’’سوشلسٹ انقلاب کے بعد پاکستان‘‘ کے سندھی ایڈیشن کی شاندار تقریب رونمائی

[رپورٹ:  کامریڈ ضیاء]
یکم جنوری کو دادو میں کامریڈ لال خان کی کتاب ’’سوشلسٹ انقلاب کے بعد پاکستان؟‘‘ کے سندھی ایڈیشن کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ اس کتاب کو کامریڈ انور پنہور (صدر پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین صوبہ سندھ) نے اردو سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ تقریب میں سینکڑوں کی تعداد میں ٹریڈ یونینز کے کارکنان، سیاسی رہنماؤں، خواتین اور انقلابی نوجوانوں نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت کامریڈ انور پنہور نے کی۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ صدام خاصخیلی نے سرانجام دیے۔ اعزازی مہمانوں میں کامریڈ حمید سومرو (کالم نگار)، کامریڈ ضمیر کوریجو (رہنما واپڈا الیکٹرک سینٹرل لیبر یونین )، کامریڈ شہباز پھلپوٹو، کامریڈ موریل پنہور (صدر PTUDC دادو) شامل تھے جب کہ مہمان خاص کتاب کے مصنف کامریڈ لال خان تھے۔ کامریڈ انور پنہوراور اعزازی مہمانوں کے علاوہ کامریڈ اعجاز بگھیو (صدر بیروزگار نوجوان تحریک صوبہ سندھ) اور کامریڈحنیف مصرانی (ایڈیٹر طبقاتی جدوجہد سندھی) نے حاضرین سے خطاب کیا اور کتاب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کے حالیہ عالم گیر بحران اور پاکستان پر اس کے اثرات کے حوالے سے تفصیلی بحث کی۔
آخر میں کامریڈ لال خان نے خطاب کرتے ہوئے تفصیل سے سوشلسٹ انقلاب کے بعد کے سماج کی منظرکشی پیش کی۔ کامریڈ نے کہا کہ اس وقت پاکستانی ریاست ٹوٹ پھوٹ اور عدم استحکام کا شکار ہے جو اس کے بدترین معاشی حالات کا عکس ہے، جس کے باعث اس سماج کی تمام اخلاقیات، نظریے، احساس، رشتے، ناطے اور دوستیاں منافقت، دھوکا دہی اور فریب پر مبنی ہیں، یہ آج کے معاشرے کی بیماری ہے کہ وہ صرف معاشی طور پر بیمار نہیں ہے بلکہ اخلاقی، ثقافتی طورپر بھی بیمار ہے، اس کی ہر قدر بیمار ہے۔ آج سب سے بڑی منافقت اور سب سے بڑا نظریہ یہ ہے کہ عوام جمہوری نظام کے لیے جدوجہد کریں، اس سے بڑا کوئی دھوکہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جمہوریت کوئی نظام نہیں ہے بلکہ مختلف ادوار کے سماجی اور معاشی نظاموں کو چلانے کا ایک طریقہ کار ہے، موجودہ عہد میں جمہوریت اور آمریت ایک ہی نظام کو چلانے کے دو طریقے ہیں۔ آج سب کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، لیکن اگر کرپشن ختم ہوجائے تو پاکستان ختم ہوجائے کیونکہ اس ملک کی دو تہائی معیشت کالے دھن پر قائم ہے۔ کرپشن اس سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت اور پیداوار ہے۔ اس ملک کی بھاری اکثریت علاج اور تعلیم کی سہولت سے محروم ہے۔ اس ہفتے کے ٹائم میگزین کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے، پاکستان میں پانچ کروڑ چالیس لاکھ بچے اسکول جانے کی عمر کے ہیں جن میں سے صرف دو کروڑ بیس لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں، پاکستان کی 82 فیصد آبادی غیرسائنسی علاج کرانے پر مجبور ہے، پانچ لاکھ عورتیں ہر سال زچگی کے دوران اس لیے مرجاتی ہیں کہ ان کو مناسب طبی سہولیات نہیں مل پاتی ہیں، ہر روز 1232 بچے بھوک، غذائی قلت اور قابلِ علاج بیماریوں کی وجہ سے مرجاتے ہیں، 66 فیصد بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما نا مکمل ہے جس کی وجہ سے جوان ہونے والی نسل کا قد اوسطاً آدھے سے ایک انچ چھوٹا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِاثر کوئی بھی حکومت کسی بھی قسم کی بہتری نہیں لاسکتی۔ اس ملک کے بجٹ کا 66 فیصد ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی مالیاتی اداروں کے کئی بار ادا ہو چکے قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے، رہا سہا سرمایہ فوج، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی لوٹ مار کی نذرہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جب صحت پر بجٹ کا 0.4 فیصد، تعلیم پر 0.8 فیصد مختص ہو تو پھر یہاں آمریت ہو، جمہوریت ہو یا پھر نام نہاد عبوری حکومت، کسی بھی صورت میں عوام کی فلاح اور خوشحالی ممکن نہیں ہے۔ اس ریاست اور نظام میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ سماج کو ترقی دے سکیں۔ اس ملک میں جہاں غریب آدمی سپریم کورٹ کے سامنے سے گزر نہیں سکتا وہاں عدلیہ کی آزادی کی نعرہ بازی ایک بھونڈا مذاق ہے، حقیقت یہ ہے کہ طبقاتی سماج میں قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کمزور تو پھنس جاتے ہیں لیکن طاقتور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام میں انصاف بھی ایک جنس ہے جس کا مول بازار میں لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک کا حکمران طبقہ پچھلے 65 سال میں ایک جدید سرمایہ دارانہ قومی ریاست تشکیل نہیں کر سکا، یہاں پر مذہب کو ریاست سے الگ کیا ہی نہیں جا سکا، زرعی انقلاب نہیں ہو سکااور جاگیرداری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا، اور نہ ہی اس خصی حکمران طبقہ میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ یہ اقدامات کر سکے۔ درحقیقت یہ ایک ردِ انقلابی ریاست ہے جسے اس خطے میں طبقاتی جدوجہد کو ماند کرنے کے لئے 1946 ء کی جہازیوں کی بغاوت کے بعد سامراج نے قائم کیا۔ کامریڈ نے مزید کہا کہ پچھلے 65 سال کی تاریخ صرف حکمرانوں کی تاریخ ہے، صرف 1968-69ء کے وہ دن عوام کی تاریخ ہیں جب محنت کش طبقہ ایوبی آمریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا اورطاقت ایوانوں میں نہیں بلکہ فیکٹریوں، گلیوں، کھلیانوں میں موجود محنت کش عوام کے پاس آچکی تھی مگر وہ انقلاب ایک لینن اسٹ بالشویک پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے پاپولزم کا شکار ہو کر زائل ہو گیا۔ لیکن 1968-69ء نے یہ ثابت کیا تھا کہ یہاں سوشلسٹ انقلاب ہوسکتا ہے۔ اس ملک میں پھر 1968-69ء سے بھی بڑی انقلابی تحریک جنم لے گی لیکن ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ انقلاب کوئی حکومتوں کی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ انقلاب میں ریاست بدلتی ہے، معیشت بدلتی ہے، سیاست بدلتی ہے، ثقافت بدلتی ہے، تاریخ بدلتی ہے اور جغرافیے بھی بدل جاتے ہیں، وہ لکیریں بھی مٹ جاتی ہیں جو حکمران طبقات نے مختلف قوموں اور خطوں کو کاٹنے کے لئے کھینچی ہوتی ہیں۔ اگر یہاں ہم ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہیں توہمارے پاس بے پناہ وسائل موجود ہیں جنہیں یہ انقلاب پیداوار کا مقصد بدل کر انسانی فلاح و بہبود کے لئے کامیابی سے بروئے کار لا سکتا ہے۔ انقلاب کے بعدیہاں سے منافع کو یکسر ختم ہونا پڑے گا، یہاں پہ ہر پیداوار کا مقصد انسانیت کے ضروریات کی تکمیل ہوگی۔ تعلیم یہاں پہ مفت ہوگی، یہاں پہ علاج کے لیے جو پیسے لے گا اسے گولی مارنی پڑے گی کیونکہ جس سماج میں علاج کے لئے پیسے کی ضرورت پڑے وہ انسانی سماج نہیں ہو سکتا۔ کچھ بنیادی ضروریات چند دنوںیا ہفتوں میں پوری ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہفتہ بھر کے اوقات کار 48 گھنٹوں سے کم کر کے 30 گھنٹے کر دیے جائیں گے تو تمام بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ایک جدید سماج قائم کرنے لئے بے شمار سرمایہ موجود ہے، اس وقت پاکستان میں 27 ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کو دس بار خرید سکتے ہیں۔ اس قسم کے تمام حکمرانوں کے مالیاتی اثاثے ضبط کیے جائیں گے، وہ قرضے جو سامراج کو کئی بار ادا ہوچکے ہیں ان کی ادائیگی بند کی جائے گی اور سامراج کے اثاثے ضبط کیے جائیں گے۔ مثال کے طور پر ابوظہبی کی اتصلا ت نے مشرف دور میںPTCL کو 26 ارب روپے میں خریدنے کے 18 ماہ بعد 28 ارب روپے منافعوں کی مد میں ملک سے باہر پہنچائے۔ انڈپینڈنٹ پاور پلانٹس (IPPs) جو 1995ء میں لگے تھے انہوں نے 1995ء سے لے کر 2012ء تک 17 سال میں 5 ارب ڈالر سالانہ یہاں سے آسٹریا، ہانگ کانگ اور امریکہ بھیجے ہیں جو 85 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ اس ساری معاشی دہشت گردی کو بند ہونا پڑے گا، انقلاب تمام سامراجی اثاثوں کو ضبط کرے گا اور اس سے جو وسائل حاصل ہونگے ان کے ذریعے سے صرف دو پانچ سالہ منصوبوں سے اس خطے میں جدید ترین انسانی سماج کا قیام ممکن ہے۔ کامریڈ لال خان نے آخر میں کہا کہ اس ملک کے اندر ایک لاوا پک رہا ہے جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے، تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر پہلے سے زیادہ بلند معیار اور پیمانے پر، یہاں پر ایک نیا 1968-69 ء جنم لے گا اور ہمیں اس باراس انقلاب کوسوشلسٹ فتح سے ہمکنار کرنا پڑے گا۔