رپورٹ: PTUDC بلوچستان
بلوچستان میں پھیلے بد ترین ریاستی جبر، تشدد اور دہشت گردی کی کیفیت میں مورخہ 13 اکتوبر 2017ء کو طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے زیر اہتمام لیون ٹراٹسکی کی شہرۂ آفاق تصنیف ’انقلاب روس کی تاریخ‘ کے حال ہی میں شائع ہونے والی اردو ترجمے کی تقریب رونمائی بلوچی اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے مہمان خاص ایشین مارکسسٹ ریویو کے ایڈیٹر لال خان تھے۔ اس تقریب میں طلبہ، ٹریڈ یونین رہنماؤں، محنت کشوں، سیاسی کارکنان، ادبی تنظیموں کے نمائندگان اور خواتین سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ بلوچی اکیڈمی کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
تقریب کی میزبانی علی رضا منگول کر رہے تھے۔ انہوں نے کتاب کا مختصر تعارف پیش کیا اور موجودہ وقت میں اس کی اشاعت کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے مرکزی چیئرمین نذر مینگل نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انقلابیوں کے لیے اس کتاب کی اشاعت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ آج کا پاکستان 1917ء کے زار شاہی روس سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ یہ کتاب صرف اکتوبر 1917ء میں برپا ہونے والے انقلاب روس کے واقعات کی کہانی نہیں ہے بلکہ روس سمیت نوآبادیاتی ممالک کے مخصوص سماجی و معاشی حالات اور تاریخی ارتقا کا گہرا تجزیہ بھی ہے۔ ہمیں بالشویکوں کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے زار شاہی سلطنت کو اکھاڑ پھینکا اور دنیا کی پہلی مزدور ریاست قائم کی۔ اس کے بعد کامریڈ ظفر نے ایک انقلابی نظم پیش کر کے ماحول کو خوب گرما دیا۔
اس کے بعد شکیلہ بلوچ نے 1917ء کے بالشویک انقلاب میں خواتین کے کردار پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب کا آغاز دراصل عالمی یوم خواتین کے موقع پر خواتین محنت کشوں کی ہڑتال سے ہوا تھا۔ ترقی پسند دانشور حبیب مینگل نے جدوجہد پبلکیشنز کو لیون ٹراٹسکی کی کتاب کے اردو ترجمے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سعید کرد نے بھی بات کی۔ انہوں نے کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اپنے طالب علمی کے زمانے میں سوشلزم کی جدوجہد کے تجربات کے حوالے سے بات کی۔ مرک ایمپلائز یونین کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ نے انقلاب میں محنت کش طبقے کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
تقریب کے آخری مقرر ایشین مارکسسٹ ریویو کے ایڈیٹر لال خان تھے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کتاب محض تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔ یہ انسانی سماج کے ہزاروں سالوں کی تاریخ کے اس سب سے اہم واقعے کی کہانی ہے جس نے پہلی دفعہ یہ ثابت کردیا کہ انسانی سماج کو مفت خور جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کے بغیر بھی چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب تجربات کا ایک قیمتی خزانہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کتاب دکھاتی ہے کہ کس طرح بالشویک پارٹی اور لینن نے روس میں قومی سوال پر ایک جامع طبقاتی پالیسی تشکیل دی جو آج بھی قومی سوال کے حوالے سے واحد قابل عمل پالیسی ہے۔ لینن نے زار شاہی روس کو مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ قرار دیا تھا۔ بالشویک پارٹی نے قوموں کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی اور اپنی قومی ریاست تشکیل دینے کی بھرپور حمایت کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تمام اقسام کی زہریلی بورژوا قوم پرستی کے خلاف بھی جنگ لڑی اور تمام تر اقوم کی رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے لیے بھی جدوجہد کی۔ لال خان نے زار شاہی کے قومی جبر کا پاکستان میں ہونے والی قومی جبر سے موازنہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قومی جبر کے خلاف ہونے والی جدوجہد ہمیشہ سے ہی ان کے لیے جوش و جذبے کا باعث رہی ہے۔ برطانوی سامراج نے جنوب ایشیائی برصغیر کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے مصنوعی ریاستیں تخلیق کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب ان مصنوعی سرحدوں کو مٹا دے گا اور جنوب ایشیائی برصغیر کے رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھے گا۔ حاضرین کی کتاب میں دلچسپی اور جوش و ولولے کا عالم یہ تھا کہ تقریب کے بعد کتاب کی تمام تر کاپیاں فروخت ہوگئیں۔