[تحریر: لال خان]
امریکی صدر کینیڈی کے دورمیں بھارت میں تعینات امریکی سفیر جان کینتھ گالبریتھ نے بھارتی ریاست کو ایک ’’کام کرتی ہوئی انارکی‘‘ قرار دیا تھا۔ ایک اور موقع پر انہوں نے بھارت کو ’’دنیا کا سب سے منظم انتشار‘‘ قرار دیا تھا۔ اس سے بعد کے عہد میں بھارت میں انتشار اور انارکی میں شدت ہی آئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر گزشتہ ایک دہائی کی بلند معاشی شرح نمو نے سماجی تضادات، نسلی تشدداور مذہبی فسادات میں اضافہ کیا ہے اور اب بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے دور میں بھارتی سماج کا تانا بانا ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ میکرو اکانومکس کے تمام تر اعشاریے تیزی سے گراوٹ کا شکار ہیں۔ معاشی شرح نمو آدھی رہ چکی ہے اور بھارتی روپے کی قدر بھی تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔
ایشین ایج میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق’’ریزرو بینک نے تنبیہہ کی ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کا نتیجہ تیل اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں نکلے گا۔ اگر افراط زر 5 فیصد تک رہتی ہے تب بھی صورتحال مختلف نہیں ہوگی۔ آر بی آئی کے گورنر ڈی سوبارو نے پہلی چوتھائی کی مالی پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ امید سے زیادہ شدید مون سون کے باوجود خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی شرح کم نہیں ہوئی۔ خاص طور پر رسد میں خلل کی وجہ سے سبزی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ‘‘
اس صدی کے پہلے عشرے میں سات فیصد سے زائد کی اوسط شرح نمو بھی خط غربت سے تباہ حال کروڑوں شہریوں کا معیار زندگی بلند نہیں کرسکی۔ بھارت کے سینئر صحافی اور سابقہ سفارت کار کلدیپ نیر کے مطابق اس عشرے میں 10 فیصد سے زائد شرح نمو کے باوجود خط غربت (20روپے روزانہ) سے نیچے زندگی گزارنے والے بھارتی شہریوں کی تعداد 7کروڑ ستر لاکھ سے بڑھ کر 8کروڑچھتیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں بھارت میں نیا درمیانہ طبقہ نہ صرف پیدا ہوا ہے بلکہ تیزی سے پھیلا بھی ہے، لیکن 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کو کی جانے والے بھارتی برآمدات اور بھارت میں سامراجی کارپوریشنوں کی سرمایہ کاری، دونوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراطِ زر کے باعث اس درمیانے طبقے پر اب ’’دمکتے بھارت‘‘ کی حقیقت عیاں ہورہی ہے۔ 1980ء کے وسط میں سیاسی افق پر ابھرنے والی ہندو بنیادپرستی اور دائیں بازو کی رجعتی قوتوں کی اصل حمایت اسی مڈل کلاس طبقے میں موجود ہے۔
کانگریس کی موجودہ حکومت سر تا پاکرپشن کے بدترین سکینڈلوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور معاشی شرح نمو میں اضافے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ حالیہ عرصے میں اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعت بی جے پی کے اندر بھی پھوٹ اور دھڑے بندی بڑھی ہے۔ مغربی سامراجی اجارہ داریوں کے خلاف ایل کے ایڈوانی کی بیان بازی کے بعد قوی امکان ہے کہ مغربی طاقتیں اور بھارتی کارپوریٹ سرمایہ دارنریندرا مودی کو 2014ء کے عام انتخابات میں نیا وزیرِ اعظم منتخب کروانا چاہیں گے۔ ٹاٹا سے لیکر امبانی گروپ تک، بڑے کارپوریٹ گروپوں کی جانب سے مودی کی حمایت کی وجہ اس کے مذہبی بنیاد پرست نظریات نہیں بلکہ بدترین مزدور دشمنی ہے۔ گجرات میں محنت کشوں پر جبر اور ہڑتالوں کو بدترین بربریت کے ساتھ کچلنے کی وجہ سے نریندرا مودی بھارتی سرمایہ داروں اور سامراجیوں کی آنکھ کا تارا بن چکا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا اور سرمایہ دارانہ تجزیہ نگاروں کی جانب سے گجرات کو ’’معاشی ترقی‘‘ کی مثال قرار دینے کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔
کویتا کرشنن کا تازہ مضمون گجرات کی حقیقی تصویر کشی کرنے کے لیے کافی ہے جس کے مطابق ’’مودی کے دور حکومت میں گجرات کے معاشی ماڈل کی خاص بات کیا ہے؟ گجرات میں نافذ کی جانے والی نیو لبرل معاشی پالیسیوں نے عوام کی زندگیوں پر وہی مضر اثرات مرتب کئے جن سے پورے ملک کے عوام دوچار ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ایک معمول بن چکا ہے۔ تعلیم، علاج اور غذائیت کے اشاریے ہولناک سماج کی خوفناک منظر کشی کررہے ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کی حالت زار تشویش ناک ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس (عالمی سطح پر بھوک کے اعشاریے) کے مطابق گجرات بھارت کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے جہاں بھوک سب سے زیادہ ہے اور عالمی سطح پر اس کی حالت ہیٹی جیسے ملک سے بھی بدتر ہے۔ چار سال سے کم عمر کے 80 فیصد بچے جبکہ 60 فیصد حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں (مودی ہنس کر اسے خواتین کے دبلا ہونے کا شوق کا نتیجہ قرار دیتا ہے)کرپشن اور سرمایہ دارانہ استحصال میں گجرات اپنی مثال آپ ہے۔ مودی اور من موہن کی معاشی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن سامراجی اجاریہ داریاں گجرات میں سرمایہ کاری کو کیوں ترجیح دیتی ہیں؟ کیونکہ ریاست میں بیروزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور صنعت میں کنٹریکٹ ملازمین کی شرح بھارت میں سب سے زیادہ ہے (یوں سرمایہ داروں کو کم سے کم اجرت پر مزدور میسر ہیں)۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ہڑتالوں، تالہ بندیوں اور فسادات کے واقعات بھی گجرات میں سب سے زیادہ ہیں۔‘‘
بھارت میں قوم پرستی، کرکٹ اور ’’جمہوریت‘‘ درمیانے طبقے کی افیون ہیں۔ نہ صرف ریاست اور معیشت پر کرپشن کا غلبہ ہے بلکہ یہ ایک سماجی اور ثقافتی معمول کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ سیکولر آئین کے باوجود نسلی اور مذہبی بنیادوں پر قتل کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ درجنوں پارلیمانی نمائندے اجتماعی زیادتی، قتل اور دوسرے گھناؤنے جرائم کے الزامات کی زد میں ہیں لیکن کرپٹ عدالتی نظام کے باعث کئی دہائیوں تک مقدمات چلنے کے باوجود کسی کو سز ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ سماجی اور معاشی ترقی اس حد تک غیر ہموار ہے کہ بھارت کو تاریخی مادیت کا میوزیم قرار دیا جاسکتاہے۔ بھارتی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 20 فیصد ہے جبکہ دنیا کی 40 فیصد غربت اس ملک میں پلتی ہے۔ بدترین افلاس کے باوجود بھارتی حکمران طبقے اور سیاستدانوں پر ’سپرپاور‘ بننے کا خبط سوا ر ہے اور بھارت دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے۔
کانگریس کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کے دور میں پسے ہوئے طبقات کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے لیکن بی جے پی کی حکومت اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوگی۔ درحقیقت بڑی منڈی، حکومتی سرپرستی اور ٹیکسوں میں چھوٹ کے باوجود بھارتی بورژوازی قومی جمہوری انقلاب کا ایک بھی فریضہ انجام دینے سے قاصر رہی ہے۔ گزشتہ 66 سالوں میں ، جن میں عالمی سطح سرمایہ دارانہ معاشی عروج کی کئی دہائیاں بھی شامل ہے، اگر یہ فرائض پورے نہیں ہوسکے تو سرمایہ داری کے بحران کے موجودہ عہد میں بھارتی عوام کی زندگیوں میں کسی بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بھارت کا مضبوط محنت کش طبقہ ، طبقاتی جدوجہد کی عظیم روایات کا امین ہے۔ انہوں نے کئی لڑائیاں لڑی ہیں،کامیاب عام ہڑتالیں برپا کی ہیں،اور بار بارثابت کیا ہے کہ حکمران طبقے اور اس کے نظام کے خلاف نہ صرف لڑا بلکہ جیتا بھی جاسکتا ہے۔ دوسری طرف کیمونسٹ پارٹیوں اور ٹریڈ یونین کی قیادتوں نے ہر بار اپنی مصالحانہ پالیسیوں کے ذریعے محنت کش طبقے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ بھارتی کیمونسٹ پارٹیوں کے ممبران کی تعداد کروڑوں میں ہے اور ان کا شمار دنیا کی بڑی پارٹیوں میں ہوتا ہے لیکن مرحلہ وار انقلاب کی سٹالن اسٹ پالیسیوں اور پارلیمانی سیاست کے خبط (جسے لینن پارلیمانی فتور کہا کرتا تھا) میں مبتلاقیادت محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی تحریکوں کو انقلابی لائحہ عمل اور راستہ فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔
9 ستمبر 1928ء کو لاہور کے مضافات میں ہندوستان بھرسے آئے ہوئے انقلابیوں کی خفیہ میٹنگ ہندوستان کے عظیم انقلابی بھگت سنکھ نے خطاب کیا تھا۔ اسی میٹنگ میں ’’ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن‘‘ تبدیل کر کے ’’ہندوستان سوشلسٹ ری پبلیکن ایسوسی ایشن‘‘ رکھا گیا تھا۔ بھگت سنگھ نے اس میٹنگ میں کہا تھا کہ ’’ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہئے جس میں بھورے آقاؤں کی جگہ گندمی رنگت والے آقا لے لیں اور جبر و استحصال پر مبنی نظام سماج میں غارت گری جاری رکھے۔ ہمیں وہ آزادی چاہئے جواس جابرانہ نظام کو انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکے۔‘‘ یہ فریضہ ابھی ادا ہونا باقی ہے۔ بھارتی نوجوان اور پرولتاریہ کی نئی نسل ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہوگی جو دھماکہ خیز واقعات تاریخ کے افق ان کے سامنے رکھیں گے۔ وہ بھگت سنگھ کا خواب پورا کریں گے!
متعلقہ:
بھگت سنگھ کی انقلابی میراث
نوجوان سیاسی کارکنوں کو بھگت سنگھ کا پیغام
23مارچ: بھگت سنگھ کا یوم شہادت
’’ابھرتی‘‘ معیشتوں کی لڑکھراہٹ
ہندوستان: معاشی ترقی کے ہاتھوں سماجی بلادکار
پاک بھارت ویزے کا گھن چکر
بھارت کی تاریکی