| تحریر: لال خان |
سماجی سائنس کا قانون ہے کہ جب بھی کوئی معاشرہ تغیر سے محروم ہوجاتا ہے تو تاریخ کی حرکت بظاہر رک سی جاتی ہے۔ سماجی تضادات کا دباؤ تو بہرحال موجود رہتا ہے۔ اس کی طاقت معاشرتی انجن کوآگے نہیں بڑھا پاتی تو پھر یہ اوپر نیچے اور دائیں بائیں تمام اطراف میں زور لگاتی ہے۔ لیکن جمود کی کیفیت میں معاشرے کی عمومی نفسیات میں جنم لینے والی بے بسی اور یاس سے رجعتی رجحانات کے تسلط کی راہیں استوار ہوتی ہیں۔
پچھلے تین سو سال سے رائج سرمایہ دارانہ نظام کے آقاؤں کو اس نظام کے خمیر میں موجود معاشی بحرانات اور نتیجتاً جنم لینے والے سماجی خلفشار کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ ان کے پاس اس نظام کے خلاف ابھرنے والے انقلابات کو کچلنے کے جو بھی حربے تھے وہ بھرپور استعمال میں لائے گئے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انکے یہ حربے ہمیشہ کارگر نہیں رہے اور کئی بار سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے والے انقلابات فتح مند ہوئے۔ پچھلی صدی میں شرح منافع میں آنے والی گراوٹ کو روکنے، منڈیوں پر اجارہ داری اور وسائل کی لوٹ مار کے لئے سامراجی قوتوں نے ایک دوسرے سے دو عالمی جنگیں لڑیں۔ 1914ء میں شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ کی بنیاد بھی یہ معاشی اور مالیاتی بحران تھا۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ کی وسیع بربادی اور پھر تعمیرنو میں اسلحہ سازی سمیت بے شمار صنعتوں میں سرمایہ داروں کو بلند شرح منافع ملی جس کی وجہ سے جنگ کے بعد بالخصوص یورپ اور امریکہ میں سرمایہ داری کو تین دہائیوں کا استحکام ملا اور انقلابات کو زائل کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر محنت کش عوام کو سہولیات اور مراعات دی گئیں۔ لیکن چونکہ یہ نظام تاریخی متروک ہوچکا ہے اس لیے 1974ء میں یہ معاشی ابھار اختتام پزیر ہوا جس کے بعد کبھی بھی مستحکم بنیادوں پر صنعتی ممالک میں بھی ترقی حاصل نہیں کی جاسکی۔ 2008ء میں سرمایہ دارانہ معیشت کا نامیاتی بحران دھماکہ خیز انداز میں پھٹا اور 1929ء کے گریٹ ڈپریشن سے مماثلت رکھنے والے عالمی معاشی بحران کا آغاز ہوا۔
آج کے عہد میں معاشی بحران سے نکلنے کے لئے بڑی جنگ کا طریقہ کار بھی سرمایہ داری کے لئے معدوم ہو گیا ہے۔ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس نے منافعوں کی ہوس میں اتنے زیادہ تباہ کن جوہری اور روایتی جنگی آلات بنا لئے ہیں جن کو زیادہ تر فروخت ہی کیا جاسکتا ہے، استعمال نہیں۔ اگر ان بربادی کے آلات کی ضرورت کو میڈیا اور دوسرے ذرائع سے مسلسل پرچار کرکے مصنوعی طور پر تشکیل نہ دیا جائے تو پھر اسلحہ سازی کی صنعت ہی منہدم ہو سکتی ہے۔ آج دنیا میں فوجی اور معاشی توازن اس طرح کا ہوگیا ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے پیمانے پر ایک نئی تیسری عالمی جنگ حکمرانوں کے لیے مکمل تباہی کا باعث ہو گی۔ ایسی صورتحال میں بڑی اور کھلی جنگوں کی بجائے پراکسی وارز اور خانہ جنگیوں کے ذریعے اسلحہ سازی کی صنعت کے منافعے برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں جب کوئی نظام تاریخی طور پر اقتصادی زوال کا شکار ہوجاتا ہے تو اس پر قائم ریاست اور سامراجی سلطنت کے پاس وہ مالی وسائل ہی نہیں بچتے جن سے جنگی اخراجات (جو دراصل ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی منافع خوری کا دوسرا نام ہے) کو پورا کیا جا سکے۔ اس عمل کے دو شواہد ہمارے سامنے ہیں۔ ’لاک ہیڈ مارٹن‘ سے لے کر ’ایپل‘ تک، درجنوں ایسی امریکی کمپنیاں ہیں جو امریکی ریاست سے کہیں زیادہ دولتمند ہیں۔ دوسری جانب ان ہی کارپوریٹ اجارہ داریوں کی لوٹ مار کے لئے شروع کی گئی جنگوں کے اخراجات نے امریکہ کو دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بنا دیا ہے۔ یہ سامراجی ریاست مالیاتی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی ہے اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عسکری طاقت ہونے کے باوجود مفلوج اور بے بس ہے۔
اگر سامراجی ممالک آپس میں تیسری عالمی جنگ نہیں لڑ سکتے تو انہوں نے ہر طرف کوئی نہ کوئی خانہ جنگی یا پراکسی وار شروع کروا رکھی ہے۔ جب 2001ء میں افغانستان پر جارحیت اور قبضہ کیا گیا تو جارج بش کی رعونت کے کیا انداز تھے! باراک اوباما کی تمام تر جعلی ’’نرمی‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ کے نعروں کے باوجود اس نے جارج بش کی پالیسیوں کو ہی جاری رکھا۔ لیکن افغانستان،عراق، لیبیا میں براہِ راست سامراجی جارحیت اور شام سے لے کر فلسطین تک ہونے والی بربادی سے امریکی سامراج طاقتور نہیں کمزور ہوا ہے۔ نہ صرف سفارتی محاذپر وہ ناکام ہے بلکہ جنگی میدان میں بھی ذلت آمیز شکستوں سے دو چار ہے۔ اوباما اب امریکی سرمایہ داری کے تیز زوال کے پیش نظر اس ساری غلاظت کو سمیٹنے کی کوشش کررہا ہے۔ مختلف حیلے بہانوں سے کی جانے والی پسپائی سے امریکی حکمران طبقے میں شدید اضطراب اور پراگندگی پیدا ہوئی ہے۔ افغانستان اور عراق کو سرمایہ دارانہ ’’جمہوریت‘‘ اور ’’آزادی‘‘ نے صرف ذلت اور بربادی ہی دی ہے۔ لیکن اس کو تاراج کرنے والے بھی خود اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ عرا ق میں داعش کا مختلف علاقوں پر قبضہ سامراجی پالیسیوں کے عبرتناک انجام کی غمازی کررہا ہے۔
افغانستان میں 1978ء کا ثور سوشلسٹ انقلاب صدیوں بعد یہاں کے پسماندگی میں غرق عوام کے لئے امید کی کرن بنا تھا۔ انقلابی حکومت نے سرمایہ داری اور جاگیر داری کو ختم کرتے ہوئے ریڈیکل اصلاحات کیں۔ مفلوک الحال بے زمین کسانوں میں زمینیں تقسیم کی گئیں، علاج اور تعلیم کو مفت قرار دیا گیا، خواتین پر جبر کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے، سود خورخوانین کی جکڑ کو توڑا گیا، صنعتکاری کا آغاز کیا گیا۔ لیکن یہ سامراج کو برداشت نہ تھا کہ کیونکہ اس سے خطے کے دوسرے ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی لوٹ مار کو خطرہ لاحق ہورہا تھا۔ ان ممالک میں عیاں ہو رہا تھا کہ اگر افغانستان جیسے انتہائی پسماندہ ملک میں سرمایہ داری کے خاتمے سے عوام کو خوشحالی نصیب ہوسکتی ہے تو پھر ان کے ممالک میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ چنانچہ ثور انقلاب کو کچلنے کا سب سے فعال آلہ کار اسلامی بنیاد پرستی بنی۔ سی آئی اے نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا پوشیدہ ’آپریشن سائیکلون‘شروع کروایا جس کے تحت ’’مجاہدین‘‘ پیدا کئے گئے اور انہیں وحشت میں ماہر بنا کر ڈالر جہاد کا آغاز کیا گیا۔
آج پاکستان، افغانستان اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں خونخوار بنیاد پرستوں کی وحشت 1980ء کی دہائی کے اسی ڈالر جہاد کا تسلسل اور ناگزیر نتیجہ ہے۔ آج وہی ’’مجاہدین‘‘ کہیں طالبان ہیں تو کہیں داعش اور بوکو حرام۔ امریکی سامراج کا اپنا کھیل اس کے قابو سے باہر ہے۔ کہیں کالے دھن پر پلنے والے ان گروہوں سے ’’مذاکرات‘‘ ہو رہے ہیں اور کہیں یہ آپس میں ہی برسرپیکار ہیں۔ ان کے جنون اور درندگی کے آگے اکثر اوقات ریاستیں بھی ہیچ نظر آتی ہیں۔ لیکن جہاں امریکی سامراج دم دبا کر بھاگنے کی کوشش کررہا ہے وہاں اسکی اپنی شروع کی ہوئی آگ اور خون کی ہولی اسے واپس کھینچ لاتی ہے۔ قندوز پر’’طالبان‘‘ کا قبضہ یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ کرائے کی افغان فوج جنگ میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی اور وہ جلد ہی بھگوڑے ہو کر ان قوتوں کے پیادے بن جاتے ہیں جو زیادہ مال دیتے ہوں۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں کوان کے نظام کی خستہ حالی سے جہاں دوسری مہلک ضربیں لگی ہیں وہاں ان کے لئے المیہ یہ بھی ہے کہ وطن پرستی اور مذہبی تعصبات ابھار کر بھی وہ فوجوں میں لڑنے کا جذبہ نہیں ابھار پا رہے ہیں۔ نپولین نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ کسی بھی جنگ میں کامیابی کا 9/10 دارومدار حوصلے پر ہوتا ہے، جب جذبے نہ رہیں تو حوصلہ پھر ٹوٹ جاتا ہے۔ عراق کے بعد افغانستان میں بھی امریکہ کی تخلیق کردہ مصنوعی فوج کا حشر برا ہی ہو گا۔ ہر شعبے کی طرح جنگ کی بھی ’’نجکاری‘‘ ہوجائے تو پھر اس میں لڑنے اور مرنے کو بھلا کون تیار ہوتا ہے۔ فوج کے سپاہی ہر جگہ پر غریب اور محنت کش گھرانوں سے ہی بھرتی کیے جاتے ہیں۔ حالات ان پر آشکار کر ہی دیتے ہیں کہ قوم اور مذہب کے نام پر انہیں سرمائے کی جنگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔ انقلاب کے غیر معمولی ادوار میں یہی سپاہی طبقاتی جنگ میں اپنے محنت کش طبقے کے ساتھ صف آرا ہوتے ہیں اور بندوقوں کے رخ مڑ جایا کرتے ہیں!