[تحریر: لال خان]
یونان میں سائریزا کی تاریخی فتح اور سپین میں پوڈیموس کا ابھار، یورپ میں سیاست کے نئے عہد نقطہ آغاز ہیں۔ طبقاتی جدوجہد شدت پکڑ رہی ہے۔ 1998ء میں ونزویلا میں ہوگو شاویز کے برسر اقتدار آنے کے بعد پورے لاطینی امریکہ میں ابھرنے والی ریڈیکل بائیں بازو کی تحریکوں اور 2011ء میں تیونس سے پھوٹ کر پوری دنیا کو ہلا دینے والے عرب انقلاب کے بعد، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا مرکز واپس یورپ منتقل ہو چکا ہے۔ برازیل، جنوبی افریقہ اور چین سمیت دوسرے کئی ممالک میں جاری چھوٹی بڑی ہڑتالوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔رجعت اور جمود کے لمبے عرصے کے بعد ہندوستان میں نجکاری کے خلاف کوئلے کے کان کنوں کی تاریخ ساز ہڑتال نے مزدور تحریک کو نئی شکتی دی ہے۔
جنوری کے آغاز میں کوئلے کی صنعت کے پانچ لاکھ محنت کشوں نے مودی حکومت کے نجکاری کے منصوبے کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ نام نہاد ’’کول آرڈیننس‘‘ کے خلاف یہ جرات مندانہ بغاوت ہندوستانی سماج میں پنپنے والے تضادات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس ہڑتال نے مزدور قیادت کو بھی جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے جس میں بی جے پی سے وابستہ ’بھارتیہ مزدور سنگھ‘ سمیت پانچوں بڑی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن شامل تھیں۔ گزشتہ لمبے عرصے سے معاشی بحران کی شدت میں دبا محنت کش طبقے کا غم و غصہ اب سماج کی سطح پر اپنا اظہار کر رہا ہے۔
ریاستی ملکیت میں چلنے والا یہ شعبہ ہندوستانی صنعت کے لئے 80 فیصد کوئلہ فراہم کرتا ہے اور 50 فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کی جاتی ہے۔بھارتی معیشت اور سرمایہ داروں کے منافع میں کوئلے کے کلیدی کردار سے اس شعبے کے محنت کشوں کی معاشی، سماجی اور سیاسی طاقت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست نے گھٹنے ٹیکنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ہڑتال شروع ہونے سے پہلے 58 پاور پلانٹس کے پاس کوئلے کا کوئی زخیرہ موجود نہیں تھا جبکہ 38 دوسرے پلانٹس کے پاس پانچ دن سے کم کا زخیرہ تھا۔ کوئلے کی ترسیل سے وابستہ محنت کشوں کو بھی اگر ہڑتال میں شامل کیا جاتا تو بجلی کی پیداوار فوری طور پر ہی بند ہوجاتی۔ ہڑتال کے پہلے دن 50 فیصد پیداواری یونٹ بند کئے گئے جس سے پیداوار 60 فیصد تک گر گئی۔ محنت کشوں کے جارحانہ رویے سے ’’مصالحت‘‘ کی خواہاں یونین قیادت بھی خاصی خوفزدہ تھی۔ اس ہڑتال نے بجلی اور بینکنگ سمیت دوسرے تمام اداروں کے محنت کشوں کے لئے بھی سنہری مثال قائم کی ہے جن پر معاشی حملہ کرنے کی تیاریاں موجودہ حکومت کر رہی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں سے محنت کش طبقے کے خلاف جو کھلی جارحیت جاری ہے اسے مودی سرکار نے تیز تر کر دیا ہے۔ پبلک سیکٹر کی نجکاری اور بے رحم ڈاؤن سائزنگ کے لئے پر تولے جارہے ہیں۔ معیار زندگی پہلے ہی گراوٹ کا شکار ہے اور محنت کشوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے جس کا اظہار گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہونی والی عام ہڑتالوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ لیکن لائحہ عمل اور ٹھوس پروگرام کے فقدان کی وجہ سے یہ ہڑتالیں حکمران طبقے کے لئے ’’بے ضرر‘‘ ثابت ہوئی ہیں۔ ماضی کے برعکس کان کنوں کی ہڑتال کا آغاز نہ صرف ٹھوس مطالبات سے کیا گیا بلکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے جارحانہ عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے جس کی وجہ سے دوسرے اداروں کے محنت کش بھی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بغاوت کے یہ شعلے اگر دوسرے شعبوں میں پھیلتے تو مودی سرکار کا وجود ہی خطرے میں پڑ سکتا تھا لہٰذا حکمرانوں نے پسپائی میں ہی آفیت سمجھی۔
یہ بات بھی بالکل واضح ہونی چاہئے کہ عارضی پسپائی کے باوجود نریندرا مودی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔ ہندو بنیاد پرستوں کی یہ حکومت ملکی اور بین الاقوامی سطح کے بڑے سرمایہ داروں کی براہ راست آشیر آباد سے قائم ہوئی ہے۔ مالی اور سیاسی پشت پناہی کے بدلے میں مودی کو اپنے آقاؤں کا ہر حکم ماننا ہوگا جس میں رواں سال 10 ارب ڈالر نام نہاد ’’عدم سرمایہ کاری‘‘ (یعنی نجکاری) سے حاصل کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ کوئلے کی ریاستی اجارہ داری کی 10 فیصد نجکاری بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ معاشی حوالے سے انتہائی اہم اور منافع بخش شعبے کی یہ نجکاری کھلی ڈاکہ زنی سے کم نہیں ہے۔
نریندرا مودی حکمران طبقے سے وہ سب کچھ کرنے کا وعدے کر کے ہی برسراقتدار آیا ہے جو کانگریس حکومت نہیں کرپائی۔ اقتدار کے پہلے مہینوں میں یہ حکومت عوام پر کوئی بڑا معاشی حملہ کرنے میں ناکام رہی اور یہی وجہ ہے کہ دسمبر میں مودی نے ذاتی طور پر اپنے خصوصی حکم کے ذریعے ’’کول آرڈیننس‘‘ جاری کیا تھا۔حالیہ ہڑتال کے نتیجے میں حکومت کی شکست اس لحاظ سے اور بھی زیادہ ذلت آمیز ہے کہ اس نے مودی کے ’’جاہ و جلال‘‘ کو خاک میں ملا دیا ہے۔
جوں جوں عالمی معیشت کا بحران گہرا ہورہا ہے، شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے عوام کا زیادہ سے زیادہ خون نچوڑنا دنیا بھر میں حکمران طبقے کی مجبوری بنتا جارہا ہے۔ ہندوستان کا حکمران طبقہ بھی وہ مراعات اور سہولیات واپس چھیننے کے درپے ہے جو محنت کشوں نے گزشتہ نصف صدی کی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی ہیں۔طبقاتی جدوجہد کے ابھار اور دھماکہ خیز واقعات کا یہ ایک مکمل نسخہ ہے۔کمیونسٹ پارٹیوں کی شکست اور انتہائی دائیں بازو کے نریندا مودی کے برسر اقتدار آنے سے ہندوستانی’’بائیں بازو‘‘ کے کئی ’’دانشور‘‘ حیران و پریشان ہو گئے تھے۔ انتخابات میں مودی کی کامیابی کو ’’عوام کے کم تر شعور‘‘ کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن حالیہ ہڑتال نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ہندوستان کے محنت کش طبقے کا ’’کم تر شعور‘‘ ان نام نہاد ’’کمیونسٹ‘‘ رہنماؤں سے کئی درجے بلند ہے جو ’’آزاد منڈی‘‘ کے حق میں کمیونزم اور سوشلزم سے دستبردار ہو کر اصلاح پسندی کی دلدل میں غرق ہوچکے ہیں۔بہت سے محنت کش درست طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح پسندانہ ’’بائیں بازو‘‘ اور سرمایہ داروں میں کوئی فرق سرے سے موجود نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار کی عوام دشمن پالیسیاں رجعت یا رد انقلاب کی بجائے طبقاتی کشمکش کو زیادہ شدت سے ابھاریں گی۔ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا انقلاب کو آگے بڑھانے کا کام بعض اوقات رد انقلاب کا تازیانہ کرتا ہے۔ آنے والے عہد میں زیادہ بڑی بغاوتیں ہوں گی کیونکہ حکمران طبقہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے زیادہ وحشیانہ اقدامات کرے گا۔ حالات محنت کش طبقے کی بڑی تعداد کو میدان عمل میں اترنے پر مجبور کریں گے۔ محنت کشوں کی زیادہ باشعور اور ہراول پرتیں بہت جلد ان واقعات سے انقلابی نتائج اخذ کریں گی۔ برسر اقتدار آنے کے ایک سال بعد، بڑے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے ایجنٹ کے طور پر بی جے پی حکومت کا کردار بالکل بے نقاب ہوچکا ہے۔ کان کنوں کی ہڑتال نے نسل در نسل غربت، ذلت اور استحصال کی بھٹی میں جلنے والے ہندوستان کے کروڑوں محنت کشوں پر جدوجہد اور نجات کا راستہ پھر سے آشکار کردیا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف یہ جنگ صرف الگ تھلگ ہڑتالوں کے ذریعے نہیں جیتی جاسکتی۔ رنگ، نسل اور مذہب کے تعصبات کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر، محنت کشوں اور نوجوانوں کو حکمران طبقے کے خلاف صف آرا ہونا ہوگا۔
متعلقہ: