دھرنا پھر سے گُم!

| تحریر: قمرالزماں خاں |

عدالتوں کے فیصلوں نے بقول شخصے ’عزت سادات‘ تو بچالی مگر بھولے بھالے ’انقلابیوں‘ کی ساری کاوشیں، پولیس سے آنکھ مچولیاں، آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی اٹھکیلیوں کاانت انتہائی مایوس کن رہا۔ سیانے کہتے ہیں کہ ’’گیڈر کو مارنے کے لئے شیر کے شکار کی تیاری کرنا ضروری ہوتاہے‘‘ مگرکئی مہینوں سے تحریک انصاف کی اسلام آباد بند کرنے اور ’حکومت کے خاتمے تک دھرنا جاری رکھنے‘ کی دھمکیوں کا انجام ثابت کرتا ہے کہ ’’تحریک انصاف‘‘ امپائر سے مل کرفقط’ فکسڈ میچ‘ کھیلنے کی صلاحیت ہی رکھتی ہے۔ اگرامپائر ساتھ نہ دے اور دوسری طرف کی ٹیم بھی کھیلنا شروع کردے تو پھر انجام وہی نکلتا ہے جس کے مناظر 29 اکتوبر سے یکم نومبر کی دوپہرتک سب نے براہ راست ملاحظہ کئے۔ پچھلی دفعہ آخر میں اور اس دفعہ شروعات میں ہی امپائر نے اپنے مقاصد حاصل کرکے منہ دوسری طرف کرلیا۔ چنانچہ عدالتی فیصلوں سے عمران خان نے سکھ کا سانس لیا ہوگا۔ اس کو پھر سے اندازہ ہوا ہوگا کہ ’انقلابی کہلانے‘ اور انقلابی ہونے میں کتنا فرق ہوتا ہے۔

imran-khan-pakistan-army-tahir-ul-qadri-dharna-protest-martial-lawچند ہزار کے مجمع کو دس لاکھ قراردینے کی روایت جماعت اسلامی نے قائم کی تھی، اسکو اب عمران خان آگے بڑھا رہا ہے۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ درمیانے طبقے کے تاجروں، گلوکاروں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کے’’ انقلاب‘‘ اور محنت کش طبقے کے انقلاب میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کو انقلاب برپا کرنے کے لئے کبھی بھی کسی دارالحکومت کو ’لاک ڈاؤن‘ کرنے کی ضرورت لاحق نہیں ہوتی۔ محنت کش طبقہ کسی مارچ، دھرنے یا یلغار کئے بغیر ہی پورے سماج کی حرکت روکنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن، بجلی، ریل، جہاز، روڈ ٹرانسپورٹ، صنعت، سرمائے کی نقل وحمل کے ذرائع کو بند کئے بغیر ’انقلابی تبدیلیوں‘ کی طرف پیش رفت بھی نہیں ہوسکتی اور یہ فریضہ درمیانہ طبقہ، اینکر پرسن اورکارپوریٹ میڈیا سرانجام نہیں دے سکتے۔
عمران خان انوکھے لاڈلے کی طرح کھیلنے کو چاند مانگتا ہے، وہ اس نظام میں بدعنوانی کے خلاف ’جنگ ‘ لڑنے کی بات کرتا ہے جس کی آکسیجن ہی ’بدعنوانی‘ ہے۔ پھر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سرتاپا بدعنوانی میں ڈوبے افراد کے جلو میں کھڑے ہوکر بدعنوانی کے خلاف بات کی جاتی ہے۔ مگر سب سے بڑی بدعنوانی کا ارتکاب خود عمران خان کرتا ہے جب وہ چند افراد کی بدعنوانی سے جمع کی ہوئی دولت کو تو کرپشن کہتا ہے مگر سرمایہ دارانہ استحصال، محنت کی لوٹ کھسوٹ، منڈی کی معیشت کی وحشت اور پاکستان کے کروڑوں لوگوں سے انسانی زندگی بسرکرنے کا حق چھین لینے والے نظام (سرمایہ داری) کی زبردست حمایت کرتا ہے۔ وہ بدعنوانی کے خلاف ہے مگر بدعنوانی کے نظام کے حق میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں کے اعلان، موٹر وے اور بنی گالا میں ٹونٹی ٹونٹی میچ کوعام لوگوں نے محض ٹیلی وژن سکرین پر تو دیکھا، اس کا حصہ بننا پسند نہیں کیا۔ یہی کیا، پاکستان کے 22کروڑ لوگوں میں سے شاید بیس کروڑ لوگ موجودہ سیاسی ایجنڈے اور اسکے تحت ہونے والی سیاست سے خود کو الگ کرچکے ہیں، کیونکہ عام لوگ سنجیدگی سے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ موجودہ سیاست کا مقصد بالادست طبقے کے مختلف گروہوں کا اقتدار تک پہنچنا اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ہے، اس حکمران طبقے کی سیاست اور حاکمیت سے انکی زندگی میں معمولی سا بھی فرق نہیں آتا۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں جتنے بھی اختلافات ہوں، مگر ایک اتفاق تمام اختلافات پر بھاری رہتا ہے کہ تمام جنگ وجدل، گالی گلوچ اور دشنام طرازی میں موجودہ استحصالی نظام اور اسکے ناگزیرظلم وستم کو ایجنڈے پر نہ لایا جائے۔ یوں نہ تو مسائل کی وجہ بننے والی منڈی کی معیشت اور ملکیت کے نظام کے مضمرات زیر بحث آتے ہیں اور نہ ہی اسکے کسی متبادل کے امکانات کو زیر غور لایا جاتا ہے۔ جس نظام کی حقانیت پر سیاسی قیادتوں اور حکمران طبقے کو ایمان کی حد تک یقین ہے، اسکی حالت زار آئی سی یو میں پڑے ایسے مریض کی سی ہے، جس کے ایک مرض کے علاج میں کئی دیگر امراض جاگ پڑتے ہیں۔ جمہوریت سے آمریت اور پھر بحالی جمہوریت کی تحریکیں، مارشل لاؤں کو جواز بخشنے والے ’پی سی او ‘اور پھر ان عبوری آئینی احکامات کے پل صراط سے گزر نے والے ان احکامات کو امرت دھارا بنانے کی کوششوں میں ’جوج ماجوج‘ کو مات دیتے نظر آتے ہیں۔ عدالتیں کبھی فوجی مداخلتوں کو جائز قراردیتی ہیں اور فوجی زور آوری کے دنوں میں کان لپیٹی رہتی ہیں مگر جونہی پلڑا پلٹتا ہے، وہی قاضی اور منصف یکایک آئین وقانون کے رکھوالے بن جاتے ہیں۔ فوجی جنتا سیاسی بساط الٹنے سے پہلے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی(واقعتا موجود) برائیاں اجاگر کرنے کے لئے تمام جتن کرتی ہے۔ میڈیا، فوجی دانشور، نظریہ ضرورت کی خوراک پر پلنے والے بزرجمہر(جنکی پاکستان میں کسی طور کمی نہیں ہے) کسی نہ کسی طورمارشل لا لگوانے کی ہر سعی کرتے نظرآتے ہیں۔ لیکن جن برائیوں کو نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے وہی تمام برائیاں، بدعنوانیاں، سنگین قسم کی من مانیاں، فوجی ادوار میں کسی سو گنا بڑھ جاتی ہیں۔ فوجی آمریتوں کے دور میں موج مستیاں کرنے والے سیاسی زعما، پلٹا کھا کر جمہوریت کے چمپئین بن جاتے ہیں مگر اس سنہری دور کی یاد محو کرنا انکے لئے بہت مشکل ہوتا ہے جب وہ فوج کے ’ جمہوریت کی طرف مراجعت‘ کے طویل دورانئے میں کنگز پارٹیاں بناتے ہیں، لوٹاازم کو فروغ دیتے ہیں اور کھلی جعل سازی سے اقتدار نشین ہوتے ہیں۔ کالے دھن کی معیشتوں کو فروغ انہی مارشلاؤں میں ملااور سرکاری معیشت کے بالمقابل اسکا حجم بقول اسحاق ڈار 70 فی صد سے تجاوز کرگیا۔ انہی مارشلاؤں میں طوالت اقتدار کے لئے ہر طرح کے ناجائز کو جائز بنالیا جاتا ہے۔ فوجی حکمرانی کے ادوار میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معتدل بنانے کی کسی کوشش کو ’’سیکورٹی رسک‘‘ قرار نہیں دیا جاتا، مگریہی کوشش کوئی اور کرے تو پھر ملک وقوم کی ’سلامتی‘خطرے میں پڑھ جاتی ہے۔
جمہوریت بھی ہمارے ہاں عجب قسم کی آتی ہے جو بہت سے حوالوں سے آمریتوں اور بادشاہتوں سے بھی اگلے درجے کی مطلق العنان ثابت ہوتی ہے۔ پارٹیوں میں خود عملاً مکمل آمریت ہے، جمہوری ادارے کہیں بھی موجود نہیں۔ نظریات کو پچھلی نشستوں پر بٹھادئیے جانے کے بعد اب پارٹیوں کے مابین فرق جاننے کا کوئی سنجیدہ طریقہ کار موجود نہیں رہا ہے۔ چونکہ تمام سیاسی پارٹیوں، حکومتوں اور فوجی مارشلاؤں کا ایک ہی معاشی نظام اور سماجی ڈھانچے پر یقین ہے اس لئے بدلتی ہوئی حکومتوں، جمہوری ناٹکوں اور فوجی حکومتوں میں کچھ بھی مختلف نہیں ہوتا، سوائے لوٹ مارکرنے والوں کی تبدیلی کے۔
پارٹیوں میں قیادتوں کی تبدیلی کبھی کبھی ’اسٹیبلشمنٹ‘ اورعام طور پر ’عزرائیل‘ کے باعث ہی ممکن ہوتی ہے۔ 1988ء سے اب تک 17 سویلین وزرائے اعظم تھوڑے یا لمبے عرصے کیلئے حکومتوں میں رہ چکے ہیں۔ اسی طرح 1988ء سے قبل گیارہ سال تک فوج کی حکمرانی رہی اور پھر 1999 ء سے 2008ء تک فوج حکمران رہی ہے۔ ہر طرح کی حکومتوں میں اکثریتی محنت کش طبقے کیلئے حالات زندگی پہلے سے بدترہوتے رہے ہیں مگر ان میں بہتری کی دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی۔ پچھلی بہت سی جمہوری حکومتوں کی قبل ازمعیادبرطرفیوں کی وجوہات ملتی جلتی تھیں، اسی طرح تمام حکومتوں کو ایک جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہر سویلین حکومت پر (درست طور پر) بدعنوانی اور بدانتظامی کا الزام تواتر سے لگتا آیا ہے، مگر اس سے کہیں زیادہ شدت سے بدعنوانی اور بدانتظامی ان فوجی حکومتوں میں دیکھنے کو آتی ہے جو بدعنوانی دور کرنے اور احتساب کرنے کے نعرے سے آتی ہیں۔ الزامات لگتے ہیں اور حکومتوں کے خاتمے کیلئے راہیں ہموار کی جاتی ہیں مگر ہر نئی آنے والی حکومت پھر انہی الزامات کی زد میں آتی ہے۔ ایک گھن چکر ہے جو مسلسل چل رہا ہے اور اس شور شرابے کے عقب میں محنت کش طبقے کو لوٹنے کا عمل تواتر کے ساتھ جاری ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کی موجودہ حکومت 2013ء سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں ہر روز نت نیا عیب نکالتی تھی۔ لوڈ شیڈنگ سب سے بڑا ہدف تھا، زرداری کی بدعنوانی کے خوب چرچے تھے اور حزب اختلاف میں نواز لیگ بھر پور میڈیا مہم میں مصروف رہتی تھی۔ نوازشریف میڈیا پر باربار کہتا تھا کہ حزب اختلاف میں ہم ہاتھ پے ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے بلکہ ہم متبادل پالیسیاں بنا رہے ہیں اور اقتدار میں آکر روز اوّل سے ہی کام شروع کردیں گے۔ پی پی پی کی حکومت اپنے نظریاتی انحراف، کرتوتوں، بدعنوانیوں، بدانتظامیوں کے ہاتھوں عام انتخابات میں انجام سے دوچار ہوئی۔ نواز لیگ کو دوتہائی مینڈیٹ دلوایا گیا۔ مگر ہواکیا؟ وہی لوڈ شیڈنگ، مہنگی بجلی، بے روزگاری میں اضافہ، مہنگائی کے پے درپے حملے، عام آدمی کے ریلیف کی بجائے ’تاریخ ‘ میں نام لکھوانے کی غرض سے بھاری بھرکم منصوبے، جن کی غرض وغایت میں کک بیکس اور فرنٹ مین ٹھیکے داروں کو نوازنا صاف دکھائی دیتا ہے۔ جنہوں نے الیکشن سے قبل سونامی برپاکرنے کے دعوے کئے تھے وہ کسی گندے نالے میں ارتعاش بھی پیدا نہ کرسکے۔ اس بدترین شکست سے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی خواہش رکھنے والی ’مڈل کلاس‘ میں بہت بڑے پیمانے پر بددلی پیدا ہوئی۔ مگر عمران خان نے انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر خوب مصروف کردیا۔ لیکن ایسا ہمیشہ کے لئے تو نہیں چل سکتا۔ ایک بدعنوان نظام میں منصفانہ الیکشن کی سعی لاحاصل کے سفر پر گامزن ہوجانے سے سونامی برپا نہ ہونے اور 1970ء میں پیپلز پارٹی جیسی عوامی پارٹی نہ بن پانے کی شکست کو تو شاید ایک حد تک بھلادیا گیا۔ مگر طبقاتی نظام اور سرمائے کی حاکمیت میں ’حقیقی جمہوریت‘ کا خواب حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس زندہ حقیقت کو حکمران طبقے کے نمائندے بشمول تحریک انصاف تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اسکی وجہ سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادتوں کی طبقاتی ساخت ہے۔ سرمایہ دارانہ قیادتیں بخوبی واقف ہیں کہ صرف اس حقیقت کے تذکرے سے پورے نظام کی نظریاتی اور مادی بنیادیں ہل سکتی ہیں جو ان کے طبقے کی لوٹ مار، استحصال، مراعات، عیش وعشرت کا ضامن ہے۔ ڈھائی سوسال کی امریکی جمہوریت میں الیکشن لڑنے والے امیدواران کا تعین تک بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں، ریاست سے بالا سیکورٹی ایجنسیاں اور مالیاتی ادارے کراتے ہیں۔
پاکستان جیسے سابق نوآبادیاتی پسماندہ ملک میں تو کلاسیکی حکمران طبقے اور اس کے نظام کا صحت مندانہ وجود ہی قائم نہیں ہو سکا جیسے ہمیں مغرب میں بھی نظر آتا ہے۔ مگر یہ تو ذرا بلند سطح کی بات ہے۔ پاکستان میں ابھی تک عام لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کیا جاسکا۔ یہاں تو حکمران طبقے نے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی مثلاًعلاج معالجے، تعلیم، روزگار اور جدید سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے خواب تک دیکھنے چھوڑدئیے ہیں۔ اب ان کے تمام ناٹک اقتدار اور لوٹ کے مال کی چھینا جھپٹی تک محدود ہوچکے ہیں۔ حکمران طبقے کے تمام گروہوں میں مختلف قسم کے ’’این آر او‘‘ ہونا اب سیاست کا معمول بن چکا ہے۔ سنگین ترین الزامات کی آڑ میں سودے بازیاں کی جاتی ہیں۔ بحرانوں میں اپوزیشن پارٹیاں اپنے مجرمانہ کردار کے حامل قیدیوں کو چھڑاتی ہیں۔ دھرنوں اور لاک ڈاؤن کی دھمکیوں اور یلغار کی آڑ میں کئی طرح کی سودے بازیاں ہوتی ہیں۔ مگر سویلین اور عسکری قیادتیں جس ایک نقطے کو شعوری طور پر نظر انداز کرتی ہیں وہ سسکتے سلگتے کروڑوں محنت کش ہیں۔ انہیں اس نظام کی ذلتوں اور محرومیوں سے نجات غاصب طبقہ کبھی بھی ازخود نہیں دے گا۔ اسے چھین لینے کے لئے محنت کش طبقے کو بالآخر اپنی چُپ توڑنا ہوگی اور نئے قانون اور نظام کی بنیاد رکھنا ہوگی۔ ورنہ یہ تماشہ کبھی ختم نہیں ہوگا!