| تحریر: لال خان |
دنیا کی سب سے زیادہ غربت پالنے والی سب سے بڑی جمہوریت کے ایک سال قبل ہونے والے انتخابات میں تین دہائیوں بعد کسی پارٹی کو مکمل پارلیمانی اکثریت حاصل ہوئی۔ 31 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی ہندو بنیاد پرست بی جے پی کی فتح کا جشن نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے سرمایہ داروں نے منایا۔ نریندرا مودی کو اندرا گاندھی کے بعد ہندوستان کا سب سے طاقتور وزیر اعظم قرار دیا جارہا ہے۔ مودی کے اقتدار میں آنے سے سرمایہ دار اس لئے پھولے نہیں سما رہے کہ ان کے خیال میں وہ استحصال، لوٹ مار اور منافع خوری کے راستے میں حائل ہر رکاوٹ اپنی روایتی وحشت اور جبر سے گرا ڈالے گا۔سامراج اور حکمران طبقے کی جانب سے اپنے مفادات کے لئے ایک مذہبی جنونی شخص کا استعمال سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی زوال کا اظہار ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران مودی نے بڑی عیاری سے جارحانہ سرمایہ داری کے فروغ کی پالیسیاں نافذ کی ہیں۔ اس کے آقاؤں کو اپنی توقعات پوری ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اس سال ہندوستان کی شرح نمو کا تخمینہ 7.5 فیصد لگایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان گزشتہ 25 سال میں چین کی شرح نمو کو پہلی بار مات دے گا۔ چینی معیشت کی صورتحال نازک ہوتی چلی جارہی ہے۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد، عالمی سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے کی امید پہلے چین سے لگائی جارہی ہے۔ لیکن چین کی شرح نمو 14.2 فیصد سے گر کر 6.8 فیصد پر آگئی ہے۔ مزید گراوٹ متوقع ہے اور مشہور زمانہ ’’چینی ماڈل‘‘ کی ناپائیداری عیاں ہو رہی ہے۔بیروزگاری کی شرح 20 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور امارت اور غربت کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی جارہی ہے۔
عالمی سرمایہ داری کے پالیسی ساز چین کی نامرادی کے بعد اب ایسے شخص کو مسیحا بنا کر پیش کر رہے ہیں جس کی سیاسی تربیت فاشسٹ ہندو بنیاد پرست تنظیم ’’راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ‘‘ میں ہوئی ہے۔ مودی نے اپنی حکومت کی پہلی سالگرہ پر بیان دیا ہے کہ ’’2022ء تک یہ صدی ہندوستان کی صدی بن جائے گی۔ ہندوستان کی معیشت 2000 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔بھارت سے دیوہیکل امیدیں وابستہ کی جارہی ہے۔‘‘ ہندوستان کی شرح نمو میں اضافے کا بڑا چرچا کیا جارہا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ شورو غل بڑھے گا۔ لیکن آج کے عہد میں سرمایہ داری کا المیہ یہ ہے کہ معاشی نمو سے غربت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
اس صدی کی پہلی دہائی کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستان کی اوسط شرح نمو 2001ء سے 2009ء تک تقریباً 10 فیصد سالانہ رہی۔ لیکن اسی عرصے میں انتہائی غربت میں رہنے والوں کی تعداد، 77 کروڑ سے بڑھ کر 86 کروڑ 30 لاکھ ہوگئی۔ یہ کیسی ترقی ہے؟ مودی سرکار کے ایک سال میں امارت اور غربت کی خلیج مزید بڑھی ہے۔ ’کریڈٹ سوئس‘ کے مطابق ہندوستان میں 82 ہزار ارب پتی ہیں۔ روزگار کی منڈی میں ایک کروڑ افراد ہر سال داخل ہو رہے ہیں۔ اس نظام کی ’’ترقی‘‘ جہاں غربت میں اضافہ کرتی ہے وہاں اس کی سرمایہ کاری کا کردار بھی بالکل الٹ ہو گیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری نیا روزگار پیدا کرنے سے قاصر ہے، الٹا ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے روزگار میں کمی ہی کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں ’بجاج‘ اور ’ٹاٹاموٹرز‘ جیسے کمپنیوں میں نئی سرمایہ کاری پرانا روزگار بھی چھین رہی ہے۔شرح منافع میں اضافے کے لئے انسانی محنت کو ٹیکنالوجی سے تبدیل کیا جارہا ہے اور جہاں انسان درکار ہیں وہاں بھی کم سے کم مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
1991ء میں لبرلائزیشن کے بعد سے ہندوستان کے عوام کی ذلت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ آدھی سے زائد آبادی بیت الخلا سے محروم ہے۔ بجلی کی فراہمی کی صورتحال بھی کم و بیش یہی ہے۔ اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ کے مطابق ’’ہندوستان دنیا کے سب سے زیادہ بھوک کا شکار لوگوں کا گھر ہے۔‘‘ مئی 2015ء کی رپورٹ کے مطابق تقریباً بیس کروڑ افراد باقاعدہ قحط سے دوچار ہیں۔ ہندوستان کے اگر یہ حالات ہیں تو پاکستان بھلا پیچھے کیسے رہ سکتا ہے؟ آخر دونوں ممالک کے حکمرانوں کا سخت مقابلہ بٹوارے کے بعد سے ہی جاری ہے۔اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1996ء میں دو کروڑ 87 لاکھ افراد بھوک کا شکار تھے جبکہ 2015ء میں یہ تعداد 4 کروڑ 14 لاکھ ہوجائے گی۔ دونوں ممالک کے ’’آزاد‘‘ کارپوریٹ میڈیا پر یہ بنیادی حقائق شاید ہی کبھی پیش کئے جاتے ہوں۔ اکانومسٹ کے مطابق ’’بھارت کے ’منہ نوچ لینے‘ والے میڈیا نے وزیراعظم مودی کو خاصی چھوٹ دی ہوئی ہے۔‘‘ مودی آخر اسی طبقے کا نمائندہ ہے جو میڈیا چینلز کا بھی مالک ہے!
مودی سرکار اس وقت کارپوریٹ ٹیکس میں کمی، کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ، مزدور یونین کے خاتمے اور کسانوں کی زمینیں ہتھیانے کی قانون سازی جیسی ’’اصلاحات‘‘ کر رہی ہے جن سے مقامی اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی شرح منافع میں تیزی سے اضافہ ہو سکے۔ یہ اقدامات عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہیں۔ملکی اور بین الاقوامی کارپوریٹ میڈیا ان ’’اصلاحات‘‘ کو تیز تر کرنے کی ترغیب مسلسل مودی کو دے رہا ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں اس پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔امریکی سامراج جیسے ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کے ٹھیکیدار مودی کی مذہبی فسطائیت اور ماضی کے جرائم کو مکمل فراموش کئے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے مودی کو امریکہ کا ویزا نہیں ملتا تھا۔ اب باراک اوباما بھاگم بھاگ 28 جنوری کی پریڈ میں پہنچتا ہے۔ چین کے صدر نے پاکستان سے واپسی پر مودی کو دورہ چین کی دعوت دی اور اسے اپنے آبائی قصبے بلا کر مہمان نوازی کی۔ آسٹریلیا سے لے کر جاپان، کینیڈا اور یورپ تک، سب حکمران اس کے پرستار بنے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ذاتی تعلقات استوار کرنے خواہاں نظر آتے ہیں۔ اور مودی ہے جس کی رعونت سامراجی حکمرانوں کی ان حرکات سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس نے کھلے بندوں ’’سارک مائنس ون‘‘ کی پالیسیوں کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔ یعنی پاکستان کے علاوہ تمام سارک ممالک سے تعلقات اور تجارت کو بہتر بنائے گا۔
2014ء کے انتخابات بی جے پی کی جیت نہیں بلکہ عوام کی سیاسی روایت کا درجہ رکھنے والی کمیونسٹ پارٹیوں کی شکست تھے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت محنت کش طبقے کو سرمایہ داری کی ذلت اور استحصال سے نجات کا کوئی لائحہ عمل اور پروگرام فراہم کرنے سے قاصر رہی۔ ناامیدی سے دو چار عوام کی بڑی تعداد نے یا تو انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا یا پھر اپنی قیادت سے بددلی اور مایوسی کا ووٹ مودی کو ڈالا۔حکمران طبقے کی پشت پناہی کے علاوہ مودی کو سیاسی بنیادیں تقریباً تیس کروڑ افراد پر مشتمل درمیانے طبقے نے فراہم کیں۔
کئی سالوں سے چین کے جس معجزے کے گن گائے جاتے رہے ہیں وہ آج سب کے سامنے سراب ثابت ہو رہا ہے۔چین کی انتہائی سستی مگر ہنر مند لیبر اور فی کس 52 ہزار ڈالر آمدن کی امریکی منڈی عالمی سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے میں ناکام ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان کی کھوکھلی معیشت کیا کر لے گی؟ سامراج اور بھارتی سرمایہ داروں کی توقعات پر مودی پورا نہیں اتر پائے گا۔ ہندوستان کے حکمران اپنے ایک سیاسی دھڑے (کانگریس) کو کوڑے دان میں پھینک کر مودی کو اقتدار میں لائے ہیں۔ مودی کی ناکامی پر اسے کوڑے دان سے نکال کر عوام پر دوبارہ مسلط کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔جمود کی اس عارضی کیفیت میں دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹیاں بھی ابھرتی رہتی ہیں جو سنجیدہ متبادل نہیں بن سکتیں۔ ہندوستان سمیت پورے خطے کا مستقبل محنت کشوں کی انقلابی تحریک پر منحصر ہے۔ہندوستان کے محنت کشوں کی عظیم انقلابی روایات رہی ہیں۔ ان کے پاس اب لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایک انقلابی تحریک کی صورت میں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کو حقیقی معنوں میں کمیونسٹ بن کے دکھانا ہوگا وگرنہ یہ تحریک ایک متبادل انقلابی قوت خود تراشے گی۔
متعلقہ: