تحریر: راہول
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والی بھارتی ریاست میں رواں ماہ سے لوک سبھا کے انتخابات کا آغاز ہوچکا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق 543 نشستوں پر انتخابات کی پولنگ 11، 18، 23 ،29 اپریل اور 6، 12، 19 مئی کو سات مراحل میں ہوگی جبکہ 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع کیا جائے گا۔ 90کروڑ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ اس باربھی ووٹوں کی خریدوفروخت کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہایا جائے گا اور میڈیا پر پہلے ہی اشتہارات کی بھرمار جاری ہے جہاں ہر سیاسی جماعت نے اپنی حیثیت کے مطابق نہ صرف میڈیا کے اینکر و صحافی بلکہ پورے کے پورے چینل خرید لیے ہیں جہاں اپنی نمائشی مہم زور وشورسے جاری ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی تو نریندرا مودی کی زندگی پر ایک فلم تک بنوا رہی ہے جس میں مودی جیسے فسطائی کردار کی شخصیت کو ایک عظیم رہنما اور غریبوں کے ’مسیحا‘ کے طور پرپیش کیا جارہا ہے۔
حکمران جماعت سے لے کر اپوزیشن اور یہاں تک کے کئی بالی ووڈ اداکار، کرکٹر و دیگر سیلیبریٹریز یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ لوگ اس چناؤ کے ذریعے اپنی تقدیریں بدل سکتے ہیں۔ درحقیت انتخابات کے اس کھلواڑ میں جیت چاہے کسی کی بھی ہو پر ہارتے صرف غریب عوام ہی ہیں۔ پچھلے ستر سال سے یہ گھن چکر یوں ہی چلا آ رہا ہے اورسرمائے کی لونڈی اس جمہوریت کے نام نہاد انتخابات میں صرف وہی ٹولے اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں جو حکمران طبقات اور ریاست کی ضرورت بن جاتے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑے پیمانے پر فتح اور دائیں بازو کے پاپولسٹ لیڈر کے طور پر نریندرا مودی کے ابھار نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں لبرل اور سیکولر دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو ششدر کردیا تھا۔ یہ مظہر دراصل بھارت کے سرمایہ دار اور طاقتور جرائم پیشہ مافیا کی حمایت کا نتیجہ تھی۔ گزشتہ انتخابات سے قبل جب بھارت کے سو بڑے سرمایہ داروں سے ان کے پسندیدہ امیدوار کے بارے پوچھا گیا تو ان میں سے 72 نے کہا کہ وہ مودی کو اپنا وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی وہ سرمایہ دار تھے جنہوں نے اپنے معاشی عزائم کے لئے مودی جیسے ہندو شاونسٹ کو بھی بھارت جیسی ’’سیکولر‘‘ ریاست کا اقتدار سونپ دیا۔ لیکن مودی کے اس ابھار کے پیچھے جہاں ان سرمایہ داروں کی دولت تھی وہیں نیم رجعتی معروض اور سرمایہ دارانہ جبر و استحصال سے نجات کا راستہ دکھانے والی موضوعی قوت کی عدم موجودگی بھی کارفرما تھی۔ عالمی مالیاتی بحران کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں ایسی صورتحال نظر آئی۔
پچھلے انتخابات میں مودی کو اس کے ’’گجرات ماڈل‘‘ کی بدولت شہرت دلوائی گئی۔ بطور گجرات کے وزیر اعلیٰ جس بے دردی سے مودی نے نیولبرل معاشی پالیسیوں کا نفاذ کرتے ہوئے کارپوریٹ سیکٹر کے منافعوں میں اضافے کے لیے ’سازگار ماحول‘ تیار کیا تھا وہ سرمایہ دار قوتوں کے لئے کشش کا باعث بنا۔ بھارتی سرمایہ دار مودی سے یہ توقع کررہے تھے کہ وہ گجرات سے نکل کر پورے ہندوستان میں اس کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی مودی نے پوری دنیا کے سامنے خودکو ایک آہنی اور ناقابل تسخیر رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن تھوڑے عرصے میں ہی اس کے کھوکھلے اقتدار کا پول کھل کر سامنے آگیا۔ پچھلے عرصے میں رافیل ڈیل کے کرپشن سکینڈل نے اس کی ساکھ کی بالکل ہی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
نوٹ بندی سے لے کے کرپشن کے خلاف سطحی اقدامات اور جی ایس ٹی کے نفاذ جیسی پالیسیوں نے عوام کے دکھوں کو تو خیر کیا ہی دور کرنا تھا لیکن یہ بھارتی سرمایہ داروں کے لئے خوب کارآمد ثابت ہوئے۔ جن کی دولت میں اضافے کی شرح اس عرصے میں تیز ہی ہوئی ہے۔ انہیں سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول اور عوامی وسائل کی بے تحاشہ لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ 2015ء میں مودی کی ان پالیسیوں کی بدولت تقریباً 44 بلین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری آئی جو عالمی ایف ڈی آئی کا 2.5 فیصد بنتا ہے۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر بھارتی تجزیہ کار یہ تخمینہ لگا رہے تھے کہ مودی اپنے وعدے کے مطابق سالانہ ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرسکے گا مگر کچھ ہی ماہ بعد اس مودی ماڈل کی ہوا نکلنے لگی۔ درحقیقت پچھلے پانچ سالوں میں بیروزگاری کم ہونے کی بجائے مزید بڑھی ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھی دسمبر 2018ء میں بیروزگاری کی شرح 7.4 فیصد رہی جوکہ گزشتہ 27 مہینوں کی بلند ترین شرح بنتی ہے جبکہ کچھ اداروں کے مطابق یہ گزشتہ 45 سالوں کی بلند ترین شرح تھی۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف 2018ء میں گیارہ ملین نوکریوں کا خاتمہ ہوا ہے۔ ایسے میں بیروزگاری اس وقت بھارت کا ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے اور آنے والے وقت میں بھی حکومتوں کے لئے یہ بنیادی چیلنج ثابت ہوگا۔ ورلڈ بینک کے مطابق ہندوستان کو بیروزگاری سے نمٹنے کے لئے تقریباً 8.1 ملین نوکریاں سالانہ پیدا کرنی ہوں گی۔
اسی طرح مودی کے گزشتہ پانچ سالوں میں تعلیم ، صحت ، زراعت و دیگر شعبوں میں کوئی بہتری نہیں آسکی۔ اُلٹا صورتحال بد سے بدتر ہی ہوتی گئی ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا تین فیصد سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔ جو دوسرے برکس ممالک مثلاً برازیل اور جنوبی افریقہ کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ تعلیم کے شعبے میں مودی سرکار کے اخراجات تاریخی طور پر کم ترین ہیں۔ جبکہ ہندوستان میں تقریباً تیس کروڑ افراد ناخواندگی کا شکار ہیں۔ صحت کی صورتحال بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔ بھارت اس وقت ہیلتھ کیئر انڈیکس میں دنیا کے 195 ممالک میں 154 ویں نمبر پر آتا ہے۔ مودی کے اقتدار کے دوران صحت پر ہوئے سرکاری اخراجات بھی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے تجاوز نہیں کر سکے۔ میڈیکل کونسل آف انڈیا کے مطابق اس وقت بھارت میں 1700 مریضوں پر صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ مودی کے دورِ اقتدار میں کوئی نئے اسپتال کھولنا تو درکنار پرپہلے سے موجود سرکاری اسپتالوں کی صورتحال بدسے بدتر ہوئی ہے۔ دوسری جانب نجی اسپتالوں کے کاروبار میں ہوشربا اضافہ ہوتا رہا ہے۔
زراعت کا مسئلہ پچھلے پانچ سالوں میں مزید سنگینی اختیار کرچکا ہے۔ کسانوں کی خودکشیاں اب معمول بن چکی ہیں۔ پاکستان کی طرح ہندوستان کی بھی 60 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت پر منحصر ہے۔ مودی سرکار کے شروعاتی سالوں خشک سالی، پھر نوٹ بندی اور عالمی سطح پر زرعی اجناس کی قیمتوں میں گراوٹ نے چھوٹے کسانوں کو برباد کر کے رکھ دیا گیا۔ کئی اجناس کے منڈی میں نرخ اس قدر کم ہیں کہ کاشت کے آدھے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال جاری ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق کسانوں کی آمدنی گزشتہ چودہ سالوں کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پہلے سے موجود سبسڈیوں کا خاتمہ کرکے کسانوں کو مزید اذیت میں مبتلاکر دیا گیا ہے اور قرضوں کی ادائیگی نہ کر سکنے کی بدولت ان کسانوں میں دیوالیہ پن کے باعث خودکشی اب ایک عام رجحان بنتی چلی جا رہی ہے۔ حکومتی اعداد کے مطابق بھارتی کسانوں پر قرض کا تقریباً 60 فیصد ادارہ جاتی ذرائع سے لیا گیا ہے یعنی حکومت اور بینک وغیرہ۔ ایک زرعی خاندان پر قرض کی اوسط رقم تقریباً 47000/۔ روپے بنتی ہے۔ مودی سرکار کے زراعت کے وزیر رادھاموہن سنگھ نے 2014ء اور 2015ء کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار اور سال 2016ء کے آخری اعداد و شمار کے حوالے سے لوک سبھا میں جانکاری دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ملک میں سال 2014ء سے 2016ء تک کے تین سالوں کے دوران قرض، دیوالیہ پن اور دوسری وجوہات سے تقریباً 36 ہزار کسانوں اور زرعی مزدوروں نے خودکشی کی ہے۔ ان خودکشیوں کی روک تھام کے لئے اٹھائے گئے اقدامات دھوکہ اور جھوٹ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کے احتجاجی مارچ مودی سرکار کے لئے سر درد کا باعث بنتے چلے گئے ہیں اور اپنے آخری سال میں کچھ اصلاحات کا جھانسہ کسانوں کو دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم مودی کی زوال پذیری میں کسانوں کی نفرت اور غم و غصے کو اہم عنصر گردانا جا رہا ہے۔
شہروں میں بسنے والی آبادی کی اکثریت بھی غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ گیارہ ملین افراد ہر سال بھارتی دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرتے ہیں جنہیں روزگار کی تلاش میں جوانی ہی نصیب نہیں ہوتی۔ شہروں میں تیزی سے جھونپڑپٹیوں کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ آبادی کی اکثریت شہروں کے مہنگے کرائے کے مکان حاصل نہیں کرسکتی۔ ایسے میں فٹ پاتھوں کو بستر بنایا جاتا ہے جہاں اکثر امیر زادوں کی گاڑیاں انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دیتی ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے رہنما اپنی تقاریر میں مودی سرکار کے دور میں حاصل ہوئی معاشی شرح نمو کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ ہر طرف شرح نمو کی بلندی کا چرچہ ہے۔ درحقیقت بھارتی معیشت کی شرح نمو میں بلندی کا یہ رجحان مودی حکومت سے پہلے کا ہے۔ 2010ء میں یہ گروتھ ریٹ 11 فیصد سے بھی اوپر گیا تھا۔ گزشتہ ایک دہائی میں یہ شرح نمو اوسطاً 7 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ گزشتہ عرصے میں یہ 6 فیصد تک گری ہے لیکن اب دوبارہ اس کے 8 فیصد سے اوپر جانے کی پیش بینی کی جا رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وسیع تر بھارتی عوام کے لئے اِس شرح نمو کے کیا معنی ہیں؟ کیا بھارتی محنت کشوں کی زندگیوں میں یہ معاشی ترقی کوئی بہتری لائی ہے؟ یہ بالعموم ایک جاب لیس گروتھ ہے جس کے ہوتے ہوئے بھی بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا ہے۔ جیسا کہ اوپر کے اعداد و شمار میں ہم نے دیکھا ہے۔ اس کے ثمرات ایک مخصوص طبقے تک محدود ہیں جس میں بھارتی سرمایہ دار، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور مڈل کلاس شامل ہیں۔ تیس پینتیس کروڑ پر مبنی اس درمیانے طبقے کی منڈی کے گرد ہی یہ ساری معیشت اور اس کی شرح نمو گھومتی ہے۔ یہی طبقہ زیادہ تر بھارتی ڈراموں اور فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ اس نظام کی ترقی امیروں کی دولت میں جہاں ہوشربا اضافہ کرتی ہے وہیں محنت کشوں کے استحصال میں شدت کا باعث بنتی ہے اور غریب پہلے سے زیادہ غریب ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں امارت اور غربت کی خلیج تیزی سے وسعت اختیار کررہی ہے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے عالمی خیراتی ادارے ’آکسفیم‘ نے ڈاووس میں منعقد ہونے والے اس سال کے دنیا بھر کے امیروں کے سالانہ اجلاس (ورلڈ اکنامک فورم) میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستانی ارب پتیوں کی جائیداد میں 2018ء میں روزانہ 2200 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران ملک کے ٹاپ ایک فیصد امیروں کی دولت میں 39 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ 50 فیصد غریب آبادی کی پونجی میں محض 3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ آکسفیم کے مطابق ملک کے 9 امیر ترین افراد کی جائیداد 50 فیصد غریب آبادی کی کُل جمع پونجی کے برابر ہے۔ 10 فیصد امیر ترین آبادی کے پاس 77.4 فیصد قومی دولت ہے جبکہ محض ایک فیصد امیر ترین افراد کے قبضے میں 51.53 فیصد قومی دولت ہے۔ اس کے برعکس نیچے کی 60 فیصد آبادی کے حصے میں کُل قومی دولت کا صرف 4.8 فیصد آتا ہے۔ جبکہ ساڑھے 13 کروڑ سے زائد غریب ترین ہندوستانی شہری 2004ء سے مسلسل قرضوں کے گھن چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ ہے اِس استحصالی معیشت اور اس کے گروتھ ریٹ کی حقیقت!
اس معیشت پر کیسی سیاست اور کیسی ریاست تشکیل پا سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ آنے والے چناؤ میں بھارتی مروجہ سیاست کی جماعتوں کے پاس مندرجہ بالا مسائل کا نہ ہی کوئی حل موجود ہے اور نہ ہی کوئی جماعت انہیں سنجیدگی سے حل کرنا چاہتی ہے۔ اپنی پچھلی پانچ سالہ کارکردگی کی بدولت بی جے پی کی شہرت میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پلوامہ واقعے پر پاکستان کے خلاف حالیہ تنازعے میں سخت موقف اختیار کرکے اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان دشمنی کو بی جے پی اپنی حالیہ مہم میں اس قدر استعمال کررہی ہے کہ بالآخر الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کو یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ وہ اپنے ا نتخابی امیدواروں اور لیڈروں کو دفاعی اہلکاروں کی تصاویر اپنی ریلیوں اور جلسے جلوسوں میں آویزاں کرنے سے روک دیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ حکم بی جے پی کے بل بورڈ ز پر وزیراعظم مودی اور جماعت کے صدر امیت شاہ کے ساتھ پاکستان میں گرفتاری کے بعد رہائی پانے والے بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھی نندن کی تصاویر جگہ جگہ آویزاں ہونے کے بعد جاری کیا تھا۔ مودی کی اس الیکشن پالیسی پر بھارتی صحافی جاوید نقوی تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’من موہن سنگھ نے 2008ء میں ممبئی پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان کے خلاف کوئی فوجی کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس کے باوجود جب وہ دوسری بار میدان میں اترے تو ان کی نشستوں اور ووٹ کی شرح میں اضافہ ہوا۔ یہ حقیقت مودی پر سوار اس جنگی جنون کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ اس جنگی جنون کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر تو پیش کیا جاسکتا ہے مگر اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ پہنچتا نظر نہیں آتا۔‘‘
دراصل بی جے پی اس وقت شدید ہیجان کی کیفیت میں مبتلاہوچکی ہے اور پارٹی کے اندر بھی اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ کچھ ماہ پہلے تک تو یہ سمجھا جارہا تھا کہ وہ عام انتخابات میں دوبارہ بہت آسانی سے کامیابی حاصل کر لے گی مگر دسمبر میں تین ریاستوں میں منعقدہ انتخابات میں حزب اختلاف ’کانگریس ‘کے ہاتھوں شکست نے اس کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ا ن انتخابات میں اگرچہ بی جے پی کی ہار ہوئی تھی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ کانگریس دوبارہ ابھر رہی ہے۔ اگرچہ شمالی ہندوستان کی تین ریاستوں میں کانگریس کی حکومت بنی ہے لیکن اس کے باوجود یہ کانگریس کی جیت سے زیادہ بی جے پی کی ہار ہے۔ تیلنگانہ کے الیکشن میں کانگریس اور بی جے پی دونوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ میزورم ریاست میں تو کانگریس کو حکومت سے ہی ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
ایسی صورتحال میں مودی کے مد مقابل نہرو خاندان کے سیاسی وارث راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی کا یونائٹیڈ پروگریسو الائنس (UPA) ہے۔ مختلف پری پول سروے اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ جہاں بی جے پی کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی نشستیں پچھلے انتخابات سے کم ہونگی وہیں یوپی اے مزید سیٹیں جیتنے کے باوجود بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آسکے گا۔ راہول گاندھی نے حال ہی میں دو نئے حلقوں سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے جو ان کے اتحادیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے اور ان کا یہ فیصلہ ان جماعتوں کو مزید دور کر سکتا ہے۔ ممتا بینرجی اور مایاوتی کی جماعتوں کو خفا کرنے کے بعد الائنس میں پنپتے اختلافات کے نتیجے میں حال ہی میں اروند کیجریوال سے الائنس تشکیل دیا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی کوئی فیصلہ کن ووٹ حاصل کرنے میں راہول گاندھی کامیاب نظر نہیں آتے۔
اقتدار بی جی پی کے پاس ہو یا کانگریس کے پاس‘ پچھلی سات دہائیوں سے عوام کا کوئی ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکا ہے۔ گزشتہ ستر سال ریاستی سرمایہ داری بھی رہی ہے اور پھر نیولبرل معاشی نسخے بھی آزمائے گئے ہیں۔ سرمایہ داروں کے ایک اقلیتی ٹولے کو تو بہر صورت بہت فائدہ ہوا ہے لیکن عوام کی معاشی اور سماجی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی ہے۔ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہی ہے۔ ذات پات، قومیت، مذہب اور پاکستان دشمنی کی رجعتی سیاست ہو رہی ہے جو ’سیکولر بھارت‘ ’سب سے بڑی جمہوریت‘ کی مکروہ حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے اور جسے ایک ارب سے زائد عام لوگوں کے حقیقی مسائل کو دبانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی حالت یہ ہے کہ سوشلزم اور کمیونزم کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا جاتا۔ ان کی قیادت اسی نظام سے مصالحت کرچکی ہے اور اسی کے اندر ان کی ساری سیاست قید ہے۔ مختلف ریاستوں میں وہ بورژوا سیاسی جماعتوں کیساتھ ہی حکومت بنانے کے لئے گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں۔ مودی کے پانچ سالوں کے دوران ہوئی انسانی تاریخ کی تین سب سے بڑی عام ہڑتالوں کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ تحریک نہ چلا سکنا دراصل ان جماعتوں کی نظریاتی زوال پذیری کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہی جمہوریت اور سیکولرزم کی نام نہاد ’ترقی پسندی‘ ہے جس کے پیچھے کوئی انقلابیت نہیں ہے۔
حالیہ بھارتی چناؤ کا فیصلہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کی اس جمہوریت میں دولت کی طاقت ہی کرے گی۔ لیکن سرمائے کے بلبوتے پر اقتدار حاصل کیے جاسکتے ہیں تو انقلابات ان اقتداروں کو پاش پاش کر کے تاریخ کا دھارا بھی موڑ سکتے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں عام ہڑتالیں ہوں یا کسان مارچ اور طلبہ تحریکیں‘ ہندوستانی سماج میں موجود اُس قوت کی غمازی کرتی ہیں جو سماج کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ لیکن سماج کو آگے بڑھانے کے لئے اس نظام سے ٹکرانا ضروری ہے جو آج معاشروں کو ماضی کے زہریلے تعصبات اور بربریت میں کھینچتا چلا جا رہا ہے۔ آج اگر آگے کا کوئی راستہ کھلا ہے تو وہ سرمایہ داری سے بغاوت کا راستہ ہے جسے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کے ہر ادارے، ہر قدر اور ہر جبر کو پاش پاش کرنا ہو گا۔