تحریر: سنیل کمار(ایڈیٹر روزنامہ چھتیس گڑھ)
ہندوستان میں ہر بارہ برس میں ایک بار ایمان والوں کا کنبھ میلہ الہ آباد میں جٹتا ہے۔ لیکن بے ایمانی کا کنبھ ہر پانچ برس میں پورے ملک میں سجتا ہے۔ رہنماؤں اور پارٹیوں کے جو چال چلن انتخابات کے وقت دیکھنے ملتے ہیں، منڈی میں جس طرح لیڈر کی خریدو فروخت ہوتی ہے، لوگ جس طرح اپنے دشمنوں کے ساتھ ہم بستر ہوتے نظر آتے ہیں، جس طرح شیر اور بندر مل کر شراکتی فرم کھولتے ہیں، وہ سب دیکھنے کے لائق ہے۔ اب آنے والا ہر دن ملک میں بے ایمانی کو فروغ دے گا، کیونکہ پانچ برس بعد آ رہے عام انتخابات پھر سے قریب آرہے ہیں۔
نریندر مودی کو گالی دینے کے لئے جب کانگریس کے وزیر خارجہ سلمان خورشید ان کو نامرد کہتے ہیں تو اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی کی پارٹی کا ایک لیڈر مرد ہونے کو طاقت کا ثبوت مانتا ہے، اور مخالف کو گالی دینے کیلئے ’’خصی‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اندرا اور سونیا کی پارٹی میں ایسے پھوہڑبیان کے خلاف کسی کی پیشانی پر شکن بھی نہیں پڑتی۔ کہیں بہار میں ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت ہو رہی ہے، کہیں مودی کے گجرات میں کانگریس کے ممبران اسمبلی بی جے پی میں داخل ہو رہے ہیں اور کہیں کل تک ریاستی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ براہ راست سیاست میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ جمہوریت پر ایمان برقرار رکھنے کے لیے الیکشن نام کا جو ’’ووٹ تہوار‘‘ ہوتا ہے وہ بے ایمانی کے ایک جلسے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، پانچ سالہ جلسے میں!
کل رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب ملک کی درجن بھر انتخابی سروے ایجنسیوں میں سے ایک چھوڑ کر باقی تمام اسٹنگ آپریشن میں رنگے ہاتھوں پکڑی گئیں۔ یہ سروے ایجنسیاں کالادھن لے کر سروے کررہی تھیں اور ’’اوپری ‘‘پیسہ لے کر جھوٹے نتائج ملک کے سامنے رکھے جارہے تھے۔ ملک کے سب سے بڑے نیوز چینلز اور اشاعت گروپوں کے انتخابی سروے کرنے والی ایجنسیاں جب کھل کر اپنے تن اور من کو فروخت کی بات کرتے ہوئے خفیہ کیمروں پر پکڑی جائیں تو یہ لگتا ہے کہ اس کے بعد جمہوریت میں ایمان کیوں اور کیسے بچا رہے ؟ انتخابات تو بھرشٹ ہو چکے ہیں، پارٹیاں اور لیڈر کالے دھن پر سوار ہو کر، فرقہ پرستی اور ذات پات کی نفرت بھڑکاتے ہوئے پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ وہ ان مقامات کو بد عنوان کروڑپتیو ں اور ارب پتیوں سے بھرتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں سوا سو کروڑ سے زیادہ آبادی میں اسی کروڑ سے زیادہ ووٹروں کا ایمان جمہوریت پر کس طرح قائم رہے ؟
دوسری طرف ممبئی کے ہائی کورٹ کو وہیں کی نچلی عدالت اور حکومت سے پوچھنا پڑ رہا ہے کہ سنجے دت جیسے طاقتورارب پتی فلمی ستارے کو مسلسل پیرول کیسے مل رہی ہے اور باقی لوگوں کو یہ کیوں نہیں نصیب ہو رہا ؟ ادھر ملک کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ، ملک کے سب سے مشہور اور متنازعہ ارب پتی تاجروں میں سے ایک سبرت رائے سہارا کے معاملے میں عدالت میں کھل کر بار بار کہہ رہی ہے کہ ڈیڑھ برس سے سبرت رائے عدالت کا حکم اور ہدایات ان سنی کر رہے ہیں اور کسی بھی بات پر عمل نہیں کر رہے۔ ہندوستانی جمہوریت میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن کو سبرت رائے کی طرح کا خاص درجہ ملا ہوا ہو؟ اور جو برس ہا برس تک سپریم کورٹ کا وقت ضائع کرتے ہوئے، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم کو ان سنا کرتے ہوئے اپنی من مانی کرتے رہیں ؟
مجموعی طور پر پارلیمنٹ، ریاستی اسمبلیاں، وفاق اور ریاست کی حکومتیں، کاروباری حضرات اور ملک کے لیڈر، پارٹیاں اور میڈیا، ان سب کا جو حال نظر آرہا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ چور تو سبھی ہیں، کچھ پکڑے جا چکے ہیں، اور باقی کا پکڑا جانا ابھی باقی ہے۔ ایسے ملک میں سچن ٹینڈولکر جیسے لوگ بھارت رتن بن رہے ہیں، جو کروڑوں کی ٹیکس رعایت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو اشتہاروں کی ماڈلنگ میں کھلاڑی نہیں اداکار ثابت کرتے ہیں، کروڑوں کی مہنگی کاروں سے لے کر پانی صاف کرنے والے واٹر فلٹر وں کی تشہیر کرنے والے یہ لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر غریبوں کی موت کے ذمہ دار گندے پانی کے بارے میں کبھی سوچتے بھی نہیں۔ بھارت تو ایسے رتن بنا سکتا ہے لیکن ایسے رتن کبھی بھارت نہیں بنا سکتے !
اور بات کسی ایک شخص کی نہیں ہے، ایک ادارے کی نہیں ہے، ایک انتخاب یا ایک ریاست کی نہیں ہے۔ اگر سوچیں کہ پورے ملک میں پورے ایک دن میں ایک ایسی کون سی خبر اٹھی ہے جس سے کہ جمہوریت اور انصاف کے تئیں اعتماد پیدا ہو، یا دم توڑتے اعتماد کو ایک دو سانسیں اور مل جائیں۔ ایک بھی خبر ایسی دکھائی نہیں پڑتی۔
سنجے دت سے لے کر سبرت رائے تک کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے یہ ملک سرمائے اور دوسرے قسم کی طاقت کی بنیاد پر الگ الگ طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایسی جمہوریت پر ایمان کی کوئی وجہ کسی کو نظر آتی ہو تو ہمیں بھی آگاہ کرے۔ خریدے گئے انتخابی سروے، بکاؤ انتخابات، انتخابی نتائج، خریدے گئے ایم پی اور ایم ایل اے، خریدی گئی حکومت، اور خریدا گیا انصاف، یہ جمہوریت ہے یا جمہوریت کی پیکنگ میں فروخت ہوتا جرم؟
متعلقہ:
ہندوستان کے انتخابات: معاشی بحران میں جمہوریت کا کھلواڑ
ہندوستان: جمہوریت کا انتشار
بھارت: بڑی جمہوریت کا بڑا ناٹک