلنے والے ہندوستان کے کروڑوں عام لوگوں پر طبقاتی جدوجہد کا راستہ آشکار کیا ہے۔