آزادی فلسطین: مذاکرات یا انقلاب؟

[تحریر: لال خان]
صدر اوباما کا اسرائیل اور ’فلسطینی علاقوں‘  کا پہلا دورہ خطے میں کشیدگی کو ختم کرنے کی خاطر امریکی سامراج کی منافقانہ اوربے ہودہ سفارتکاری کی ایک اوربڑی ناکامی ثابت ہوا ہے۔ اس دورے نے اوباما کی شدید کمزوری کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے جو صیہونی جارحیت پسندوں اور امریکی دائیں بازو کو خوش کرنے کے لیے بے شرمی کے ساتھ اپنی بات سے پیچھے ہٹتے ہوئے ان کے آگے جھک گیا۔ وہ بار بار یہ کہتا رہا کہ امریکہ اسرائیل کا بہترین اتحادی ہے اور وہ اسرائیلی ریاست کی فلسطینی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے خلاف جرائم میں حمایت جاری رکھے گا۔ فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ریاست اور قبضے کے خاتمے کے خواب کی تعبیر پہلے سے کہیں دور ہو چکی ہے۔ نمائش سے بھرپور انتہائی اعلیٰ سطح کے اس دورے میں ایک اور امریکی صدر وہی پرانا اور گھسا پٹا پیغام دے رہا تھاجو کئی حوالوں سے ظالم اسرائیلی ریاست کو جبر جاری رکھنے کا اجازت نامہ تھا۔
اوباما کی آمد سے قبل جلدی میں بنائی گئی اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت بنیادی طور پر فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آبادکاری کے حامیوں پر مبنی ہے جو کہ رجعتی حکمران اشرافیہ کی درندگی اور تکبر کی علامت ہے۔ یہ اسرائیلی حکمران بڑے پیمانے پر زمین خالی کروانے، گرفتاریوں، غیر قانونی بستیوں کے شہری جنگل بنانے اور کئی نسلوں سے فلسطین پر قبضہ جاری رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی اقوامِ متحدہ، امریکی سامراج اور نام نہاد عالمی برادری کے منافقانہ اعلانات کے باوجوداسرائیلی حکومتیں مجوزہ فلسطینی ریاست کے مرکز مغربی کنارے میں اتنی اندر جا کر یہودی بستیاں تعمیر کر تی رہی ہیں کہ ان کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ اسرائیلی سرپرستی کے نیچے کام کرنے والی مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی نے ’امن مذاکرات‘ کی بحالی کے لیے صرف ایک شرط عائد کی ہے کہ نئی یہودی بستیوں کی تعمیر روک دی جائے۔ اوباما نے فلسطین کے برائے نام صدر محمود عباس کو غیر مشروط طو رپر امن مذاکرات بحال کرنے کو کہا ہے۔
اسرائیل میں 16 لاکھ، مغربی کنارے میں 26 لاکھ اور غزہ کی پٹی میں رہنے والے 17 لاکھ فلسطینی عملی طور پر صیہونی ریاست کے کنٹرول میں رہنے پر مجبور ہیں۔ انہیں راستوں میں رکاوٹیں، ناکہ بندیوں پر تذلیل، ٹیلی وژن چینلوں کی بندش، فلسطینی علاقوں کو چیرتی ہوئی کنکریٹ کی دیوار، پر تشدد گرفتاریوں اور نسلی امتیاز کا سامنا ہے جو در حقیقت جنوبی افریقہ میں 1990ء سے پہلے پائی جانے والی نسل پرستی سے بھی بد تر ہے۔ 1960ء اور1970ء کی دہائیاں فلسطین کی تحریکِ آزادی میں بہت ریڈیکل مسلح جدوجہد کا دور تھالیکن یہ طریقہ صیہونی ریاست کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو گیا۔ اس ناکامی نے فلسطینی رہنماؤں کو اقوامِ متحدہ اور مغربی سامراج کے زیرِ اثر ’ مذاکرات کے ذریعے حل‘ کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ 1967ء کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کے بعد کے 46 برسوں میں بے شمار امن معاہدے اور مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن فلسطینیوں کی تکالیف میں کوئی کمی نہیں آئی۔
22 نومبر1967ء کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 242 منظور کی جس میں ’’اسرائیلی مسلح افواج کے حالیہ جھڑپوں کے دوران قبضہ کیے گئے علاقوں سے انخلا‘‘ کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ قریباً نصف صدی گزر جانے کے بعدانخلا کی بجائے مزید علاقوں پر قبضہ ہوچکا ہے۔ اقوامِ متحدہ متعدد قرار دادیں منظورکر چکی ہے لیکن بدمعاش اسرائیلی ریاست ان پر عمل تو درکنار ان پر کان تک نہیں دھرتی۔ اکتوبر1973ء کی یوم کِپور جنگ کے بعد نومبر1977ء میں مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیرِ اعظم مِن خم بیگن کے درمیان امریکی صدر جمی کارٹر کی سرپرستی میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ طے پایا۔ فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ 1991ء کی میڈرِڈ کانفرنس، 1993ء کا اوسلو معاہدہ، 2000ء کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات، 2001ء میں بننے والا یورپی یونین، امریکہ، روس اور اقوامِ متحدہ پر مبنی چار فریقوں کے گروپ (کوآرٹیٹ) کا امن منصوبہ، 2002ء کا سعودی امن منصوبہ، 2003ء کا جنیوا معاہدہ، 2007ء میں اناپلیس والا سربراہ اجلاس اورسامراج اور اس کے اقوامِ متحدہ جیسے خصی اداروں کی کئی اور سفارتی کوششیں فلسطینی کاز کوذرا سا بھی آگے بڑھانے میں مکمل طور پر اور بری طرح سے ناکام رہی ہیں۔
اوباما ایک مربتہ پھر فلسطینی اور صیہونی لیڈروں کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی پر زور دے رہا ہے اور دو ریاستوں پر مبنی گھِسا پِٹا اور بے کار حل پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر فلسطینیوں کو ایک ’آزاد‘ ریاست دے بھی دی جائے تو یہ دنیا سے جغرافیائی طور پر کٹی ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی ریاست ہو گی اور اسرائیلی ریاست کی معاشی اور عسکری قوت کے سائے تلے اس کا اقتدار اور حاکمیت کسی میونسپل ادارے سے زیادہ نہ ہو گی۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ا سرائیل کا موجودہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو دو ریاستوں پر مبنی حل کے بارے میں قطعاً پر جوش نہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ اسرائیل کو وادیِ اردن پر لازمی کنٹرول کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ فلسطینیوں کی فضائی حدود پر بھی جس کی بدولت وہ در حقیقت اسرائیل کی قید میں ہوں گے۔ نیتن یاہو کے پیش رو ایہود اولمرٹ نے حال ہی میں کہا کہ’’نیتن یاہو نے کبھی بھی کھل کر دو ریاستوں پر مبنی حل کی حمایت نہیں کی۔‘‘ تباہ کن معاشی بحران، افغانستان اور عراق میں فوجی شکستوں اور ایران، لاطینی امریکہ اور چین وغیرہ میں سفارتی ناکامیوں کے بعد امریکی سامراج ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’’مٹی کے پیروں والا دیو‘‘ ہے۔ اسرائیل کے جارحیت پسند حکمران اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور اوباما کی جانب ان کا رویہ اس کا اظہار ہے۔
جہاں فلسطینی عوام اسرائیل کے مظالم سہہ رہے ہیں وہیں رجعتی عرب بادشاہوں، آمروں اور بے پناہ دولت مند شیخوں نے بھی ان سے غداری اور ان کی تذلیل کی ہے۔ داخلی مخالفتوں کو کچلنے کے لیے ان کو بیرونی حیلے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے قائدین مغربی اور اسرائیلی سامراج کے ساتھ ساز باز میں ملوث ہیں اور کرپشن میں ڈوب کر بے پناہ دولت مند ہو چکے ہیں۔ 2011ء کے موسم بہار میں شروع ہونے والے عرب انقلابات کی لہر کے دوران اور اس کے بعد اس حکومت کے خلاف کئی لڑاکا اور غصے سے بھرپور مظاہرے کیے گئے۔ غزہ 17 لاکھ کی آبادی کے لیے ایک قید خانہ ہے۔ اگر حسنی مبارک ظالم تھا تو مورسی اس سے بھی زیادہ بے رحم ثابت ہوا ہے۔ 9 مارچ کو اکانومسٹ لکھتا ہے ’’غزہ کے باسیوں کے مصائب میں اضافہ ہوا ہے، مصری حکومت نے حال ہی میں غیر معمولی طور پر سخت ا قدام اٹھاتے ہوئے مصری سرحد پر واقع زیر زمین سرنگوں سے اشیا کے نقل و حمل کو روک دیا ہے، جنوری کے اواخر سے مصری فوج کے انجینئروں نے ان سرنگوں میں گندا پانی چھوڑ دیا ہے اور ان میں سے درجنوں کو منہدم کر دیا ہے۔ ۔ ۔ اسرائیل کے پٹھو ہونے کے الزامات کو رد کرنے کی کوشش میں حماس کے کچھ قائدین مزید زہریلی مذہبی لفاظی استعمال کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ تیونس کی طرز پر ایک بغاوت کو ابھارنے کی کوشش میں غزہ میں کچھ لوگوں نے خود سوزی کی ہے۔ حالیہ مظاہر ہ جس میں مرد اور خواتین آزادانہ گھل مل رہے تھے، غزہ کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہر تھا۔‘‘
دو ریاستوں پر مبنی حل فلسطینیوں پر ظالمانہ اور مجرمانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ایک پردہ ہے۔ اسرائیلی ریاست اور سامراج کے ہاتھوں تخلیق اور پلنے وا لی سا مراج کی حمایت یافتہ مطلق العنان اور ظالم عرب حکومتیں اور بادشاہتیں کبھی بھی ایک فلسطینی ریاست کو قائم نہیں ہونے دیں گی۔ یہ مکمل طور پر ایک خواب و خیال ہے۔ قاہرہ، تیونس، عمان، بحرین، یروشلم اور حیفہ کی سڑکوں پر نظر آنے والی عوامی طاقت نے رجعتی اسرائیلی ریاست اور خطے میں موجود دیگر جابر حکومتوں کا تختہ الٹنے کا ایک اور راستہ دکھایا ہے۔ اسرائیل کی آبادی کا دس فیصد سے زیادہ حصہ سماجی و معاشی تبدیلی کے لیے سڑکوں پر تھا۔ یروشلم سے لے کر واشنگٹن تک اقتدار کے ایوان لرز گئے تھے۔ اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں کی عرب بہار میں بڑے پیمانے کی شرکت نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطین کی قومی آزادی کا راستہ اسرائیل میں طبقاتی جدوجہد سے ہو کر گزرتا ہے۔

متعلقہ:
فلسطین کے رستے ہوئے زخم

غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟

۔2012ء؛ ایک جائزہ

ایران اسرائیل جنگ: سامراجی جنگ طبقاتی جنگ کو ابھارے گی