[تحریر: لال خان]
آئی ایم ایف نے مملکت خدادا کی حالیہ حکومت کو ’’مشورہ‘‘ دیا ہے عوامی اخراجات میں مزید کٹوتیاں کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ جبکہ پنشن میں کمی کی جائے تاکہ مالیاتی خسارے میں کمی لائی جاسکے۔ آئی ایم ایف کے اس حکم نامے سے ایک دن قبل یہ خبر منظر عام پر آئی تھی کہ حکومت نے مختلف سامراجی اجارہ داریوں اور اپنے حواری سرمایہ داروں کو ٹیکسوں اور کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 479 ارب روپے کی چھوٹ دی ہے۔ ٹیکسوں میں چھوٹ ہو یا سرکاری بینکوں سے لئے گئے قرضوں کی معافی، سرمایہ کاری کے لئے ’’ساز گارماحول‘‘ پیدا کرنے کے نام پر ہر سال سینکڑوں ارب روپے سر عام بڑے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر نچھاور کئے جاتے ہیں۔ اس ڈاکہ زنی کو حکمرانوں کے دانش وروں سے لے کارپوریٹ میڈیا اور سامراجی مالیاتی ادارے، سب ’’سراہتے‘‘ ہیں لیکن پنشنوں کی مد میں خرچ ہونے والے 171 ارب روپے، جس سے لاکھوں گھروں کے چولہے جلتے ہیں، ملک کی معیشت کے لئے ’’خطرہ‘‘ بن گئے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود پر ہونے والے اخراجات میں اضافہ تو دور کی بات موجودہ حکومت رہی سہی سہولیات بھی چھین رہی ہے۔ نجی شعبے میں تو مستقل ملازمت، پنشن اور ریٹائرمنٹ کا رواج ویسے ہی ختم ہوگیا ہے۔ سرکاری اداروں میں بھی نئے ملازمین کنٹریکٹ اور ٹھیکہ داری نظام کے تحت بھرتی کئے جارہے۔ بچی کھچی مستقل ملازمتیں ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مستقل ملازمین کی اجرتوں اور پنشن میں بھی کٹوتیاں کرنے کے لئے پر تولے جارہے ہیں۔
کچھ ہفتے پہلے سپریم کورٹ کے ایک جج نے حکومت کو چیلنج دیا تھا کہ سرکاری طور پر مقرر کردہ کم سے کم 9000 روپے کی اجرت میں چھوٹے سے چھوٹے خاندان کا ماہانہ بجٹ بنا کر دکھایا جائے۔ حالات اگر اتنے سنگین نہ ہوتے تو چیلنج بہت مضحکہ خیز تھا۔ نو ہزار روپے میں ایک خاندان تو دور کی بات ایک شخص بھی گزارہ نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ تو سرکاری طور پر مقرر کردہ اجرت ہے۔ اس ملک کے اکثریتی محنت کشوں کو یہ اجرت تو کیا اس کا نصف بھی میسر نہیں ہے۔ اس ملک میں اگر کوئی چیز سستی ہے تو وہ انسان کی محنت اور زندگی ہے۔ پاکستان کے ریاستی معیشت دان آئی ایم ایف کے اشاروں پر اسے مزید سستا کرنے میں سرگرم ہیں۔ موجودہ حکومت کی تمام ترمعاشی پالیسیوں کا حتمی مقصد یہی ہے کیونکہ سستی محنت شرح منافع میں اضافے کی بنیادی شرط ہے۔ لوگ بھوک سے مریں یا خاندان سمیت خودکشیاں کریں، حکمرانوں اور ان کے سامراجی آقاؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس ملک میں جہاں ہر روز 1184 بچے غربت، غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں وہاں ادویات، علاج اور مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے بزرگوں کی اموات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ادویات مہنگی ہوتی جارہی ہیں جبکہ علاج نجکاری کی بھینٹ چڑھ کر عوام کی پہنچ سے دور ہورہا ہے۔ اکتوبر 2013ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بزرگوں کے لئے بدترین ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ سروے میں کل 91 ممالک کو شامل کیا گیا تھا اور نتائج کے مطابق پاکستان میں بزرگوں کی آمدن، علاج کی سہولیات اور مجموعی معیار زندگی بھارت، سری لنکا اور نیپال سے بدتر ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کے 6.5 فیصد حصے کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے۔ مسئلہ صرف ان بزرگوں کی وقت سے پہلے موت کا نہیں ہے بلکہ اس ملک میں ادھیڑ عمر افراد کی اکثریت تو موت کو زندگی کی اذیتوں سے چھٹکارے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ جہاں بچوں اور نوجوانوں کے لئے زندگی ایک عذاب مسلسل بن جائے وہاں بے سہارا اور لاچار بزرگوں کے کرب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ زندگی بھر استحصال اور غربت کا شکار رہنے والے ان افراد کو بڑھاپے میں بھی کوئی سکون اور آسودگی نہیں مل پاتی، الٹا مشکلات اور ذلتوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
معاشی محرومی صرف انسان کے مادی وجود اور جسم کو گھائل نہیں کرتی بلکہ روح اور احساس کو مجروح کر کے رکھ دیتی ہے۔ ایسے حالات میں جب انسان کے لئے اپنی روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوجائے وہاں بھلا رشتہ داروں اور عزیزوں کا خیال کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ اس معاشرے میں جہاں نوجوان کبھی بزرگوں سے شفقت کے طلبگار ہوا کرتے تھے آج انہیں روٹی دینے سے بھی قاصر ہوچکے ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور معاشی عدم تحفظ نے انسان کا خون سفید کر دیا ہے۔ سرمائے کے اس نظام نے ہر انسانی رشتے کو ایک بوجھ بنا دیا ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ اس خطے میں پائی جانے والی خاندان کی اجتماعی شکل رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہے۔ خاندان کاپرانا ڈھانچہ ٹوٹ کر بکھر رہا ہے لیکن بچوں کی پرورش اور بزرگوں کی دیکھ بھال کے لئے کوئی متبادل نظام سرے سے قائم ہی نہیں ہوا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی ’’جدیدیت‘‘کا حقیقی کردار ہے جس نے احساس بیگانگی کو بڑھا کے ہر رشتے اور جذبے میں پیسے کا زہر گھول دیا ہے۔ قلت اور محرومی سے ناگزیر طور پر مقابلہ بازی، حسد اور کینا جنم لیتا ہے۔ نتیجتاً قدورتیں اور فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ایک گھر میں رہنے والے دو انسان بھی ایک دوسرے سے کٹ کے رہ جاتے ہیں۔
ٹیلیوژن پر چلنے والے ساس بہو کے ڈرامے تلخ حقائق کوگلیمر اور کمرشلائزیشن کے لئے انتہائی بھدے اور سطحی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ گرتے ہوئے فنی و ثقافتی معیار کا نمونہ پیش کرنے والے ان ڈراموں کی قباحت یہ ہے کہ ان میں اجتماعی سماجی و معاشرتی مسائل کو انفرادی اور ذاتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس سے اس نظام کی بوسیدہ معاشی و سماجی بنیادوں کے خلاف جدوجہد کا عمل سبوتاژ ہوتاہے۔ خاندان کے داخلی تنازعات آخری تجزئیے میں دولت کی تفریق اور تقسیم سے جنم لیتے ہیں۔ ساس بہو کے درمیان بیٹے اور شوہر کو اپنی ملکیت بنانے کی لڑائی دراصل خاندان کی مالیاتی بنیاد پر تسلط قائم رکھنے کی کوشش کا اظہار ہے۔ پیسے اور جائیداد کی بنیاد پر جنم لینے والے یہی خاندانی تضادات بزرگوں کو بار بنا دیتے ہیں۔ جوں جوں معاشی حالات سخت ہوتے جاتے ہیں اس بوجھ کا وزن بھی زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے۔
بزرگوں کی خدمت اسی وقت کی جاسکتی ہے جب اس فریضے کو نبھانے کے مادی وسائل میسر ہوں۔ بزرگ اور نوجوان نسل ایک دوسرے سے کئی امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ لیکن جب پورا معاشرہ قلت اور محرومی کی دلدل میں دھنسا جارہا ہو تو ان امیدوں پر پورا اترنا مشکل اور بعض صورتوں میں ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے میں کبھی والدین بچوں کو گھر سے نکال دیتے ہیں تو کبھی بچے اپنے بزرگوں کے لئے جگہ تنگ کردیتے ہیں۔ یہ بزرگ دربدر کی ٹھوکریں کھاکر بھیک مانگنے اور ہر انسان سے احسان کی منتیں کرتے کرتے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مفلسی کی ذلت میں اپنی جان دے دیتے ہیں۔
اس ملک میں خاندانی رشتے تو مغرب زدہ ہورہے ہیں لیکن اس کے مضمرات سے نمٹنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی ریاستوں نے سرمایہ داری کی ذلتوں کا مصنوعی اور سطحی علاج کرنے کی کئی کوششیں کی ہیں۔ وہاں بے گھر بزرگوں کو پناہ دینے والے’’ اولڈ پیپلز ہومز‘‘موجود ہیں۔ اگرچہ بڑھتے ہوئے معاشی بحران کی وجہ سے یہ ادارے اب مغرب میں بھی خطرے میں ہیں لیکن یہاں تو ایسا کوئی نظام کبھی قائم ہی نہیں کیا گیا۔ جو ریاست پینشن جیسے بوڑھی عمر کے واحد مالی سہارے کو ختم کرنے کی تیاری کررہی ہو وہ بزرگوں کی پناہ گاہیں بھلا کیسے تعمیر کر سکتی ہے؟
اس صورتحال میں خیراتی اداروں کا ڈھونگ بھی جاری ہے۔ خیرات کے ذریعے سے دنیا کی تاریخ میں نہ کوئی سماجی مسئلہ کبھی حل ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ جس نظام نے معمر افراد کی خدمت اور دیکھ بھال کے وسائل چھین کرمحنت کش عوام کی اکثریت کو پتھر دل ہونے پر مجبور کردیا ہو وہاں دن رات انسان کا خون چوسنے والے سرمایہ داروں کو غریب طبقے کے بزرگوں سے بھلا کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟ اگر کوئی سرمایہ دار خیرات کی مد میں چند ٹکڑے بھوکی انسانیت کی طرف پھینکتا بھی ہے تو بدلے میں لا متناہی تشہیر، احسان مندی اور محکومی کا معاوضہ طلب کرتا ہے۔ استحصالی نظام کا نفسیاتی غلبہ قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ اپنی ’’نیک نامی‘‘ کا پرچار مسلسل کرتا رہے۔ یہی اس نظام کی اخلاقیات ہے جس نے انسانی سماج کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے جہاں جینا تو درکنار مرنا بھی مشکل ہوگیا ہے!