سالمیت کا سراب

[تحریر: لال خان]
ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد دائیں بازو اور مذہبی بنیاد پرست سیاسی پارٹیوں کو ایک بار پھر ملکی سالمیت کا بخار چڑھ گیا ہے۔ نہ صرف امریکی سامراج کو آنکھیں دکھائی جارہی ہیں بلکہ نیٹو سپلائی لائن بند کرنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ یہ افواہ شدت سے گردش کر رہی ہے کہ جب حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ کیا گیا اس لمحے وہ پاکستان کے کسی سینئر جرنیل سے موبائل فون پر گفتگو کر رہا تھا۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ پاک فوج نے ابھی تک شمالی وزیرستان پر آپریشن کرنے سے گریزاں ہے؟ درحقیقت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کی اتحادی امریکی اور پاکستان ریاستیں داخلی طور پر خود شدید تضادات، تنازعات اور تقسیم کا شکار ہیں۔ عمران خان کی تمام بڑھک بازی کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں نہ صرف پختونخواہ حکومت کی سرے سے کوئی رٹ موجود نہیں ہے بلکہ تاریخی طور پر پاکستانی ریاست کبھی بھی ان علاقوں کو اپنے کنٹرول میں نہیں لاسکی ہے۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ سامراجی مالیاتی اداروں کے آگے کاسے اٹھائے بھیک مانگنے والے یہ شاہی فقیر اب ان سامراجی قوتوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں جن کے بینکوں میں ان کی تمام تر ’’جمع پونجی‘‘ پڑی ہے اور جہاں انہوں نے پاکستانی عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر کے اساسوں اور جائیدادوں کے انبار لگا رکھے ہیں۔ پاکستان کی سالمیت اور خود مختیاری کے ان ٹھیکیدار وں کواس ملک کی معیشت اور سیاست پر اتنا اعتبار بھی نہیں ہے کہ اقتدار میں رہ کر بھی اپنی دولت کو یہاں محفوظ سمجھ سکیں۔ پرانی کہانیوں میں دیو کی جان کسی طوطے میں ہواکرتی تھی۔ پاکستان حکمرانوں کی جان فرینکفرٹ، زیورچ، نیویارک اور لندن کے بینکوں کی تجوریوں میں ہے۔ سامراجی آقاؤں کو اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے اور وہ بدعنوانی، استحصال اور کرپشن سے حاصل کردہ دولت کو اپنے بینکوں میں تحفظ دے کر پاکستانی حکمرانوں کی زندگی موت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ نواز حکومت کے اس بیان کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ امریکی ڈرون حملوں پر ظاہری احتجاج اور خفیہ اتفاق کی پالیسی ترک کر دی گئی ہے۔ ایسی بیان بازی دراصل چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف ہے۔ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایک طرف ڈروں حملے اور سامراجی استحصال جاری ہے تو دوسری طرف پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر یو ایس ایڈ کے اشتہاروں کی بھرمار ہے۔
جو حکمران اپنی سر درد کا علاج بھی سامراجی ممالک کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں کرواتے ہوں وہ اس ملک کے عوام علاج کی سہولیات کیسے فراہم کر سکتے ہیں؟ جن کے اپنے بچے یورپ اور امریکہ میں پڑھتے ہوں وہ غریبوں کے بچوں کو تعلیم کا حق کیسے دلوا سکتے ہیں؟ ان حکمرانوں کی بیگمات شاپنگ کے لئے اپنے نجی جیٹ طیاروں میں ہر صبح دبئی جاتی ہیں اور شام کو خریداری کے انبار لئے اپنے پاکستانی محلات میں واپس لوٹتی ہیں۔ دوسری طرف یہاں کی اکثریتی آبادی کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس ملک کے حکمرانوں اور عوام کی زندگیوں میں اتنا فرق ہے کہ حکمران کسی اور سیارے کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔ یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ امیر کسی اور پاکستان میں رہتے ہیں اور غریبوں کا پاکستان کوئی اور ہے۔ ان دونوں طبقات کے مفادات متضاد اور اقدار مختلف ہیں۔ بعض اوقات جوش خطابت میں حکمرانوں کے منہ سے بھی سچ نکل جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک فوجی دن کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے شہباز شریف یہ فرما گئے تھے کہ ’’اس ملک میں دو قومیں بستی ہیں۔ ایک غریبوں کی قوم ہے اور دوسری امیروں کی قوم ہے۔ ‘‘ تقاریر میں ’’جوش خطاب‘‘کے دوران دئیے گئے اپنے دوسرے بیانات کی طرح اس والے پر بھی چھوٹے میاں صاحب بعد میں پشیمان تو ہوئے ہوں گے لیکن اتنا بڑا سچ بولنے کے لئے وہ بہرحال داد کے مستحق ہیں۔
مذہبی بنیاد پرستوں کے لئے ڈرون حملوں سے زیادہ اچھی خبر کوئی نہیں ہوسکتی۔ ان کی تمام تر سیاست آج کل ڈرون حملوں کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی موت بھی کالے دھن کی معیشت پر پلنے والے بنیاد پرست عناصر کے لئے اپنا کاروبار چمکانے کا سنہرا موقع ہے۔ ’’امت مسلمہ‘‘ اور ’’اسلامی مملکت‘‘ کی نعرہ بازی کرنے والے ان مذہبی بنیاد پرست سیاستدان اور دانش وروں پر یہ حقیقت شاید ابھی تک آشکار نہیں ہوپائی ہے کہ پاکستان تاریخ کی سب سے زیادہ خون ریز فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے۔ فرقے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ہر فرقے کا ملا دوسرے فرقے کو کافر اور قابل گردن زنی قرار دے رہا ہے۔ گلی محلوں کی دیواروں پر کفر کے فتوے لکھنے کے لئے جگہ کم پڑ چکی ہے۔ قوم پرست سیاستدان دوسری قوموں کے خلاف نفرت اور دشمنی کے جذبات ابھارکر سیاست چمکاتے ہیں تو مذہبی ملا کی تمام تر سیاست اس ڈیڑھ اینٹ کی مسجد پر مشتمل ہوتی ہے جس کے باہر سب کافر ہیں۔ یہ قدورتیں، یہ عناد، یہ نفرتیں کراچی سے لے کر پشاور تک اپنا اظہار ملکی تاریخ کی بدترین قتل و غارت گری اور خونریزی کی شکل میں کر رہی ہیں۔ جہاں یہ خونی تضادات اور فرقہ وارانہ فسادات اس ملک کی سماجی بنیادوں میں زیادہ گہری دراڑیں ڈالتے چلے جارہے ہیں وہاں حکمران عوام کو ان تنازعات اور لڑائیوں میں الجھا کر تقسیم در تقسیم کے ذریعے محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ جب تک محنت کش آپس میں دست و گریبان رہیں گے حکمرانوں کا اقتدار قائم رہے گا اور وہ اپنی تجوریاں بھرتے رہیں گے چاہے پورا سماج ہی بربریت کی گہری کھائیوں میں غرق ہوجائے۔
حکمران طبقات ذرائع ابلاغ اور ریاست کے دوسرے اداروں کے ذریعے عوام کو مسلسل قوم، قومی سلامتی، خود مختیاری اور ملکی سالمیت جیسی اصطلاحات کے ذریعے گمراہ یا کنفیوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے لئے ’’قوم‘‘ سے مراد حکمران طبقہ ہوتا ہے اور تمام تر ’’قومی مفادات‘‘ اسی بالادست طبقے کے مفادات ہوتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات پچھلے 66سالوں میں ایک یکجا قوم اور جدید قومی ریاست کی تشکیل میں ناکام رہے ہیں۔ آج بھی پختونخواہ، سندھ، بلوچستان، کشمیر اور کئی دوسرے خطوں میں قومی محرومی کا احساس شدت سے موجود ہے۔ یہ قومی سوال سلگ سلگ کر ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے جو بھرنے کی بجائے گہرا ہوتا چلا جارہا ہے۔ محنت کش عوام کو عذابوں، غربت، استحصال اور بیروزگاری کے عذابوں میں ڈال کر ’’قومی وقار‘‘ اور ’’ملکی سلامتی‘‘ کے بھاشن دینا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
یہ درست ہے کہ امریکی سامراج کو چھوٹی اور غیر ترقی یافتہ قوموں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونا پڑا ہے۔ حالیہ تاریخ کی سب سے عبرتناک شکست سامراجیوں کو ویت نام میں ہوئی تھی لیکن شہبار شریف کے الفاظ میں وہاں ’’غریبوں کی قوم‘‘ سامراج کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کی طرح ویت نام کے حکمران طبقات امریکی سامراج کے گماشتے تھے جنہیں امریکہ نے جنوبی ویت نام میں الگ ریاست بنا کر دے رکھی تھی۔ ویت کانگ گوریلا فوج محنت کشوں اور استحصال زدہ طبقات کے انقلابی نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ ویت نام میں امریکی سامراج کی شکست میں امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں نے بھی فیصلہ کن کردار کیا تھا اور 1968ء میں واشنگٹن، نیویارک، شکاگو، سان فرانسسکو اور دوسرے شہروں میں جنگ مخالف احتجاجی مظاہروں کی صورت میں عظیم عوام تحریک برپا کی تھی۔
اگر ہم اُس دور کی امریکی اور برطانوی سفارتی دستاویزات کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک سے سامراج بہت خوفزدہ تھا۔ جائیداد اور ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کرنے والی اس تحریک سے سامراجی اساسوں، سرمائے، مفادات اور استحصال کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ آج پاکستان کے عوام حکمرانوں کے ’’سالمیت بھرے درس‘‘ سن کر سامراج دشمن تحریک برپا نہیں کریں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکمرانوں کی ’’ملکی سالمیت‘‘ ایک دھوکہ، فریب اور سراب ہے۔ پاکستان کے محنت کش عوام جب طبقاتی بنیادوں پر سامراجی جبرکے خلاف اٹھیں گے تو ان کا ہدف صرف سامراج نہیں ہوگا۔ وہ مقامی حکمرانوں کے اقتدار اوراستحصال کو بھی پاش پاش کر دیں گے!