| تحریر: لال خان |
گزشتہ کچھ عرصے سے حکمران طبقے کی سیاست میں آپسی تضادات کے حل، پیچیدہ معاملات کو لٹکانے اور ریاستی جبر کی پردہ پوشی کے لئے ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ اور ’’جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم‘‘ جیسے پرفریب ہتھکنڈوں کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے درمیان کوئی حقیقی اختلاف موجود نہیں ہے، ایک دوسرے سے ان کا ثانوی سا فرق بھی مٹتا جا رہا ہے اور عوام کی نظروں میں اس سیاست کی ساکھ نہ ہونے کی برابر ہے۔ ریاست اورحکمران طبقے کے سنجیدہ پالیسی سازوں کے لئے یہ بات خاصی تشویشناک ہے۔
تازہ ترین ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ (APC) مستونگ میں پشتونوں کے المناک قتل عام کے بعد بلائی گئی جس میں وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’بیرونی قوتیں کچھ مقامی عناصر کی مدد سے ملک میں دہشت گردی اور تشدد کو ہوا دے رہی ہیں۔‘‘ تمام سیاسی جماعتوں نے میاں نواز شریف کے ذریعے پیش کے گئے اسٹیبلشمنٹ کے اس موقف کو من و عن تسلیم کیا۔ بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں مظلوم قومیتوں کی طرف ریاستی رویوں کی مکمل اطاعت سے قومی آزادی کی تحریکیں دبنے کی بجائے اور شدت سے بھڑکیں گی۔ قومی محرومی کے جذبات کے تحت نہ صرف ریاستی اداروں سے نفرت موجود ہے بلکہ سیاسی اشرافیہ سے حقارت بھی مسلسل بڑھ رہی جس میں ریاست اور نظام کی اطاعت کرنے والے پشتون اور بلوچ سیاستدان بھی شامل ہیں۔
اس سے ایک روز قبل APC نے اکنامک کوریڈور کے رُوٹ پر اتفاق رائے کا ظہار کیا تھا۔ چینی سرمائے سے بننے والی یہ معاشی راہداری کب مکمل ہو گی، اور ہو گی بھی یا نہیں، کوئی نہیں جانتا۔ٹھیکوں اور کمیشن خوری میں دلچسپی رکھنے والے ان سیاستدانوں میں سے کسی نے اس معاشی راہداری سے متعلق کوئی بنیادی سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ کس کی قیمت پر کون اٹھائے گا؟ بھاری شرح سود پر آنے والی یہ قرض نما چینی سرمایہ کاری مفلوک الحال عوام پر اور کتنا بوجھ ڈالے گی؟یہ منصوبے کتنا روزگار، کس طرح سے فراہم کریں گے؟ کوئی نوکری پیدا بھی ہوگی یا مشینری کی طرح لیبر ،انجینئر اور ٹیکنیشن سب کچھ چین سے ہی آئے گا؟نواحی دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں اس کوریڈور سے کوئی حقیقی انفراسٹرکچر بھی تعمیر ہو گا یا نہیں؟لیکن یہ سوال ان حکمرانوں کے لئے ثانوی ہی نہیں، بالکل بے معنی ہیں۔ ان کے لئے اہم ٹھیکے ، کمیشن اور بھتے ہیں، جن کی بندر بانٹ میں ’’اتفاق رائے‘‘ کے لئے اس طرح کے اجلاس بلائے جاتے ہیں اور آخر میں کسی بھارتی سیاستدان کی بیان بازی کے جواب میں ’’متفقہ بیان‘‘ میڈیا پر جاری کر کے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کر لیا جاتا ہے۔
نواز لیگ کی حکومت نے عوام پر معاشی حملوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بجلی کی سبسڈی میں مزید پچاس فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے جس سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ اس طرح کے فیصلوں پر کوئی APC بلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کیونکہ عوام دشمنی پر ان حکمرانوں کا غیر اعلانیہ اتفاق رائے ہمیشہ ہی موجود رہتا ہے۔خبر کے مطابق ’’حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے سمجھوتے کے تحت بجٹ میں توانائی کے شعبے کی سبسڈی 50 فیصد کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے… یہ اقدام دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لئے اٹھایا گیا ہے ۔سبسڈی کے اس خاتمے سے 30 جون سے پہلے آئی ایم ایف کی جانب سے 506 ملین ڈالر کی نئی قسط ملنے کی راہ ہموار ہو گی۔‘‘
جمہوریت اور ’سویلین حکومت‘کے اس ڈھونگ نے عوام کی رگوں میں بچا کھچا لہو بھی نچوڑ لیا ہے۔ وہ ان بدعنوان سیاستدانوں کی منافقت اور ڈھٹائی کو بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ لمبے عرصے تک جمہوریت، نمائندگی، آئین، قانون، پارلیمنٹ، آزادی اظہار اور گڈ گورننس سے امیدیں وابستہ کروا کے انہیں دھوکہ دیا جاتا رہا ہے۔لیکن نام نہاد جمہوریت کے اس تسلسل نے محرومی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پانی، بجلی، علاج، تعلیم اور خوراک جیسی بنیادی ترین ضروریات زندگی بھی ان سے دور کر دی گئی ہیں۔ نسل در نسل اس اذیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بچے تعلیم سے محروم ہیں، ناخواندگی بڑھ رہی ہے، علاج ناپید ہے، زچگی کے دوران خواتین کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے،وسیع اکثریت کے لئے انصاف ایک ناقابل خریداری جنس ہے،خونریزی اور جرائم معمول بن چکے ہیں۔
نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے 14 مئی 2006ء کو ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ پر دستخط کئے تھے۔’مصالحت‘ (Reconcliliation) کی حکمت عملی کا یہ نیا مرحلہ امریکی اور برطانوی سامراج نے ترتیب دیا تھا جس کا مقصد تمام حاوی سیاسی جماعتوں پر مشتمل جمہوری لبادہ تیار کرکے سامراجی ڈاکہ زنی اور سرمایہ دارانہ استحصال پر چڑھانا تھا۔ بینظیر نے اپنی کتاب میں بھی ’طبقاتی مفاہمت‘پر مبنی ’’مصالحت‘‘ کا خوب پرچار کیا ہے۔پیپلز پارٹی کی قیادت 1980ء کی دہائی کے اوائل میں ہی سوشلزم کو ترک کر چکی تھی۔ دوسری نام نہاد ترقی پسند جماعتوں نے سوویت یونین کے انہدام کے بعد طبقاتی جدوجہد کو متروک قرار دے کر خیر آباد کہہ دیا۔ ان غداریوں کے نتیجے میں محنت کش طبقے اور عوام میں بڑے پیمانے پر پراگندگی، مایوسی اور بددلی پھیلی اورسیاسی قیادتوں کے لئے ہر قسم کی دھوکہ دہی اور انحراف قدرے آسان ہو گیا۔آج سماج پر حاوی جمود درحقیقت حکمران سیا ستدانوں کی اسی سازشی مفاہمت کا نتیجہ ہے۔
لینن نے بہت پہلے لکھا تھا کہ ’’ایک اور طریقہ جو تحریک کے خلاف حکمران طبقہ استعمال کرتا ہے وہ محنت کشوں کو تقسیم کرنے اور کچھ افراد کو رشوت کے ذریعے خرید لینے کا ہے۔ یہ جاگیر داری کا نہیں بلکہ خالصتاً بورژوا اور جدید طریقہ واردات ہے جو ترقی یافتہ اور مہذب سرمایہ داری اور اس کی جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔یہ (پارلیمانی) جمہوری نظام سرمایہ دارانہ سماج کا ہی ایک پہلو ہے جس میں طبقاتی جدوجہد کے واضح امکانات کے ساتھ ساتھ ایسے فریب اور چالبازیاں بھی موجود ہیں جن کے ذریعے حکمران طبقہ اپنا نظریاتی اثر و رسوخ اجرتی غلاموں (محنت کش طبقہ) پر بڑھاتا ہے اور اجرتی غلامی کے نظام کے خلاف ان کی جدوجہد کو زائل کرتا ہے۔‘‘ (لینن، مجموعہ تصانت، جلد 20)
آخری تجزئیے میں جمہوریت کی یہ پرفریب غارت گری کر کے حکمران طبقہ اور ان کے سامراجی آقااپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔عوام کو ان سیاسی رہنماؤں سے کوئی امیدہے نہ ان پر کوئی اعتماد۔ ان کی خاموشی بذات خود علامت ہے کہ حکمرانوں کے اس سیاسی نظام میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ اسے رد کر چکے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ جعلی بیان بازیاں اور تکرار کرنے والے اندر سے ایک ہیں۔سرمائے کی اس سیاست میں حکومت اور اپوزیشن ، ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ ان میں کوئی تضاد بھی ہے تو مال غنیمت کی حصہ داری پر۔عوام کے استحصال میں یہ حریف نہیں روایتی حلیف ہیں اور رہیں گے۔ اصل جنگ محنت کش عوام اور اس نظام کے درمیان ہے جس کی نمائندگی یہ سیاسی اشرافیہ، ریاستی ڈھانچے، سامراجی آقا اور مذہب فروش ملاں کرتے ہیں۔
متعلقہ: