[تحریر: لال خان]
کتنی مصروفیت ہے! ہر کوئی، ہر وقت کہیں زیادہ مصروف نظر آتا ہے۔ وقت جوں جوں گزرتا جارہا ہے، کم پڑتا جارہا ہے۔ کام کرنے والے تو مصروف ہیں ہی، جو کام نہیں کرتے وہ کہیں زیادہ مصروف ہیں۔ گزرے وقت کی اہمیت اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ کبھی کسی نے وقت کے زیادہ ہونے کی شکایت نہیں کی، شکوہ ہے کہ یہ کتنی جلدی گزر رہا ہے۔ بڑھاپے میں یہ رفتار اور بھی شدید ہوجاتی ہے اور یہ احساس زیادہ تکلیف دہ بن جاتا ہے۔ اچھے وقت کے گزرنے کا تو پتا نہیں چلتا اور برا وقت گزرتا نہیں ہے لیکن پھر اس برے وقت سے نکلنے کی بھی ایک معاشی دوڑ ہے جس میں ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور معاشرے کا ہر فرد انفرادی طور پر بھاگتا چلا جا رہا ہے۔ حالات ہیں کہ بہتر ہی نہیں ہوتے۔
جس معاشی نظام کے تحت یہ معاشرہ چل رہا ہے اس نے ایک طرف جہاں انسانوں کی وسیع اکثریت کو محروم اور مجبور کر رکھا ہے وہاں ان کی زندگیوں کا وقت بھی چھین لیا ہے۔ صرف سو سال قبل کی ہی بات کریں تو برصغیر کی سماجی زندگی میں سرمایہ داری کی یہ جعلی اور مسخ شدہ ’’جدیدیت‘‘ اگرچہ نہ تھی لیکن انسان کے پاس دوسرے انسانوں کے ساتھ بیتانے کے لئے کچھ وقت ضرور ہوتا تھا۔ لوگ محلوں میں مل بیٹھتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے تھے، محفلیں سجا کرتی تھیں اور معاشرتی تانا بانا مضبوط ہوتا تھا۔ تکنیکی طور پر نہ سہی لیکن سماجی و ثقافتی طور پر زندگی بڑی سہل تھی۔ رشتے آج کی نسبت زیادہ سچے اور مطلب پرستی سے پاک ہوا کرتے تھے۔
معاشی گراوٹ جوں جوں بڑھی ہے سماجی بیگانگی اور دوری میں اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔ آج کروڑوں کے ہجوم میں بھی انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ صرف غریب ہی نہیں درمیانے اور بالادست طبقات بھی اس نفسا نفسی سے دوچار ہیں۔ کچھ لوگوں کو بیکار ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے لیکن بیکار ہوکر بھی ان کے پاس اپنے اور اپنوں کے لئے وقت نہیں ہے۔ غریبوں کی پہنچ سے آسائش اور بھی دور ہوگئی ہے۔ جن کے پاس روٹی اور علاج کے پیسے نہیں وہ عشرت کا بھلا کیا سوچیں گے؟ درمیانے اور بالادست طبقے کے جن افراد کو کچھ فارغ وقت ملتا بھی ہے تو اسے کسی سکرین میں نظریں گاڑ کے گزار دیتے ہیں۔ یہ سکرین عام طور پر موبائل یا لیپ ٹاپ کی ہوتی ہے جہاں دوسروں کی نمائش دیکھی جارہی ہوتی ہے یا اپنی دکھائی جارہی ہوتی ہے۔ ٹیلیوژن تو ویسے ہی سیاسی و ثقافتی زوال کی علامت بن چکا ہے۔ موبائل جب سے عام ہوا ہے انسانوں نے نظریں ملانا ہی چھوڑ دی ہیں۔ دوریاں کم کرنے کی اس ایجاد نے پاس بیٹھے انسانوں کو بھی دور کر دیا ہے۔
اس نظام میں تکنیک جتنی جدید اور پیداوار کی رفتار جتنی تیز ہوئی ہے، کام کی شدت اور اوقات کار میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ کارل مارکس نے واضح کیا تھا کہ مصنوعات کی معاشی قدر کا تعین ان کی ’’پیداوار میں صرف ہونے والی محنت کے وقت‘‘ سے ہوتا ہے۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی اس وقت کو جوں جوں کم کرتی ہے، سرمایہ دار کی شرح منافع بھی گرتی چلی جاتی ہے جسے برقرار رکھنے کے لئے محنت کش طبقے کا خون زیادہ شدت سے نچوڑا جاتا ہے۔ مقابلہ بازی کی منڈی میں اجارہ داری قائم کرنے کے لئے کم سے کم محنت کشوں کو زیادہ سے زیادہ پیداوار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں بندہ مزدور کے اوقات کار تلخ اور اجرتیں کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے انسان کی زندگی سہل ہونی چاہئے لیکن اس نظام زر میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ جدید مشین محنت کش کے استحصال میں اضافہ کرتی ہے اور مارکس ہی کے بقول سرمایہ داری میں ’’انسان مشین کو نہیں بلکہ مشین انسان کو استعمال کرتی ہے۔‘‘
جدید سرمایہ داری کے سب سے اہم معیشت دان جان مینرڈ کینز نے ٹیکنالوجی کی پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے 1930ء میں پیش گوئی کی تھی کہ آنے والی نسلوں کو روزانہ صرف تین گھنٹے کام کرنا پڑے گا اور ’’فارغ وقت کو انسان اپنی مرضی سے گزارے گا۔ ‘‘اس دور تک ہونے والی ایجادات نے اوقات کار کو کم کیا تھا۔ محنت کش طبقہ انقلابی تحریکوں اور ٹریڈ یونین کی جدوجہد کے ذریعے 20 گھنٹے تک کے روزانہ اوقات کار کو 12 اور پھر 8 گھنٹے تک لے آیا تھا۔ کینز کے نزدیک ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ رجحان برقرار نہ رہے۔ لیکن گزشتہ تقریباً ایک صدی کے دوران سرمایہ دارانہ نظام کے طرز ارتقا نے کینز کے تناظر کو نہ صرف غلط بلکہ الٹ ثابت کیاہے۔ محنت کش مجبور ہیں کہ اپنی نوکری بچانے اور معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے مشین کی طرح کام کریں۔ کچھ دو یا تین ملازمتیں بھی کرتے ہیں۔ کمپنیاں 24 گھنٹے کا م لینے کے لئے ہی ملازمین کو سمارٹ فون اور کمپیوٹر ’’مفت‘‘ دیتی ہیں۔
عدم استحکام پر مبنی اس پر انتشار عہد میں غریب انسان کو میسر آرام کا تھوڑا بہت وقت بھی ذہنی تناؤ اور مستقبل کی پریشانی میں گزر جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کو اگر کام سے فرصت نہیں ملتی تو دوسری طرف دنیا کے امیر ترین لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ اسے خرچ کرنے کا وقت نہیں۔ اس سال بل گیٹس نے 23 لاکھ روپے فی منٹ کے حساب سے مال بنایا۔ کاروبار کے آغاز سے تخمینہ لگایا جائے تو بل گیٹس کی فی منٹ آمدن 28 کروڑ روپے بنتی ہے۔ یہ اتنی دولت ہے کہ اس کی نسلیں بھی خرچ نہیں کرسکتیں۔ لیکن مقابلہ بازی کے اس نظام زر میں ’’اور، اور‘‘ کی ہوس کبھی نہیں مٹتی۔ اس حوالے سے بے پناہ دولت بذات خود ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ خود پاکستان کا حکمران طبقہ اس بیماری کی مجسم شکل ہے۔ یاد رہے کہ بیش بہا ’’خیرات‘‘ کرنے والے بل گیٹس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے ٹیکس چوروں میں ہوتا ہے!
’’وقت پیسہ ہے‘‘ کی نفسیات پیدا کرنے والے اس نظام میں وقت کو دولت سے تولنے کی سوچ پورے معاشرے پر حاوی ہوجاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میںیہ پاگل پن اور بھی زیادہ ہے۔ امریکی محنت کش ترقی یافتہ دنیا میں سب سے زیادہ ’’بساط سے بڑھ کر کام‘‘ (Overwork) کرنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے دنوں امریکہ میں ایک محنت کش لڑکی کی موت نے ’’امریکی خواب‘‘ کی بھیانک تعبیر دنیا بھر کے سامنے عیاں کی ہے۔ نیو جرسی کی 32 سالہ میری فرنانڈس اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے چار نوکریاں کرتی تھی اور کچھ دیر آرام کے لئے کار میں سو رہی تھی کہ دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئی۔ دوسرے محنت کشوں کی زندگیاں میری فرنانڈس سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ مغرب میں لمحوں کی کفایت شعاری کی اذیت کہیں زیادہ ہے جو چہروں کے تناؤ اور چال کی رفتار میں واضح نظر آتی ہے۔ ’’فاسٹ فوڈ‘‘ اور اب ’’ٹیک اوے‘‘ کا بڑھتا ہوا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کے پاس سکون سے کھانا کھانے کا وقت بھی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں اعصاب کو سکون دینے والے کھیل بھی اب تیز اور ہیجان انگیز ہوگئے ہیں۔ کرکٹ میں ٹیسٹ کے بعد ون ڈے اور پھر ٹی ٹونٹی تک کا عمل، وقت کی بڑھتی ہوئی قلت کا ہی نتیجہ ہے۔ آرام اور آسائش کبھی اشرافیہ کے سماجی رتبے کی علامت ہوا کرتے تھے۔ آج کل ’’مصروفیت‘‘ ایک ’’سٹیٹس سمبل‘‘ بن گئی ہے۔
ہر جانور کی زندگی دو مقاصد کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا اپنی بقا کا سامان کرنا اور دوسرا افزائش نسل۔ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کی وسیع اکثریت کی زندگی کو بھی انہی دو مقاصد تک محدود کر دیا ہے۔ لٹریچر، فن، ادب، سماجی ربط، تحقیق، تخلیق اور تسخیر کائنات کے ذریعے اپنی ذات کی تکمیل کرکے ’’انسان‘‘ بننے کا وقت ہی انسان سے چھین لیا ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے 1921ء میں لکھا تھا کہ ’’انسان کی جسمانی اور روحانی صلاحیتوں کو کیسے جلا بخشی جائے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ لیکن اس بارے میں سوچنا بھی سوشلزم کے تحت ہی ممکن ہے۔‘‘
متعلقہ: