بھارت کی تاریکی

[تحریر: لال خان ، ترجمہ: عمران کامیانہ]

گزشتہ دنوں آدھے سے زیادہ بھارت بجلی کی بندش کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوب گیااور زندگی معطل ہو کے رہ گئی۔اس ایک واقعے سے ہی ’’چمکتے بھارت‘‘ (Shining India)کی معاشی ترقی کا پول کھل گیا جس کا ڈھنڈورا پوری دنیا کے سامنے پیٹا جا رہا ہے۔تیسری دنیا کے ممالک میں منڈی کی معیشت کے تحت حاصل ہونے والی زیادہ شرح نمو اور بوسیدہ سماجی انفراسٹرکچر کے درمیان پایا جانے والا تضاد بھی کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔در حقیقت بھارت کے جی ڈی پی کی زیادہ شرح نمو سے غربت کم ہونے کی بجائے اسی شرح سے بڑھی ہے۔پچھلے عشرے میں جب بھارتی معیشت کی شرح نمو اوسطاً9فیصد رہی ہے، خطِ غربت کے نیچے ایک ڈالر یومیہ پر گزارہ کرنے والے افراد کی تعداد 770ملین سے بڑھ کے 860ملین ہو چکی ہے۔

2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سرمایہ دارانہ ماہرین یہ کہہ رہے تھے کہ ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ خاص طور پر BRICSممالک (برازیل، روس، انڈیا، چائنہ، ساؤتھ افریقہ)عالمی معیشت کو سہارا دیں گے۔لیکن معاشی انہدام کے چار سال بعد ان تمام تر ممالک کی اپنی معیشتیں بحران کا شکار ہو چکی ہیں۔برازیل کی شرح نمو 1.8فیصد تک گر چکی ہے ، ڈلما روسف کی حکومت پر خطر دور سے گزر رہی ہے اور سماجی انتشار و تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔روسی سرما (Russian Winter)نے اس مافیائی سرمایہ داری کی خستگی کو عیاں کر دیا ہے جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد وہاں نافذ ہوئی تھی۔ بھارت کی شرح نمو آدھی رہ گئی ہے اور بھارتی روپیہ مسلسل زوال کا شکار ہے۔چین میں معاشی بحران نے حکمران اشرافیہ میں اختلافات کو مزید ابھارا ہے جس کی ایک کڑی بو ژیلائی سمیت دوسرے رہنماؤں کا کیمونسٹ پارٹی سے نکالا جانا ہے جو معاشی ترقی کے سماج پر اثرات کو بڑھانے کے حق میں تھے۔چین میں پانچ سو سے زائد بڑی ہڑتالیں اور قبضے ہوئے ہیں جن کی خبر میڈیا پہ نہیں آنے دی گئی۔اسی طرح حالیہ مہینوں میں جنوبی افریقہ میں سماجی و معاشی انتشار مزید بڑھا ہے۔

عالمی معیشت میں آنے والے کئی سالوں تک کسی بہتری کے عدم امکانات نے بھارتی معیشت کو بھی سرد مہری کا شکار کر دیا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں صارفین کی کمی سے بھارتی برآمدات نا گزیر طور پر کم ہو جائیں گی۔اگرچہ بھارت کی داخلی تجارت کا انحصار 30سے 40کروڑ افراد پر مبنی درمیانے طبقے پر ہے لیکن معاشی انہدام کی وجہ سے یہ طبقہ مسلسل سکڑ رہا ہے اور ان کی قوت خرید میں کمی بہت واضح ہے۔اس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور معاشی بحران مزید گہرا ہو گا۔روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے درآمدات مہنگی پڑیں گی۔ یہ تمام عوامل بھارتی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کریں گے جہاں بٹوارے کے بعد کے سب سے اب تک کہ ہنگامہ خیز واقعات رونما ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔تما م تر بڑی سیاسی جماعتیں بحران کا شکار ہیں اور ان کے اندر ریاستی طاقت کو استعمال کر کے لوٹ مار کرنے والے بورژوازی کے مختلف دھڑوں کے درمیان اختلافات ابھر رہے ہیں۔بھارتی سرمایہ دارانہ نظام کی بیماری کی سب سے بڑی علامت کرپشن ہے۔بھارت کے ایک سرکاری کمیشن کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی سرمایہ داروں کے 500ارب ڈالر صرف سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔کمیشن نے اس سرمائے کو کالے دھن کا نام دیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی سرمایہ دار تمام بڑی سیاسی جماعتوں پر قابض ہیں۔یہ سرمایہ دار نہ صرف مرکزی و ریاستی پارلیمنٹوں میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ میں سرگرم ہوتے ہیں بلکہ نئی حکومتوں کے بننے اور سینیٹ کی تنظیمِ نو کے دوران بولیاں لگا کے وزرا کو بھی خریدتے ہیں۔

بھارت میں اگرچہ اس وقت جاپان سے زیادہ ارب پتی موجود ہیں لیکن عدم مساوات دنیا میں بد ترین سطح پر ہے۔آدھی سے زیادہ آبادی کو معاشی دائرے سے باہر دھکیل دیا گیا ہے جو کہ غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔صحت سمیت تمام تر سماجی شعبے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہیں۔الجزیرہ کی اس ہفتے کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی آدھی سے زیادہ آبادی کو بیت الخلا کی سہولت بھی میسر نہیں اور اس مقصد کے لئے کھلی جگہوں اور فصلوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ صحت کے لئے انتہائی غیر مناسب اور مضر ہے۔بھارتی شہروں کی جھونپڑ پٹیوں میں گند اور کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جبکہ دیہی علاقے شدید آلودگی اور ماحولیاتی تباہی کا شکار ہیں۔

65سالہ آزادی کے بعد بھی بھارتی حکمران طبقات صنعتی معاشرے کی تعمیر میں ناکام رہے ہیں۔معاشی ترقی انتہائی غیر ہموار اور مشترکہ نوعیت کی ہے۔جدید ترین تکنیکی صنعتی اداروں اور محل نما بنگلوں کے شانہ بشانہ انتہائی غربت اور مصائب نظر آتے ہیں۔قدامت کے سمندر میں جدت کے جزیرے موجود ہیں۔بھارت، درحقیقت تاریخی مادیت کا میوزیم ہے۔سیاسی و سماجی ثقافت ذات، مذہب، رنگ و نسل کے تعصبات سے پر ہے۔جدید بھارتی حکمران طبقات میں بھی کالے جادو، توہمات اور دیومالائی تصورات حاوی ہے۔نجومی اور بہروپیے بڑے کاروباری اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ ہیں۔قومی تعصب، کرکٹ، بالی وڈ اور جمہوریت کی ڈرامہ بازی کو میڈیا اور اشرافیہ لوگوں کی افیون کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔قبائلی اور قومی بنیادوں پر آزادی کی تحریکیں زیادہ تر ریاستوں میں پھل پھول رہی ہیں جنہیں بھارتی وزیرِ اعظم نے سب سے بڑاسیکیورٹی خطرہ قرار دیا ہے ۔آسام سے لیکر کشمیر تک گھناؤنا ریاستی جبر ایک معمول بن چکا ہے۔سیاستدانوں پر ’’اصلاحات‘‘ کے لئے پڑنے والے سامراجی دباؤ سے لوگوں کے مصائب اور مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔بڑھتے ہوئے معاشی و سماجی بحران کے ساتھ یہ ضمیر فروش سیاستدان مزید عوامی اشتعال کا باعث بنیں گے۔

بھارت کی واحد امید محنت کش طبقہ اور نوجوان ہیں۔حکمران طبقے کے پالیسی سازوں نے نیچے پکنے والے لاوے کا دباؤ کم کرنے کے لئے دھوکہ دہی کے کئی طریقے استعمال کئے ہیں۔انا ہزارے اور سول سوسائٹی کی حالیہ تحریک موجودہ نظام کا کوئی متبادل پیش نہیں کرتی۔ طبقاتی جدوجہد کو زائل کرنے کے لئے دائیں بازو کی لفاظی اور فسطائیت سے بھرپور رجحانات کوابھارا جا رہا ہے۔کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا CPI(M)اور بائیں بازو کی دوسری پارٹیوں کو جمہوریت کے نام پر سرمایہ داری سے مصالحت اور انقلابی سوشلزم سے انحراف کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس سال 28فروری کو ہونے والی بھارتی محنت کشوں کی ہڑتال دنیاکی تاریخ میں سب سے بڑی ہڑتال تھی۔دس کروڑ لوگ طبقاتی بنیادوں پر سڑکوں پر نکلے۔بھارتی محنت کش طبقہ طبقاتی بنیادوں پر استحصالی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے حوالے سے سنہری روایات کا حامل ہے۔انقلابی مارکسی قیادت کے زیرِ اثر یہ طبقہ تاریخ کا دھارا موڑتے ہوئے جنوبی ایشیا کو نجات دلا سکتا ہے۔