۔18اکتوبر کا ادھورا سفر

[تحریر: لال خان]
شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو گا کہ اس ملک میں کوئی سانحہ، کوئی حادثہ رونما نہ ہو اور ٹیلیوژن کے سکرین پر اندوہناک مناظر دیکھنے کو نہ ملیں۔ دہشت گردوں کے حملے، خود کش دھماکے، قدرتی آفات کی تباہی، قیمتوں میں آئے روز اضافہ، غریب خاندانوں کی اجتماعی خودکشیاں، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بچوں یا جسمانی اعضا کی فروخت۔ ۔ ۔ یہ سب یہاں کا معمول بن چکا ہے۔ اگر دہائیاں نہیں تو کئی سال ضرور بیت چکے ہیں کہ ہر طرف سے سرمایہ داری کی تاریکیوں میں گھرے اس ملک کے عوام نے کوئی پرمسرت خبر سنی ہو۔ محرومی، مایوسی اور عدم استحکام اس ملک کے کروڑوں بد نصیب باسیوں کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
سیاست، ثقافت اوراخلاقی اقدارکی تنزلی واضح طور پر سماجی نظام کے بحران کی غمازی کرتی ہے۔ حکمرانوں کے لب و لہجے اور باڈی لینگویج سے مایوسی چھلکتی ہے اور عوام نے بہت عرصہ پہلے سے ان کے وعدوں اور دعووں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک طرف عوام مفلسی اور تباہی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں تو دوسری طرف دولت کی بے ہودہ نمائش کرنے والے امرا کچلے ہوئے طبقات کی بغاوت سے خوفزدہ ہیں۔
دایاں اور سابقہ بایاں بازو اور نام نہاد ترقی پسند دانشور افسردگی کے عالم میں کوئی پر امید تناظر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ انہیں محنت کش عوام پر اعتماد ہی نہیں ہے اورکسی عوامی تحریک کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے یہ حضرات محنت کش طبقے کو بغاوت نہ کرنے پر کوس رہے ہیں۔ یہ’’دانشور‘‘ خواتین و حضرات عوام کو انتہائی حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں، ان کی اکثریت معاشرے میں طبقاتی تقسیم کی انکاری ہے لہٰذہ طبقاتی جدوجہد کے ابھار پر مبنی کوئی تناظر ان کی نظر میں یوٹوپیا ہے۔ مادی حقیقتوں سے کٹ کر مایوس کن تجزئیے اور تبصرے پیش کرنے والے ایسے ہی خیال پرست لوگوں کے بارے میں ٹیڈ گرانٹ کہا کرتا تھا کہ ’’مردوں کو مردے دفنانے دو۔‘‘ دوسری طرف عوام میں اضطراب بڑھتا جارہا ہے اور ایک بار جب یہ بغاوت کی شکل میں پھٹے گا تو صرف انقلابی مارکسسٹ ہی ہوں گے جو سائنسی تناظر اور ٹھوس پروگرام کی مدد سے عوامی قوت کو سماجی و معاشی تبدیلی کی سمت میں گامزن کریں گے۔
عوام آئے روز تاریخ کے میدان میں اتر کر تحریکیں برپا نہیں کرتے ہیں۔ عام حالات میں وہ روز مرہ کی تلخیوں بھری زندگی سے نبرد آزما رہتے ہیں، لیکن پھر ایسے غیر معمولی لمحات بھی آتے ہیں جب مختلف سماجی، معاشی اور تاریخی عوامل انہیں بغاوت پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں آخری بار بڑے پیمانے کی عوامی تحریک 18 اکتوبر 2007ء کو نظر آئی تھی جب طویل جلا وطنی کے بعد بینظیر بھٹو کراچی ائیر پورٹ پر اتری تھیں۔ بیس لاکھ سے زائد محروم اور مظلوم لوگ کراچی ائیر پورٹ جانے والی شاہراہوں پر امڈ آئے تھے۔ اسی سال مارچ میں ہمیں مڈل کلاس اورسول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے چند ہزار لوگوں کی ایک اور ’’تحریک‘‘ بھی ملتی ہے جو سرمایہ دارانہ ریاست کے ایک ستون یعنی عدلیہ کی بحالی کے لئے تھی۔ لیکن بینظیر کا استقبال کرنے والے یہ لاکھوں ’’ان پڑھ‘‘ لوگ کسی جعلی ایشو کے لئے نہیں بلکہ روٹی، کپڑا، مکان اور تعلیم، علاج، روزگار جیسے حقیقی مطالبات لے کر سڑکوں پر آئے تھے۔
یہ بدحال نوجوان، مزدور اور کسان بینظیر کی جھلک دیکھنے نہیں آئے تھے، یہ نظارہ ٹی وی پر زیادہ بہتر طریقے سے کیا جاسکتا تھا۔ وہ اپنے ننگے پیروں، لاغر جسموں اور اذیت ناک زندگیوں کی ایک جھلک بینظیر کو دکھانے آئے تھے کیونکہ وہ بھٹو کی بیٹی کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے تھے۔ عوام کا یہ سمندر دیکھ کر خود بینظیر بھی دنگ رہ گئی تھیں۔ انہیں بڑے استقبال کی توقع تھی لیکن لوگوں کی یہ تعداد ان کی توقعات سے بھی کہیں زیادہ تھی۔
بینظیر بھٹو برطانوی اور امریکی سامراج کی معاونت سے جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں وطن واپس آئی تھیں اور ’’پر امن‘‘ انتقال اقتدار کی خواہاں تھیں لیکن کراچی ائیر پورٹ پر عوام کے جم غفیر نے اس سامراجی ڈیل کے چیتھڑے اڑا دئیے۔ لاکھوں لوگوں کے اس کارواں نے سفر شروع کیا۔ کارساز کے مقام پر ریاست اور رجعت کے خوفزدہ عناصر نے دو بم دھماکوں کی مدد سے عوام کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ بینظیر محفوظ رہیں لیکن دو سو سے زائد کارکنان شہید ہوگئے۔ یہ وحشت عوام کا زور توڑنے میں ناکام رہی۔ جب لاکھوں لوگ کندھے سے کندھا ملا کے اجتماعی نجات کے عظیم مقصد کے لئے آگے بڑھتے ہیں تو اس تحریک میں شامل ہر فرد کا انفرادی اعتماد اور عزم کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں عوام بڑی سے بڑی رکاوٹ اور جبر کو پاش پاش کر دیتے ہیں۔

کارساز کے مقام پر دھماکوں کے بعد کا منظر، اس سانحے میں دو سو سے زائد پارٹی کارکنان شہید ہوئے

مشرف کے دور حکومت میں بلند معاشی شرح نمو کے باوجود بھی عام آدمی کے مصائب میں اضافہ ہوا تھا۔ مصنوعی بنیادوں پر اگرچہ مڈل کلاس کی ایک قلیل سی پرت عارضی طور پر خوشحال ہوئی لیکن آبادی کے وسیع حصے کی حالت زار بدتر ہوتی چلی گئی۔ یہی سماجی تضادات 18 اکتوبر کو عوامی تحریک کی شکل میں پھٹ پڑے۔ اس تحریک نے خود بینظیر بھٹو کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے اور انہیں زیادہ ریڈیکل لفاظی پر مجبور ہونا پڑا۔ پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم ملک گیر عوامی تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے جلسوں اور ریلیوں میں گونجنے لگا۔ لمبے عرصے تک سیاست سے بیگانہ اور مایوس رہنے والے محنت کش عوام ایک بار پھر سیاسی طور پر متحرک ہونے لگے۔ یہ سب حکمرانوں کے لئے خوفناک تھا۔ کسی بڑے زلزلے کے ابتدائی جھٹکے اسلام آباد سے لے کر واشنگٹن تک طاقت کے ایوانوں کو لرزا رہے تھے چنانچہ ریاست کے انتہائی دائیں بازو کے دھڑے نے اس تحریک کے مرکز کو مٹا دینے کا فیصلہ کیا۔ بینظیر بھٹو ریاست کے متحارب دھڑوں کے کراس فائر میں جان گنوابیٹھیں۔ ڈیل کروا کر انہیں ملک واپس لانے والے سامراجی خاموش تماشائی بن کے رہ گئے۔ قیادت سے محروم عوام نے غضبناک رد عمل کا مظاہرہ کیا۔ بنک، تھانے، عدالتیں، ریاستی املاک۔ ۔ ۔ بپھرے ہوئے عوام نے نفرت کی ہر علامت کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا۔
’’وصیت‘‘میں نامزد کی گئی نئی پارٹی قیادت نے عوام کے غم وغصے کو مایوسی اور پسپائی میں تبدیل کر دیا۔ کوئی انقلابی پروگرام دینے کی بجائے لوگوں کو ایصال ثواب اور رونے دھونے پر لگا دیا گیا۔ سٹیٹس کو، کو بچا لیا گیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت ’’جمہوری‘‘ طور پر برسر اقتدار آگئی۔ یہ در حقیقت ایک جمہوری رد انقلاب تھا جس کے ذریعے عوام پر بدترین معاشی حملے کئے گئے۔ عوام کا دکھ، اذیت میں بدل گیا اور تحریک کی شکست، ذلت بن گئی۔ پانچ سال تک تباہ حال پاکستانی سرمایہ داری کو بچانے اور قائم رکھنے کی پالیسیاں نافذ کرنے کے بعد حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کسی امید کی بجائے پیپلز پارٹی سے عوام کی مایوسی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ پہلے چار مہینوں میں اس حکومت نے انتہائی جابرانہ انداز میں عوام دشمن معاشی پالیسیاں نافذ کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ اس طرح کے حالات میں ضروری نہیں کہ فوری طور پر عوام کا رد عمل سامنے آئے، تاہم اس جبر کے خلاف محنت کش طبقے کے دل و دماغ میں لاوا پک رہا ہے۔ کسی بھی طبقاتی سماج میں طبقاتی تضادات ناگزیر طور پر برقرار رہتے ہیں۔ معمول کے ادوار میں یہ طبقاتی کشمکش ماند اور منظر عام سے غائب رہتی ہے لیکن ایسے غیر معمولی ادوار بھی آتے ہیں جب محنت کش طبقہ حتمی اور فیصلہ کن اقدامات پر مجبور ہوجاتا ہے۔ قدامت پرست منطق کے ذریعے معاشرتی عوامل کی تشریح کرنے والے دانشور اس صورتحال میں حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان کے رجعتی حکمران ایسی ہی کسی حیران کن بغاوت کے صدمے سے دوچار ہونے والے ہیں!