پاکستان کے مجبور و محکوم عوام پر چھائی سیاسی بے حسی، سماج میں سرائیت شدہ گہری پژمردگی اور نا امیدی کا اظہار ہے۔ آج سے پانچ برس قبل 18اکتوبر2007ء کو بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی سے واپسی نے عوا م میں ایک نئی امید جگا دی۔ کراچی میں ہونے والا عظیم استقبال اوراس کے بعد کی انتخابی مہم نے جو ایک شہہ زور تحریک کی شکل اختیار کر گئی، اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال برپا کر دیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں رجعتی حلقوں نے اس طوفان کے مرکز کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بے نظیر بھٹو اس وحشیانہ انتقام کا نشانہ بن گئی اور سامراجی دلال اور ریاست میں موجود اصلاح پسند ششدر اور خصی تماشائی بنے رہ گئے۔ اس نظام اور ریاست کے لیے خطرہ بنتی تحریک سے وہ بھی کچھ کم خوفزدہ نہیں تھے۔ تاہم، واشنگٹن اور لندن میں موجود آقاؤں کے پاس اس صورتحال کے لیے متبادل منصوبہ موجود تھا۔ سی آئی اے کے شاطر اہلکار زلمے خلیل زاد نے تحریک کو سوگ اور مایوسی کی گہرایوں میں دھکیلنے کے لیے اقتدار کی منتقلی کا بندوبست کیا۔ 2008ء کے انتخابات کے نتائج ’مصالحت‘ کی سامراجی پالیسی کی روشنی میں واشنگٹن میں تیار کیے گئے۔ ایک مخلوط حکومت بنائی گئی جس کا مقصد پہلے سے بدحال کروڑوں پاکستانی عوام پر انتہائی وحشیانہ معاشی اور سماجی حملے کرنا تھا۔
پانچ برس بعد بھی محنت کش عوام جمہوری رد انقلاب کی شکل میں اس کرب ناک شکست کے اثرات سے مکمل طور پر باہر نہیں آ سکے۔ بے نظیر مہنگائی، بے روزگاری، غربت، مشقت، تشدد، قلت، دہشت گردی کا ستم اور ریاستی جبر نے سماج کو تاراج اور عوام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ عوام کو ان کے مصائب سے نجات دلانے کے لیے اس وقت سیاسی افق پر کوئی حقیقی متبادل نہیں ہے۔ حالیہ واقعات سے بے حد تشہیر شدہ نجات دہندہ عمران خان مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ گلیمر، انصاف، ایمانداری اور لبرل ازم کا باریک لبادہ چاک ہو گیا ہے اور قدامت پرستی اور دائیں بازو کے شاونزم کا حقیقی چہرہ سامنے آ گیا ہے جس میں بنیاد پرستانہ جنونیت کے رجحانات شامل ہیں۔ مسلم لیگوں کے بشمول دوسری دائیں بازو کی پارٹیوں سے عوام کی کوئی حقیقی امید وابستہ نہیں۔ ریاست اور میڈیا کے اہم حلقوں کی حمایت کے باوجود انتہائی دائیں بازو اور اسلامی جماعتوں کی سیاسی بنیاد یں بکھر گئی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی وجہ سے عوام میں کالے دھن اور مذہبی رجعت کے ان سوداگروں کے خلاف نفرت اور حقارت پیدا ہوئی ہے۔ نیو فاشسٹ ایم کیو ایم مافیا کے سرغناؤ ں نے دہشت کا بازار گرم کر رکھا ہے، اور انہیں سندھ کے شہری علاقوں میں مجرمانہ بھتہ خوری اور خوف و ہراس کو جاری رکھنے اور اسے تحفظ دینے کے لیے پہلے سے کہیں بڑھ کر ریاستی طاقت کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ پراکسی جنگوں میں برسر پیکار مخالف قوتوں کے حمایت یافتہ علاقائی قوم پرستوں نے کسی بھی قسم کا ترقی پسندانہ یا سماجی و معاشی پروگرام ترک کر دیا ہے جو محکوم قومیتوں کے محنت کش عوام کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔
استحصال زدہ عوام نے ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی کو تبدیلی کا ذریعہ اور اوزارسمجھ کر ووٹ دیا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت کے تجربے کے بعد امید کا یہ دیا ٹمٹما رہا ہے۔ کسی بڑے انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں یہ سیاسی روایت لڑکھڑاتی ہوئی چلے جا رہی ہے۔ حال ہی میں پی پی پی پنجاب کے سربراہ کے طور پر منظور وٹو کی تقرری سے واضح ہے کہ قیادت کس جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ چالباز بورژوا سیاست دان ہر ایک گھٹیا فوجی اور سویلین حکومت کے ساتھ ساز باز میں شریک رہا ہے۔ وہ انتہائی عیار ہے اور پسِ پردہ سودے بازیوں، سیاسی غداریوں، سازشوں، فتنے پیدا کرنے اور خفیہ چالبازیوں کے لیے مشہور ہے۔ قیادت برسوں نہیں دہائیوں سے پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کی مزید چاپلوس، غیر سرگرم اور ان کے لیے مزید قابل قبول بنانے کی کوشش میں ہے۔ سامراجی اور ریاستی حکام نے کبھی بھی پیپلز پارٹی پر مکمل اعتماد نہیں کیا۔ ایسا نہیں کہ انہیں قیادت کی چاپلوسی کی سچائی پر شک ہو، لیکن وہ پی پی پی کو حاصل عوامی حمایت کی بنیادی وجہ سے ہمیشہ سے خوفزدہ ہیں۔ لیکن اس مرتبہ پی پی پی کی قیادت تحریک کے ابھار کی بجائے دسمبر 2007ء کے غم انگیز واقعات کے بعد تحریک کی وحشیانہ شکست میں بر سرِ اقتدار آئی تھی۔ انہیں نیچے سے کسی خاص دباؤ کا سامنا نہیں تھا چنانچہ اصلاحات کی بجائے انہوں نے اسکا الٹ کیا اور آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق شدید کٹوتیاں اور حملے کیے۔ ٹریکل ڈاؤن معیشت کی بد معاش اور خونخوار پالیسیوں نے عوام کو تباہ کر دیا ہے۔ ان خونخوار پالیسیوں کو بائیں بازو کا سہارا دینے کی کوشش کرنے والے عوام کے خلاف کیے گئے ان جرائم میں بد ترین گناہ گار ہیں۔
جیسا کہ مارکس نے لکھا تھا کہ روا یت کا بار محنت کش طبقات کے شعور پر ہمالیہ کے بوجھ کی طرح ہوتا ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقات کو پی پی پی قیادت نے شدید مایوس اور بد ظن کیا ہے لیکن ستم یہ ہے کہ ان کے پاس ابھی تک کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ جمود اور سطحی رجعت کے عہد میں اسے مصنوعی طور پرتخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حالات کا ستم یہ ہے کہ کم ہوتی مقبولیت، جس کا اظہار آنے والے انتخابات میں عوام ووٹ نہ ڈال کر کرسکتے ہیں، اور تحریک کے موجود نہ ہونے کی صورت میں سامراجی آقاؤں اوراسٹیبلشمنٹ کے لیے پی پی پی زیادہ کارآمد نہیں رہے گی۔ لیکن اس کی جدلیاتی ضد یہ ہے کہ عوامی تحریک جب ابھرے گی، ابتدا میں اس کا جھکاؤ پی پی پی کی جانب ہی ہو گا۔ لیکن یہ دو دھاری تلوار ہو گی جو نہ صرف آگے بڑھتے ہوئے سرمایہ داری کی زنجیروں کو کاٹ ڈالے گی بلکہ یہ پیپلز پارٹی کو بھی طبقاتی بنیادوں پر چیر دے گی۔ پارٹی کے نام نہاد ڈھانچوں پر قیادت کی گرفت حکومت میں ہونے کی وجہ سے ملنے والی مراعات، عیاشیوں اور مالیاتی فوائد کی وجہ سے ہے۔ جب پی پی پی کی موجودہ قیادت ریاستی اقتدار سے الگ ہو گی تو پارٹی میں شدید ہنگامہ اور شورش برپا ہو گا۔ پی پی پی صحیح معنوں میں پارٹی بھی نہیں ہے جس کے منظم ڈھانچے، اندرونی جمہوریت، انتخابی کالج، نیشنل کانفرنس یا پارٹی کانگریس ہوتی ہو۔ آخری نیشنل کانفرنس 1972ء میں منعقد کی گئی تھی۔ ماضی میں پارٹی میں بائیں اور دائیں بازو کی تقسیمیں اور علیحدگیاں ہوتی رہی ہیں لیکن وہ غیر اہم رہیں، کیونکہ ریاست اور دائیں بازو کی جانب سے کئے جانے والے حملوں سے پارٹی قیادت کی اجارہ داری کو نئی زندگی ملتی رہی۔ لیکن موجودہ کیفیت میں جب پارٹی کی حمایت گرتی جا رہی ہے پارٹی میں ہونے والی تقسیمیں اورتنازعات فیصلہ کن اور ممکنہ طور پر طبقاتی بنیادوں پر ہو سکتے ہیں۔ زرداری کو اپنی بیوی سے پارٹی تو وراثت میں مل گئی لیکن اس کی اتھارٹی اور شخصیت کی کشش نہیں۔ اس افرا تفری میں اگر بایاں بازو منظم نہ ہوا تو لوگوں کا اعتماد کھو چکی اور کرپٹ قیادت کے جانے سے پیدا ہونے والے خلامیں حادثاتی اور عوامی جذبات کی نعرہ بازی کرنے والی شخصیات ابھر کر سامنے آ سکتی ہیں۔ ایک مارکسی قیادت اور لینن اسٹ تنظیمی ڈھانچہ رکھنے والی انقلا بی قوت بھی ابھر سکتی ہے جو پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام کو عملی جامہ پہنا کر1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تکمیل کرے گی جس انقلاب نے پاکستان پیپلز پارٹی کو عوامی بنیادیں فراہم کی تھیں اور پاکستان کے محنت کش طبقات کی روایت بنایاتھا۔ (نومبر 2012ء)
_________________________________________
دستاویز نمبر ۵ تاسیسی اجلاس (30نومبر 1967ء)
بنیادی اصول
۱۔ مقاصد
پارٹی کا مقصد پاکستان کو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ایک سوشلسٹ معاشرے میں ڈھالنا ہے۔
۲۔ راہنما اصول
پارٹی اپنی پالیسی اور سرگرمیوں کے لئے مندرجہ ذیل راہنما اصول اختیار کرتی ہے۔
ا۔ مساواتی جمہوریت یعنی غیر طبقاتی معاشرہ
ب۔ اقتصادی اور سماجی انصاف کے حصول کی خاطر سوشلسٹ نظریات کا استعمال
وضاحت:
کئی ایک پیچیدہ مسائل سے جن کا حل تلاش کرنے کی توقع ہے عہدہ برآ ہوتے وقت پارٹی اس بات کی سخت احتیاط کرے گی کہ وقتی مصلتحوں سے متاثر ہو کر اپنے نصب العین سے دور نہ ہٹ جائے۔ اگر یہ ان دو راہنما اصولوں کی روشنی میں کام کرے گی جن میں سے پہلے کا تعلق مقصد سے اور دوسرے کا طریق کار سے ہے تو اس سے کبھی غلطی نہیں ہوگی۔
۳۔ پروگرامی اصول
آئینی ڈھانچہ عوامی جمہوری طرز حکومت کا ہونا ضروری ہے جو عوام کے براہ راست منتخب کردہ نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہو۔
دولت اور اہم صنعتوں کو قومی ملکیت قرار دینا تا کہ
الف۔ صنعتی ترقی تیز کی جائے
ب۔ چند خوش نصیبوں کے ہاتھوں عوام کے استحصال کو روکا جائے اور
ج۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت ختم کر دی جائے۔
وضاحت:
یہ اصول سوشلسٹ نظریہ کے عین مطابق ہے جو تجربہ سے یہ ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت عوام کے استحصال کا باعث ہے۔ کسی ملک کی معیشت پر اہم صنعتوں کے مالکوں کا قبضہ ہوتا ہے جو کہنے کو صنعتی ترقی کے ذمہ دار کہلاتے ہیں۔ اگر اہم صنعتیں اور بینک نجی ملکیت میں ہوں تو ملک کی صنعتی ترقی چند امیر آدمیوں کے رحم وکرم پر رہے گی۔ کسی غیر ترقی یافتہ ملک میں اس وقت تک صنعتی ترقی ممکن نہیں ہے جب تک ریاست خود فولاد، بھاری مشینری اور ادویات جیسی اہم صنعتوں کو اپنے ہاتھ میں نہ لے۔
پاکستان میں حکومت نے بہت سی صنعتیں قائم کیں اور جب وہ منافع بخش ثابت ہو رہی تھیں تو انہیں نجی افراد کے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ اگر سرمایہ دار کسی صنعت کے شروع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے تو پھر نجی کوششوں کی تعریف کرنا بکواس ہے۔ سرمایہ کاری ختم کرنے کی شرپسندانہ پالیسی ختم ہونی ضروری ہے۔
جس طرح آج کل پاکستان کے صنعتی منصوبے بنائے جاتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اس سے غیر ملکی مفادات کو پاکستان میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ایسا نظام جس سے نجی ادارے براہ راست غیر ملکی امداد سے بہرہ ور ہوں، بیرونی طاقتوں کے ملکی معاملات میں دخل دینے کا راستہ کھولنے کا باعث ہے۔ قومی ملکیت میں لینے کے ضروری اقدامات اس بدعت کو ختم کر دیں گے۔
زرعی اقدامات جن سے رہی سہی جاگیر دارانہ ذہنیت کے ہاتھوں کسانوں کا استحصال ختم کیا جائے۔ کسان طبقہ کو ’’اپنی مدد آپ‘‘ اور ’’امداد باہمی‘‘ کے گروہوں میں منظم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا۔
وضاحت:
پارٹی جاگیردارانہ نظام کے مکمل خاتمے کے لئے سوشلزم کے تسلیم شدہ اصولوں کے تحت واضح اقدامات کرے گی تا کہ کسانوں کے مفاد کو بڑھایا جائے اور ان کا تحفظ کیا جاسکے۔
ان زرعی اصلاحات نے جو پہلے ہی نافذ کی جاچکی ہیں ملک کے متعدد علاقوں میں پائے جانے والے جاگیردارانہ نظام کو بڑی حد تک ختم کر دیا ہے تاہم ابھی اس نظام کے کچھ نشانات موجود ہیں، جنہیں ختم کرنا ضروری ہے۔ ضروری اصلاحات نے تنہا تمام اہم زرعی مسائل کو ختم نہیں کیا ہے بلکہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار کو اس سطح تک پہنچایا جائے کہ ملک کی تمام غذائی ضروریات پوری ہو جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس وقت تک آبادی کے سالانہ اضافے کے مساوی اضافہ ہو جب تک آبادی کے اضافے پر قابو نہ پالیا جائے۔ یہ معاملہ صرف زیادہ پیداوار دینے والی گندم کی اقسام متعارف کرنے کا نہیں ہے۔ اگرچہ اس سے بھی بہت امداد ملتی ہے تاہم اس کے لئے کاشتکاری کے طریقوں میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے کاشت کاروں کے نظریات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو پشت ہا پشت سے اپنے حکام کے لئے دولت پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے رہے ہیں انہیں اب قومی آمدنی میں سے ان کا جائز حصہ ملنا چاہئے۔
اس سلسلے میں متعدد دشواریاں درپیش ہیں۔ کاشتکاروں کو اس کی پیداوار کی مناسب قیمت کی ضمانت ہونی چاہئے۔ اسے کم سے کم ممکن قیمت پر بیج، کھاد اور زرعی اوزار ملنے چاہئیں۔ جہاں کہیں بھی جدید مشینوں کے استعمال سے زیادہ پیداوار حاصل ہوسکتی ہو وہاں مشینیں مہیا کرنی چاہئیں اور کاشت کار کو ان کے استعمال اور دیکھ بھال کی تربیت دی جانی چاہئے۔ زرعی زمین کے بہتر استعمال کے لئے متعدد میدانوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ماضی میں کاشت کار استحصال کا شکار رہے ہیں کیونکہ ان میں اپنے مفادات کی حفاظت اور اضافے کے لئے تنظیم اور ذرائع کا فقدان رہا ہے۔ اپنی مدد آپ کے اصولوں اور امداد باہمی کے گروہوں کی تنظیم کاشتکاروں کی حالت بہتر بنانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جو محض اوپر سے بیٹھ کر حکم چلانے سے حل نہیں کئے جاسکتے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کاشت کاروں کو منظم کرنے کے لئے ان کی امداد کی جائے۔
امداد باہمی کے تجربات کی تاریخ ہمارے ملک میں مایوس کن رہی ہے اس کی ناکامی کی وجہ اشتراکی منصوبوں کے لئے ضروری نظریے کا فقدان ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ فوری مقصد ملک کو غذائی پیداوار کے میدان میں خود کفیل بنانا ہے اس سلسلے میں کچھ اصلاحات پہلے ہی نافذ کی جا چکی ہیں۔
ٹریڈ یونین کا استحکام۔ ہڑتال کا حق ناقابل تردید۔
پاکستان میں ٹریڈ یونینوں کے حالات بہت کمزور اور منقسم ہونے کی وجہ سے یہ اپنی تنظیم کا مقصد یعنی مزدور طبقے کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ موجودہ حکومت جس کی اقتصادی پالیسی ایک مختصر سے گروہ کو امیر تر بنانا ہے، سے ہم توقع نہیں کرسکتے کہ وہ ٹریڈ یونین کو بھی وہ مقام دے گی جو کہ وہ مل مالکوں کو دیتی ہے۔ کیونکہ مل مالک کو حکمرانوں تک رسائی حاصل ہے جو خود بھی کارخانوں کے مالک ہیں۔
ٹریڈ یونینوں کے کمزور ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ فیکٹری یونین کا ٹریڈ یونین سے تعلق مضبوط نہیں ہوسکا۔ چنانچہ ٹریڈ یونین تحریک اب تک مایوس کن حد تک بکھری ہوئی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ بڑی بڑی ٹریڈ یونینیں مزدوروں کے مختلف طبقوں کے مطابق بنائی جائیں جیسا کہ کپڑے کی مختلف ملوں کے مزدوروں کی ایک ملک گیر تنظیم، دھات کی ملوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ایک ملک گیر تنظیم، گودیوں میں کام کرنے والوں کی ملک گیر تنظیم وغیرہ وغیرہ۔ اس کے اوپر ٹریڈ یونینوں کی ایک کونسل بنائی جائے جو کہ تمام ٹریڈ یونینوں کی نمائندگی کرے اور مزدور طبقے کو اپنی متفقہ رائے ملک کے اندر اور باہر دینے میں مدد دے۔
پارٹی مزدوروں کو ان کا ہڑتال کرنے کا حق دے گی جو کہ ان کے لئے اپنے حقوق منوانے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اگر مزدوروں سے ہڑتال کا حق چھین لیا جائے تو ان کے پاس اپنے حقوق منوانے کا کوئی ذریعہ نہیں رہتا۔
یہ بات عیاں ہے کہ آئی ایل او کے اصول ریاست، آجر اور مزدور کے درمیان تعلقات کی بہترین صورت میں ملک میں لاگو کئے جائیں۔ خصوصاً جب کہ وہ انسانی بنیادی حقوق کے مطابق ہیں۔
قومی سطح پر کسانوں اور مزدوروں کے لئے صحت عامہ کی سہولتیں اور بعد ازاں ہر طبقے کے لئے
وضاحت:
صحت عامہ کی سہولتوں کی ضرورت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ سہولتیں سب سے پہلے وہاں مہیا کی جائیں جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے یعنی غریبوں کے لئے جو ڈاکٹروں کو فیس دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
عوام میں تحریک پیدا کرنا
وضاحت:
عوام آج بھی تقریباً انہی حالات سے دوچار ہیں جن میں وہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کے تحت تھے۔ ان سے ہر وقت یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ حکم بجا لائیں گے نہ کہ وہ خود میں سے کوئی ایسی قیادت پیدا کریں جو ان کو اپنی بہتری کے لئے جو کچھ بھی ذرائع ان کو حاصل ہیں بروئے کار لانے کی تربیت دے۔ غیر ترقی یافتہ ممالک کو بیروزگار عوام کی پیداواری صلاحیتوں سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ اگر ان کو منظم کرکے اپنی مدد آپ کرنا سکھلایا جائے تو وہ اس بات کے اہل ثابت ہوسکتے ہیں کہ اپنی اقتصادی حالت میں تبدیلی لانے کے لئے معجزانہ تبدیلی لے آئیں۔
نہ صرف بیروزگاری بلکہ نیم بے روز گاری ملک کے ہر حصے میں بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان انسانی ذرائع کو جو ضائع ہو رہے ہیں کس طرح ا چھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ اگر ان ہاتھوں کو جو کہ بے کار ہیں ان کاموں کے لئے استعمال کریں جو قومی غربت کی وجہ سے ناکارہ پڑے ہیں تو غربت پر خود بخود قابو پایا جاسکتا ہے۔
وہ لوگ جویکسر بیکار ہیں خواہ کام پر لگا دیئے جائیں یا بیکار ہی رہنے دیئے جائیں ان لوگوں کو خوراک، کپڑا اور رہائش ہر حال میں مہیا کرنی ہی پڑتی ہے۔ موجودہ حالات میں وہ قومی اقتصادیات پر بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ان لوگوں کو منظم جماعتوں میں کام کرنے پر لگانے سے قوم پر کوئی بہت بڑا اضافی بار نہ ہوگا۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دخانی انجن کی ایجاد سے پہلے بڑے کام جو کہ اب بھی ہماری پسندیدہ یادگاریں ہیں، انسانی محنت ہی سے پایہ تکمیل تک پہنچے ہیں۔ روسی قوم نے سڑکیں بنانے کے لئے کبھی بل ڈوزر استعمال نہیں کئے۔ ولندیزیوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے سمندر سے زمین حاصل کی اور اس کی طغیانیوں کو اپنی سرزمین سے دور رکھا۔ پھاوڑا اور بیلچہ جیسے آلات کے ذریعے سڑکیں بچھائی جاسکتی ہیں، نہریں کھودی جاسکتی ہیں، دلدلیں دور اور بنجر زمینیں سرسبز کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس بات پر نہیں بیٹھے رہنا چاہئے کہ سرمایہ دار ان کاموں کے لئے مہنگی مشینیں درآمد کریں جو کہ ان کے بغیر بھی ہوسکتے ہیں۔ رضا کار مزدوروں کے دستوں کی تنظیم سے ایک یہ فائدہ بھی ہے کہ اس قسم کی تنظیم سے عوام کو صفائی اور صحت عامہ کے متعلق ہدایات دینے میں بھی سہولت ہوگی۔ مزدور دستوں کی تنظیم کی بدولت عوام میں صفائی اور شہریت کا شعور پیدا کرنے میں امداد ملے گی۔
جہالت کا خاتمہ۔ تعلیم کا مقصد غیر طبقاتی معاشرے کا قیام ہونا چاہئے۔
وضاحت:
تعلیم وہ منافع بخش اور بہترین سرمایہ ہے جو کسی بھی قوم کے پاس ہوسکتا ہے۔ جتنی زیادہ جہالت ہوگی اتنی ہی زیادہ غربت ہوگی۔ تعلیم کے فروغ کے بغیر اقتصادی یا سماجی ترقی ممکن نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اولین کام جہالت کو دور کرنا ہے۔
ہمارے ملک میں تعلیم کا معیار شرمناک حد تک کم ہے اور اگر معیار بلند کرنے کے لئے جلد کوششیں نہ کی گئیں تو آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ترقی کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ اعلی تعلیم کھاتے پیتے گھرانوں کے لئے مخصوص نہیں ہونی چاہئے بلکہ عوام کے قابل بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے اعلیٰ مواقع میسر ہونے چاہئیں۔
تعلیم کا ایک جامع منصوبہ اہم ترین ضرورت ہے لیکن یہ توقع نہیں ہے کہ ایک ایسی حکومت ایسا منصوبہ تیار کرے جس کا مقصد صرف امیر طبقے کی بہبود ہو۔
عوام کی ثقافتی زندگی کی ترقی
وضاحت:
بنینوع انسان کی زندگی اپنی ثقافت کی مرہون منت ہے اور ثقافت ہی ایک انسان کی ذہنیت کا اظہار ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں کئی قسم کی ثقافتیں پائی جاتی ہیں اگر ان کو ترقی دی جائے تو پاکستان اس لحاظ سے اور زیادہ خوش قسمت بن جاتا ہے۔
ملکی زبانوں کی تیز تر ترقی تا کہ وہ غیر ملکی زبانوں کی جگہ لے سکیں جو ملکی معاملات میں مستعمل ہیں اور تمام علاقائی زبانوں کی ترویج
وضاحت:
یہ اصول اس قدر واضح ہے کہ اس کے لئے کسی قسم کی توضیح کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان ہمیشہ کے لئے ایک غیر ملکی زبان پر انحصار نہیں کرسکتا۔ جلد یا بدیر ملکی زبانوں کو اس کی جگہ لینی ہے تاہم اس کے لئے خاصی تیاری کی ضرورت ہے اور ملکی زبانوں کی بتدریج ترقی اس کے آئندہ کردار کے لئے ضروری ہے۔ علاقائی زبانیں جو کہ ان لوگوں کو عزیز ہیں جو انہیں بولتے ہیں‘ اپنے حقوق رکھتی ہیں۔ یہ پرانی زبانیں ہیں، ان میں سے چند کے پاس ادب کا قابل قدر سرمایہ بھی ہے اور وہ لاکھوں انسانوں کا ذریعہ اظہار ہیں۔ ان علاقائی زبانوں کی نشو ونما ملک کی ترقی کے لئے مدد گار ثابت ہوگی اور لوگوں کی زندگی کو خوش تر بنائے گی۔
عورتوں کے لئے مساوی حقوق
وضاحت:
ملک کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے عورتوں کی فلاح وبہبود نہ صرف ان کی بہتری کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کا تعلق ملکی ترقی کے لئے بھی ناقابل تردید ہے۔
اچھے گھر اس صورت میں کبھی نہیں بن سکتے اگر عورت کو لاعلم اور مغلوب رکھا جائے۔ غیر مطمئن گھرانوں سے غیر مطمئن شہری ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ماں بچے کی استاد ہے اور وہی اسے قومی ثقافت کی پہلی راہ دکھاتی ہے۔ اس لئے ہمارے ملک کی ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عورت اپنے جائز حقوق حاصل کرے۔
فرسودہ قوانین کا خاتمہ
وضاحت:
ہمارا ملک آج بھی ان فرسودہ قوانین کے زیر بار ہے جو کہ موجودہ دور سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر وہ صرف ایک عجائب گھر کے بے ضرر نشان ہوتے تو اس سے بہت کم فرق پڑتا لیکن وہ نہایت ہی مہلک بیماریاں ہیں۔ ان کو ختم کرنا چاہئے۔
آزادی علم اور یونیورسٹیوں کی خود مختاری
وضاحت:
یہ بات بلاوجہ نہیں ہے کہ صدیوں سے تعلیمی آزادی کو حصول علم کے لئے ناگزیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ آزادی دانشورانہ زندگی کی جان ہے۔ وہ حکومتیں جو اپنا مطمع نظران فوری مقاصد کو بناتی ہیں جو ان کے حامیوں کو آسانی سے مل سکے، تعلیمی آزادی کو ہمیشہ تخریب پسندی سے تعبیر کرتی ہیں کیونکہ ایک رجعت پسند حکومت کے حصول مقاصد میں ہر قسم کی آزادی رکاوٹ بنتی ہے اس لئے تعلیمی آزادی بھی اس کی نظر میں ہولناک ہے اور اسی لئے رجعت پسند حکومت کے ہاتھوں خراب ہوتی ہے۔ یونیورسٹیوں کی خود مختاری سلب کرنے کے بعد انہیں ماتحت بنا لیا جاتا ہے نتیجتاً پولیس یہ حکم دیا کرے گی کہ تعلیمی نصاب میں کیا ہونا چاہئے۔ پارٹی نے عزم صمیم کیا ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں کی خود مختاری اور تعلیمی آزادی بحال کی جائے گی اور اس کی حفاظت کی جائے گی۔
قومی تعمیر کے لئے نوجوانوں میں تحریک پیدا کرنا
وضاحت:
نوجوان قوم کے مستقبل کے مالک ہیں۔ ایک غیر ترقی یافتہ ملک میں نوجوان طبقہ سب سے سرگرم فہم اور کھلے ذہن کا مالک ہوتا ہے۔ قومی تعمیر وترقی میں ان کی شرکت فوری فائدے اور اس امر کی ضامن ہوتی ہے کہ مستقبل میں قوم کے پاس شہریت کا شعور رکھنے والے باہمت شہری ہوں گے۔
قومی دفاع میں عوام کی شرکت کا حق
پارٹی دونوں بازوؤں اور ملک کے ہر حصہ میں عوامی ملیشیا بنانے کی حامی ہے۔
پیداوار کے ذرائع سوشلسٹ نقطہ نظر سے
ذرائع پیداوار کی افزائش کے لئے سوشلسٹ نقطہ نظر کے مطابق پاکستان میں دو طرفہ جہاد کی ضرورت ہے۔ ایک طرف تو پاکستان کو غیر ترقی یافتہ صنعتی اور زرعی حالت سے نکالنا اور دوسری طرف عدل وانصاف کی بنیاد پر ایک سماجی اقتصادی نظام کو رائج کرنا یہ دونوں کام ایک ہی وقت میں تیز رفتاری کے ساتھ کرنے ضروری ہیں کیونکہ ان دونوں میں سے اگر ایک کو بھی پس پشت ڈالا جائے تو دوسرا کام خود بخود ناکام ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ معاشی نظام پر جس حد تک عمل کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ نہ تو ملکی دولت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی حالت سدھری ہے۔ صنعت کاری کچھ گروہوں اور کچھ خاندانوں کے دائرہ اختیار میں ضرور چلی گئی ہے لیکن اس غیر مساوی تقسیم کار اور تقسیم زر کے باوجود ملک میں نہ خاطر خواہ صنعتی ترقی ہوئی، نہ زرعی پیداوار میں اضافہ۔ البتہ بیرونی نئی سامراجی طاقتوں نے ہمیں اور بھی اپنا مرہون منت بنا لیا۔
عوام کو اقتصادی لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام ذرائع پیداوار کو چند لوگوں کے ہاتھوں سے لے کر (جو پیدائش زر میں خود حصہ نہیں لیتے) ان وسائل کو تمام ملت کی بہبود کے لئے یکساں طور پر استعمال کیا جائے اس سلسلے میں جو واضح اصول وضع کئے جاسکتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ وہ ذرائع پیداوار جن سے صنعتی ترقی کی جڑیں وابستہ ہیں یا جن سے تمام بڑی چھوٹی صنعتیں منسلک ہوتی ہیں، ان کو چند ہاتھوں میں نہ رہنے دیا جائے بلکہ حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لے۔
۲۔ وہ تمام ذرائع پیداوار جن سے قومی اقتصادیات کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں‘ عوامی ملکیت ہونے چاہئیں۔
۳۔ زر مبادلہ کے تمام ذرائع اور ایجنسیاں مثلاً بینک، ایکسچینج اور انشورنس کمپنیاں حکومت کی ملکیت ہونی چاہئیں۔ مختصراً مندرجہ ذیل شعبوں کو قومی اختیار میں لینا ضروری ہے۔
۱۔ بینکاری
۲۔ انشورنس کمپنیاں
۳۔ تمام بڑی صنعتیں مثلاً (فولاد، لوہا، سیمنٹ)
۴۔ دیگر دھاتوں کی صنعتیں
۵۔ بھاری انجینئرنگ کی صنعت
۶۔ صنعت کاری کے لئے بڑی بڑی مشینیں اور پرزے
۷۔ کیمیکل فیکٹریاں اور پیٹروکیمیکل صنعتیں
۸۔ جہاز سازی
۹۔ اسلحہ سازی
۱۰۔ موٹر کار کی صنعت
۱۱۔ بجلی پیدا اور تقسیم کرنے کے سامان کی صنعتیں
۱۲۔ بجلی
۱۳۔ گیس
۱۴۔ تیل
۱۵۔ کوئلہ
آمدورفت کے تمام اہم ذرائع
۱۶۔ ریلوے
۱۷۔ جہاز رانی
۱۸۔ ائر ٹرانسپورٹ
۱۹۔ روڈ ٹرانسپورٹ
۲۰۔ تمام ذرائع مثلاً کان کنی، خام دھاتوں کو کیمیائی طریقوں سے بہتر بنانا۔
نجی سرمایہ کاری صرف اسی حد تک اپنا حصہ قومی اقتصادی زندگی میں ادا کرسکے گی جس حد تک ہماری معاشرتی ضروریات اس کی اجازت دیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ نجی سرمایہ کاری کی اجازت محض قابلیت، ہنرمندی اور جائز نفع رسانی کے اصولوں پر ہوگی نہ کہ بڑے خاندانوں کی سرپرستی اور نوکر شاہی کی ناجائز دھڑے بندیوں کی بنا پر۔ نجی سرمایہ کاری اسی صورت نفع بخش ہوسکتی ہے جب کہ محنت کش طبقہ اس کی نفع رسانی میں برابر کا شریک ہو۔
محنت کش طبقے میں صنعت وحرفت اور زراعت کے چھوٹے بڑے منصوبوں میں احساس شرکت پیدا کر کے ہی سوشلسٹ نظام میں معاشرے کے تمام افراد میں اتحاد، اتفاق، ہمت اور قوت کا احساس پیدا کیا جاسکتا ہے۔ بڑی بڑی صنعتوں کو قومیانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خاص طور پر خیال رکھا جانا چاہئے کہ کاشتکاروں اور مزدوروں اور دوسرے محنت کش لوگوں کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں مثلاً کام، تعلیم، صحت اور کھیل وغیرہ میں بہتر مواقع جلد سے جلد پیدا کئے جائیں۔ ہماری قومی زندگی کی ترقی کی پہلی منزل یہی امر قرار پانا چاہئے۔ اسی قدم کو اٹھا کر ہم عوام کے اتحاد سے اور نئی نسل کی امیدوں اور امنگوں کو ساتھ لے کر قومی زندگی میں صحیح معنوں میں انقلاب لاسکتے ہیں۔ وہ انقلاب جس سے ہماری زندگی کی مادی اور روحانی کامرانیاں وابستہ ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور۔ 1970 ء (اہم نکات)
تعارف
پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور باقی پارٹیوں کی طرح فر سودہ نہیں ہے۔ یہ عوام سے کیا گیا عہد و پیمان ہے کہ پارٹی، انتخابی یا غیر انتخابی ہر طریقے سے، اس میں دیئے گئے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کرے گی۔
I۔ بحران
وہ طبقات جو قوم کے خلاف کیے گئے اپنے جرائم سے بخوبی واقف ہیں اور وہ رد انقلابی سیاسی پارٹیاں جن کی نظریں ہمیشہ سے ماضی پر لگی ہیں، اب توجہ ہٹانے کے لیے خود کو ان تخیلاتی نظریات کا علمبردار کہلوا رہے ہیں جو ان کے خیال میں پاکستان کا حقیقی مقصد ہیں۔
دوسری جانب ہم بات کرتے ہیں عقل کی، انسانی علم کی جمع کردہ دولت کی، صدیوں پر محیط انسانی تخلیق کے نتیجے میں ایجاد ہونے والے طریقوں اور تکنیک کی تاکہ قوم کو ذلت سے نکال کر عظیم لوگوں کے شایان شان زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا جائے۔ قوم کو درپیش حقیقی مسائل سیاسی اور معاشی ہیں نہ کہ مذہبی کیونکہ استحصال کرنے والے اور استحصال زدہ دونو ں کا عقیدہ ایک ہے۔ ۔ ۔ دونوں مسلمان ہیں۔
بہت سی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عوام کی بربادی کا رجحان، مراعات یافتہ طبقات کی دولت میں اضافہ اور طفیلی ذاتی مفادات کا بڑھنا بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا۔ پچھلی تمام حکومتیں ان غلطیوں کے لیے لازماً قصور وار ہیں، لیکن جو کچھ انہوں نے کیا وہ اس کے بر خلاف نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ وہ طبقاتی اورذاتی مفادات کی نمائندہ تھیں۔ ان سے نظام کو بدلنے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ ان کی اپنی نشوونما کا انحصار اس پر تھا کہ اس نظام کو ترقی دے کران طبقات کے منافعوں کو بڑھایا جائے جن کے بل بوتے پر وہ حکومت میں ہیں۔
براہ راست نو آبادیاتی اقتدار نے پاکستان میں ا یک ایسا سیاسی اور سماجی نظام وراثت میں چھوڑا جسے جاگیر دارانہ، فوجی، بیوروکریٹک کہا جا سکتا ہے۔ تب سے آج تک ہونے والی تمام ترقی اس نظام کی ایک اپاہج سرمایہ دارانہ نظام میں تبدیلی کی ہے جو کہ سامراجی نو آبادیاتی حلقہ اثر میں موجود غیر ترقی یافتہ ممالک کا خاصہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر مغربی نو آبادیاتی طاقتوں نے امریکی رہنمائی میں استحصال کے طریقوں کو نئے حالات کے مطابق ڈھالا۔ محکوم عوام پر براہ راست حکومت ختم کر دی گئی مگر سابقہ نو آبادیاں معاشی، سیاسی اور فوجی مجبوریوں کی زنجیروں سے سابقہ حکمرانوں کے چنگل میں گرفتار رہیں۔
نئی سامراجی طاقتوں کے زیر اثر ہمارے حکمرانوں کے غلط اقدامات، ایک ا یسے معاشی نظام کے اپنانے جس میں عوام کوبلاروک ٹوک لو ٹنے کی اجازت ہو، چند افراد کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز، طاقت، روزگار اور دولت کے ذرائع کی بیوپاریوں، جاگیر داروں اور حکومت کی فوجی اور سول افسران کے طبقے کے درمیان بندر بانٹ، ان سب کی وجہ سے ملک بحران میں مبتلا ہو چکا ہے، جو کہ بڑے پیمانے کی تباہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ یاد رہے کہ سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی بیماری کی وجہ نہیں بلکہ صرف ایک علامت ہے؛بدعنوانی جو سماج کی پرتوں میں رچی بسی ہوئی ہے۔
بینکاری کی صنعت اور کاروباری شعبے کے مفادات کا تحفظ کرتے حکمران ٹولے کے پاس بجٹ فارمولوں اور ترقیاتی منصوبوں کا وہی پرانا جادوئی منتر پڑھنے کے سوا اس بحران سے نکلنے کا کوئی حل موجود نہیں۔ بڑھتی قیمتوں کے ساتھ محنت کش طبقہ، نچلا درمیانہ طبقہ اور لگی بندھی تنخواہوں والے تمام ملازمین تیزی سے بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کی آخری کوشش میں حکومت نے پاکستان کے غیر مراعات یافتہ عوام کو بڑے پیمانے پر لوٹنے کی اجازت دے دی ہے۔
یہ بحران ہمارے بوسیدہ نظام کی ہڈیوں میں سرایت کر چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا پروگرام اس نظام کو ہی ختم کر ڈالے گا اورذرائع پیداوار کو قومی تحویل میں لے لیا جائے گا جو کہ چند افراد کے ہاتھوں میںآ کر ذرائع استحصال بن چکے ہیں۔
آئین جو کہ صرف ساخت میں جمہوری ہواس ملک کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہو گاجب تک کہ اسکو اس طرح سے نہ بنایا گیا ہو کہ وہ معاشی اور سیاسی نظام میں تبدیلی کو نہ صرف ممکن بنائے بلکہ ضروری طور پر اسکا آغازبھی کرے۔ سرمایہ دار اور مالکان طبقات کے مفادات جب تک بے لگام ہیں تب تک آئین ایسا ہی ہو گا جو ان کی ضروریات کے عین مطابق بنایا جاتا رہے گا۔
حقیقی حل ایک سوشلسٹ پروگرام کے اپنانے ہی سے ممکن ہے، جیسا کہ اس منشور میں دیا گیا ہے کہ سارے پاکستان کی معیشت میں بنیادی تبدیلی لائی جائے جس سے استحصال کا خاتمہ ہو اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سرمایہ دارانہ مداخلت کے بغیر ملک کو ترقی دی جائے۔
دسمبر1967ء میں لاہور کنونشن کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اصولوں کا اعلان کیا۔ پارٹی کی پالیسی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو کہ ہمارے دور میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
چونکہ پارٹی کے بنیادی مقاصد کا حصول چھوٹی چھوٹی مفاہمتوں کے ذریعے نا ممکن ہے اور اس وقت تک جب تک سماج میں غیر منصفانہ نظام موجود ہے، پارٹی سمجھتی ہے کہ اصلاح پسند نعرے لگانا لوگوں کو جھوٹی امید دلا کر دھوکہ دینا ہے جبکہ ملک موجودہ اور مزید بربادیوں کی گہرائیوں میں گرتا جا رہا ہے اور آخر کار یاس کے عالم میں دھماکہ خیز تشدد سامنے آتا ہے۔
II۔ خارجہ پالیسی
پہلا قدم لازمی طور پر سامراج اورنئی نوآبادیاتی طاقتوں کے چنگل سے رہائی پانا ہے۔ پاکستان سامراج اور نئی سامراجی طاقتوں کے خلاف جدو جہد میں تمام محکوم لوگوں کی حمایت کرے گا، خاص طور پر ویتنام کے بہادر لوگوں کی جدو جہد کو جو کئی سال سے کامیابی کے ساتھ سامراج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم دوسری اقوام کے ساتھ مل کر ایشیا کی سر زمین کوامریکہ اوردوسری مغربی سامراجی طاقتوں کی افواج کے قبضے سے چھڑانے کی جدو جہد کریں گے۔
III۔ صنعتی اقدامات
تمام دولت انسانی محنت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں استحصال سرمایہ داروں کی ذرائع پیداوار پر ملکیت پر منحصر ہے۔ بڑی صنعتوں میں سرمایہ دار کسی طرح سے بھی قومی طور پر مفید کردار ادا نہیں کرتا، وہ صرف اپنا منافع لیتا ہے اور دوسروں کی محنت کا استحصال کرتا ہے، جبکہ اس کے کارخانوں کو تیکنیکی ماہرین چلا رہے ہوتے ہیں، اس کا مال اجرتی مزدوروں کی محنت سے بنتا ہے اور حتیٰ کہ کارخانے کا نظم و نسق بھی مالک نہیں چلاتا۔
تعلیم، صحت اور رہائش کی ضروری سہولیات اور عوامی ضروریات نظر انداز کی جا رہی ہیں کیونکہ پیداوار کی قدر زائد استحصالیوں کی جیبوں میں یا پھر انتظامیہ اور دفاع پر خرچ ہو رہا ہے اور اس لیے قوم کی عوامی فلاح و بہبود کے لیے بہت کم پیسہ بچتا ہے۔ یہ مسئلہ نظام کا نا گزیرجزو ہے۔ محصولات کا ہیر پھیر، چھوٹی چھوٹی اصلاحات، اخلاقی لفاظی نظام کو بچانے کے لیے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے ڈھونگ ہیں۔
IV۔ صنعت کو قومی تحویل میں لینا
سرکاری شعبے میں تمام بنیادی اور اہم صنعتیں ہوں گی۔
تمام بڑی صنعتیں قومی تحویل میں لی جائیں گی۔ اس کا مطلب ہو گا کہ ایک خاص پیداواری صلاحیت سے اوپرکے تمام کپڑے اور پٹ سن کے کارخانوں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے گا۔ نجی ملکیت میں یہ بے پناہ منافعوں، پیداوار کی نااہلی، وسائل کے ضیاع اور محنت کشوں کے نہ رکنے والے استحصال کا سر چشمہ بن چکی ہیں۔
سرکاری شعبے میں نہ صرف بجلی بلکہ توانائی کے باقی تمام ذرائع جیسے ایٹمی، گیس، تیل اور کوئلے کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہو گی۔
سرکاری شعبہ مکمل طور پر پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑے ذرائع کا مالک ہو گا جیسے ریلوے، بحری اور ہوائی جہاز۔ جہاں پر بھی اسے بڑے پیمانے پرچلانے کی ضرورت محسوس کی جائے گی سڑک کے ذریعے پبلک ٹرانسپورٹ خواہ مال یامسافر بردار کو بھی قومی تحویل میں لے لیا جائے گا۔ محنت کشوں اور ملازمین کے کے لیے ان کے گھروں سے کام کرنے کی جگہ تک آمدو رفت پر خصو صی توجہ دی جائے گی۔
V۔ اقتصادی اقدامات
مالیاتی اداروں کی نجی تحویل استحصال کا ماخذ ہے جو قومی دولت اور نجی کھاتوں کو استعمال کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ اجارہ داروں کو سرمایہ فراہم کرنے کے وسائل پیدا کرتی ہے۔ تمام بڑی صنعتیں کلی طور پر بینکوں سے قرضے لے کر کھڑی کی گئی ہیں جو کہ کھاتہ داروں کا پیسہ ہے۔ جب تک ریاست تمام بینکوں کو اپنی تحویل میں لے کر انہیں قومی ملکیت نہیں بناتی وہ افراطِ زر پر قابو نہیں پا سکتی۔
تمام بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو فوری طور پر قومی تحویل میں لے لیا جائے گا۔ ایک سوشلسٹ نظام کا قیام قدرتی طور پر ٹیکسوں کے نظام کی بنیاد تبدیل کر دے گاجو کہ سرمایہ دارانہ سماج کے لیے بنایا گیا ہے اور دولت کے مراعات یافتہ طبقات کے ہاتھوں میں ارتکاز کا باعث ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ٹیکس صرف سرکار کو پیسہ فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، لیکن یہ پیسہ صنعت، زراعت اور دوسرے شعبوں میں پیدا ہونے والی قدر زائد سے آنا چاہیے جن میں انسانی محنت اور کاوش صرف کی جاتی ہے۔
VI۔ زرعی اقدامات
خشک سالی اور سیلاب جیسی قدرتی اورطبعی مشکلات کے علاوہ جاگیر داری، مزارعت، زمین کی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم اور انتہائی مختصر پیمانے کی کاشت کاری جیسے ملکیتی رشتوں کے مسائل سے بھی نمٹنا پڑے گا۔
جاگیرداروں کی طاقت کے خاتمے کے لیے جاگیروں کی تقسیم ایک قومی ضرورت ہے جس کو سیاسی اقدامات سے عملی جامہ پہنانا پڑے گا، ملکیت کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنا اس کا صرف ایک حصہ ہے۔
زرعی مسائل سے نمٹنے کے لیے پارٹی کی پالیسی کو 1967ء میں منظور کردہ بنیادی اصولوں کے پروگرام میں وضع کیا گیا ہے۔ بنیادی اصولوں کے پروگرام کے آرٹیکل6 میں لکھا ہے:
’’پارٹی جاگیر داری کے خاتمے کے حق میں ہے اور سوشلزم کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں کسانوں کے مفادات کا تحفظ اور ان کی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی۔ ‘‘
VII۔ عوام کے حقوق
چونکہ بڑے پیمانے کی تمام صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا جائے گا اس لیے محنت کشوں کا صنعتی پیداوار کی حاصلات سے مستفید ہوناحقیقی طور پر ممکن ہو سکے گا۔ کارخانوں کے نظم ونسق کو چلانے میں مزدوروں اور تکنیکی ماہرین کی شمولیت کو بتدریج متعارف کروایا جائے گا۔
کارخانوں میں ملازمت کے لازمی حصے کے طور پر محنت کشوں کو رہائش سے کام کرنے کی جگہ تک کے مناسب ذرائع آمدورفت مہیا کیے جائیں گے۔ ان کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیوں کی سہولت دی جائے گی اور تفریحی کیمپ قائم کیے جائیں گے جہاں وہ اپنی چھٹیاں صحت افزا مقامات پر گزار سکیں۔ انہیں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے تکنیکی تربیت کا حق حاصل ہو گا۔ ہسپتال اور مفت طبی سہولیات کو محنت کشوں کے لیے فلاحی نظام کا حصہ بنایا جائے گا۔ تکنیکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف کو محنت کشوں کے بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات میں شامل کیا جائے گا۔ عمر رسیدہ افراد کے لیے پنشن کا نظام وضع کیا جائے گا اور معذور اور پنشن یافتہ محنت کشوں کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں گی۔
سوشلسٹ نظام کے تحت مقامی حکومتیں مناسب حجم کی شہری میونسپل کمیٹیوں اور شہری علاقوں پر مشتمل ہوں گی۔ دیہی علاقوں میں یہ ضلع کونسل سے ملتی جلتی ہوں گی۔
انتظامیہ کا موجودہ نظام نو آبادیاتی اقتدار سے ورثے میں ملا ہے جو کہ اپنے وقت کے لیے موزوں تھا۔ اگر ایمانداری سے بھی دیکھا جائے تو یہ نظام اس وقت تک ٹھیک کام کر رہا تھا جب تک اس کو باہر سے کنٹرول اور باہر سے اس پر نظر رکھی جا رہی تھی۔ اس میں کی جانے والی تمام تبدیلیاں ابھرتے ہوئے سرمایہ دارطبقے کی ضروریات اور ان گروہوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کی گئی ہیں جو حکومت اور انتظامیہ کے اندر طاقت رکھنے کی وجہ سے دولت جمع کر رہے تھے پھر انتظامیہ خود مالک بن بیٹھی۔ لیکن یہ صرف سرمایہ داروں کے ساتھ اتحاد سے ممکن تھا جو کہ استحصال کرنے کے لیے، مراعات لینے کے لیے بیتاب تھے۔
سوشلسٹ حکومت کو انتظامیہ کا ایک مختلف ڈھانچہ درکا رہو گا اور سوشلسٹ سماج اپنے قیام کے ساتھ ان ضروری ڈھانچوں کو خود ہی پیدا کر لے گا۔
پاکستان کے ہر شہری کو، بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہبی عقیدہ، مساوی سیاسی حقوق، قانون کا تحفظ، حکومتی عہدوں تک رسائی حاصل ہو گی اور روزگار کے لیے کسی بھی قسم کا تعصب نہیں ہو گا۔
VIII۔ تعلیم اور ثقافت
تعلیم کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کو نہ صرف اپنے گردوپیش میں موجود کائنات کا ادراک حاصل ہو بلکہ انہیں اسے بدلنے کے لیے تیار کیا جائے۔ انہیں سماجی تبدیلی اور تاریخ کے ناگزیر عمل کے کردار کو گہرائی میں سمجھنا پڑے گا۔
حقیقی غیر طبقاتی سماج کے قیام کے لیے لازمی ہے کہ علم کے متلاشی سماج کو کلی طور پر دائرہ نظر میں لائیں۔ ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے اس نظریے کو رد کرنا ہو گا کہ اعلیٰ تعلیم کو شعبوں کے اندر محدود کیا جائے۔ تعلیم کی تقسیم کے اس عمل سے سرمایہ دارانہ نظام کا مفاد وابستہ ہے کیونکہ یہ اہل علم کو سیاسی اور معاشی اقدار کے موجودہ نظام کی افادیت پر سوال اٹھانے سے روکتا ہے۔
یورنیورسٹیوں اور کالجوں کے نصاب پر بھر پور طریقے سے نظر ثانی کرنا ہو گی اور یورنیورسٹیوں کی سماجی زندگی سے علیحدگی کو ختم کرنا ہو گا۔ لازمی فوجی تربیت کے علاوہ جو کہ ثانوی سکولوں سے ہی شروع کر دی جائے گی، طلبا کو ایک مخصوص وقت فیکٹریوں، قصبوں اور کھیتوں میں قومی خدمت میں صرف کرنا پڑے گا۔
میٹرک تک تعلیم مفت ہو گی اور بنیادی تعلیم لازمی اور مفت ہو گی۔ ایک پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا جائے گا جس کے اختتام تک تمام ضروری سکول تعمیرکیے جائیں گے اور پرائمری اساتذہ کو تربیت دی جائے گی۔
تعلیمی اداروں سے سامراجی، نوآبادیاتی اور نو سامراجی اثرات کا خاتمہ کیا جانا لازمی ہے۔
ان طبقاتی مفادات کی طرف سے قوم کی آنکھوں پر علمی پٹی باندھی گئی ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے لوگ خود اپنے لیے سوچنے لگ پڑیں۔
IX۔ قومی صحت
درج ذیل اہداف کا حصول ممکن بنایا جائے گا:
1۔ پاکستان میں اوسط عمر کو33 سال سے بڑھا کر ایک نسل کے اندر60 سال کیا جانا۔
2۔ دس سال کے اندر 1 سے 5 سال تک کی عمر کے بچوں کی شرح اموات کو 35فیصدسے کم کر کے7.5فیصد تک لانا۔
3۔ دس سال کے اندر ٹی بی، ہیضہ، چیچک، ٹائیفائڈ، ٹائفس، ملیریا، باؤلا پن اور جذام جیسی بیماریوں کا مکمل خا تمہ۔
صحت کے پروگرام میں ہسپتالوں کا قیام اور ان کی بہتری، شہروں اور دیہات میں صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کے اقدامات، زیادہ سے زیادہ ضروری ادویات کی اندورن ملک تیاری، سکول کے بچوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی اور جہاں غذائی کمی ہو وہاں سکولوں میں متوازن خوراک کی فراہمی شامل ہوں گی۔
X۔ قومی دفاع
ملک کے تمام علاقوں میں ایک ’’عوامی فوج‘‘کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس سے جغرافیائی طور پر دفاع میں مضبوطی کی کمی کا مسئلہ حل ہو گا۔
عوامی فوج کا وجود بیرونی جارحیت کے خلاف بہترین ہتھیار ہے۔
XI۔ آئین
آئین کا قانونی ڈھانچہ ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتا جب وہ حکمران طبقے کے مفادات کے لیے بنایا جائے۔ کو ئی بھی آئین خواہ وہ جمہوری بھی ہو، حقیقتاً اس وقت تک بے کار ہوتا ہے جب تک وہ ترقی کے لیے سازگار حالات کو پروان نہیں چڑھاتا اور اس کے لیے ضروری اداروں کو قائم نہیں کرتا۔
موجودہ انتخابی نظام ملکیت والے طبقات کو پارلیمان میں بالادستی دینے کا نہایت کارگر طریقہ ہے۔ انتخاب لڑنے کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں کوئی بھی غریب امیدوار برداشت نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کو نجی اثاثوں سے مالامال امیرسرپرستوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔
انتخابی نظام میں ایسی اصلاحات کی جائیں گی کہ سیاسی پروگرام کو اہمیت حاصل ہو۔ انفرادی امیدوار کی بجائے پارٹی لسٹوں کے لیے ووٹ کے نظام کے قیام سے یہ ممکن بنایا جائے گا۔
اس نظام میں یہ سیاسی جماعتوں پر منحصرہو گا کہ وہ کس طرح سے اپنے امیدواران کو کس فوقیت سے اپنی لسٹ میں رکھتی ہیں۔ اگر شروع میں صرف امیر آدمی ہوں گے یا کسی مخصوص طبقے کے افراد تو ووٹران کو یکدم معلوم ہو جائے گا کہ وہ پارٹی دراصل کن طبقاتی مفادات کی نمائندگی کر رہی ہے، اس کا شائع کردہ پروگرام بھلے جو بھی ہو۔
نتیجہ
پارٹی سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچوں میں ایک انقلابی تبدیلی کا منصوبہ پیش کر رہی ہے۔ پاکستان کے عوام اور صرف پاکستان کے عوام ہی اس انقلاب کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اس لیے پارٹی کا نعرہ ہے: طاقت کا سر چشمہ عوام!