[تحریر: لیون ٹراٹسکی، ترجمہ: آدم پال]
یہ مضمون 1932ء میں کوپن ہیگن میں پڑھا گیا
جنگ کے شروع ہونے سے پہلے تک بالشویک پارٹی سوشل ڈیموکریٹک انٹرنیشنل کا حصہ تھی۔ 4 اگست 1914ء کو جرمنی کی سوشل ڈیموکریسی نے جنگ کے حق میں ووٹ دیا جس کے بعد یہ تعلق ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیا اور بالشویزم اور سوشل ڈیموکریسی کے درمیان ایک نا ختم ہونے والا اور غیر مصالحانہ جدوجہد کا دور شروع ہو گیا۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس لیکچرکوبلا کر منتظموں نے کوئی غلطی کی ہے؟ اس بات کا فیصلہ حاظرین لیکچر کے بعد ہی کر سکیں گے۔ مجھے یہاں انقلابِ روس پر رپورٹ پیش کرنے کی دعوت دی گئی اس سے انصاف کرنے کے لئے مجھے اس حقیقت کا ادراک کرنے کی اجازت دیجئے کہ اپنی سیاسی زندگی کے پچھلے 35سالوں میں انقلابِ روس کا سوال ہمیشہ میرا نظریاتی اور سیاسی محور رہا ہے۔ ہمیشہ میرے لیکچر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز سمجھانے میں مدد کی جائے۔ یہاں میرا مقصد انقلاب کے لئے پراپیگنڈہ کرنا نہیں ہے، نہ ہی میں کہوں گا کہ آپ انقلابی بنیں۔ میرا مقصد صرف انقلاب کی وضاحت کرنا ہے۔
تاریخ کا مادی تصور
انسانی معاشرہ سے مراد تاریخی طور پر قائم ایسا تعلق ہے جس میں بقاء کی جدوجہد اور آنے والی نسلوں کی بہترپرورش کی ضمانت ہو۔ معاشرے کے کردار کا تعین اس کی معیشت کے کردار سے ہوتا ہے۔ معیشت کے کردار کا تعلق پیداواری محنت کے ذرائع سے ہوتا ہے۔ پیداواری طاقتوں کے ارتقاء کے ہر دور میں اس کے مطابق سماجی نظام موجودرہا ہے۔ اب تک ہر سماجی دور نے حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ کوئی بھی سماجی دور ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔ یہ تاریخی طور پر ابھرتے ہیں اور پھر مزید ترقی کے لئے پاؤں کی بیڑیاں بن جاتے ہیں۔ ’’جو کچھ بھی ابھرتا ہے اس کو ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔‘‘ لیکن کسی بھی حکمران طبقے نے کبھی بھی رضاکارانہ طور پر یا پر امن طریقے سے اقتدار نہیں چھوڑا۔ زندگی اور موت کے سوال میں منطق کبھی بھی طاقت کی جگہ نہیں لے سکی۔ یہ دردناک تو ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے۔ ہم نے اس دنیا کو نہیں بنایا۔ ہم اس کو ایسا ہی سمجھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
انقلاب کا مطلب
انقلاب کا مطلب سماجی نظام کی تبدیلی ہے۔ یہ ایک ایسے طبقے سے طاقت چھین کر جس کی افادیت ختم ہو چکی ہے اس طبقے کو دے دیتا ہے جو اس کا حقدار ہوتا ہے۔ بغاوت دو طبقوں کے درمیان طاقت کے حصول کی جدوجہد میں سب سے اہم لمحہ ہوتا ہے۔ بغاوت صحیح معنوں میں صرف اس وقت کامیاب انقلاب ثابت ہوتی ہے اور نیا سماجی نظام قائم کر پاتی ہے، جب اس کی قیادت ترقی پسند طبقہ کر رہا ہو اور وہ اسے عوام کی اکثریت تک لے جائے۔ فطرت کے نظام کے بر عکس، انقلاب انسان ہی انسانوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ لیکن انقلاب کے دوران انسان سماجی حالات کے زیرِ اثر کام کرتے ہیں، جن کا انتخاب انہوں نے خود آزادانہ طور پر نہیں کیا ہوتا بلکہ ماضی سے ان تک منتقل ہوتا ہے اور وہ سماجی حالات ہی بتاتے ہیں کہ ان کو کون سا رستہ اختیار کرنا ہو گا۔ اصرف اسی وجہ سے انقلاب کے کچھ قوانین ہیں۔ لیکن انسانی شعور صرف معروضی حالات کا عکس نہیں ہوتا بلکہ یہ ان پر ردِ عمل کا اظہار بھی کرتا ہے۔ بعض اوقات یہ ردِ عمل ایک سنجیدہ اور عوامی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ طاقت اورجبرکی رکاوٹوں کو اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ عوام کی تاریخی واقعات میں عملی مداخلت درحقیقت انقلاب کا لازمی حصہ ہے۔ لیکن پھر بھی تیز ترین عمل بھی، اگر وہ انقلاب کے قد تک نہ پہنچ پائے، صرف مظاہرہ یا بغاوت ہی رہتا ہے۔ عوام کے ابھار کو لازمی طور پر ایک طبقے کی حکومت ختم کر کے دوسرے کا اقتدار قائم کرنا ہوتا ہے۔ صرف اسی وقت یہ انقلاب کے درجے تک پہنچ پاتا ہے۔ عوام کا ابھارکوئی عام چیز نہیں ہے جسے کسی کی بھی خواہش پر کسی بھی وقت پیدا کیا جا سکے۔ یہ ایک معروضی لازمی عمل کے طور پر انقلاب کے ارتقاء کو ظاہر کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے معاشرے کے ارتقاء میں انقلاب معروضی لازمی عمل کے طور پر اپنا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اگر عوامی رد عمل کے ضروری حالات موجود ہوں تو انسان کو منہ کھول کر انتظار نہیں کرنا چاہئے، جیسا کہ شیکسپئیر کہتا ہے:’’انسانوں کے تعلقات میں ایک ایسی لہر ہوتی ہے، جس کو اگر سیلاب کے وقت آن لیا جائے، تو بہت بڑی کامیابی کی طرف لے جا سکتی ہے۔‘‘
پرانے سماجی نظام کو ختم کرنے کے لئے، ترقی پسند طبقے کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے لئے موزوں وقت آگیا ہے اور اب اقتدار پر قبضہ کرلینا چاہئے۔ یہاں سے شعوری انقلابی عمل کا آغاز ہوتا ہے، جہاں دور اندیشی اور اندازے، ہمت اور جرأت کے ساتھ ملتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہاں سے پارٹی کے عملی دور کا آغاز ہوتا ہے۔
انقلابی پارٹی اپنے اندر ترقی پسند طبقے کو جوڑے ہوتی ہے۔ ایک ایسی پارٹی کی عدم موجودگی میں جو اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال سکے، حالات و واقعات کے تال میل کو سمجھ سکے اور عوام کے اعتماد کو بہت پہلے جیت سکے، پرولتاری انقلاب کی فتح ناممکن ہے۔ یہ بغاوت اور انقلاب کے معروضی اور موضوعی عناصر کے مابین دو طرفہ رشتہ ہے۔
اکتوبر کی وجوہات
اکتوبر انقلاب ایک سوچنے والے شخص کے ذہن میں کن سوالات کو جنم دیتا ہے؟
۱۔ انقلاب کب اور کیسے آیا؟ یا پھر پرولتاری انقلاب یورپ کے پسماندہ ترین ملک میں فتح یا ب کیسے ہوا؟
2۔ اکتوبر انقلاب کے کیا نتائج تھے؟
اور آخر میں
3۔ کیا اکتوبر انقلاب امتحان پر پورا اتر؟
پہلا سوال، جو وجوہات کے بارے میں ہے، اس کا جواب اب بڑی وضاحت کے ساتھ دیا جا سکتا ہے۔ میں نے ’’انقلابِ روس کی تاریخ‘‘ میں اس سوال کی تفصیل سے وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں میں صرف اہم ترین نتائج ہی بیان کروں گا۔
غیر ہموار ترقی کا قانون
یہ حقیقت کہ پہلی دفعہ پرولتاریہ زار کے روس جیسے پسماندہ ملک میں کامیا ب ہوئے، صرف پہلی نظر میں ہی عجیب لگتا ہے، درحقیقت یہ تاریخی قوانین کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اس کی پیشین گوئی کی جاسکتی تھی، اور یہ پیشین گوئی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کی پیشین گوئی پر انقلابی مارکسسٹوں نے فیصلہ کن لمحات سے بہت پہلے اپنی حکمت عمل ترتیب دی تھی۔ سب سے پہلی اور عام سی وضاحت یہ ہے کہ روس ایک پسماندہ ملک ہے، لیکن عالمی معیشت کا حصہ اور عالمی سرمایہ داری نظام کا ایک عنصرہے۔ انقلابِ روس کے اس سوال کو لینن نے اپنے فارمولے سے حل کر دیا، ’’زنجیر اپنی کمزور ترین کڑی سے ٹوٹ گئی۔‘‘
ایک بنیادی وضاحت: جنگِ عظیم جو کہ عالمی سامراجیت کے تضادات کا نتیجہ تھی، اس نے بہت سے ممالک کو اپنی طرف کھینچا جو ارتقاء کے مختلف مراحل پر تھے، لیکن تمام شرکاء پر ایک جیسے دعوے کئے۔ یہ بات واضح ہے کہ جنگ کا بوجھ پسماندہ ممالک کے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ روس میدان سے باہر جانے کے لئے سب سے پہلے مجبور ہوا۔ لیکن اپنے آپ کو جنگ سے مکمل طور پر علیحدہ کرنے کے لئے، روسی عوام نے حکمران طبقے کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔ اس طرح جنگ کی زنجیر اپنی کمزور ترین کڑی سے ٹوٹ گئی۔
لیکن جنگ زلزلے کی طرح ایسا حادثہ نہیں جوخارجی طور پر اثر انداز ہو، جیسا کہ کلازویٹز نے کہا کہ یہ دوسرے انداز میں سیاست کا تسلسل ہے۔ پچھلی جنگ میں، ’امن ‘کے دور میں سامراجی نظام کے اہم رحجانات نے صرف اپنے آپ کو زیادہ بھونڈے انداز میں ظاہر کیا۔ پیداوار ی طاقتیں جتنی بلند ہوں گی، عالمی منڈیوں میں مقابلہ جتنا سخت ہو گا، تضادات جتنے زیادہ تیز ہوں گے اور اسلحے کی دوڑ جتنی زیادہ پاگل پن کی حد تک شدید ہو جائے گی، کمزور شرکاء کی مشکلات میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندہ ممالک جلد خاتمے کا شکار ہوگئے۔ اس بات کا احتمال رہتا ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی زنجیر ہمیشہ کمزور ترین کڑی سے ہی ٹوٹیگی۔
اگر ناسازگار حالات کے نتیجے میں، مثال کے طور پر، اگر یہ کہا جائے کہ ایک کامیاب بیرونی مداخلت یا سوویت حکومت کی غلطیوں کے باعث اگر سوویت سر زمین پر سرمایہ دارانہ نظام دوبارہ ابھرتا ہے تو اس کا تاریخی غیر ضروری پن بھی ساتھ ہی ابھر ے گااور یہ سرمایہ دارانہ نظام پھر انہی تضادات کا شکار ہو جائے گاجن کے باعث یہ 1917میں پھٹا تھا۔ کوئی بھی حکمت عملی ا نقلابِ اکتوبر کو دعوت نہیں دے سکتی تھی اگر یہ روس کے اپنے جسم کے اندر سے نہ پھوٹتا۔ آخری تجزیے میں انقلابی پارٹی صرف ایک ایسے ڈاکٹر کا کردار ادا کرسکتی ہے جو زچگی میں درپیش مسائل کو آپریشن کے ذریعے حل کرنے پر مجبور ہے۔
اس کے جواب میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے : تمہاری باتوں سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ پرانے روس کا تختہ کیوں الٹا، کہ وہ ایسا ملک تھا جہاں پسماندہ سرمایہ داری اور مفلوک الحال کسان پر ایک طفیلی اشرافیہ اور ترقی پذیر مطلق العنان بادشاہت قائم تھی۔ لیکن اسی زنجیر اور اس کی کمزور ترین کڑی میں ایک اہم سوال ابھی تک موجود ہے۔ ایک پسماندہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب کیسے کامیاب ہوا۔ تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں جب ملکوں اور تہذیبوں میں بحران آئے، جس میں پرانے طبقوں کا خاتمہ بھی ہوا لیکن وہاں کوئی ترقی پسند وارث نہ مل سکے۔ پرانے روس کے ٹوٹنے سے اس کو ایک سرمایہ دارانہ نو آبادی میں تبدیل ہونا چاہئے تھا نہ کہ ایک سوشلسٹ ریاست میں۔
یہ اعتراض کافی دلچسپ ہے۔ یہ ہمیں براہِ راست مسئلے کی بنیاد تک لے جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں کہوں گا کہ اس اعتراض میں غلطی ہے۔ یہ تاریخی پسماندگی کے عمومی تصور کے باے میں مبالغہ آمیز ی سے پیداہوتا ہے۔
جاندار اشیاء، جن میں انسان بھی شامل ہے، اپنے ارتقاء کے دوران اپنے عہد کے مطابق ایک جیسے مراحل سے گزرتے ہیں۔ پانچ سال کے ایک نارمل بچے میں ہمیں وزن، حجم اور اندرونی اعضاء تناسب میں نظر آتے ہیں۔ انسانی شعور کے ساتھ یہ بالکل مختلف ہے۔ جسمانی ساخت کے بر عکس، اجتماعی اور انفرادی طور پر نفسیات تجذیب اور لچک صلاحیتوں کی بنا پر مختلف انسانوں میں مختلف ہیں۔ اسی وجہ کی بدولت انسان کواپنے قریب ترین جانور یعنی بندرپر برتری حاصل ہے۔ جذب کرنے والی اور لچک دار نفسیات سماجی ’جانورمیں، جو کہ اصل حیاتیاتی جانور سے مختلف ہے، ایک مختلف اندرونی ساخت تشکیل دیتی ہے جو تاریخی ترقی کے لئے لازمی ہے۔ قوموں اور ریاستوں کے ارتقاء میں، خاص طور پر سرمایہ دارانہ ریاستوں کے ارتقا میں، نہ ہی یکسانیت ہے اور نہ ہی تسلسل۔ ایک ہی ملک کی زندگی میں تہذیب کے مختلف مراحل بعض اوقات تو بالکل الٹ، ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔
مشترکہ ترقی کا قانون
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ تاریخی طور پر پسماندگی ایک متناسب تصور ہے۔ ترقی یافتہ اور پسماندہ ملک موجود ہوتے ہیں، دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کا پسماندہ پر دباؤ ہوتا ہے۔ پسماندہ ممالک کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ترقی یافتہ کے ساتھ قدم ملا ئیں، ان سے تکنیک اور سائنس مستعارلیں وغیرہ، وغیرہ۔ اسی طرح مشترکہ ترقی کی قسم ابھرتی ہے۔ آخر میں پسماندگی عالمی تکنیک اور عالمی سوچ کے ساتھ جڑتی ہے۔ آخر کار تاریخی طور پر پسماندہ ممالک اپنی پسماندگی ختم کرنے کے لئے دوسروں سے تیزی سے آگے نکلنے پرمجبور ہوتے ہیں۔
اجتماعی شعور کی لچک مخصوص حالات میں اس بات کو ممکن بناتی ہے کہ سماجی میدان میں وہ نتیجہ حاصل کیا جائے، جسے انفرادی نفسیات ’’کم تر شعور پر قابو پانا‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اکتوبر انقلاب ایک دلیرانہ طریقہ تھا جس میں روس کے عوام نے اپنی معاشی اور ثقافتی کمتری پر قابو پایا۔
لیکن اب ان تاریخی-فلسفیانہ مجرد خیالات سے باہر نکل کر اس سوال کو ٹھوس شکل دیں، یعنی اسے موجود معاشی حقیقتوں کے ساتھ جوڑیں۔ بیسویں صدی کے آغاز پرروس کی پسماندگی واضح طور پر نظر آتی ہے جب ملک میں زراعت کے مقابلے صنعت بہت کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قومی پیداوار انتہائی کم ہے۔ اتنا کہنا کافی ہو گا کہ جنگ کے وقت، جب زار کا روس اپنے عروج پر تھا، قومی آمدنی امریکہ کے مقابلے میں آٹھ سے دس گنا کم تھی۔ یہ اعداد پسماندگی کی انتہا کو ظاہر کرتے ہیں۔
اسی وقت مشترک ترقی کا قانون اپنے آپ کو معاشی میدان کے ہر قدم پر سادے اور کثیر پہلو دونوں انداز میں ظاہر کرتا ہے۔ سڑکوں کی عدم موجودگی میں روس ریلوے لائنیں بنانے پر مجبور تھا۔ یورپ کے ہنر مندی اور مصنوعات کے مراحل سے گزرے بغیر روس میکانکیپیداوار کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ درمیانی مراحل کو پھلانگنا ہی پسماندہ ممالک کا طریقہ کار ہوتا ہے۔
جبکہ زرعی نظام سترہویں صدی میں ہی تھا، روس کی صنعت، اتنے پیمانے پر نہ سہی، لیکن ترقی یافتہ ممالک جیسی تھی اور کئی حوالوں سے تو ان سے بھی آگے تھی۔ بڑی دیو ہیکل کمپنیوں میں، جن میں ہزار سے زیادہ مزدور تھے، امریکہ کے 18فیصد مزدور کام کرتے تھے، جبکہ روس میں یہ تناسب 41فیصد سے زیادہ تھا۔ یہ حقیقت روس کی معاشی پسماندگی کے رسمی تصورکے مقابلے میں کافی تلخ ہے۔ تاہم یہ روس کی پسماندگی کو رد نہیں کرتی بلکہ اس کی جدلیاتی طور پر حمایت کرتی ہے۔ ملک کے طبقاتی نظام کا تضاداتی کردار بھی ایسا ہی ہے۔ یورپ کے سرمائے نے روسی معیشت کو بہت تیزی سے صنعت سازی کی طرف دھکیلا۔ صنعتی بورژوازی نے ایک سرمایہ دارانہ اور غیر مقبول کردار اپنایا۔ سرمایہ دار ملک سے باہر رہتے تھے۔ جبکہ مزدور روسی تھے۔ عددی طور پر کمزور روسی بورژوازی کے مقابلے میں، جس کی کوئی قومی جڑیں نہیں تھیں، ایک نسبتاً مضبوط پرولتاریہ کھڑا تھاجس کی عوام میں جڑیں بہت مضبوط تھیں۔
پرولتاریہ کا انقلابی کردار اس وقت اور زیادہ بڑھ گیا جب روس ایک پسماندہ ملک ہونے کے باعث اور اس مجبوری کے تحت کہ اسے ترقی یافتہ مخالفوں کے ساتھ مل کر چلنا ہے، اپنی سماجی اور سیاسی قدامت پسندی کو دور نہ کر سکا۔ یورپ، بلکہ پوری دنیا کا سب سے زیادہ قدامت پسند ملک، درست طور پر، انگلینڈکو سمجھا جاتا ہے جو کہ سب سے پرانا سرمایہ دار ملک بھی ہے۔ قدامت پسندی سے آزاد یورپی ملک روس کو بنناتھا۔
لیکن روس کا نوجوان اور ترو تازہ پرولتاریہ قوم کا ایک چھوٹا سا اقلیتی حصہ تھا۔ اس کی انقلابی طاقت پرولتاریہ سے باہر، کسانوں میں تھی جو زرعی مزارع کی زندگی گزار رہے تھے اور مظلوم اقوام میں سے تھے۔
زرعی مزارع
انقلاب کا اہم ترین سوال زرعی سوال تھا۔ پرانا مطلق العنانی کا نظام نئے سرمایہ دارانہ استحصال کے باعث دگنا ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا۔ لیکن آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ مزارعوں کی جاگیرداروں کے خلاف جنگ بورژوا انقلاب کا کلاسیکی عنصر ہے، نہ کہ پرولتاریہ انقلاب کا !بالکل صحیح، میرا جواب یہ ہے کہ ماضی میں ایسا ہی تھا۔ لیکن سرمایہ دارانہ معاشرے کی تاریخی طور پر پسماندہ ملک میں بقاء حاص کرنے میں ناکامی اس حقیقت کی بنا پر تھی کہ مزارعوں کی بغاوتوں نے بورژوا طبقات کو آگے کی جانب نہیں بلکہ متضاد طور پر پیچھے کی جانب رجعتی صف میں دھکیلا۔ اگر مزارع مکمل تباہی سے بچنا چاہتے تھے تو ان کے لئے ایک ہی رستہ تھا کہ وہ صنعتی پرولتاریہ کا ساتھ دیں۔ دونوں مظلوم طبقات کے اتحاد کو لینن جیسے نابغہ نے وقت سے بہت پہلے ہی دیکھ لیا تھا اور اس وقت کی تیاری کر لی تھی۔
اگر زرعی سوال کو بورژوازی جرأت کے ساتھ حل کرتی تو روس کا پرولتاریہ 1917میں اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہ ہوتا۔ لیکن روسی بورژوازی جو منظر پر بہت دیر سے ابھری تھی، بزدل اور کمزور تھی، اس لئے زرعی جائداد کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھا سکی۔ اس لئے اسے اقتدار پرولتاریہ کے حوالے کرنا پڑا اور اسی کے ساتھ ہی بورژوا معاشرے کا مقدر بھی۔ سوویت ریاست کے وجود میں آنے کے لئے، تاریخی اعتبار سے دو مختلف چیزوں کا آپس میں تعلق لازمی تھا: کسانوں کی جنگ جو کہ بورژواترقی کی صبح کی علامت ہے اور پرولتاریہ کی بغاوت یا ابھار جو کہ بورژوا تحریک کے زوال کا اعلان کرتی ہے۔ یہاں ہمیں روس کی تحریک کا مشترکہ کردار نظر آتا ہے۔
قومی سوال
پرولتاریہ کا دوسرا انقلابی دستہ مظلوم قومیتوں پر مبنی تھا، جو کہ زیادہ تر مزارع تھے۔ ملک کی تاریخی پسماندگی کے ساتھ ریاست کے ارتقاء کا کردار بھی جڑا ہوا ہے، جو ماسکو سے لے کر ملک کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا۔ مشرق میں زیادہ پسماندہ لوگ اس کے غلام تھے اور یہ ان پر منحصر تھا کہ وہ مغرب میں ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ کیا تعلق اپناتے ہیں۔ سات کروڑ عظیم روسیوں کے ساتھ 9کروڑ لوگ دوسری اقوام کے بھی شامل تھے۔ اس طرح وہ سلطنت قائم ہوئی تھی جس میں حکمران قومیت آبادی کا 43فیصد تھی جبکہ باقی 57فیصد آبادی ان قومیتوں پر مشتمل تھی جو تہذیب اور قانونی حقوق کے اعتبار سے مختلف تھیں۔ قومی سوال ہمسایہ ریاستوں، نہ صرف مغرب بلکہ مشرق، کی نسبت زیادہ مشکل تھا۔ اس طرح قومی مسئلہ ایک دھماکہ خیز طاقت کا حامل تھا۔
قومی تحریکوں کاپیدا ہونالازمی تھا اور اس بات کو لینن وقت سے پہلے بھانپ گیا تھا۔ بالشویک پارٹی کئی سال تک قوموں کے حقِ خود ارادیت کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتی رہی، یعنی مکمل خود اختیاری۔ قومی سوال پرصرف اسی جرأت مندانہ مؤقف سے ہی روسی پرولتاریہ آہستہ آہستہ مظلوم عوام کا اعتماد حاصل کر سکتا تھا۔ قومی آزادی کی تحریک اور زرعی تحریک، لازمی طور پر سرکاری جمہوریت کے خلاف ہو گئے، پرولتاریہ کو مضبوط کیا اور اکتوبر کی تبدیلی کا آغاز کیا۔
مسلسل انقلاب
اس طرح ایک تاریخی طور پر پسماندہ ملک میں پرولتاریہ کے انقلاب کی پہیلی حل ہوتی ہے۔ مارکسسٹ انقلابیوں نے وقت سے بہت پہلے انقلاب کی پیشین گوئی کر دی تھی اور ساتھ ہی نوجوان روسی پرولتاریہ کے تاریخی کردار کی وضاحت کر دی تھی۔
انقلاب کے فوری بعد کے عمل کے مطابق روس کا انقلاب بورژوا انقلاب ہے۔ لیکن روسی بورژوازی ردِ انقلابی ہے۔ انقلاب کی فتح صرف پرولتاریہ کی فتح کے ساتھ ممکن ہے۔ لیکن فتح مند پرولتاریہ بورژوا جمہوریت کے پروگرام پر بس نہیں کرے گی؛ یہ سوشلزم کے پروگرام پر عملدرآمد کرے گی۔ انقلابِ روس عالمی سوشلسٹ انقلاب کاپہلا مرحلہ ثابت ہو گا۔
یہی مسلسل انقلاب کا نظریہ ہے جو میں نے 1905میں پیش کیا تھا اور اس وقت سے ہی اس کو ’’ٹراٹسکی ازم‘‘ کے نام سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اگرصحیح بات کی جائے تو یہ اس نظرئے کا ایک حصہ ہے۔ دوسرا حصہ جو اب زیادہ مناسب ہے، کہتا ہے:موجودہ پیداواری طاقتیں اپنی قومی حدود سے باہر نکل چکی ہیں۔ قومی حدود کے اندر ایک سوشلسٹ سماج ممکن نہیں ہے۔
ایک تنہا مزدور ریاست کی معاشی کامیابی خواہ کتنی زیادہ ہو، ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کا پروگرام پیٹی بورژوا یٹوپیا ہے۔ صرف یورپ اور پھر پوری دنیا کی سوشلسٹ ری پبلکزکی فیڈریشن ہی ایک پُر امن سوشلسٹ سماج کو ممکن بنا سکتی ہے۔ آج وقت کے امتحانوں کے بعد، میں پہلے سے زیادہ اس نظریے پر قائم ہوں۔
اکتوبر کے لوازمات
7نومبر1917ء کی مسلح بغاوت کے بغیرسوویت ریاست وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن یہ بغاوت آسمان سے نہیں اتری تھی۔ تاریخی لوازمات کا ایک طویل سلسلہ اکتوبر انقلاب کے لئے ضروری تھا۔
1۔ پرانے حکمران طبقے کی بوسیدگی جس میں اشرافیہ، بادشاہ اور بیوروکریسی شامل ہے۔
2۔ بورژوازی کی سیاسی کمزوری، جس کی عوام میں کوئی جڑیں نہیں تھیں۔
3۔ زرعی سوال کا انقلابی کردار
4۔ مظلوم قومیتوں کے مسئلے کا انقلابی کردار
5۔ پرولتاریہ کے کندھوں پر موجود اہم سماجی ذمہ داری
ان نامیاتی پیشگی ضرورتوں کے ساتھ ایک اور اہم پیشگی ضرورت بھی جڑی ہوئی تھی۔
6۔ 1905کا انقلاب اہم درسگاہ تھی یا لینن کے الفاظ میں1917ء کے انقلاب کی ’’ڈریس ریہرسل‘‘۔ انقلاب میں پرولتاریہ کے متحدہ محاذ کی تنظیمی حیثیت سے سوویتوں کا قیام پہلی دفعہ 1905 میں ہوا تھا۔
7۔ سامراجی جنگ نے تمام تضادات کو مزید تند کر دیا، پسماندہ عوام کا سقوط توڑ دیا اور اس طرح ایک بہت بڑی تبدیلی کے لئے سطح کو ہموار کیا۔
بالشویک پارٹی
لیکن یہ تمام پیشگی ضروریات، جو انقلاب کے پھوٹنے کے لئے ضروری تھیں، انقلاب میں پرولتاریہ کی کامیابی کے لئے ناکافی تھیں۔ اس فتح کے لئے ایک اور چیز سب سے زیادہ اہم تھی۔
8۔ بالشویک پارٹی
جب میں اس ضرورت کو سب سے آخر میں رکھتا ہوں، وہ اس لئے نہیں کہ میں اس کو اہمیت کے لحاظ سے اس نمبر پر سمجھتا ہوں بلکہ یہ منطقی سلسلہ میں اسی نمبر پر آتی ہے۔
آزاد خیال بورژوازی، اس جدو جہد کے نتیجے میں جس میں اس نے کوئی حصہ نہیں لیا تھا، اقتدار پر قبضہ کر سکتی تھی اور ایک سے زیادہ دفعہ کر سکتی تھی، اس کے پاس ایسے ہتھیار تھے جن کو اس مقصدکے لئے بڑے شوق سے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن محنت کش طبقہ ایک مختلف کیفیت میں ہے، وہ بہت عرصے سے ’دے‘ رہا ہے’ لے ‘کچھ نہیں رہا۔ وہ محنت کرتے ہیں، صبر کرتے ہیں جب تک وہ کر سکتے ہیں، امیدیں لگاتے ہیں، ان کا صبر ٹوٹتا ہے، اٹھتے ہیں اور جدوجہد کرتے ہیں، جان دیتے ہیں، دوسروں کے لئے فتح لاتے ہیں، دھوکہ کھاتے ہیں، ذلت میں گرتے ہیں، اپنی گردنیں جھکاتے ہیں اوردوبارہ محنت کرنے لگتے ہیں۔
تمام حکومتوں میں عوام کی یہی تاریخ ہے۔ اقتدار پر مضبوطی سے قبضہ کرنے کے لئے ایک پارٹی کی ضرورت ہے، جو اپنے نظریات کے شفاف ہونے اور انقلابی اعتماد میں باقی تمام پارٹیوں سے کئی گنا بہتر ہو۔
بالشویک پارٹی، جسے کئی دفعہ، پورے انصاف کے ساتھ، انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ انقلابی پارٹی کہا جاتا ہے روس کی جدید تاریخ میں جو کچھ متحرک تھااسی پارٹی میں تھا۔ زارازم کے خاتمے کوبہت پہلے ہی معیشت اور ثقافت کی ترقی کے لئے لازمی قرار دے دیا گیاتھا۔ لیکن اس حل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے طاقتیں ناکافی تھیں۔ بورژوازی انقلاب سے خائف تھی۔ دانشوروں نے مزارع کو اپنے قدموں میں لانے کی کوشش کی۔ روسی مزارع اپنی تکلیفوں اور خواہشات کو صحیح طور نہیں سمجھتا تھا اس لئے اس درخواست کو کوئی جواب نہ ملا۔ دانشوروں نے اپنے آپ کو بموں سے مسلح کر لیا۔ اس جدوجہد میں ایک پوری نسل ضائع ہو گئی۔
یکم مارچ 1887ء کو الیگزنڈر الیانوف نے آخری دہشت گردانہ منصوبے پر عمل کیا۔ الیگزنڈر سوم کے قتل کی کوشش ناکام ہوگئی۔ الیانوف اور تمام شرکاء کو قتل کر دیا گیا۔ انقلابی طبقے کو کیمیائی انداز میں بنانے کی کوشش کو صدمہ پہنچا۔ انتہائی دلیر دانشور بھی عوام کے بغیر کچھ نہیں۔ الیانوف کا چھوٹا بھائی، ولادیمیر، مستقبل کا لینن، روس کی تاریخ کی عظیم ترین شخصیت، ان حقائق اور نتائج کے زیرِ سایہ پروان چڑھا۔ اپنی نوجوانی میں ہی اس نے اپنے آپ کو مارکسزم کی بنیادوں پر ڈھالنا شروع کر دیا اور اپنا رخ پرولتاریہ کی طرف کر لیا۔
دیہات کو نظر انداز کئے بغیر اس نے مزارعوں کے مسائل کا حل محنت کشوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے انقلابی پیش رووں سے قربانی کا جذبہ، اور آخری حد تک جانے کی خواہش پانے کے بعد لینن کم عمری میں ہی دانشوروں کی نئی نسل اور ترقی یافتہ محنت کشوں کا استاد بن گیا۔ ہڑتال ہو یا گلیوں میں لڑائی، جیل ہو یا جلا وطنی محنت کشوں کو ضروری نصیحتیں ملتی رہیں۔ ان کو مطلق العنانیت کے اندھیرے سے باہر تاریخی رستے پر نکلنے کیلئے مارکسزم کی مشعل کی ضرورت تھی۔
جلاوطنوں میں پہلا مارکسسٹ گروپ 1883ء میں ابھرا۔ 1889ء کی ایک میٹنگ میں روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا(ان دنوں ہم اپنے آپ کو سوشل ڈیموکریٹ کہتے تھے)۔ 1903ء میں بالشویکوں اور منشویکوں میں علیحدگی ہوئی، اور آخر کار 1912ء میں بالشویک دھڑا ایک آزاد پارٹی بن گیا۔
اپنے بارہ سال کے عرصے (1905-1917)کی جدوجہد کے دوران یہ سماج میں طبقوں کی میکانیت کو سمجھ گیا۔ اس نے ایسے گروہوں کی تربیت کی جو پہل کرنے اور حکم ماننے، دونوں کی اہلیت رکھتے تھے۔ انقلابی عمل کی تنظیم اس کے نظریے کے اتحاد، مشترکہ جدوجہد کی روایت اور امتحانوں میں کامیاب قیادت پر اعتماد پر مبنی تھی۔ 1917ء میں یہ وہی پارٹی تھی۔ سرکاری ’’عوامی رائے‘‘ میں قابلِ نفرت اور دانشور پریس کے پرچوں کے طوفانوں میں اس نے آپ کو عوام کی تحریک کے مطابق ڈھالا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں کارخانوں اور رجمنٹوں کا کنٹرول مظبوطی سے تھامے رکھا۔ جیسے جیسے مزارعوں کا رحجان اس کی طرف بڑھتا گیا، اگر ہم’ قوم ‘سے مراد امراء کے بجائے عوام کو لیں، یعنی محنت کش اور مزارع، تو 1917ء کے دوران بالشویک صحیح معنوں میں روس کی قومی پارٹی تھی۔
ستمبر1917ء میں لینن، جو پوشیدہ رہنے پر مجبور تھا، نے اشارہ کر دیا۔ ’’بحران پک چکا ہے، بغاوت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔‘‘حکمران طبقوں کو جنگ، زمین اور آزادی کے مسائل درپیش تھے اور یہ بہت پیچیدہ ہوتے جا رہے تھے۔ بورژوازی کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔ جمہوری پارٹیاں، جن میں منشویک اور سوشل انقلابی شامل تھے، سامراجی جنگ کی حمایت، مصالحانہ پالیسیوں، اور بورژوا اور جاگیرداروں کی ملکیتوں میں رعایت دینے کے باعث عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔ باشعور فوج اب سامراجی عزائم کے لئے لڑنے کے لئے تیار نہ تھی۔ جمہوری مشوروں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مزارعوں نے جاگیرداروں کو ان کی جاگیروں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ دور دراز سرحدوں کی مظلوم قومیتیں پیٹروگراڈ کی بیوروکریسی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ محنت کشوں اور فوجیوں کی اہم ترین سوویتوں میں بالشویک اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ السر پک چکا تھا۔ اسے اب جراح کی ضرورت تھی۔
صرف انہی سماجی اور سیاسی حالات میں بغاوت ممکن تھی۔ اور اسی لئے یہ ناگزیر ہو گئی تھی۔ لیکن بغاوت سے کھلواڑ نہیں کیا جا سکتا۔ جو جراح اپنی چھری صحیح طور پر استعمال نہیں کر سکتا نقصان اٹھاتا ہے۔ بغاوت ایک فن ہے۔ اس کے اپنے قاعدے اور قوانین ہیں۔ پارٹی نے اکتوبر کی بغاوت کا حساب انتہائی سرد مہر اور پر اعتماد انداز میں لگایا۔ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اس میں فتح حاصل کی۔ فتح مند سوویتوں کے ذریعے بالشویکوں نے اپنے آپ کواس ملک کا سربراہ بنایاجو اس کرۂ ارض کا چھٹا حصہ ہے۔
کیا اکتوبر کی وضاحت پیش کی جا سکتی ہے؟
’’ہاں‘‘، کچھ مخالفین کہیں گے کہ ’’اکتوبر کی مہم جوئی نے اپنے آپ کو اس سے کہیں زیادہ ثابت کیا ہے جتنا ہم لوگ سوچ سکتے تھے۔ شاید یہ ’مہم جوئی‘ نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی یہ سوال کہ اتنی بڑی قیمت دے کر کیا حاصل کیا گیا؟ اپنی جگہ موجود ہے۔ کیا وہ وعدے جو بالشویکوں نے انقلاب کے وقت کئے تھے پورے ہوئے ہیں؟‘‘
اس سے پہلے کہ ہم اپنے مخالف کو جواب دیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سوال بالذات نیا نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بر عکس یہ اکتوبر انقلاب کے ساتھ اس کی پیدائش کے وقت سے ساتھ جڑا ہے۔
فرانسیسی صحافی، کلاڈے آنیٹ، جو انقلاب کے وقت پیٹرو گراڈ میں تھا27اکتوبر1917ء کو لکھتا ہے: ’’اکثریت والوں (maximalists) نے ( فرانسیسی میں اس وقت بالشویکوں کو یہی کہتے تھے)اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ عظیم دن آگیا ہے۔ آخر کار میں اپنے آپ سے کہتا ہوں، میں سوشلسٹوں کی جنت کو دیکھوں گا جس کا اتنے سالوں سے وعدہ کیا جا رہا تھا…. قابلِ داد مہم جوئی!خاص پوزیشن!‘‘ اسی طرح کی دوسری باتیں۔ اس طنز آمیز داد کے پیچھے کتنی سنجیدہ نفرت ہے۔
ونٹر پیلس کے قبضے والی صبح، رجعتی صحافی جلدی سے جنت کی ٹکٹ لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ انقلاب کو پندرہ سال گزر چکے ہیں۔ ہمارے دشمن آج بھی بنا کسی لگی لپٹی اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں سوویتوں کی سرزمین آج بھی فلاح و بہبود کے نظرئے سے تھوڑی سی بھی مشابہت تک نہیں رکھتی۔ تو پھر انقلاب کیوں اور قربانی کس لئے؟
مجھے اجازت دیجئے کہ میں یہاں سوویت حکومت کے تضادات، مشکلات اور غلطیاں بیان کر سکوں جو میرے سمیت ہر کوئی جانتا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر کبھی بھی انہیں چھپانے کی کوشش نہیں کی خواہ وہ تحریر ہو یا تقریر۔ میرا ہمیشہ سے یقین رہا ہے اور اب بھی ہے کہ انقلابی سیاست قدامت پسند سیاست سے مختلف ہے اور یہ غلط بیانی پر کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ ’’جو کچھ ہے اسی طرح بیان کرو‘‘ہی ہمیشہ مزدور ریاست کا اہم ترین اصول ہونا چاہئے۔
لیکن تنقید اور تخلیقی عمل میں تناظر ضروری ہے۔ موضوعیت پسندی اک برا مشیر ہے، خاص طور پر بڑے سوالوں میں۔ زمانے کے مختلف ادوار کو کاموں کے حوالے سے جاننا چاہئے، نہ کہ ان اچانک تبدیل ہونے والی پالیسیوں سے۔ پندرہ سال! ایک شخص کی زندگی میں یہ کتنا لمبا عرصہ ہے!اتنے عرصے میں ہماری نسل کے کچھ ہی لوگ اپنی قبر میں پہنچے ہوں گے اور جو رہ گئے ہیں ان کے بہت سے بال سفید ہو گئے ہیں۔ لیکن یہی پندرہ سال جو لوگوں کی زندگی میں ایک معمولی سا عرصہ ہے! تاریخ کی گھڑی پر ایک منٹ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے آپ کو قائم کرنے کے لئے عہدِ وسطیٰ کے خلاف صدیوں کی جدوجہد درکار تھی، تا کہ وہ سائینس اور تکنیک کے معیار تک پہنچ سکتا، ریلوے لائنیں بنا سکتا، بجلی کا استعمال کر سکتا۔ اور پھر؟سرمایہ داری نظام نے انسانیت پر جنگیں اور بحران ٹھونس دئیے۔
لیکن سوشلزم کو اس کے دشمن، یعنی سرمایہ داری کے حامی، صرف ڈیڑھ دہائی دیتے ہیں کہ وہ زمین پر تمام جدید آسائشوں سے لیس جنت قائم کریں۔ ایسے فرائض کی ہم نے کبھی پرواہ نہیں کی۔ بڑی تبدیلیوں کے عمل کو اس پیمانے سے ماپنا چاہئے جو اس کے موافق ہو۔ میں نہیں جانتا کہ آیا سوشلسٹ سماج انجیل میں بتائی گئی جنت جیسا ہو گا یا نہیں۔ مجھے اس پہ شک ہے۔ لیکن سوویت یونین میں ابھی تک کوئی سوشلزم نہیں ہے۔ جو حالات یہاں ہیں وہ تغیر کے ہیں، تضادات سے بھرپور، ماضی کی وراثت کے بوجھ تلے دبے ہوئے اور سب سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ ممالک کی مخالفت کے دباؤ میں ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے نئے سماج کے اصولوں کا اعلان کر دیا ہے۔ سوویت ریپبلک اس تعبیر کے پہلے مرحلے پر ہے۔ ایڈیسن کا پہلا بلب بہت خراب تھا۔ ہمیں مستقبل کو علیحدہ کرنا سیکھنا ہو گا۔
لیکن وہ اداسی جو زندہ انسانوں میں ہے! کیا انقلاب کے نتائج اس قربانی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں جو اس کے لئے دی گئی؟ایک بیکار سوال جس کا کوئی جواب نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ تاریخ کا عمل گویا کہ اکاؤنٹ کا کوئی کھاتہ ہے جس میں حساب کتاب ہو رہا ہے!پھر توہم انسان کی تکلیفوں اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں ’’کیا پیدا ہونے کا بھی کوئی فائدہ ہے؟‘‘جس کے جواب میں ہائن نے لکھا تھا: ’’اور بے وقوف ایک جواب کی توقع کرتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے جذباتی احساسات انسانیت کو پیدا ہونے اور پیدا کرنے سے نہیں روک سکے۔ آج کے اس بے مثال بحران میں بھی خود کشیاں غیر اہم تناسب رکھتی ہیں۔ اور لوگ کبھی بھی خود کشی کی طرف نہیں جاتے۔ جب ان کے بوجھ ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں تو وہ ایک انقلاب کے ذریعے نجات دیکھتے ہیں۔
وہ کون لوگ ہیں جو اس سماجی تبدیلی کے شکار لوگوں کے شکر گزار نہیں ہیں؟ اکثر اوقات یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے ان لوگوں کے لئے سامراجی جنگ کا رستہ ہموار کیا اور اپنے آپ کو عظیم بنایا یا کم از کم اس کے ساتھ آسانی سے سمجھوتہ کر لیا۔ اب ہماری باری ہے پوچھنے کی، ’’کیا جنگ کی وضاحت دی جا سکتی ہے؟ اس نے ہمیں کیا دیا ہے؟ اس نے کیا سکھایا ہے؟‘‘
انسانی ترقی کے حوالے سے نئی حکومت کا مواخذہ کرنے کے لئے پہلے اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے، ’’سماجی ترقی اپنا اظہار کیسے کرتی ہے اور اسے کیسے ماپا جاتا ہے؟‘‘
اکتوبر کا میزان
گہرے ترین، معروضی اور غیر جانبدارانہ طریقے کے مطابق ترقی کومعاشرے کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے حوالے سے ماپا جا سکتا ہے۔ اس انداز سے اکتوبر انقلاب کا مواخذہ تجربے کی بنیاد پر کیا جا چکا ہے۔ سوشلسٹ سماج کے اصولوں پر تاریخ میں پہلی دفعہ پیداوار میں ایسے نتائج دیکھنے میں آئے ہیں جو اتنے کم وقت میں پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ روس کی صنعتی ترقی کا گراف اعداد و شمار میں درج ذیل ہے، 1913ء یعنی جنگ سے پہلے کے آخری سال میں 100۔ 1920ء میں، جب خانہ جنگی عروج پر تھی یہ صنعت کا نچلا ترین مقام تھا یعنی صرف25۔ یعنی پچھلی پیداوار کا ایک چوتھائی۔ 1925ء میں یہ 75 تک پہنچ گیا، یعنی جنگ سے پہلے والی کا تین چوتھائی۔ 1929ء میں 200اور 1932ء میں 300یعنی جنگ سے پہلے والی صنعت کا تین گنا۔
اگر اس کو عالمی اعداد و شمار کے مقابلے میں دیکھیں تو تصویر اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے۔ 1925ء سے لے کر 1932ء تک جرمنی کی صنعتی پیداوار ڈیڑھ گنا کم ہو گئی ہے، امریکہ کی دو گناجبکہ سوویت یونین میں یہ چار گنا بڑھی ہے۔ یہ اعداد وشمار خود اپنی وضاحت کرتے ہیں۔
میرا کوئی ارادہ نہیں کہ میں سوویت معیشت کے خراب رخ پر پرداہ ڈالوں۔ صنعتی اعشاریہ کے غیر معمولی نتائج میں زراعت میں خاطر خواہ ترقی دیکھنے میں نہیں آئی کیونکہ اس میدان میں ابھی سوشلسٹ طریقہ کار نہیں اپنایا گیالیکن ساتھ ہی تیاری کے بغیر بیوروکریٹک انداز میں نہ کہ تکنیکی اور معاشی انداز میں، اسے اجتماعیت کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے، جو اس مضمون کی حدود سے باہر ہے۔
جو اعشارئے بیان کئے گئے ان میں ایک اہم کمی ہے۔ سوویت انڈسٹریلائزیشن کے شاندار نتائج کو مزید ایک دفعہ دیکھنے کی ضرورت ہے وہ بھی اس انداز میں کہ معیشت کے مختلف حصوں، ان کے متحرک توازن اور پھر ان کی پیداواری صلاحیت کو یہ کیسے اپناتی ہے۔ یہاں بہت سی مشکلات اور مایوسیاں ناگزیر ہیں۔ سوشلزم پانچ سالہ منصوبے کے ذریعے اپنی بہترین شکل تک نہیں آپہنچا تھا جس طرح یونانی دیو مالا میں عقل، تکنیکی صلاحیت اور ایجادات کی دیوی منروا، سب سے بڑے خدا جیوپیٹر کے سر میں سے نکل آئی تھی۔ یا پھر جیسے خوبصورتی اور محبت کی دیوی وینس سمندری جھاگ میں سے نکل آئی تھی۔ اس سے پہلے انتھک محنت، غلطیوں، اصلاحات اور تنظیمِ نو کے کئی سال ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ سوشلسٹ تعمیر اپنی فطرت کے اعتبار سے بہترین شکل صرف اسی وقت پا سکتی ہے جب وہ عالمی میدان میں پہنچے۔ لیکن انتہائی شاندار معاشی میزان جو ابھی تک حاصل ہوا ہے وہ ابتدائی حساب و کتاب، منصوبہ بندی اور سمت کے تعیین کی غلطیوں کو ظاہرکرتا ہے۔ لیکن یہ اس حقیقت کو غلط قرارنہیں دے سکتا کہ سوشلسٹ طریقہ کار سے اجتماعی پیداوار کو اتنی زیادہ بلندی تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اس فتح کو، جو عالمی تاریخ میں بہت اہمیت کی حامل ہے، ہم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔
اکتوبر انقلاب نے اس نئی تہذیب کی بنیاد رکھ دی ہے جو چند لوگوں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔ اس بات کو ساری دنیا کے عوام محسوس کر رہے ہیں۔ اسی لئے ان کی سوویت یونین سے ہمدردی اتنی ہی شدید ہے جتنی زار کے روس سے نفرت تھی۔
حکمرانوں کے خلاف فروری کی بغاوت، اشرافیہ اور سامراجی جنگ کے خلاف، امن اور قومی توازن کے لئے جدوجہد، اکتوبر کی بغاوت، بورژوازی اور ان جماعتوں کو جو اس کی حمایت کرتی تھیں یا ان سے معاہدے کرتی تھیں کو اکھاڑ پھینکنا، خانہ جنگی کے سال اور اس میں 5000میل تک پھیلا ہوا محاذ، پابندیوں اور اس کے بعد بھوک، تکلیف اور وباؤں کے سال، تیز ترین معاشی تعمیر نو کے سال جو نئی مشکلات سے بھرپور تھے۔ یہ سب کافی سخت لیکن اچھی درسگاہ ہے۔ ایک بھاری ہتھوڑا شیشے کو چکنا چور کر دیتا ہے لیکن لوہے کو بنا تا ہے۔ انقلاب کا ہتھوڑا عوام کے کردار کے لوہے کو بنا رہا ہے۔
زار کے ایک جنرل نے تبدیلی کے کچھ دیر بعد انتہائی نفرت سے لکھا، ’’کون یقین کرے گاکہ ایک قلی یا ایک چوکیدار اچانک چیف جسٹس بن گئے، ہسپتال کا معمولی ملازم وہاں کا ڈائریکٹر بن گیا، ایک نائی دفتر میں پہنچ گیا، ایک سپاہی کمانڈر انچیف بن گیا، ایک مزدور مئیر بن گیا، ایک تالے بنانے والا کارخانے کا ڈائریکٹر بن گیا؟‘‘
’’کون یقین کرے گا؟‘‘ لیکن یہ یقین کرنا پڑا۔ وہ سوائے یقین کرنے کے کچھ نہیں کر سکتے تھے جب سپاہیوں نے جرنیلوں کو شکست دی، جب ایک مئیر، جو پہلے ایک دیہاڑی دار مزدور تھا، نے پرانی افسر شاہی کا رستہ روکا، ویگنوں کی صفائی کرنے والے نے ذرائع آمدو رفت کا نظام درست کر دیا۔ ’’کون یقین کرے گا؟‘‘کوئی بھی کوشش کر لے اس پر نہ یقین کرنے کی۔
اس غیر معمولی استقامت کی وضاحت بیان کرنے کے لئے، جو روس کے عوام انقلاب کے اتنے سالوں سے دکھا رہے ہیں، بہت سے غیر ملکی مبصر روسی عوام کے اس کردار کو ’خاموشی‘کہتے ہیں۔ انقلابی عوام مصیبتوں کو خاموشی کے ساتھ نہیں بلکہ صبر کے ساتھ جھیلتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں سے ایک بہتر مستقبل کو تعمیر کر رہے ہیں اور وہ اس کو تعمیر کرنے کے لئے پُر اعتماد ہیں۔ دشمن طبقہ اپنی خواہشوں کو باہر سے ان صابر عوام پر لاگو کرنے کی کوشش کرے گا! بہتر ہے کہ وہ ایسی کوشش نہ ہی کرے!
انقلاب اور اس کاتاریخ میں مقام
آخر میں میں اکتوبر انقلاب کا نہ صرف روس کی تاریخ بلکہ عالمی تاریخ میں مقام متعین کرنے کی کوشش کروں گا۔ 1917ء میں آٹھ ما ہ کے عرصے میں دو تاریخی تبدیلیوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوا۔ فروری کی تبدیلی جو ماضی کی جدوجہد کی گونج تھی جو گزشتہ صدیوں میں ہالینڈ، انگلینڈ، فرانس اور تقریباً تمام یورپ میں بورژوا انقلاب کے دوران سلسلہ وار ہو چکی تھیں۔ اکتوبر انقلاب نے پرولتاریہ کی فتح کا اعلان کیا۔ عالمی سرمایہ داری کو پہلی عظیم شکست روس کی سرزمین پر ہوئی۔ زنجیر اپنی کمزور ترین کڑی سے ٹوٹ گئی۔ لیکن یہاں صرف کڑی نہیں ٹوٹی تھی بلکہ زنجیر ٹوٹی تھی۔
سرمایہ دارنہ نظام ایک عالمی نظام کی حیثیت سے اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ یہ اپنا ضروری کام جو کہ انسانی طاقت اور انسانی دولت میں اضافے کا ہے، کرنا ختم کر چکا ہے۔ انسانیت اس مرحلے پر ساکت نہیں رہ سکتی جہاں وہ پہنچ چکی ہے۔ صرف پیداواری طاقت میں ایک بہت بڑا اضافہ جو کہ منصوبہ بندی کے ذریعے ہو یعنی پیداوار اور تقسیم کی سماجی تنظیم ہی انسانیت __تمام انسانیت__کو ایک معقول معیارِ زندگی اور ساتھ ہی اپنے معاش کے حوالے سے آزادی دے سکتی ہے۔ آزادی دو طرح سے، پہلا یہ کہ انسان اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جسمانی مشقت میں صرف نہیں کرے گا۔ دوسرا وہ منڈی کے قوانین کا مرہونِ منت نہیں ہو گا یعنی ان اندھی طاقتوں کا جو اس کی پیٹھ پیچھے کام کرتی ہیں۔ وہ اپنی معیشت کو آزادانہ طریقے سے، ایک منصوبے کے تحت اپنے ہاتھ سے تعمیر کرے گا۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ معاشرے کے ڈھانچے کو ایکس رے مشین پر رکھا جائے۔ اس کے تمام اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی جائے اور اس کے تمام عوامل کو منطق اور انسان کی اجتماعی خواہشات کے حوالے سے پرکھا جائے۔ اس طرح سوشلزم انسانیت کی تاریخی ترقی میں ایک نیا قدم ہو گا۔ ہمارے قدیم آباء کے سامنے، جنہوں نے اپنے آپ کو پتھر اور کلہاڑے کے ساتھ مسلح کیا تھا، فطرت مخالف قوتوں اور اسرار و رموز سے بھری ہوئی تھی۔ اس وقت سے سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہاتھوں میں ہاتھ لئے فطرت کے اندھیروں میں روشنی کی ہے۔
بجلی کی قوت سے ماہر طبعیات ایٹم پر تحقیق کرسکتے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ہم عہدِ وسطیٰ کے کیمیا دانوں کا کام کریں گے اور مٹی کو سونا اور سونے کو مٹی بنا سکیں گے۔
جہاں وہم اور وسوسے راج کرتے تھے آج وہاں انسان کی تخلیقی قوت کی حکمرانی ہے۔
لیکن جہاں وہ فطرت کے ساتھ لڑتا رہا، انسان دوسرے انسانوں پر حکم صادر کرنے کا رشتہ بناتا گیابالکل ایک شہد کی مکھی یا کیڑی کی طرح۔ آہستہ آہستہ وہ انسانی معاشرے کی مشکلات تک پہنچ گیا۔
ریفارمیشن بورژوا انفرادیت کی پہلی فتح کو ظاہر کرتی ہے جب انسان مردہ روایات کے زیرِ اثر تھا۔
تنقیدی سوچ چرچ سے ریاست کو منتقل ہو گئی۔ مطلق العنانیت اور جاگیروں کے خلاف جدوجہد میں عوام کی حکومت اور حقوق کا نظریہ پروان چڑھتا گیا۔ اس طرح پارلیمانی نظام ابھرا۔
تنقیدی سوچ سرکاری مشینری میں منتقل ہو گئی۔ جمہوریت کی منطقی سیات انقلابی بورژوازی کی سب سے اہم کامیابی تھی۔ لیکن فطرت اور ریاست کے درمیان معاشی زندگی موجود ہے۔ تکنیکی سائنس نے انسان کو مٹی، پانی اور ہوا کے ظلم سے آزاد کیا اور وہ اپنے ہی ظلم کا شکار ہو گیا۔ انسان فطرت کا غلام تو نہ رہا لیکن مشین کا غلام بن گیا بلکہ اس سے بھی بد تر مانگ اور رسد کا غلام۔ موجودہ عالمی بحران اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ انسان جو سمندروں کی تہہ میں جاتا ہے، پہاڑوں پر چڑھتا ہے، نہ نظر آنے والی لہروں سے باتیں کرتا ہے، یہ فطرت کا متکبر حکمران اپنی معیشت کے قوانین کا غلام ہے۔ ہمارے عہد کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ منڈی کے قانون کو منصوبہ بندی سے بدل دیا جائے، پیداواری قوتوں کو منظم کیا جائے، ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ ہم آہنگ ہو کر کام کریں اور انسانیت کی غلامی کریں۔ صرف انہی نئی سماجی بنیادو ں پر انسان سکون حاصل کر سکتا ہے جب کچھ مخصوص لوگ نہیں بلکہ ہر مرد اور عورت ایک ایسے شہری ہوں گے جس کے پاس مکمل اختیار ہو۔
انسان کا مستقبل
لیکن یہ منزل نہیں، یہ تو صرف آغاز ہے۔ انسان اپنے آپ کو اشر ف المخلوقات کہتا ہے۔ اس کو یہ کہنے کا حق ہے۔ لیکن کون کہتا ہے کہ آج کا انسان اپنی نوع میں بہترین اور اعلیٰ ترین مقام پر ہے؟ نہیں، جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے وہ بہترین سے ابھی بہت دور ہے، حیاتیاتی اعتبارسے وقت سے پہلے پیدا ہوتا ہے، کمزور سوچ کے ساتھ اورا س نے نامیاتی توازن بھی پیدا نہیں کیا۔
یہ درست ہے کہ انسانیت نے اس سے پہلے بھی عقل اور عمل کے حیرت انگیز واقعات کر دکھائے ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں جیسے پہاڑوں کے سلسلے۔ انسان کو حق ہے کہ وہ ارسطو، شیکسپئیر، ڈارون، بیتھوون، گوئیٹے، مارکس، ایڈیسن اور لینن پر فخر کرے۔ لیکن یہ اتنے نایاب کیوں ہیں؟کیونکہ یہ تما م لوگ متوسط یا امیر طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ کے علاوہ، نچلے طبقے میں بہت سے نابغہ روزگاروں کی چنگاریاں شعلہ بننے سے پہلے ہی بجھ گئیں۔ لیکن اس لئے بھی کہ تخلیق کرنے، تعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کا عمل ہمیشہ قسمت سے ہوتا تھا، خواہش اور شعوری کوشش سے نہیں۔
سوشلزم ضرورت کی دنیا سے آزادی کی دنیا کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہو گا۔ کہ آج کا انسان اپنے تما م تر تضادات کے باوجود ایک نئی خوشحال نسل کے لئے دروازہ کھولے گا۔