ہم عصر حقیقت نگاری اورفیض

[تحریر: ابن حسن]

بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگ نائے غزل۔ ۔ ۔
کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے

فیض جدید دور کا شاعر ہے۔ اس کی شاعری وسیع تر اجتماعی انسانی شعور کا اظہار ہے جو اپنے خاصے میں سادہ اوریک پہلو نہیں بلکہ بہت سے متضاد خاصوں کا مجموعہ ہے جو آپس میں مربوط ہیں۔ یہ ایک شاندار خصوصیت ہے جسے صحیح معنی دینے کے لیے ہمیں اُن تمام تاریخی تشکیلات کو جاننا ہو گا جو اس کی تعیین میں مددگار ہیں۔ جدید دور میں شاعرانہ تخیل اور شاعرانہ تخلیق کو صرف فرد کی ذات سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ فرد کے سماجی تعلقات کی کثرت اسے زندگی کے تمام شعبوں اور اداروں سے جوڑ کر رکھتی ہے۔ ان تعلقات کی نوعیت اور کثرت اس کے وجود کو متعین کرتی ہے۔ چاہے شاعر یہ عمل ارادتاً نہ بھی کرے، تعقلی گہرائی سماجی اور انسانی تشکیلات کو فنکارانہ اتحاد میں پرونے کا نام ہے۔ یہ فنکارانہ وحدت بھی وسیع تر تعینات کی حامل ہے۔ شاعری کسی تعقل کو، کسی خیال کو سیدھے سادے انداز میں شاعرانہ شکل دینے کا نام نہیں، بلکہ یہ موجودہ دور کی سچائیوں کو جاننا اور دوسری طرف اس سے متعلقہ نیا شاعرانہ اسلوب تلاش کرنا ہے۔ ان دونوں کا ارتباط ہم عصر حقیقت نگاری ہے۔
یہ درست ہے کہ خصوصاً غزل اور اس کے زیر اثر تخلیق کی گئی شاعری ایک انسان کے اپنے تجربے سے شکل پاتی ہے لیکن یہ تب ہی اعلیٰ ادب کہلا سکتی ہے جب اس کا حقیقی مافیہ پوری انسانیت کی تقدیر بیان کرے، یعنی اس کی بنیادکسی بڑے انتقالی دور کا مافیہ ہو۔ یہ مافیہ محض تصوراتی سطح پر پیش نہ کیا گیاہو، نہ ہی اسے مقولوں اور اقوالِ زریں کی چکا چوند صورت میں بیان کیا گیا ہو، بلکہ یہ بنیادی انسانی تعلقات کی دل کو چھو لینے والی جمالیاتی یا کم از کم شاندار انداز سے سجی ہوئی پیشکشوں کے ساتھ لازمیت میں سمویا ہوا ہو۔ کوئی بھی انتقالی دور ضروری نہیں کہ لازماً وہی شکل اختیار کرے جو شاعر کے تخیل میں ہے۔ ایسے میں شاعر کا تعقلی مافیہ اور اُن تعلقات کی کھوج جو معاشرے اور تاریخ سے متعلق ہیں، اس کی فنی ساختوں اور کرداروں سے متعلق کُلیت کو بکھیر دینے کے درپے ہوتے ہیں۔ یہ ایسا رجحان ہے جو فنی ہےئتوں کی جمعیت اور خوبصورتی کوتاخت و تاراج کر دیتا ہے اور اسے نئی اور عظیم حقیقت پسندی کی ناگزیریت کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ اور اس طرح کسی فنکاری کے دور کے خاتمے کا موجب بنتا ہے۔
یہ اتفاقی امر نہیں کہ اس وقت جب فیض اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کے عروج پر تھا، غزل اظہار فن کی بڑی ہےئت کے بطور اپنی حیثیت کھو چکی تھی۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ قدیم ہےئت اور جدید مافیہ کا تضاد فیض میں اپنی انتہا کو پہنچتا ہے اور اس کی رد و نمو ہوتی ہے اور یہ نئی شکل پاتا ہے۔ یقیناًغزل اب بھی لکھی جاتی ہے اور مدرسانہ نقاد ’سوز و گداز‘ کو اب بھی اس کا بڑا وصف مانتے ہیں۔ یہ ’رنج و الم‘ کوئی بھی مقرونی معنی لیے ہوئے نہیں ہے اور اس کی کشش صرف وہ اسلوب ہے جو غزل اسے عطا کرتی ہے۔ رنج وا لم ہوا کرے لیکن اصل مسئلہ اسے ایک مکمل انسانی تجربہ بنانا ہے۔ جدید دور کا رنج والم ایک فرد کے رواقی قسم کے رویے تک محدود نہیں۔ شاعری کا کوئی بھی موضوع ہو، اسے اپنے معنی کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ وسیع تر انسانی تعلقات اسے کوئی معنی دیتے ہیں۔ یہ تعیین اپنے آپ سے، اپنے آپ کے لیے ممکن نہیں۔ نئے دور کی سچائیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ اس سے ہم آہنگ ہےئت تشکیل ہو۔ فیض نے نئی زندگی کی موجوں کے آگے پرانی ساختوں کے ڈھے جانے کا نظارہ کیا اور ایک نئے اظہار کے وسیلے کے ذریعے اس سیلاب کے داخلی حرکی دھاروں کو گرفت میں لانے کی کوشش کی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اُس وقت ہمارے ہاں ادب کے بارے فلسفے پوری طرح سے ساکن اور جامد حالت میں تھے۔ انہیں کوئی ایسی باطنی ضرورت نہ تھی کہ وہ ادب کے بارے کوئی نئے زاویے تلاش کریں۔ تمام سوالات اظہار کے طریقِ کار کے متعلق تھے یا پھر ایسے سوالات ہیں جو دوسرے کی موجودگی کی وجہ سے ابھر آئے تھے۔ اسی بنا پر انہیں فیض کے مقابلے میں پروپیگنڈے کے ذریعے بڑازور لگا کر ’ادبی ہستیاں‘پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مثال کے طور پر ان میں سے ایک ہستی کی پیروئ میرمیں ’سوزو غم‘ نمایاں خصوصیت بنی تو ایک اور ہستی ’لفظوں کا جادوگر‘ تھی کہ اسے بہت سی زبانوں کے ذخیرہ الفاظ پر عبور تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔
پہلے سے موجود روایت بڑے موضوعات کی تشکیل کے لیے انتہائی سازگار نہیں رہتی۔ مغربی ادب میں، مثال کے طور پر، داستان ماضی اور حال کے مابین رشتے کی نشوونما کا راستہ ہموار کرتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ داستان کے مربوط کُل کو مسخ نہیں ہونے دیتی۔ چونکہ بڑے موضوعات پر داستان کا انتقالی اثر انمٹ ہوتاہے اس لیے بڑے شاعر کی تخلیق لوگوں کی ذہنی اور شاعرانہ سرگرمی کو جائز طریقے سے جاری رکھ سکتی ہے۔ اس طرح لوک داستان کے مربوط تسلسل کی صورت میں شاعر کا نیا تصور بھی نشوونما اور انتقا لِ ذات کے فطری امکان کاحامل ہوتا ہے جس کی بدولت مرکزی کرداروں کے انسانی خدوخال صرف بدل جاتے ہیں، مسخ نہیں ہوتے۔ شاعر داستان کو اس کے کرداروں سمیت ہم عصر معنی دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شیکسپےئر کے اکثر ڈرامے اور گوئٹے کا فاؤسٹ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ برِ صغیر میں داستان کی باز تخلیق نہ ہو سکی۔ یا تو یہ بچگانہ حد تک بے معنی رہی اور اس کا مافوق الفطرت پہلو حاوی رہا۔ ایسا لگا کہ ہم بچوں کی کوئی کہانی پڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف داستان کو بعینہٖ، اسی طرح بیان کر دیا گیا جیسے یہ اصل میں تھی۔ کچھ نے تو داستان کو مکالمے کی شکل دے دی اور اسے ’ڈرامے‘ کا نام دے دیا۔ کسی بھی مافیہ سے محروم یہ تحریریں بے ہنگم شور شرابے کے سوا کچھ نہ تھیں۔
ہےئتوں کا یہ جامد پن داستان تک ہی محدود نہ تھا۔ اس کی سب سے عمدہ مثال غزل ہے۔ غزل کا مخصوص ذخیرۂ الفاظ اور تراکیب گھڑنے کا انداز، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس طرح کی غزل لکھنے والے شاعر کے پاس کہنے کو کچھ نہیں اور اسے چارو ناچار وہی گھسے پٹے موضوعات لانا پڑتے ہیں۔ غزل میں محبت اور اس سے جڑے دوسرے عنوانات اب بھی حاوی تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی موجود سماجی وجود سے معنی نہ پا سکا۔ ایک شاعر نے غزل میں نئے الفاظ کا اضافہ تو کیا لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ مصنوعی اور صوابدیدی تھااور وہ شاعرزندگی اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر تھا، اس کی شاعری بے ہنگم الفاظ کا اُکتا دینے والا گورکھ دھندا بن کے رہ گئی۔
(روایتی) غزل خارجی حقیقت کو ایک کُلیت میں رکھ کر تو بیان ہی نہیں کر سکتی جیسا کہ منظوم المیے یا رزمیے حتیٰ کہ مشرقی رزمیے (مثال کے طور پر رامائن، اور کئی پنجابی قصے) میں ممکن تھا۔ غزل میں شاعر بطور ایک موضوعی ہستی کے دنیا کو جاننے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن اس صورت میں اسے انفرادیت اور موضوعی وجود کا اصول تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ نِری موضوعیت، جس کا خارج سے تعلق ہی نہ ہو، ممکن ہی نہیں اس لیے شاعر اس شعورکو جذب کرتا ہے جو فطرتی اور سماجی گردو پیش، تجربات و حوادث، (جو خود اس کے یا دوسروں کے ہیں) اور تاریخی واقعات سے حاصل ہوتا ہے۔ بہر صورت یہ مافیہ بلا واسطہ، بعینہٖ غزل میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اس کی صورت رزمیہ یا قصے یا ڈرامے میں ہے۔ اس کا جواز اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ یہ شاعر کی موضوعیت میں شکل پائے۔
اس دلیل کی بنا پر غزل میں وحدت کا مرکزی نکتہ شاعر کی باطنی زندگی ہے۔ اردو نقاد اس باطنی سَیلف کی تشریح کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اسے خود مختار اور مکمل گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں باطنی سَیلف ایک ’’اندھیری رات کی طرح ہے جس میں ہر گائے کالی ہے‘‘۔ شاعر کا باطن جزوی طور پر اس کی موضوعیت تو ہے ہی، ساتھ ہی یہ وہ اجزاء ہیں جو خیالات، تجربات، احساسات، سماجی واقعات کی صورت میں اس باطن کی شکل بناتے ہیں۔ ان کا ارتباط صرف اس فرد میں ہوتا ہے جو ان کا حامل ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ گھڑے میں جو کچھ بھی ڈال دیا جائے گھڑے کی شکل ویسی کی ویسی رہتی ہے۔ انسانی سَیلف ان تمام عوامل کا محض مجہولانہ اثر قبول نہیں کرتی بلکہ ان کے آگے ردِ عمل بھی ظاہر کرتی ہے، ان کا تجربہ بھی کرتی ہے اور یہ ردِ عمل اور تجربہ خود ان خارجی اثرات کو ترتیب اور شکل دینے کے علاوہ ان میں تبدیلی کا جذبہ بھی پیدا کر سکتا ہے۔ لہٰذا وہ مرکز بننے کے لیے جو غزل کے اشعار کے علیحدہ اجزا ہونے کے باوجود اس کے تاثر اور عمومی رویے کو وضع کرتا ہے، شاعر کو اس مرکز سے باہر آ کر موجود صورتِ حال سے جڑنا پڑتا ہے۔ اس جڑت کی صورتیں بہت سی ہو سکتی ہیں۔ صرف اسی صورت میں وہ خود میں مرکوز موضوعیت بن سکتا ہے جو مخصوص حالات و واقعات سے تعیین پا رہی ہو۔ اس نقطۂ نظر سے غزل باطنی رویہ ہے۔ ایسے میں مقرونی صورت حال بہت زیادہ پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ شاعری صرف ایک فرد کے غیر مرتبط جذبوں اور خیالات کا اظہار بن کر نہ رہ جائے بلکہ یہ باطنی وجود کی شاعر انہ زبان بنے۔ شاعر کی موضوعیت سے برآمد ہونے والے خیالات اور احساسات کے لیے ضروری ہے کہ وہ آفاقی سچائی کا رتبہ حاصل کریں، یعنی موضوعی ہونے کے ساتھ ساتھ معروض کا دو طرفہ تعلق بنائیں اور اسی مقصد کے لیے وہ اظہار کے مختلف وسیلوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ اظہار کے وسیلے خود اس تجربے کے جوہر میں تبدیلی کے ساتھ نئی اشکال پالیں۔
جب کسی بھی فرد کے غم و حزن کو الفاظ میں بیان کیا جائے تو اسے کچھ نہ کچھ تسکین ملتی ہے۔ یہی کام شاعری بھی سرانجام دے سکتی ہے، لیکن یہ نانی اماں کی دوا کی مانند نہیں۔ شاعری اعلیٰ درجے پر روح کو جذبات میں حرکت پذیری کی آزادی دیتی ہے، نہ کہ جذبات سے آزاد کرتی ہے۔ جذبات کاکُرّہ ایک طرح کی لاشعوری کیفیت میں اپنے آپ میں وحدت بناتا ہے اور اس صورت میں اس کا خود کا اظہار کر پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ شاعری جذبات کو اس غلامی سے آزاد کرتی ہے کہ یہ اسے خود کو دیکھنے میں مدد کرتی ہے لیکن اس کا کام صرف اپنے آپ میں محدود جذبات کے کُرّے سے خلاصی نہیں، بلکہ یہ اسے تمام اتفاقی عوامل سے نجات دلا کر عمومی خاصہ عطا کرتی ہے۔ شاعری میں جذبات کی اپنے آپ میں واپسی، ڈرامے کی طرح، کسی ایکشن پر منتج نہیں ہوتی۔ باطنی زندگی کی تکمیل اب بھی باطنی ہے۔ عدم ارتباطی اور بے زبان خیالات یا احساسات کا اندرونی کیفیت سے باہر آ کر اظہار پانا اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کا تجربے میں آنے والے واقعات اور تجربات سے ارتباط ہو۔ بہ الفاظِ دیگر یہ جذبات اور تعقل کا ارتباط ہے۔
رزمیے اور ناول میں حقیقی زندگی کو بیان کیا جاتا ہے لیکن اس مماثلت کے باوجود ان کے مافیہ میں فرق ان کو مختلف اصناف بنا دیتا ہے جو اپنے ساتھ بنترکے تقاضوں کو بھی بدل دیتا ہے۔ یہ مثال غزل کے بدلتے اسلوب کی عمدہ وضاحت کر پائے گی۔ رزمیے میں سبجیکٹ یعنی شاعر اپنے آپ کو معروضیت میں ڈبو دیتا ہے جس کی تشکیل بطور آزادحقیقت کے ہوپاتی ہے۔ اس میں مافوق الفطرت عناصر بھی شامل ہیں جو اس وقت کی معروضیت کا حصہ تھے کیونکہ لوگ انہیں سچا مانتے تھے اور ان پر بطور ایک حقیقت کے یقین رکھتے تھے۔ اس دور کی دیو مالا کے ختم ہونے کے بعد رزمیہ بھی بطور ایک صنف کے ختم ہو گیا۔ ناول میں بھی حقیقی دنیا بیان کی جاتی ہے لیکن یہ قدیم دور سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ یہ جدید سرمایہ داری کا دور ہے جس میں درمیانے طبقے کا ہیرو باہر کی دنیا میں کوئی جگہ تلاش کرنے کی جستجو کرتا ہے۔ (اسی بنا پرناول کو بورژوا رزمیہ کہا جاتا ہے) ۔ رزمیے کی دنیا ’’بہترین دنیا‘‘ ہے جس میں متحارب قوت خارج سے آتی ہے اور ہیرو کا مقصد ان متحارب قوتوں پر قابو پا کر واپس اپنی دنیا میں آنا ہے۔ ناول میں ہیرو کی اپنی دنیا میں متحارب قوتیں موجود ہیں اوراسے ان سے لڑ کر خود اسی دنیا میں جگہ بنانا ہوتی ہے۔
انسانی جذبوں کو وسیع تر انسانی وجود سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تجریدی ’رنج و الم‘ تک محدود نہیں رہ سکتے۔ ان کی شکل انسانی تعلقات سے بنتی ہے جن میں کوئی فرد اپنے آپ کو پاتا ہے۔ اس بنا پرشاعری کے عنوانات میں پوری زندگی کی وسعت شامل ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک بنیادی فرق ضرور رہتا ہے کہ ایک رزمیہ حقیقی واقعات اور صورتِ احوال میں پوری قومی زندگی کی ترجمانی کر سکتا ہے، لیکن رزمیہ چند قدیمی ادوار ہی میں ممکن تھا۔ شاعری صرف ایک تجربے تک محدود رہ سکتی ہے اور اس کی شکل بھی ویسی ہو گی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح شاعری کا محدود پن اپنی جگہ، یہ بھی نئے مافیہ کو اپنے اندر سمو سکتی ہے۔
قاری کو احساس ہو گیا ہو گا کہ ہم روایتی غزل سے نظم اور اس کی مختلف صورتوں کی طرف آ چکے ہیں۔ اس کُرّے میں جو کہ بنیادی طور پر یونیورسل (اجزا ء کا مجموعہ جو آپس میں لازمیت کے ساتھ مربوط ہیں) جزئیاتی اس طرح شامل ہوتا ہے کہ کوئی بھی صورتِ حال، واقعہ، خیال، اپنے خاصے میں اظہار پاتا ہے۔ اجزاء صرف بیان ہی نہیں ہوتے کہ ہر ایک اپنے آپ میں مکمل ہو۔ ایسا فطرت نگاری میں ہوتا ہے۔ اجزاٗ کے مابین تعلق لازمیت کا عنصر لیے ہوتا ہے اور اس طرح یونیورسل شکل پاتا ہے۔ (ہیگلیائی فلسفے کی رو سے ہم کہیں گے کہ یونیورسل اجزا کا ارتباطی کُل ہے) ۔ مرثیہ، کسی موضوع پر لکھی گئی نظم، یا ایسی شاعری جو تفکرانہ ہو، خاص طور پر اس زُمرے میں آتے ہیں۔
شاعری میں اظہار خود شاعر پر مرتکز ہے، اس لیے کوئی معمولی واقعہ بھی شاعری کےَ سوتوں کو روانی دے سکتا ہے۔ ایسے میں واقعہ چاہے کتنا بھی بڑا یاچھوٹا کیوں نہ ہو اس سے جڑے تمام عوامل نظر انداز نہیں ہو سکتے۔ علت معلول کا تعلق ہو یا یونیورسل اور جزو کا، ہر صورت مظہراہمیت شاعر کا باطن ہی ہے نہ کہ وہ واقعات جو خارج میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ کوئی عارضی کیفیت، دکھ بھر ی پکار، خوشی کی چیخ، مایوسی، آہ وبکا، کچھ بھی شاعری کا موضوع ہو سکتا ہے۔ کسی بھی کیفیت کے دل کو چھو لینے والے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کیفیت کا واضح طور پر زور دار ہونا اور ساتھ ہی کسی انسانی تجربے سے جڑا ہونا شاعری کو بڑا بناتا ہے۔ باالفاظِ دیگر، قلبی کیفیت کیسے خارج میں منعکس ہوتی ہے، یا پھرخارج کیسے قلبی کیفیت میں منعکس ہوتا ہے۔
کیا یہ دونوں صورتیں ایک ہی ہیں؟ جی نہیں۔ جب قلبی کیفیت خارج میں منعکس ہوتی ہے تو ہمیں ایسی شاعری ملتی ہے جس میں کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہو۔ منظوم قصہ، منظوم داستان وغیرہ اس میں شامل ہیں۔ عشقیہ، رومانوی قصے میں شاعری تشریحاتی بیان میں پھیل جاتی ہے۔ اس میں ایک واقعہ کے مختلف اجزاء کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ پھر ہر جزو کو اپنی اہم تفصیلات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ مقصد اس جزو کے بنیادی خاصوں کو نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ شاعر کا ان سے لگاؤ عمدہ اور اعلیٰ درجے پر شاعری کو خوبصورتی عطا کرتا ہے۔ دوسری طرف قصے والی شاعری میں رزمیے کی طرح پورا واقعہ تو بیان نہیں ہوتا، صرف کسی اہم واقعہ کے چیدہ چیدہ خصائص ہی بیان ہو پاتے ہیں۔
یہاں شاعری کی تمام اصناف کا بیان ممکن نہیں۔ لیکن ہمارے موضوع کے حوالے سے شاعری کی ایک صورت کی تشریح ضروری ہے۔ اس میں موضوعی عنصر کھل کر اور واضح طور پر اظہار پاتا ہے۔ ایسے میں شاعر کسی واقعے پر یا اس کے بارے شاعری تخلیق کرتا ہے۔ واقعہ فقط ذاتی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے اور ایسا بھی کہ اس میں انسانی حوالوں سے وسعت موجود ہو۔ فقط ذاتی واقعات کو اگر ذات تک ہی محدود رکھا جائے تو بڑی گھٹیا قسم کی شاعری سامنے آتی ہے، جیسا شاعروں کو اپنی بیوی یا ماں کے مرنے پر شاعری کا دورہ پڑتا ہے۔ شاعری کے لیے ضروری ہے کہ یہ فقط ذات تک محدود نہ ہو بلکہ آفاقی ہو۔ اگر شاعری مکمل طور پر خارجی واقعہ یا تحرک اور اس میں پنہاں مقصد پر دارومدار نہ کرے، بلکہ خود میں ایک کُل بنا پائے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خارجی واقعہ کو ایک تحریک گردانے جو اسے اپنے آپ کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ یہ اظہار کسی دکھ، سکھ، خیال یا زندگی کے بارے نقطۂ نظر بھی ہو سکتا ہے۔ بنیادی اصول یہی ہے کہ خارجی مواد ان میں مکمل طور پر جذب ہو جائے۔ شاعرکا وِژن بہت سے عناصر کے عمل اور ردِ عمل کے نتیجے میں شکل پاتا ہے اور تبدیل ہوتا رہتا ہے، لیکن یہ اپنے آپ میں آزاد ہے۔ کتنے بھی مختلف اندازاور وسیلوں سے اس کا وِژن خارج سے جڑت پائے، ہر حال میں اس مواد کا اظہار اس کے باطنی احساسات اور فکر کے ذریعے ہی سے ہو پاتا ہے۔ روایتی غزل گو کی طرح یہ وژن یا شاعرانہ سیلف جامد و ساکن نہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی ہی نہیں رو نما ہوتی، خارجی واقعات، حوادث، پیچیدگیاں، انسانی تعلقات، سب اس کی تشکیل میں حصہ لیتے ہیں۔
یہ شاعر کی اپنی صوابدید پر ہے کہ وہ واقعہ کے کون سے حصے بیان کرتا ہے اور پھر ان کی ترتیب بھی اسی کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس بارے کوئی بدیہی اصول قائم نہیں ہو سکتا کہ خارج اور باطن کتنا اور کس طرح باہم پیوست ہوتے ہیں۔ نظم کی وحدت خارجی واقعہ نہیں مہیا کرتی بلکہ خود شاعر کا باطن اسے کوئی شکل دیتا ہے، یعنی وہ کس انداز اور طریق سے اس واقعے کا اظہار کرپاتا ہے۔ شاعر کا وِژن ہی ان تمام(اجزاء) کو وحدت دینے میں اولیت رکھتا ہے۔ کسی کو بھی شاعر کے نِرے ذاتی معاملات سے دلچسپی نہیں ہو سکتی بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس کی ذات کا کُل سے ارتباطی پہلو ہمارے سامنے آئے تاکہ ہم اس کے وِژن کو جان سکیں اور محسوس کر سکیں۔ مطلب یہ کہ شاعر صرف اپنی ذات ہی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی انفرادیت کو پس منظر میں رکھ کر اپنے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ بیتنے والے واقعہ کو اپنے لہجے میں، خود اپنی موزونیت سے بیان کر کے جمالیاتی حَظ مہیا کرتا ہے۔ اس طرح شاعر اپنے آپ میں ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ہوتا، شاعر اپنی ذات کو قائم رکھتے ہوئے بھی اس سے باہر چلا جاتا ہے۔ اس طرح باطن میں واپسی تمام عمل کو ایک کُلیت بنا دیتی ہے۔
اگر شاعر مکمل طور پر موضوعیت میں ڈوبا ہوا ہے تو وہ باطنی کیفیات تک محدود رہتا ہے اور سرے سے خارج کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایسے میں گیت یا لوک شاعری سامنے آتی ہے، یا ایسی شاعری جو فقط گانے کے لیے ہے۔ راگوں کی بندشیں عموماً اسی قبیل میں آتی ہیں۔ لوک شاعری میں بے معنی مصرعے صرف گانے کے لیے ہیں۔ موسیقی اس بے معنی پن کی کمی کو پورا کرتی ہے۔ یہاں ہم موسیقی کو زیرِ بحث نہیں لاسکتے لیکن اتنا کَہ دینا کافی ہے کہ اس کے اعلیٰ درجوں میں لفظ کی کم سے کم اہمیت ہوتی ہے اور اس کی گھٹیا اقسام جیسا کہ قوالی میں لفظ حاوی ہو جاتے ہیں۔ اس کے بر عکس، اعلیٰ درجے کی شاعری میں موضوعی باطنی زندگی وسعت اور گہرائی پا کر ان صورتوں میں چلی جاتی ہے جہاں شاعر کا وژن اعلیٰ ترین درجے پر ہوتا ہے۔ اس کا قلب ان چیزوں سے حرکت پاتا ہے جو تعقلی اور عظیم ہیں۔ وہ کسی صورت بھی مذہبی یا نام نہاد روحانی موضوعات کو عنوان نہیں بناتا، نہ ہی قصہ لکھنے والوں کی طرح اس کے عنوانات معمولی اور گھٹیا ہیں، وہ تو ایسی سوچ سے شروع ہوتا ہے جو زندگی کی سچائیوں سے شکل پاتی ہے، اس کے سامنے انسانیت، خوبصورتی اور مسرت کے اعلیٰ مطمع نظر ہوتے ہیں۔
اب ہم دوبارہ اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ پرانی ہےئتیں کن حالات میں ڈھے جاتی ہیں اور یہ کیسے نئی شکل پاتی ہیں؟اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے اب ہمیں نئے دور کا مافیہ بھی جانچنا ہو گا کہ اس کی کیا شکل ہے اور اس کے خاصوں میں ایسی کیا لازمیت ہے کہ نئی شاعری وجود میں آئی۔
ادب کی تاریخ میں نئے مافیہ کا نئی ہےئت تلاش کرنا اتنا میکانکی عمل نہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ نئی تشکیلات تب محض ایک تجسس اور ایک سوانحی حقیقت، یا ہےئت میں تجربہ نہیں رہتیں جب ان میں ایک اہم تاریخی عمل ایک پائیدار ماہیت کی طرح عکس پذیر ہوکر ان میں خاصیتی تبدیلی لاتا ہے۔ یا جب یہ ذاتی مسائل سے نبٹنے کی انفرادی سعی بن کرنہیں رہ جاتے جو تجریدی خاصے میں انتہائی عمومی درجے پر ہی رہ پاتے ہیں۔ نئی تشکیلات کو اپنی منفردیت میں عام سطح سے اپنے ارتفاع کی لازمیت کو ثابت کرتاہے۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ یہاں اس تصور کو ایک مجرد فارمولے کی صورت میں نہیں بلکہ اسے شاعر کی تخیلاتی دنیا کے ارتقاء کی ایک مقرونی تعیین، ایک افق اور ایک زاویۂ نگاہ کی صورت میں سمجھا جائے۔
نئے اسلوب، نئی ہےئتیں ہمیشہ پرانی بنتروں اور اسلوب سے جڑی ہوتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی اپنی کوئی اندرونی جدلیات نہیں ہوتی۔ ہر نئے اسلوب کی تعیین تاریخی اور سماجی عوامل ہیں۔ یہ کسی سماجی ارتقا پر منحصر ہے۔ لیکن ان تعیینی عوامل کی پہچان کا یہ مطلب نہیں کہ ان اسالیب کو ایک جیسی اہمیت دی جا سکتی ہے۔ لازمیت فنکارانہ طور پر باطل اور مسخ شدہ کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جدید دور میں فطرت نگاری اور تجریدی اسلوب نگاری کا ظہور پذیر ہونا۔ اس سماجی لازمیت کو سمجھنا جوکسی خاص اسلوب کی وجہ بنی خود اس اسلوب کے اثرات سے مختلف ہے۔ صرف ولگر سماجیات ہی اس بات پر اکتفا کر سکتی ہے کہ وہ کسی ادبی مثال کی سماجی وجوہات کو میکانکی طور پر اس سے جوڑ دے۔ مارکس نے اس سوال کو قدرے مختلف انداز سے پیش کیا۔ ہومر کے رزمیے کا سماجی تجزیہ کرنے کے بعد وہ سوال پوچھتا ہے کہ : ’’یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یونانی فن اور رزمیہ خاص سماجی ارتقا سے مربوط ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب بھی ہمیں جمالیاتی حَظ کیوں مہیا کرتے ہیں اور اب بھی فن کی وہ مثالیں ہیں جنہیں حاصل کرنا ناممکن ہے۔‘‘ (مارکس، گرنڈرس، ص ۱۰۰) فطری بات ہے کہ یہ مشاہدہ فن کی مصنوعی مثالوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہومر کے رزمیے حقیقی رزمیے ہیں تو ملٹن اورورجلکے رزمیے نقلی ہوں گے۔ یہ بھی ایک سماجی اور تاریخی اور ساتھ ہی جمالیاتی سوال ہے۔ کوئی بھی فن یا جمالیاتی نمونہ سماج، تاریخی اور موضوعی صورتِ احوال سے علیحدہ نہیں رہ سکتاجو کثیر پہلو، جامع اور فعال طور پر زندگی کا عکس ہیں۔ کسی بھی دور کومدِنظر رکھیں توتمام اصناف ایک جیسی وقعت نہیں رکھتیں۔ ہر ایک میں زندگی کی حرارت اور زمانۂ حال سے اس کے وابستگی کا درجہ مختلف ہوتا ہے اوراس طرح ان میں داخلی تشکیلِ نوکے امکان بھی مختلف ہوتے ہیں۔
چندمستثنیات کو چھوڑ کر فیض کے سامنے ایسی مثالیں تھیں جو ہر لحاظ سے ان معنوں میں فرد تک محدود تھیں کہ ان میں عمومیت نہ ہونے کے برابر تھی یا پھر یہ کلاسیکی تھیں۔ یہ مثالیں ایسے خیالی مجموعۂ تصوارت سے بھرپور تھیں جو ہر لحاظ سے جامد تھے اور ان میں زمانہ قدیم سے لے کر موجودہ دورتک کوئی متعلقاتی عنصر نہ تھا اور اگر تھا بھی تو اتنا زیادہ پس منظر میں چلا گیا تھاکہ اس کا وجود ہی نظرنہ آسکتاتھا۔ جدید دور میں ہونے والی تبدیلیو ں کے ساتھ سوچ اور ثقافت میں رونما ہونے والی بے انتہا تبدیلیاں، لازم تھا کہ ادب پر کچھ نہ کچھ اثر ڈالیں۔ ماضی کا شاندار ورثہ جب حال میں اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے تو قوم کے لیے کسی بھی نئی سوچ سے متاثر ہونا آسان ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مردہ ورثے کی شان میں اتنا شور و غوغا مچایا جائے کہ نئی سُریلی دُھن کی آواز ہی کانوں میں نہ پڑ سکے۔ یہ مردہ ورثہ تاریخ کا وہ منجمد شدہ یا فوسل بنا ٹکڑا تھا جسے جدید دور پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور یہ کوشش اب بھی جاری ہے۔ یعنی ایسا ماضی جو زبردستی جاری رکھا گیا ہے۔ ایسے میں یہ حاوی اور اجارہ دار مظہر ہے۔ لیکن یہ تاریخ کا محدود اور یک طرفہ نظریہ ہے۔ ماضی تشکیلی قوت بھی ہے جو حال کو شکل دے کر خود کو ثمر آور کرتی ہے۔ اس طرح ماضی قبل از حال وجود ہے، یعنی ایسا ماضی نہیں جو گڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف ہو، بلکہ ماضی اور حال کا تسلسل۔ عام طور پر اس مردہ ماضی کو عقیدے، فلسفے، ثقافت یا ایسے ہی کسی کُرّے میں نتھی کیا جاتا ہے اور اس طرح خود اس کُرّے کو محدود اور اپنے آپ میں بند کر دیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ادب کے علاوہ سماج کے بہت سے اداروں سے متعلق ہونے کی وجہ سے یہ بہت طاقت ور عمل ہے۔ ساتھ ہی یہ لائقِ شکست و ریخت بھی ہے کیونکہ حقیقی زندگی میں اسے بہت سے اہم عوامل کو رد کرنا یا ان کی شدت کو گھٹانا ہوتا ہے، یا پھر ان کو ایسی شکل دینا پڑتی ہے جو موجود حقیقتوں سے اس طرح متصادم نہ ہو کہ خود اس کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے۔ اہم یہ ہے کہ اس کی ضد میں بہت سے عوامل تاریخی اور سماجی ہیں۔ اگر ماضی کو اس طرح سے قائم رکھنا شعوری عمل ہے تو نئے عناصر کی تلاش اور ان کا ظہور میں آنا بھی خود بخود ممکن نہیں، یہ ایک موضوعی عمل ہے جس کو ادب میں ادیب ہی پروان چڑھاتا ہے۔ یہ دونوں کی جڑت کے نازک نکات ہیں جہاں ماضی کا کوئی حصہ حال کی تصدیق کرتا ہے اور اس تصدیق میں وہ مستقبل کا خاکہ بھی بنا دیتا ہے۔ یہ تعقلی اور امکانی ہی نہیں بلکہ لازمیت بھی لیے ہوئے ہے۔ یعنی ماضی کا یہ حصہ طاقتور بھی ہے اور اس نئے مظہرات کے سامنے اس کی شکست و ریخت بھی لازمی ہے۔ طاقتور اس لیے کہ اس میں وہ خاصہ موجود ہوتا ہے جو غیر ضروری، قدیمی اور مردہ کو ختم کرتے ہوئے فعال تعلقات کی تشکیل کر سکتا ہے۔ اور شکست و ریخت کے بعد اس کا اختتام اس لیے کہ اس کی تحلیل موجود تاریخ کو شکل استوار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ بقول ہیگل یہ’’بیج کے کونپل بننے، کونپل کے ٹہنی بننے، ٹہنی کے پھول بننے کا عمل ہے۔‘‘ لیکن فطرت سے مختلف انداز میں، تاریخ میں یہ عمل بار بار ایک ہی طرح سے دہرایا نہیں جاتا بلکہ ہر بار اس کی شکل نئی ہوتی ہے۔
شاعرانہ وژن اب موجود سے متصادم ہے۔ یہ تضاد اتنا شدید ہے کہ اظہار کے روایتی ذرائع جو شاعر کو میسر ہیں، اس تضاد کو گڈ مڈ کر دیں گے یا اس کو منظر سے یکسر ہٹا دیں گے۔ ضروری ہے کہ اس تضاد کی رَد و نمو ہو جو اسے اعلیٰ درجے پر لے جائے۔ شاعر کا وژن اگر موجود کی تنسیخ کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ موجود ہےئتوں کو خیر باد کہے جو موجود کو تسلسل اور بڑھاوا دینے کے لیے ہیں، بجائے اس کے کہ یہ اس وژن کی تکمیل میں ممد و معاون ہوں۔ جو ہو سکتا ہے اور جوہونا چاہیے صرف مافیہ کا مسئلہ نہیں۔
اگرمافیہ کی تشکیلات اور ان سے متعلقہ ہےئتوں کا ظہور پذیر ہونا مکمل طور پر تاریخی عمل ہے تو کیا ادیب ان کے آگے بے بس ہے؟ کیا اسے بے چون و چرا ان کے آگے دست بستہ کھڑا ہو جانا چاہیے اور ان کے عطا کردہ اصولوں کو حتمی مان کر ادب کی تخلیق کرنی چاہیے؟یہ سوال فلسفے میں شعور اور وجود یعنی شعور کے کُرّوں اور ان سے متعلقہ حقیقی مافیہ کے باہمی تعلق کے بالکل متوازی ہے۔ اگر ہےئتوں کو علیحدہ سے خود مختار حیثیت دی جائے تو جیسے مابعد الطبعیات میں شعور وجود سے بالاہو جاتاہے، اسی طرح ہےئتیں بھی اپنے آپ میں آزاد اور خود مختار ہیں اور انہیں کوئی بھی مافیہ دیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ یہ نکتہ فلسفے سے متعلق ہے لیکن موضوع کی مناسبت سے اس کا مختصر جائزہ ضروری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سماجی علوم میں ثبوتیت شعور اور وجود کے دہرے پن پر استوار کی گئی۔ یہ سلسلہ ڈیکارٹ سے شروع ہوا۔ شعور قائم کرنے والے کا سامنا معروضی دنیا سے ہے تاکہ اسے جانا جا سکے۔ ثبوتیت کی جملہ اقسام میں یہ دہرا پن شعور کنندہ کی مجہولیت ہے جس میں خارج کا اس پر اثر یک طرفہ ہے۔ یہ ایسا تعلق نہیں جس کا سب سے ضروری خاصہ ’انسانی عمل‘ ہو۔ یہ علم کے حصول کایک طرفہ سلسلہ ہے جس میں خارج، شے کی تبدیلی کا کوئی عنصر نہیں۔ اس قبیل کے فلسفے کی مارکس نے اس طرح پیش بینی کی:
’’آج تک تمام مادیت کے فلسفے کی سب سے بڑی کمی (فائر باخ کا فلسفہ بھی اسی میں شامل ہے) یہ رہی ہے کہ کسی شے، حقیقت، نفسانی خواہش کو محض "شے” کی معروضی صورت میں یا پھر قیاس کی شکل میں لیا گیا، اسے انسان کی نفسانی سرگرمی، عملی یا داخلی حیثیت سے نہیں دیکھا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مادیت کے فلسفے کے برعکس، عملی پہلو کو عینیت پسندی نے ابھارا اور پھیلایا، اگرچہ یہ صرف تجریدی طریقے سے کیا گیا، کیونکہ لازمی بات ہے کہ عینیت پسندی انسانی سرگرمی کو صحیح معنوں میں بطور انسانی سرگرمی کے نہیں لیتی۔ فلسفی فیورباخ چاہتا ہے کہ مادی اشیاء (sensuous objects) کو خیالی اشیاء سے الگ کرکے دکھائے، لیکن بذات خود انسانی سرگرمی کو وہ عملی شے شمار نہیں کرتا۔ (کارل مارکس، فائر باخ پر پہلا تھیسس)
یہ دہرا پن معروضی حقیقت کا بُعد Reification ہے جس میں اسے سماجی عاملوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہے تاکہ اسے اس سے علاوہ تجریدی حیثیت میں جانا جائے۔ اس بُعد کے متوازی نظریہ اور عمل کی علیحدگی ہے۔ ثبوتیت کا خاصہ لیے سماجی علوم نظریہ علم تک محدود ہونے کی وجہ سے عمل سے تجریدی تعلق ہی بنا پاتے ہیں۔ بعض میں یہ تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ شعور کنندہ Subject سماجی حقیقت کا حصہ ہے لیکن اس کی حیثیت اس کے علاوہ، تجریدی ہے۔ اس بنا پر’سماجی عمل‘ ان اصولوں کا حقیقت پر اطلاق ہے جنہیں نظریے میں اخذ کیا گیا ہے۔ ایک طرف شعور کنندہ اور وجود میں بُعد اور دوسری طرف نظریے اور عمل میں علیحدگی سماجی تجربے کی وحدت کو ختم کر دیتی ہے۔ اس طرح جب سماجی کُرّے کو تجریدی طور پر معروضی شکل دے دی جائے، یہ سماجی عمل سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ نظریہ سماجی عمل کا ایک لازمی پہلو نہیں رہتا بلکہ سماج کو بالکل ’ٹھیک‘انداز سے منعکس کرنے کا وسیلہ گرداناجاتا ہے۔ شعور کنندہ جتنا زیادہ لاتعلق ہو گا یہ عکس اتنا ہی بہتر سمجھاجائے گا۔ بورژوا معاشیات اوروَلگر سوشیالوجی اس کی عمدہ مثالیں ہیں جن میں سماجی طور پر فعال عامل علم کی فصیل سے باہر دھکیل دیا گیا۔ عامل شعور کنندہ کی مجہولیت اور اس کی سماجی حقیقت سے علیحدگی بُعد کی واضح تصدیق ہیں۔
مارکس نے ہمیشہ اپنی مادیت کو اٹھارویں صدی کی مادیت (La Mettrie, Helvetius, Holbach) سے ممیز کیا۔ اس ضمن میں اس نے اپنی مادیت کی جدلیاتی اساس کو اجاگر کیا۔ فرانسیسی مادیت نے ایک طرف تو ڈیکارٹ کے فلسفے کو اپنایا تو دوسری طرف بیکن، ہابس اور لاک کی مادیت اس میں رچ بس گئی۔ اس کی اعلیٰ ترین شکل فائرباخ کی مادیت تھی۔ اس طرح کی مادیت میں انسانی رویوں اور کردار کی تشکیل میں گردوپیش اور حالات پر زور دیا گیا۔ جیسا کہ مارکس نے فیورباخ پر تھیسس میں نشان دہی کی کہ ادراک کے فعال حصے کو نظر انداز کیا گیا، اس طرح عینیت پسندوں کو اس قابل کیا گیا کہ وہ علم کی تخلیق میں شعور کنندہ کے کردار پر زور دے سکیں بلکہ اس تک محدود کر دیں۔ لیکن مارکس شعور کنندہ اور معروضی حقیقت دونوں کو خود مختار حیثیت کا حامل قرار دیتا ہے۔ ایسا اس کے نظریے ’حقیقی حسیاتی عمل‘ کے ذریعے ہو پاتا ہے۔ اس کی مراد ادراک اور انسانی عمل کی وحدت ہے۔
مارکس اس دلیل کو اور آگے لے کر جاتا ہے۔ فیورباخ کی مادیت کی طرح سوال شعور کنندہ اور وجود کے تعلق، اور اس سے متعلقہ اٹھنے والے سوالات نہیں کیونکہ اس کے خیال میں پہلے سے دئیے گئے کوئی حقائق نہیں۔ علم میں آنے والا وجود سماجی طور پر ارتباط پاتا ہے جسے انسان نے اپنی بقا کی جدو جہد میں متعین کیا ہے۔ مزید براں، انسان سے علاوہ اور آزاد کوئی فطرت نہیں۔ اس کا وجود بھی انسانی عمل سے ارتباط میں ہے۔ فطرت، مارکس کے خیال میں ‘man’s inorganic body’ ہے۔ انسانیت صرف اس فطرت کو جانتی ہے جسے اس کی پیداواری قوت نے تخلیق کیا ہے۔ جرمن آئیڈیالوجی میں اس کا کہنا ہے۔ ’’حسیاتی دنیا …ازل سے دی گئی چیز نہیں جو ہمیشہ سے ایک ہی ہے، بلکہ یہ انسانی محنت اور موجود معاشرے کی پیداوار ہے۔ اس لحاظ سے یہ تاریخی، معاشرتی تخلیق ہے، یہ نسل انسانی کے مختلف ادوار کے عمل کا نتیجہ ہے جس میں ہر نسل پہلی نسل سے تسلسل بناتی ہے۔ ہر ایک اپنی صنعت اور باہمی تعلقات کا ارتقا کرتی ہے اور اس طرح بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق سماجی تنظیم کو بھی تبدیل کرتی ہے۔ (مارکس، اینگلز، جرمن آئیڈیالوجی، ص۳۳۲) ۔
شعور اور وجود کی ہم آہنگی کا نظریہ یقینی طور پر ہیگل سے شروع ہوا۔ اس کا کہنا ہے ’’وہ جمع اضداد جو شعور اور وجود، جسم اور روح، ایمان اور تعقل، لازمیت اور آزادی، وغیرہ جیسی اصطلاحات میں بیان ہوتا تھا۔ یہ کچھ اور محدود کُرّوں میں بھی نمایاں تھیں اور تمام انسانی دلچسپیاں بھی ان میں مرکوز تھیں، لیکن جب ثقافت نے ترقی کی توتضاد تعقل اور حسیات، ذہانت اور فطرت اور اس طرح کی عمومی اصطلاحات میں تبدیل ہو گیا۔ اس کی سب سے عمومی شکل مطلق موضوعیت اور مطلق معروضیت ہو گئی۔ اس طرح کے منجمد تضادات کا ردّ و نمو تعقل کا واحد مسئلہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تضادات اور تعیین کو رد کر دیا جائے کیونکہ زندگی کے ارتقا کا لازمی چلن زندگی کا وہ ایک پہلو ہے جوتضادات کی وجہ سے آگے بڑھتا ہے۔ اور زندگی کی کُلیت اپنی انتہا پر تب ہی ممکن ہے جب مطلق علیحدگی سے نیا اجماع بنتا ہے۔ (ہیگل، خیال کی مظہریات، ص۔ ۷۰) ۔ اس طرح ہیگل نے نئی منطق کی تخلیق کی جو تجریدی اصولوں پر مشتمل نہ تھی بلکہ مافیہ کی منطق تھی۔ اس سے مقرونی نظریے کی منطق ارتقا پذیر ہوئی جو کُلیت کی منطق تھی۔ بقول لوکاش ’’اگر یہ سچ ہے کہ فلسفہ خیال اور وجود کے کُرّے میں ہم آہنگ ترتیب تلاش کر رہا ہے اور وجود کی زمین اس کا پہلا اصول ہے، اور اگر یہ سچ ہے کہ یہ زمین مقرونی پن اور حرکت کی تشریح کرتی ہے، تو یہ واضح ہے کہ اشیاء کے کُرّے میں ماہیت اور ترتیب کا مطلب بنیادی تبدیلی سے گزر چکا ہے۔‘‘(لوکاش، تاریخ اور طبقاتی شعور، ص 143) ہم پہلے ہی اس نکتے کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ہم آہنگی پیدا کرنے والی زمین تاریخ، معاشرہ ہے۔
اس سارے عمل میں ادیب کو تاریخی عمل سے باہر وجود رکھنے والی ہستی قرار دیناخود اس کی نابغیت اور اس کے انتخاب کرنے کے حق کو نظر انداز کرنا ہے۔ ادب خارج میں موجود حقیقت کا جوں کا توں پرتو نہیں بلکہ خارج اور باطن، بنتر اور مافیہ، تعقل اور مادی وجود کے ارتباطی، دو طرفہ تعلق کا نام ہے۔ اگر یہ تعلق یک طرفہ ہو کہ خارجی حقیقت فرد کو اور اس کے عمل کو مشروط اور محدود کر دیتی ہے تو ہم جدلیاتی کی بجائے میکانکی انداز فکر اپنا رہے ہوں گے۔ فلسفے میں شعور اور وجود کی کُلیت جسے ہیگل شعور اور وجود کی ہم آہنگی کا نام دیتا ہے ادب میں مافیہ اور بنترکے مل کر ایک کُلیت بنانے کا سوال ہے۔ جمالیات تمام معاشرتی تاریخی مافیہ اور بنترکے ہم آہنگ کُلیت بننے کا عمل ہے۔ اس میں ادیب مجہول عنصر نہیں بلکہ حقیقی، فعال اور عامل ہے اور اس کا تخلیقی عمل مافیہ اور بنتر کو ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس طرح مافیہ اور بنتر کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہ بطور روح کی کیفیت یا بطورناسٹیلجیا، ایک نفسیاتی یا روحانی پراسراریت نہیں بلکہ حقیقی جمالیاتی عمل ہے جس کا ثمر ادب پارے کی تخلیق ہے۔ اس نقطۂ نظر سے بنتر اس قابل ہو جاتی ہے کہ مافیہ کے اتفاقی اور فالتو عناصر کو تہس نہس کر دے اور اجزا ء کو کُل کی لازمیت میں جوڑ دے۔ مافیہ بنتر کی عملی شکل ہے اور بنتر مافیہ کی تعقلی، نظری اساس ہے لیکن عملی طور پر دونوں ایک ہی ہیں۔

2:
جب ہم حقیقت کو ایک کُلیت مانتے ہیں تو شاعر کی تخیلاتی دنیا اس سے الگ نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ شاعر کی تخیلاتی دنیا اور معروضی حقیقت کا ارتباط کس انداز میں ہو پاتا ہے۔ جب حقیقت نگار کی اس تضاد تک رسائی ہو جو موجود دنیا کے ردّو نموکی بنیاد ہے تو نئی شکل کا وژن، معروضی ہوتے ہوئے تجریدی ہی رہتا ہے لیکن یہ اس وقت مقرونی اور حقیقی ہو جاتا ہے جب اجتماعی انسانی شعور (جسے ہیگل سپرٹ کا نام دیتا ہے) بھی شکست و ریخت سے گزر کر نئی شکل پاتا ہے۔ یہ ثقافتی وجود کی پہلے کے مقابلے میں اعلیٰ شکل، بہتر درجہ ہے جو انسانو ں کو سوچ، جذبوں، شعور، احساسات کے نئے مقامات سے متعارف کرواتا ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ باوجود ایک تاریخی ضرورت کے اس عمل کو روکنے بلکہ اسے مسخ شدہ شکل دینے کے بہت سے حربے استعمال کیے گئے۔ پاکستان ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں قائم ہوا لیکن بجائے اس کے کہ عوام کی فلاح اور ملک کے تاریخی ارتقا کے متعلق نظریات اس کی بنیاد کو اسارتے، ہر قسم کے لغو، بے معنی اور ناقابل عمل خیالات نے اس کی تشکیل کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ کا مطالعہ شخصیات کو اعلیٰ و ارفع قرار دینے، فلسفہ ان ڈھکوسلوں کو جواز مہیا کرنے، اورمعا شیات چوری چکاری اور لوٹ مار کا جواز فراہم کرنے تک محدود ہو گئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں تمام معاشی اور علمی ارتقا ہزاروں سال پہلے شروع ہوئے اور فلسفیوں نے کسی بھی سماجی یا تاریخی مظہر کی تشریح اپنے اپنے انداز میں کی۔ فلسفہ موجود کو جاننے سے شروع ہوتا ہے اور اس کی انتہا اسے تبدیل کرنا ہے۔ یہ موجود کا جواز ڈھونڈنا یا بے بنیاد دعوے کرنا نہیں۔ یہاں کے معاشرتی ارتقا کا مختصرجائزہ بھی ممکن نہیں۔ تاہم علمی ترقی کے بارے اتنا کہنا کافی ہے کہ اس نے کبھی بھی آزادانہ حیثیت اختیار نہیں کی۔ اس کی ترقی میں عقیدہ پرستی اور شخصیت پرستی خاص طور پر آڑے آئے بلکہ شخصیات کے کھوکھلے پن کو تقدس کے ہالے بُن کر پورا کیا گیا۔ اخلاقیات کو حقیقی انسانی تعلقات سے جدا کر کے توہماتی اور پراسرار خاصہ دیا گیا۔ لیکن فیض کی صلاحیتوں کے نکھرنے اور عروج پر آنے کا دور وہ تھا جب اس بنجر اور مردہ زمین کے نیچے بھی اس سوچ کی کونپلیں پھوٹنے لگیں جو خالصتاً انسانی تھی۔ ان ننھی کونپلوں کو اس دھرتی پر جمی اس ہولناک پپٹری کو توڑ کر باہر آنا تھا۔ ہیگل کی سپرٹ کوپراسرار طریقے سے نہیں بلکہ انتہائی زور آور طریقے سے اپنا اظہار کرنا تھا۔
کسی بھی فرد کو اپنے خیالات قائم کرنے کا حق ہے لیکن کوئی بھی انسان دوست سوچ اسے احمق بننے کا حق نہیں دے سکتی۔ اگرچہ بعض تہذیبیں موجود ہیں جن کی بقا اسی میں ہے کہ سوادِ اعظم کو تعقلی بانجھ پن کے گہرے بادل گھیرے رکھیں۔ اس طرح معاشرے میں ایک دہرا پن آ جاتا ہے جو جہالت اور عیاری کو اکٹھا کر لیتا ہے۔ یہ دہرا پن ایک طبقے کے لیے تو زندگی کی رنگینیوں اور رعنائیوں کو جنم دیتا ہے تو دوسری طرف قناعت کی خود کو اذیت دینے والی زندگی ہے۔ ایسے میں روحانیت مفلوج جسم سے زیادہ نہیں۔ کئی ادیبوں میں موجود دنیا کی غلاظت اور اس کی نحوست اور اس کو تہس نہس کرنے کی تمنا ان کی امیجری میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اکثر اوقات ادیب کی اخلاقی کباڑسے نفرت اوراس سے آزادی کی خواہش اس شدت کو جنم دیتی ہے جس میں وہ خود اس گلے سڑے معاشرے کی علامات کو توڑ کے رکھ دیتا ہے۔ یہ علامت یا تخیل کو نیا معنی دینا ہے۔
اس دور میں عام فرد کی نئی سوچ سے کچھ نہ کچھ آگاہی ہوئی۔ یہ جانا گیا کہ دنیا کو جاننا اور پھر اسے تبدیل کرنا عام آدمی کا کام ہے۔ تعقلی دھارے اب فلسفیوں کے اعلیٰ مقام سے نیچے آکر’نچلی‘ حقیقی دنیا میں تلاطم برپا کر رہے تھے۔ اس معاشرتی اور تعقلی اتھل پتھل کااظہارکئی اور شعرا میں نظر آتا ہے لیکن اس کی لازمیت کو کسی شاعر نے کبھی اس طرح سمجھاہی نہیں کہ وہ اس اظہار کو ادب کے اعلیٰ درجوں تک لے جاتا۔ یہ صورتِ احوال نئے موضوعات کے ساتھ ساتھ ان کے ارفع بیان کے لیے ایک نئی شکل کی متقاضی تھی۔ اگر فیض پرانے موضوعات یا روایتی اظہار کی حرارتِ حیات پر شب خون مارنے تک محدود رہتا تو اسے صرف غنائی شذرات ہی ملتے۔ محض احساسات یا محض افکار ہی ملتے۔ دونوں صورتوں میں کوئی بھی چیز نئی زندگی نہ پا سکتی۔
اس عمل میں شاعرانہ تشکیلات محض تخیل کا ثمر نہیں رہتیں بلکہ یہ ایسے مبالغات کی دین ہیں جو لازمی ہیں اور اصلی حقائق کے قوانین کے عین مطابق ہیں۔ یہ زندگی کے عظیم، حقیقی اور تاریخی میلانات ہیں جنہیں ان کے اصل پر بحال کیا گیا ہے۔ اور اس سطح پر انہیں شاعرانہ مشق نے ٹھوس تخیلات، تشبیہات، علامات وغیرہ کی شکل دے دی ہے۔ ان تشکیلات میں شاعرنے ایک دور کے انتہا ئی گہرے مسائل کی زندہ اور واضح جھلک دیکھی اور ساتھ ہی اس نے ان میں اپنی زندگی اور دور کے انتہائی اذیت دہ مسائل کی علامات بھی دیکھیں۔ فیض کی نابغیت ان موضوعات کے انتخاب اور پھر ان کے ارفع اظہار ہی سے آشکار ہے۔ دونوں میں جدت ہی مشترک خاصہ ہے۔ اس کے موضوعات معاشرے سے پرے محض نجی نوعیت کے نہیں بلکہ وہ ا س کے ذا تی تجربے سے نمو پاتے ہوئے اہم ترین قومی رجحانات کے ساتھ آزادانہ جڑے ہوئے ہیں۔ اس دور کی شعوری بیداری جو سیاسی بیداری سے کہیں آگے نظر آتی ہے، اس شاعری کے ذریعے اپنے ماخذ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے یعنی یہ اس وقت کے ساتھ جڑی ہے جب اس کے مربوط ارتقاء کا دھاگہ بڑے عرصے سے ٹوٹ گیا تھا۔ اس دور کے شاعرانہ احیاء سے تاریخ کے دھاگے کو دوبارہ جوڑا جاسکتا تھا۔ اس ماضی سے رجوع درحقیقت کسی نئی سمت میں ضروری آغاز اور تاریخی ورثے کا جائزہ لینے کی حیثیت رکھتا ہے۔
فیض کے تاریخی، معاشرتی تصور کے مطابق کوئی بھی ہستی تاریخی لحا ظ سے، موضوعی اور معروضی دونوں سطحوں پر، ایک بدترین دورِ انتشار میں خود انحصار ہستیوں کی صورت میں نہیں ابھرسکتی۔ اس کا تعلق ایسے دور سے ہے جب ان ہستیوں کا کھوکھلا پن ظاہر ہونا شروع ہو گیا۔ اسی لیے اس کے ہیرو عام افراد، مزدور، کسان، ایرانی طلبا، بیروت کے شہری وغیرہ ہیں۔ یہ تاریخی اعتبار سے فیض کی قومی، سیاسی اور نظریاتی تمنا کا صریح اظہا ر بھی ہے۔ یہ ایک ایسی تمنا ہے جو اپنی کثیرالہیئتی گہرائی کے ساتھ پورے ملک میں ایک پورے دور کی آزادی کی خواہش کی علامت بن گئی ہے۔ اس سماجی ہلچل نے جس چیز کو سماجی اور نظریاتی سطح پر پیش کیا فیض نے اسے تما م نظریاتی مسائل اور زندگی میں ان کے احساس کے ساتھ پیش کیا۔
اس سماجی اور اخلاقی کباڑ کی بہت سی اقسام میں سے ایک لوک شاعری میں عدم تعقلی روش ہے جسے صوفی شاعری کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی انسانی تعلق، تجربے، سوچ، اور اس طرح کسی بھی مافیہ کو تعقلی شکل نہیں دی جا سکتی۔ باطن (قلب، مَن) اپنے آپ سے، اپنے آپ کے لیے ہر چیز کو معنی دیتا ہے۔ اس طرح حقیقی طور پر وجود رکھنے والے خارج کی جدلی تنسیخ ممکن نہیں کیونکہ اس کا متبادل یہی مَن ہے یا ایسی سوچ یا عدم سوچ ہے جو تعقل کی دشمن ہے۔ کم از کم درجے پر بھی نظریہ وجود کی تردیدسوچ کا یہ مقصد طے کرتی ہے کہ باہم غیر مربوط، بکھرے ہوئے وجودات کا تجزیہ اور ان کی جڑت بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے لیے اور کوئی طریقہ بھی نہیں بچتا کیونکہ کُل کو تو یہ پہلے ہی نظر انداز کر چکے ہیں۔ خارجی وجود اور اس میں انسانی عمل جیسی کثیف چیزوں کا بوجھ ان کی ہلکی پھلکی نازک روحانیت سہ ہی نہیں سکتی۔ ان وجوہات کی بنا پر ان شاعروں میں موضوعات کا تنوع نظر نہیں آتا۔ اپنی ابتدا میں انہوں نے قائم شدہ خاص طور پر، مذہبی اداروں کی مخالفت تو کی لیکن ان کا پیش کردہ متبادل ’تمام پر تنقید جو کسی پر تنقید نہیں‘ کے برابر ہے۔ صوفی شاعر عدم تعقلی تصوفانہ تجربے سے دنیا کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے: ان تمام صورتوں میں موجود صورتِ احوال میں کسی قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی بلکہ ان کا فلسفہ اسے انتہائی دردناک طریقے سے قبول کرنے کی صورت بن جاتا ہے۔ جہاں سوچ کی حرکت رک جاتی ہے عین اس جگہ صوفی کا ’مطلق‘ آن ٹپکتا ہے۔ یہ سوچ کا انجماد ہے اور اس علمی ناکامی کے باعث ہے جو علم کو تاریخی طور پر جاننے کی عدم صلاحیت کی بنا پر ہے۔ یہ علم کا لا زمانی اصول ہے لہٰذا اس میں حقیقت یا اس کو جاننے کے اصول منجمد اور بے حرکت ہی رہتے ہیں۔ آج کے دور میں تو اسے انتہائی پسماندہ اور قدیمی نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ اس وسیع تر کوشش کا ایک جزو ہی ہے جس میں سماجی تاریخ اور اس سے متعلقہ شخصیات کی رجعت پسندانہ تشریح کی گئی۔ بعض اوقات انتہائی قدامت پرستانہ اور انسان دشمن رویوں کے گرد تقدس کے ہالے بُنے گئے۔ ایسے بت تراشے گئے جن کی علمی ثقافتی وقعت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن انہیں آسمانوں پرچڑھایاگیا۔ اب کام صرف اتنا ہی باقی رہ گیا کہ ان کی شان میں قصیدے گائے جائیں۔ ایسا کبھی تو’شاندار‘ ماضی کی روایات یا ورثے کو بحال رکھنے کے لیے کیا گیااور کبھی، اگر کہیں ایسا ممکن نہ تھا، جیسا کہ فیض کا معاملہ ہے، عیب جوئی یا قطعی خاموشی جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔
وہ سیاسی اور سماجی نظریہ جس میں قدیم دور ماڈل کی حیثیت رکھتا تھا، لازمی طور پر واہمے کی صورت تھا۔ اس کی بنیاد پر ابھرنے والا ادبی نظریہ جو بلا واسطہ اس سیاسی نظریے پر منحصر تھا، بھی ایک واہمہ، ایک خام خیالی ہی رہا۔ اس ادب میں انسان کی بحیثیت مجموعی تذلیل کو ایک طبقے تک محدود کر دیا گیا۔ اس تذلیل کواس وقت کے نیم سرمایہ دارانہ، نیم جاگیردارانہ معاشرے سے قطعاً جوڑانہ گیا۔ شاعر یا ادیب معاشرے کو ایک کلیت کی شکل میں نہ دیکھ پایا۔ صرف ذاتی اور مکمل طور پر انفرادی واقعات ہی مشاہدے میں آئے۔ وہ سماجی قوتیں جو ان واقعات کو جنم دیتی ہیں ادیب کی پہنچ سے باہر رہیں۔ اس کے نتیجے میں حقیقت کی یک طرفہ پرت ہی بیان ہو پائی ہے۔ الفاظ اب سچائی کے بیان کی بجائے منافقت اور جھوٹ کا وسیلہ بن گئے۔ معاشرے کے دوسرے اداروں کی طرح ادب بھی آزادانہ اور خود مختار شکل پا گیا۔ گویا یہ ایک تجرید ہو، ایک موناد۔ ایسی صورت میں ظاہر معروضی سماجی حقیقت کی اصلیت سے تعلق بنانے میں ناکام رہتا ہے۔ اس صورت میں ادب میں دو رویوں کا سامنے آنا لازمی تھا۔ ایک طرف حقیقت کی ننگی، فوٹو گرافک تفصیل، دوسری طرف انتہائی درجے پر سٹائل پر زور۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ سٹائل نگاری غزل کی شکل میں تھی یا ان بے شمار اصناف اور ذیلی اصناف کی شکل میں جو باہر سے درآمد کی گئیں۔ (انہیں اردو ادیب ’ہےئت میں تجربے‘ کا نام دیتے ہیں) ۔
جب زندگی سے یہ ارتباطی قوت ختم ہو جائے، اور جب اضداد اپنا ضروری تعلق کھو دیتے ہیں، جب ان کے مابین باہمی ربط ختم ہو جاتا ہے اور اس طرح وہ آزادانہ شکل میں، عدم ارتباطی طریقے سے خود مختار ہو جائیں، اس وقت ادیب، معاشرت اور نقاد کے باہم ارتباط کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ادیب اور نقاد علیحدہ سے موجود افراد ہی نہیں ہوتے بلکہ ان میں معاشرے کی شعوری تشکیلات مرتکز ہو کر اپنا اظہار پاتی ہیں۔ آغاز ہی میں اس عمل کے محدودات سامنے آ جاتے ہیں۔ ادب سے متعلقہ سوالات نری بنترتک محدود ہوتے ہیں۔ لازمی طور پر جڑے ہوئے اجزا کی ٹوٹ پھوٹ ادب کو بھی علیحدہ سے ایک جزو بنا دیتی ہے جس میں ادیب باقی معاشرت سے علیحدہ ہو کر صرف ادب کا شغل کرتا ہے۔ یہاں ہم ادب بطور ’شے‘ Commodity کا صرف ذکر ہی کر سکتے ہیں اگرچہ تخلیق کیے جانے والے ادب کا کثیر حصہ اسی زُمرے میں آتا ہے۔
صرف اس لیے کسی چیز کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہمارا ورثہ ہے یا ہماری پرانی ثقافت ہے۔ اس شرط کے بغیر کوئی قوم اپنا احیاء نہیں کر سکتی کہ وہ کیسے اور ماضی کے کس نکتے پر خود کوماضی سے متصل کرتی ہے؟وہ کیا ہے جسے یہ انتہائی اہم ورثہ سمجھتی ہے؟ماضی سے رجوع ایک طرف قومی احیاء میں ردِ عمل کی علامت بنتا اور دوسری طرف یہ ایسا عنصر بن جاتا ہے جو ہر نئی سوچ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ہم عصر ادب کی بات کرتے ہوئے یہ سوال موجود اداروں، معاشرت، ثقافت، ادب، فلسفہ کو رد کرنے سے متعلق ہے۔ اس نظریے کی توسیع تمام نظریے پر لاگو ہوتی ہے جو موجود صورتِ احوال کو قائم رکھنے کے لیے وجود میں آیا، جو اس ذہنی کباڑ سے نکلنے کی جستجو نہیں کرتا۔ اس قسم کے ادب کے ردِ عمل کے نتیجے میں ایسی شاعری سامنے آئی جسے ’باغیانہ‘ یا انقلابی کہا جا سکتا ہے۔ اسے ادبی تاریخ میں اعلیٰ مقام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اپنے تمام تر جوش اور جذبے کے ساتھ یہ جو کچھ ’ہے‘ اور جو کچھ ’ہونا چاہیے‘ میں تعلق نہیں بنا پاتی۔ یہ کسی انقلابی جدو جہد کا ہتھیار تو ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام لوگوں تک پہنچنے کے باوجوداجتماعی شعور پر خارج ہی سے کوئی اثر ڈال سکے لیکن جب دوسرے عوامل اس کے ساتھ مل جائیں تو انسانی شعور لازمی طور پر ایک درجہ آگے جاتا ہے۔ اسے اس مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے کہ سوویت یونین میں انقلابی ادب کا اور کردار ہے اور وہ روایت جو ٹالسٹائی، گورکی، اور دوسرے ادیبوں نے قائم کی کچھ اور ہے۔
یہاں سماجی وجود کا مختصر جائزہ بھی ممکن نہیں۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ اس وقت کا معاشرہ پرانے جاگیردارانہ سماج کی اور جدید سرمایہ داری کی روایات کا گھناؤنا مرکب تھا۔ ثقافتی سطح پر جاگیردارانہ سماج کی تمام غلاظتیں اپنی نحوستوں کے ساتھ موجود تھیں۔ سرمایہ داری کی جدید برکتیں تو اپنا اثر بہت کم دکھا سکیں لیکن اس کی برائیاں اپنی شدت کے ساتھ آن ٹپکیں۔ اگر ایک طرف جاگیردارانہ سوچ موجود ہے تو دوسری طرف جمہوریت اپنی مناسب شکل میں ارتقا نہیں پا سکی۔ اس معاشرتی وجود کا ترقی پسند سوچ سے ٹکراؤ تو ہوا لیکن یہ اتنا طاقت ور نہ تھا کہ باوجود چند تبدیلیاں لانے کے اس کو نئی شکل دے پاتا۔ جس معاشرے میں مختلف وضعِ پیداوار بیک وقت اس انداز میں موجود ہوں کہ ان میں سے کسی کی شکل واضح نہ ہو، ایسے میں بعض طبقات کے لیے اپنے دشمنوں کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ ادیب اور دانش ورکا کام گویا جادوئی کرتب سے ماضی کی ارواح کو ظاہر کرنا اور اپنے مفادات کے لیے الٹی سیدھی حرکات کروانا ہے۔ وہ ان ارواح کے نام، ان کے لباس اور ان کے نعرے استعمال کر کے حال کے منظر بیان کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی کی ارواح ہیرو کم اور مسخرے زیادہ لگتے ہیں۔
معاشرتی اور ثقافتی جمود کے باوجوداس معاشرے کو بہادرانہ رویوں، قربانی، اور قومی سطح پر عظیم ہلچل کی ضرورت تھی تاکہ اسے نئی شکل دینے کی جد و جہد کی جا سکے۔ یہ دور اپنی شاعری مستقبل سے حاصل کر سکتا تھا نہ کہ ماضی سے۔ اسے نظری اندھیرے سے جان چھڑا کر نئی سوچ کی روشنی سے جلا پانا تھی۔ اپنے مافیہا کو پانے کے لیے اس دور کے لیے ضروری تھا کہ مردہ ماضی کی نحوست دفن کی جائے۔ پہلے الفاظ مافیہا سے آگے نکل جاتے تھے، اب وقت تھا کہ مافیہا الفاظ سے آگے جائے۔

3:
کیا فیض ان تضادات کو حل کر سکا؟ جب تضادات نا قابلِ حل ہو جاتے ہیں اور زندگی ایک کھوکھلا وجود بن جائے تو خوبصورتی کی تلاش اور بھی شدت پا لیتی ہے۔ لیکن اکثر یہ خواہش کمزور دل کا فرار بن کر خود زندگی کی حقیقتوں سے چشم پوشی بن جاتی ہے۔ تضادات کے موجود ہوتے ہوئے بھی ان کا واضح شکل اختیار نہ کرنا وہ معروضی صورتِ حال ہے جس کی بنا پر ایسا ادب تخلیق کرنا مشکل ہو جاتا ہے جو عوامی زندگی سے متعلق ہو۔ اس زندگی کے کسی بھی پہلو کی رنگین اور خوشنما تصویر بنانا ناممکن ہے۔ اس کی تصدیق کرنے والا کردار ممکن نہیں رہتا۔ نتیجہ قابلِ رحم ادب ہے۔ نثری ادب میں نام نہاد اصلاحی ناول اس کی مثال ہیں تو شاعری میں یہ ہجر و وصل کے بے معنی مضامین تک محدود ہو جانا ہے، یا پھر انتہائی تجریدی اسلوب نگاری کی مختلف اشکال سامنے آتی ہیں۔ اسی میں حقیقت نگاری کا قابلِ حل تضاد دکھائی دیتا ہے۔ یہ تضاد حل نہ بھی ہو، شاعر کو ’بے وجہ قرار‘ نہ بھی مل سکے لیکن وہ اس کی تلاش میں تو رہتا ہے: ’’اے غمِ دوست! تو کہاں ہے‘‘۔ تضا د کا حل ’غمِ دوست‘ کو مقرونی معنی دینا ہے۔
نقش فریادی کی اکثر شاعری یہی جستجوہے۔ شاعرانہ وژن گویا چاقو کی دھار ہے کہ جس پر موجود حقیقت اور اس کی نئی شکل ملتے بھی ہیں اور نہیں بھی ملتے۔ شاعر کا وژن موجود کو ناکافی جان کر اس سے باہر نکل جانا چاہتا ہے لیکن ابھی اس کا تخیل اس نئے وجود کو تعمیر نہیں کر سکا۔ اگر فیض روایتی یا رومانوی شاعر ہوتا تو وہ موجود کو ہی غنیمت جان لیتا یا پھر خوابوں خیالوں کی تجریدی دنیا تعمیر کر لیتا، یا خوشنما لیکن بے معنی لفظوں کے جال بُن لیتا۔ ایک اور متبادل صوفیانہ قسم کی شاعری بھی ہو سکتا ہے جس میں موجود کی تردید موضوعی سَیلف کا برترہو جانا ہے۔ حقیقت کا درست ادراک اس کے تخیل کو ایسی پرواز سے باز رکھتا ہے جو حقیقت کا بے بنیاد متبادل ہو۔ اکثر یہ کشمکش محبت کو جذبات سے آگے لے جا کر ایک تجربہ بنانے کی کوشش ہے۔ دوسرے جذبوں کی طرح اردو شاعری میں یہ لفظ کوئی مفہوم نہیں پا سکا۔ فیض کی خوبی یہ ہے کہ اس نے زبان کے چٹخارے اور تراکیب کی صناعی سے بچتے ہوئے اس کو زندہ، موجود انسانوں کے درمیان رکھا اور اس عمل میں اس کے معنی جاننے کی کوشش کی۔ اگرچہ وقتی طور پر اس سے باہر جانے کا راستہ نہیں ملا، وہ اسے نئے معنی نہ دے سکا لیکن اس کے کھوکھلے پن کو جان گیا۔ اسے علم ہو گیا کہ موجود سماج نے اس کی پاکیزگی کو چھین لیا ہے، اسے نازک انسانی جذبے سے گھٹا کر کاروبارکی ایک قسم بنا دیا ہے۔ ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘، پہلے کی تردید تو ہے لیکن نئے کی تخلیق نہیں۔
اس کشمکش کا واضح اظہار ’’ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال‘‘ اپنے ساتھ ’’زندگی میں مزا نہیں باقی‘‘ روایت کے ختم ہونے کا اعلان تو ہے ہی، یہ محبت کو نئے معنی دینے میں ناکامی کا اعتراف بھی ہے لیکن یہ اس کے معنی پانے کی جدوجہد کی تصدیق بھی ہے۔
حقیقت نگاری میں جمالیاتی تخلیق ایک فعال عمل ہے جس میں ادیب خارجی محرکات کے سامنے بے بس نہیں کہ وہ صرف ان کا اثر لیتا ہے۔ جمالیاتی سرگرمی وہ آزادی ہے، وہ قوت ہے جوارادے اور اس کی تکمیل کا دوسرا نام ہے۔ شاعری فلسفے کی طرح تجریدی بیانات کا مجموعہ نہیں اور اس کی اعلیٰ اشکال کسی بھی طرح کے انسانی تجربے کے بارے میں ہو سکتی ہیں۔ فیض کی شاعری اگر ایک طرف موجود اور غیر انسانی کے بارے میں ہے تو دوسری طرف اس کا وژن انسانی ہوتے ہوئے اس کے بارے میں ہے جو ابھی موجود نہیں اور موجود بھی ہے۔ اور جو کچھ وہ کہتا ہے، وہ ان کے ملنے اور ان کے تضاد کابیان ہے۔ اس تضاد کا حل اتنا آسان ہے کہ یہ فوری میسر ہو، اس کی عام طور پر ’رومانوی‘ کہلائی جانے والی شاعری ’افشائے راز‘ کی جد و جہد ہے۔ ایسے میں اس کے وِژن کی تسکین خود اسی تضاد میں رہنے میں ہے۔ ’حسن‘، ’مری جاں‘، ’مری روح‘، ’عشق‘، ’الفت‘، جیسے الفاظ انسانی کُرّے سے باہر کی اشیاء نہیں کہ وہ انسانی پہنچ سے باہر ہوں، بلکہ خود ایسا انسانی تجربہ ہیں جو انسان کو دکھ دینے کے علاوہ تردید اور اثبات کا عمل ہے۔ مزید براں، تضادات کا ادغام اور ٹھہراؤ بظاہر ایک جامد حالت بیان کر رہے ہیں، لیکن لگتا یہی ہے کہ ایک معمولی سی حرکت بھی اس تضاد کو روانی مہیا کرے گی، ایک ہلکی سی ٹھوکر اس سکوت کو تہس نہس کرتے ہوئے نئی تشکیلات کو جنم دے گی۔
’آخری خط‘ جیسی نظمیں اس صورتِ حال کا بیان ہیں۔ ’القصہ مآلِ غمِ الفت پہ ہنسو تم‘، اور ’یا اشک بہاتی رہو فریاد کرو تم‘ ان دو کیفیتوں کا اکٹھ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شاعر ایک وجدان کی کیفیت میں ہے؟ اور کیا یہ وجدان (صوفی شاعرکی طرح) کسی جذبے سے خالی ہے؟یا پھر ’آخری خط‘ مکمل فنا کا اظہار ہے؟
فیض کی نظموں کو الگ الگ کرکے پڑھنے کی وجہ سے اس پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اس کی تخلیقی قوتیں دو انتہاؤں کے درمیان جھولتی رہیں۔ کبھی وہ روایتی شاعر کے روپ میں الفت اور محبت کے گیت گاتا رہا، تو کبھی اس کے الفاظ انقلابی پیغام سے ’بوجھل‘ ہو گئے۔ گویا یہ نظمیں دو مختلف شاعروں کی تخلیق ہوں۔ اس طرح کا شدید امتیاز اور غیر ضروری تفریق صرف اور صرف شاعری کے بارے تنگ نظر نظریوں کی وجہ سے ہیں۔ اگر ہم فیض کے نظریات کو مختصراً بیان کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں وہ خارجی قوتوں کے بارے اہم سوالات کا جواب دینے سے لا چار ہے۔ اس کی نظموں کے کرداروں کا اپنے وجود کے مسائل، اور فطرت اور معاشرے کے بارے رویے اپنی پیچیدگیوں اور تکثیر کی وجہ سے لاچاری اور بے بسی کی صورت ہی میں سامنے آتے ہیں۔ ان کے جذبے، فنکارانہ تشکیل میں اپنے آپ کو گویا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے پر تیار ہیں۔ لیکن ان نظموں کا شاعر اس وقت تک شکست ماننے کو تیار نہیں جب تک وہ واقعتا شکست سے دوچار نہ ہو جائے۔ لیکن ایسا تب ہی ہو گا جب وہ شاعری کو انفرادی سطح تک محدود رکھے اور اسے وسیع تر انسانی تجربے سے نہ جوڑے۔ پہلے مرحلے پر اسے کم از کم ذہنی طور پر اس تجربے سے بالا جانا پڑے گا۔ فیض کا ارتقا زندگی کے بارے اعلیٰ نظریہ قائم کرنے کا سفر ہے جو پہلے تو اس سوچ سے چھٹکارا پاتا ہے کہ انسانوں کی مایوس کن اجنبیت، بے معنی جذبوں کا غلبہ، اور معاشرت کے ظالمانہ اور غیر انسانی ادارے صرف رنج و المسے درست جہت پا سکتے ہیں۔ ان کو ان کی اصلیت میں جانے بغیر انسانی عظمت اور وقار کا کوئی نظریہ قائم ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ خواہشات انسان کو بغاوت کی طرف بھی مائل کرتی ہیں۔ لیکن بغاوت صرف نعرے بازی نہ ہو، حال چاہے کتنا ہی تاریک کیوں نہ ہو، رنگین اور خوبصورت مستقبل اسی سے جنم لے گا۔ یہ خواہشات کو اعلیٰ درجے کا معنی دینے کا عمل ہے۔ وہ یوٹوپیائی دانشوروں کی طرح صرف اس بیچارگی کا بیان ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے انقلابی پہلو کو بھی آشکار کرتا ہے۔ انقلاب کی صدا لگانا کافی نہیں، اس کے لیے معروض کو جاننا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
اگر ہم فیض کی شاعری کو ایک تسلسل جانیں اور ایک آدھ نظم یا کسی شعر کو علیحدہ سے منتخب کر کے معنی نکالنے کی کوشش کریں تو نقادوں کے بنے بنائے فارمولے کام نہیں آتے۔ یہ لوگ اسی سادہ لوحی میں پڑے رہے کہ یہاں فیض روایت کے ساتھ ہے اور وہاں وہ روایت سے روگردانی کر رہا ہے۔ فیض محبت کو ایسے کوئی معنی نہیں دینا چاہتاجو نچلے درجے کی لذت پرستی ہو یا تجریدی قسم کا وجدان۔ یہ تمام لذتوں سے اعلیٰ اور تمام خوشیوں کی معراج ہے۔ اگر ایک طرف یہ ان عوامل کی تنسیخ ہے جو اس کی تخریب کر کے اسے انسانیت سے نیچے درجے تک لے آتے ہیں، تو دوسری طرف اس کی کوئی بھی شکل ان مقرونی حالات میں تبدیلی لا کر ہی ممکن ہے جو اس انسان دشمن معاشرے کا خاصہ ہیں۔
یہ ظاہرات کو جوہر سے جوڑنے کا نام ہے۔ اگر شاعر کسی بھی حقیقت کو دوسرے حقائق سے علیحدہ کر دے اور اسے اپنے آپ میں مکمل گردانے تو ان کا دیومالائی دھندلکے میں گم ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔ یا پھر ادیب صوفی شاعر کی طرح تجریدی قسم کے ’مطلق‘اختراع کرنے میں مگن ہو جاتا ہے۔ ان کا انفرادی شعور پر اثر ناقابل فہم ہو جاتا ہے۔ اسے میکانکی نفسیات اور بھی تجریدی شکل دے دیتی ہے اور شاعر انسانی وجود کے بارے تجریدی فارمولے گھڑنے تک محدود ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف بڑھتا ہوا سماجی اور طبقاتی شعور جو مشترک صورتِ احوال کی بناپر شاعر کو نچلے طبقوں کے ساتھ جڑنے پرمجبور کرتا ہے خود شاعر کے وژن کو سارے معاشرے کو ایک کلیت کے بطور لینے کا سبق ہے۔ شاعر اب ایک فرد نہیں بلکہ زندہ فعال لوگوں میں سے ایک ہے جو حقیقت کو صرف سہتے ہی نہیں، صرف اس کا مشاہدہ ہی نہیں کرتے بلکہ اس کی کُل حقیقت کو جان بھی گئے ہیں اور اسے تبدیل کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ معاشرے کا بطور کُلیت علم، شعور اور وجود کے جدلی تضادات کا اجماع ہے۔ یہ چاہے شعوری ہو یا غیر شعوری، اس کی منطق اسے ایک مقام پر جامد نہیں رہنے دیتی۔ اضداد کی ایک مرحلے پر تنسیخ اس عمل کے تسلسل اور اسے ہمیشہ نئی شکل دینے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ عدم ارتباطی کو ارتباط میں لا کر اس کا ردو نمو ہے۔
مارکس نے پرولتاریہ کے حوالے سے اس پہلو کی بہت پہلے نشان دہی کر دی۔ سلیزین Sliesian جولاہوں کی بغاوت کو زیرِ بحث لاتے ہوئے اس نے اس کے ’شعوری اور نظریاتی‘ خاصے کو اجاگر کیا۔ ’جولاہوں کے گیت‘ میں اسے ’’بہادرانہ جنگ کی للکار سنائی دی جس میں چولہے، فیکٹری، کا ذکر تک نہیں، بلکہ پرولتاریہ ذاتی ملکیت کی مخالفت کا اعلان ایک زورآور، بے رحم اور متشدد انداز‘ میں کرتا ہے‘‘۔ یہ ادب کے انقلابی کردار کا سوال نہیں، بلکہ حقیقت کی کُلّیت کو جاننے کا عمل ہے۔ پرولتاریہ فوری طور پر موجود حقائق تک محدود نہیں بلکہ مستقبل میں جنم لینے والی صورتوں کا بھی ادراک کرتا ہے۔ کُلیت کو جاننے کا عمل اشیا کی کثرت کے تشریح پانے سے قبل ہی اپنا رنگ جماتا ہے۔ تاریخ کے ہر ابدالی مرحلے پر مخصوص معاشی نظام کے ساتھ اس سے متعلقہ دوسرے سماجی ادارے بھی ختم ہوئے اور انہوں نے نئی شکل پائی، اگرچہ انسانوں کو اس کا شعور بعد میں ہو سکا۔ لوکاش کا کہنا ہے ’’یہ [کُلّیت] عمل پذیر ہوتی ہے اور یقینی بناتی ہے کہ عمل جو مافیہ اور شعور میں مخصوص اشیا تک محدود ہے، کُلّیت تک وسیع ہو جاتا ہے: یعنی عمل کُلیّت کی تبدیلی کی سمت پا لیتا ہے۔‘‘ (لوکاش، تاریخ اور طبقاتی شعور، ص 175)
اس نکتے کی تشریح کے لیے ادب سے منظوم المیے کی مثال لی جا سکتی ہے۔ ایسکلس سے لے کر شیکسپےئر، اورآگے ہنرک ابسن اور کارنیل تک ’خاندان‘ المیے کا اہم موضوع رہا ہے۔ تمام عظیم مصنفین اس ادارے کے اصلی اور حقیقی معنی تلاش کرتے رہے۔ اس کاتضاد ہمیشہ ان قوتوں سے رہا جو اس کی اصلی شکل کی شکست و ریخت کرتے رہے، جو اس کی پاکیزگی تباہ کرنے پر تلے رہے۔ جدید معاشرے میں یہ لالچ اور خود غرضی کی مختلف شکلیں ہی تھیں جنہیں خود اسی معاشرے نے پیدا کیا اور پھر اس پر تباہ کُن اثرات چھوڑے۔ فیض کی شاعری میں محبت ایسا جذبہ نہیں جو اپنے آپ میں مکمل ہو بلکہ اس کی موجودہ شکل کی جدلیاتی نفی ان عوامل کی دریافت ہے جو مقرونی معاشرتی حقیقت کی وجہ سے ہیں۔ فیض کا نکتۂ نظر اس مثال سے ایک درجہ آگے جاتا ہے۔ کُلّیت کو نظر انداز کرنا سماجی رشتوں کو بُعد زدہ شکل میں تبدیل کرنا ہے۔ عام طور پر ان سماجی تعلقات کی تردید اس لیے کوئی معنی نہیں پا سکتی کیونکہ انہیں اپنے اپنے خانوں میں منجمد کر کے دیکھا جاتا ہے۔ فیض نے ان رشتوں کو انسانی خاصہ دینے کی جستجو میں ان کے مابین ارتباط قائم کیااور اس طرح اس کے وژن میں وہ کیفیتی تبدیلی آئی جو حقیقت نگاری کو ہمعصر وجود سے جوڑ پاتی ہے۔
اب تاریخ (اور معاشرہ) کوئی پراسرار چیز نہیں کہ انسان بے بسی سے اس کی اطاعت ہی کریں۔ نہ ہی یہ ایسی چیز ہے جس کی ماورائی اور نام نہاد ازلی اصولوں کے ذریعے تشریح کی جائے۔ اگر یہ (چاہے لاشعوری طور پر) انسانی عمل کی پیداوار ہے تو دوسری طرف یہ ان بنتروں کو توڑنا پھوڑنا اور انہیں نئی شکل دینا بھی ہے جو انسان کی دوسرے انسانوں، اور فطرت اور معاشرے سے تعلق کی وجہ سے ہیں۔ ان بنتروں کا عدم ارتباطی تجربہ ان کے تاریخی وصف کا آئینہ دار نہیں ہوتا لیکن یہی وہ وجہ ہے جو نظریاتی سسٹم کو کُلیت کی طرف لے جاتی ہے جو درحقیقت معاشرے کا کوئی خاص مرحلہ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر کوئی بھی تشریح واہمے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جیسا کہ لوکاش نے کہا ہے کہ ’’تاریخ ان معروضی بنتروں کو مسلسل توڑنے پھوڑنے کا نام ہے جو انسان کی زندگی کو شکل دیتی ہیں۔‘‘ (لوکاش: تاریخ اور طبقاتی شعور، ص 186) ۔
یہ نکتہ ان دو اقسام کی شاعری میں فرق کرنے میں کلیدی عنصر ہے جنہیں عوامی شاعری اور اعلیٰ حقیقت پر مبنی شاعری کہا جاتا ہے۔ پہلی قسم کی شاعری انقلابی تحریکوں میں جوش اور ولولہ بھرنے کے لیے ضروری ہے اور اس کا اثر وسیع سوادِ اعظم پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ انقلابی تحریک کے نتیجے میں خود رو طریقے سے وجود میں آ جاتی ہے۔ گلی گلی شاعر پیدا ہو جاتے ہیں جو عوامی نفرت اور غصے کا غیر تراشیدہ crude اظہار ہوں گے۔ ایسی شاعری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت نگاری کے اعلیٰ پیمانوں پر کھری نہیں اترتی۔ یہ مکمل حقیقت کا بیان نہیں۔ اگر یہ جذبوں کو متاثر کرتی ہے تو سوچ سمجھ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی۔ یہ پوری ثقافتی، علمی اور معاشرتی تسلسل کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اس قبیل کے شاعر کاشعوری انتخاب یک طرفہ ہی رہتا ہے۔
حقیقت نگار ادب صرف اظہار کا ذریعہ ہی نہیں، یہ بڑی حد تک شاعر کی سَیلف کی تشکیل بھی ہے۔ یہ ایک لمبے اور پیچیدہ عمل سے گزرنا ہے جودر اصل شاعر کے تفکر اور جذبوں کے اعلیٰ شکل پانے کا عمل ہے جو آخر کار انسان کی اس جدو جہد سے جڑت پاتا ہے جو ایک منصفانہ معاشرے کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ عمل خود بخود رونما نہیں ہو جاتا کہ یہ، جیسا حقیقت نگاری کے بارے تنگ نظر رویے ہیں، صرف طبقاتی وابستگی سے مشروط ہے۔ ادیب اپنے ملک، اپنے دور، اور اس کی بدلتی ہوئی قومی سپرٹ، اپنے طبقے یا ا س طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جس سے منسلک ہونے کا وہ شعوری طور پر انتخاب کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے ملک کی تاریخ اور خاص طور پر فیض کے دور کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ادیب تھے جو غالب طبقات کے تنخواہ دار ملازم تھے، جنہیں ادبی لمپن پرولتاریہ کہا جا سکتا ہے۔ ایسے دانشور بھی تھے جو شعوری اور لا شعوری طور پر ان طبقات کے مفادات، نظریات، سیاسی نقطۂ نظر، ان کے خدشات اور ان کے واہمات کا پرچار کرتے تھے۔ پھر ایسے ادیب بھی تھے جو شعوری طور پر کسی طبقے سے وابستگی رکھتے ہوئے بھی حقیقت کو اتنی وسعت اور سچائی سے بیان کر تے کہ ان کا ادب خود ان کے ذاتی نظریات کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیتا۔ اس طرح عظیم ادب مروجہ آئیڈیالوجی سے بالا چلا جاتا ہے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب ادیب بُعدیائی گئی حقیقت سے ’مکمل شخصیت‘ کی تشکیل اوراس کے بیان تک پہنچ جائے۔
اس نظریے کے متوازی سرمایہ دارانہ معاشرے میں مزدور طبقے کا تاریخی کردار ہے۔ طبقاتی شعور مکمل طور پر ’ہیگلائی‘ حرکی مرحلہ (moment) ہے، جس کا درست ادراک اس طبقے کو معاشرے کی تبدیلی کے لیے انقلابی عمل کی طرف لے کر جاتا ہے۔
ضروری ہے کہ فیض کی ’انقلابی‘ کہلانے والی شاعری کو اس تناظر میں پرکھا جائے۔ اس ارتقائی عمل میں فیض نے کیا ’سیکھا‘، اس کی نظم ’رقیب سے!‘سے واضح ہوتا ہے:

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے، رخِ زرد کے معنی سیکھے

اب شاعر کا رنج و الم، سوز و گداز روایتی شاعر کا ایک فرد تک محدود جذبہ نہیں رہا بلکہ یہ ’ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے عقاب‘ کی وجہ سے ہے یا یہ دیکھنے سے کثیر پہلو ہوتا ہے:

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

ہم عصر حقیقت نگاری میں کُلیّت کے بیان کا یہ مطلب نہیں کہ کسی بھی فن پارے سے تمام معاشرتی حقیقتیں ظاہر ہو جائیں گی۔ صرف بالزاک نے تمام حقیقت کو ناولوں کے سلسلے کے ذریعے بیان کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس کا ہر ناول وسیع تر حقیقت کا کوئی ایک ٹکڑا ہی دکھاپانے میں کامیاب ہواہے۔ ہرناول، افسانہ یاجدید ڈرامہ اس کا ایک حصہ ہی دکھا پاتا ہے لیکن کُل اس میں لازمی طور پر شامل ہوتا ہے اور جزو اپنا معنی کُل سے حاصل کرتا ہے۔ نثرپر مبنی ادب، خاص طور پر ناول میں، مقاصد کا کثیر پہلو ہونا، کرداروں کا باہمی تعلق اور جڑت، وسیع تر معاشرتی حقیقت سے جڑے ہوتے ہیں۔ شاعری میں یہ مسئلہ قدرے مختلف ہے کیونکہ شاعری معروضیت کا جوں کا توں بیان نہیں بلکہ جیسا کہ اوپر بحث کی گئی، اس میں شاعر کی موضوعیت ہی حاوی رہتی ہے جو معروضیت سے پیچیدہ اور کثیر پہلو تعلق بناتی ہے۔ حقیقت نگار شاعر کے لیے سرمایہ دارانہ معاشرہ، یا طبقاتی کشمکش کو سیدھے سادے انداز میں بیان کرنا ضروری نہیں۔ فیض کی بیشتر شاعری ایک فرد، یعنی خود شاعر کی موضوعی سیلف کے تجربوں پر مشتمل ہے اگرچہ اس کا خارجی دنیا سے تعلق سادہ اور یک پہلو نہیں بلکہ پیچیدہ اور کثیر پہلو ہے۔ ان عوامل کے نتیجے میں وجودمیں آنے والا مافیہ معنوی اعتبار سے وسعت تو پاتا ہی ہے، ساتھ ہی یہ بنتروں اور ہےئتوں کے امکانات کو بھی جنم دیتا ہے۔ نئی ہےئت فردِ واحد کا تجربہ نہیں، نہ ہی پرانی ہےئت مصنوعی طور پر الفاظ کا اضافہ کرنے سے نئی شکل پاتی ہے۔ یہ نئے مافیہ اور نئی ہےئت کی باہمی تجذیب ہے کہ جس کا خاصہ لازمیت ہے۔
حقیقت نگار ادیب کے لیے انقلاب کی شاہراہ تاریخ کے دھارے سے ہم آہنگ ہے۔ اس طرح ادب کی تخلیق اور معاشرتی حقیقت کی سمجھ دو مختلف عمل ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ ادیب کے ذاتی ارادے کچھ بھی ہوں، حقیقت نگاری کی اعلیٰ اشکال سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے لیے جس کی بنیاد ظلم اور نا انصافی پر ہو، اس کے لیے عوام میں کنفیوژن پھیلانا اور انہیں جہالت کی دنیا میں رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسے حکمران حقیقت نگار ادب کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔
مارکسی فکر کا اصول ہے کہ انسان ’سماجی تعلقات کا مجموعہ‘ ہے۔ یہ خارجی حقیقت کو جاننے کی بنیاد ہے تو دوسری طرف یہ انقلابی عمل کے خدو خال سمجھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ وسیع معنوں میں’سماجی عمل‘ کسی بھی سچے فلسفی اور حقیقت نگار شاعر کا بنیادی مطمح نظر بن جاتا ہے۔ تمام فن اس آفاقی تخلیقی عمل کا جزو ہے جس سے انسان ’اپنے ارد گرد کی دنیا اور خود اپنی تخلیق کرتا ہے۔ تخلیق کا یہ عمل معروض کو جیسے کا تیسا قبول کرنے کا نام نہیں۔ ادیب یا نظریہ ساز کی سوچ کا ارتقا اور اس کی تشکیلات کا عمل ان کی جدلیاتی نفی کرنے میں ہے۔ اس تضاد کا شکل پاناموجود حقیقت کی باطنی وحدت کی پرکھ کرنااور یہ جاننا ہے کہ اس کے مسائل کیا ہیں۔ اس میں کیا ہے اور اس میں کیا نہیں ہے۔ فیض کی شاعری میں یہ حساس دل کی اصلاح پسندی نہیں۔ یہ کُل کو جاننا اور پھر اسے تبدیل کرنا ہے۔
فیض کی ’انقلابی‘ شاعری اسی تناظر میں اپنے معنی پاتی ہے۔ ہم اس کی شاعری سے بہت سی مثالیں دے سکتے ہیں۔ نظم ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ جو کچھ کہ ’ہے‘ اور جو کچھ ہونا ’چاہیے‘ کے تضادات کے پورے سلسلے کا بیان ہے۔ ’تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت‘ ابھی چاہت سے آگے بڑھ کر زندہ حقیقت نہیں بن سکی۔ ابھی تو تاریک راہوں کا سفر جاری ہے، لیکن یہ رنج و الم اور سوز و گداز کی سیاہ دنیا نہیں جہاں ہر انسانی جذبہ اورہر خواہش کسی اندھیرے سے معنی پاتے ہیں۔ ’تیرے ہاتوں کی شمعوں‘ اور نیم تاریک راہوں کا تصادم ؛ ’سولیوں پر ہمارے لبوں کی لالی‘، اور’تیرے ہونٹوں کی لالی‘ ’تیری زلفوں کی مستی‘، ’تیرے ہاتھوں کی چاندی‘ جیسے متضادات کو اکٹھا کرنا ایک نئی دنیا کی تشکیل ہے۔ اس میں فوری کامیابی نہیں، یہ مسلسل جد وجہد کا عمل ہے کیونکہ شاعر کو یقین ہے کہ :

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشّاق کے قافلے

افریقہ کے بارے رجزواضح الفاظ میں موجود معاشرے کی بے بسی سے بغاوت اور نئی دنیا کی تشکیل کی جنگ کا اعلان ہے۔ اپنے جوہر میں، آزادی کی تحریک اور شاعر کے اپنے معاشرے کی تشکیلِ نو مختلف نہیں۔ دونوں ’بسمل پودوں‘ کو کاٹنے اور ’بے کل پھولوں کو‘نوچ ڈالنے کا پیغام ہیں۔ یہ ’اگلی رت کی فکر‘ ہے۔ شاعر کا وژن اپنے آپ میں مکمل اور اپنے آپ سے حقیقت کی تشکیل کرنے والا مظہر نہیں بلکہ روایتی شعرا ء کے برعکس خارجی حقیقت سے تشکیل اور ارتقا پاتا ہے۔ روایتی شاعری کے برعکس جو ’آسمان سے زمین پر نازل ہوتی ہے‘، فیض کی شاعری ’زمین سے آسمان کی طرف جاتی ہے۔‘
معاملہ موجود حقیقت ہی سے شروع ہوتا ہے۔ حقیقت نگار ادیب کا فعال پہلو حقیقت کو تشکیل دینا ہے۔ اس تشکیلی عمل کی دو بنیادی خصوصیات ہیں۔ ایک تو یہ معروض کا مجہول ادراک نہیں، دوسر ے، یہ اذعانی اور عینیتی تعقل کا معروض پر لاگو کرنا نہیں۔ جدلیاتی تعقلی ڈھانچے اجتماعی تاریخی عمل کے دوران تشکیل پاتے ہیں اور عملی ضروریات کے تحت ہی تبدیل ہوتے ہیں یا نئی شکل پاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماجی علوم سماجی دنیا کی تشکیل میں اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں کہ شعور کنندہ جو خود اس سماجی دنیا کی تشکیل کرتے ہیں، ان اصولوں کی بنیاد کو سماجی دنیا میں تلاش کرتے ہیں۔ شعورکی تشکیلات بنانے کے اس عمل میں کُلیت کا حصول صرف اس صورت میں ممکن ہے جب مشترکہ ادراکی سکیمset of schemes کو اس کی جزئیات کے ساتھ جانا جائے۔ جزئیات آپس میں متصادم بھی ہو سکتے ہیں۔ سماجی علوم حکمران اور محکوم طبقوں میں امتیاز قائم کرنے کے لیے اس کی معاشی بنیاد کا کبھی بھی ذکر نہیں کرتے بلکہ اسے ظاہرات تک محدود رکھتے ہیں۔ اعلیٰ (سبلائم، ارفع، شاندار) اور گھٹیا (ولگر، نیچ، چھوٹا) ، روحانی اور مادی، شاندار اور گھٹیا، آزاد اور پابند، وسیع اور تنگ، نایاب اور عمومی، مزیدار اور اکتاہٹ سے بھرپور، جیسے بے شمار متضادات ایک لسانی تانا بانا تشکیل دیتے ہیں جس میں اعلیٰ اور ارفع، شاندار وغیرہ سے مرادوہ ثقافتی اور سماجی مظہرات ہیں جو حکمران طبقے سے متعلق ہیں، جبکہ گھٹیا، نیچ اور تاریک سے مراد وہ صورتیں ہیں جو محکوم اور مظلوم طبقوں سے منسوب ہیں۔ اس دیومالائی اور جادوئی پراسراریت کو قائم رکھنا حکمران طبقوں کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سماجی ٹھہراؤقائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ بعض الفاظ کو ایسے معنی بھی دیے جاتے ہیں کہ خود زبان مسخ ہو جاتی ہے۔ مثلاًاس پس منظر میں ’سماجی ٹھہراؤ‘سے مراد معاشرتی، سماجی، ثقافتی ٹھہراؤ نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے مکانوں کی تعمیر میں، یا پھر کھانے پینے کی عادتوں میں یکسانیت ہے۔ اس طرح سماجی ٹھہراؤ اور سکوت جدلیاتی کی بجائے ولگر معنی اپنا لیتا ہے۔ سماجی دیو مالا میں لفظی تضاد اپنی نظری قوت سماجی ڈھانچے میں برتر اور محکوم کے تضاد سے پاتا ہے۔ یہی اس ظاہر کا جوہر ہے۔ دانشورانہ ڈرامہ اعلیٰ ذوق کی نمائندگی ہے تو ’عوامی‘ ڈرامہ پھکڑ اور بیہودگی ہے۔
امتیازقائم کرنے کی یہ حکمتِ عملی، اور جن تضادات میں اس کا اظہار ہوتا ہے، وہ مرکز ہے جس سے مختلف معاشرتی ادارے اپنا معنی پاتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت کو ایک رخ سے ہی جاننا ہے اور حکمران طبقے حقیقت کا پورا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ صرف محکوم طبقے ہی اس مقام پر ہیں کہ وہ ظاہر اور جوہر کا ارتباط کر سکیں۔
اس طرح سے قائم کیے گئے امتیازات اور اس کے نتیجے میں عام منطق اورزبان کے معاشرتی وسعت پر لاگو کرنے سے جو متضادات پیدا ہوتے ہیں، ان میں زبان کو صرف منطقی ہتھیار کے بطور استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس سماجی صورتِ حال کو نہیں بھولنا چاہیے جس میں زبان کا اس طرح کا استعمال ممکن ہوا۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ ایسا زبان کے ناکافی پن کی وجہ سے ہے جیسا ثبوتیت کی تمام اشکال بیان کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ یہ منطقی یا لسانی عمل تسلسل اور مبسوطیت اور کُلیت سے عاری ہے۔ لسانی عمل تجریدی اور فقط ’عالمانہ‘ ان معنوں میں ہے کہ یہ وجود سے جزوی طور متعلق ہے اور اس کے اجزا کی لازمیت انکاری ہے یا پوری طرح سے اس سے بالا ہے۔ کسی وکیل، مقرر، یا سیاست دان کی زبان، زبان کی امتیازی تقسیم سے یہی خاصہ پاتی ہے۔ اپنی گھٹیا ترین شکل میں زبان قائل کرنے، یا راغب کرنے کے درجات سے ہاتھ کی صفائی تک گر جاتی ہے۔
ادب کے بارے بھی اعلیٰ اور گھٹیا کی تفریق جاری رہتی ہے۔ عوامی اور اشرافیہ کا ادب، ڈرامہ، شاعری، وغیرہ اعلیٰ اور گھٹیا ادب اور ذوق کو علیحدہ کرنے کے لیے ہیں۔ لفظ ’عوامی‘ سے گویا ہر نیچ، پھسڈی، بیہودہ، لغو، بے معنی اور بد ذوق چیز مراد ہے۔ ایسے میں ’عوامی‘ شاعری کا گھٹیا رتبہ پانا لازمی ہے، بلکہ ’نفیس‘ لوگ تو اسے شاعری ماننے سے ہی انکاری ہیں۔ شاعری کی اعلیٰ زبان سے مراد وہ ذخیرۂ الفاظ ہے جو لکھؤو یا دہلی کے شعرا استعمال کرتے تھے۔ اس اعلیٰ و ارفع زبان سے الفاظ کے گورکھ دھندے بننا شاعر کا فریضہ ہے۔ اس طرح اعلیٰ شاعری وہی ٹھہری جو ادبی اشرافیہ کے لیے بعد از طعام تفریح ہے۔ وہ شغل جو انہیں حَظ مہیا کرتا ہے جب ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔
کوئی بھی شاعر اپنی زبان خود ایجاد نہیں کرتالیکن شاعرانہ ڈکشن ہر شاعر سے مخصوص ہے۔ وہ نقاد جو اپنے آپ کو سطحیت تک محدود رکھتے ہیں جہاں کہیں ایسا لفظ یا ترکیب دیکھتے ہیں جو پرانے شعرا نے استعمال کی تھیں، وہ فیض میں روایت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اور جہاں کہیں انہیں موجود زمانے سے متعلق شاعری نظر آئے وہ اس پر جدیدیت کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کے بے ڈھنگے نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ فیض کی شاعری ’روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج‘ہے۔ یہ امتزاج نہیں بلکہ ایک دوسرے میں تجذیب ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ پہلے سے موجود ذخیرۂ الفاظ نئی حقیقتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر نئے معنی پا لیتا ہے۔
شاعری کے لیے ضروری ہے کہ علیحدہ ڈکشن اور اسلوب استوار کرے جو عام نثر سے مختلف ہو۔ اس کے عام درجے سے مختلف اندازِ بیان میں تب ہی دلچسپی ہو سکتی تھی جب یہ روزمرہ کی زبان سے ارفع، اور تازہ اور تخیلاتی ہو۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ خیالات کے کُرّ ے میں وقوع پذیر ہونے والی وسعت اور پھر سادہ اوریک پہلو خیال کی بجائے خیالات کے سلسلے کو بیان کیا جائے۔ اس کثرت کو بیان کرنے کے لیے ذریعۂ اظہار بھی کثیر پہلو چاہیے۔ ’روایت‘ سے متعلقہ ادوار میں شاعرانہ تخلیق اس سمت میں اتنی دور تک چلی گئی کہ اس نے اظہار اور اظہار کے وسیلوں کو ہی حتمی مان لیا۔ ان کا سارا دھیان موضوعی سچائی اور اس کے معروض سے تعلق کی بجائے اظہار کی نفاست اور لفظوں کے استعمال کی چابک دستی سے نکتہ آفرینی پیدا کرنے تک محدود ہو گیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ شاعرانہ ڈکشن عام نثر سے بالکل مختلف ہو کر اپنے آپ میں مکمل ہو گیا۔ شاعری ایک مصنوعی قسم کی فنکاری بن گئی۔ بڑے بڑے اساتذہ میں فن بڑی مشقت سے تشکیل پاتے ہوئے اسلوب کی آسانی سے مبرا ہوگیا۔ اگر مافیہ تبدیل ہوتا ہے تو اس کے اظہار کے لیے اسلوب اور اس کے ذریعوں میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ ہیگل عمدہ شاعرانہ اظہار کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ’’بھاری بھرکم اور زور آور لفاظی سے احتراز کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ الفاظ میں ذومعنویت اور دکھاوے سے دور رہتا ہے کیونکہ یہ موضوع کے باطنی حسن کو تباہ کر دیتے ہیں اور موضوع کے مواد کے تقاضے زبان اور اظہار کے حاوی ہونے کی وجہ سے بھلا دیے جاتے ہیں۔ ڈکشن خود اپنی وجہ سے آزاد اور خودمختار حیثیت اختیار نہ کرے، نہ ہی یہ شاعری کا [علیحدہ سے نظر آنے والا] جزو بن جائے۔ اصل مسئلہ شاعری [کا مافیہ] ہی ہے۔ عمومی طور پر، حتیٰ کہ زبان کے معاملے میں، مربوط تحریر میں کبھی بھی گھٹیا پن کا شائبہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے گویا کہ اپنے آپ سے، اپنے قلب سے پروان چڑھنا چاہیے۔ (ہیگل، ہیگل کی جمالیات، ص، ۱۰۱۱، ترجمہ، ٹی، ایم ناکس)
نئے دور کا مافیہ کیسے اپنے اظہار کا وسیلہ خود سے لاتا ہے:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ نظم پوری طرح سے ان الفاظ اور تراکیب سے بھرپور ہے جو روایتی شاعری میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ تاریخی عمل پر گہری نظر ہونے کی وجہ سے شاعر پوری طرح سے جانتا ہے کہ ملنے والی آزادی عام آدمی کے لیے کوئی خاص فلاح اور خیر لے کر نہیں آئے گی۔ آزادی کی حقیقت جانے بغیر اس نے قومی ترانے گانے نہیں شروع کیے۔ فیض نے بامعنی اور خوبصورت ڈکشن کے ذریعے موجود صورتِ حال کو بیان کیا ہے۔ جب الفاظ اتنے مقرونی معنی لیے ہوئے ہیں، ان کا اپنے آپ میں آزاد اور خودمختار ہونا ناممکن ہے۔
فیض نے آزادی کی تحریکوں، عوامی جدو جہد، سماج کے پسے طبقات کی جدو جہد پر بہت سی نظمیں لکھیں جن کا فرداً فرداً تجزیہ ممکن نہیں۔ لیکن آزادی کے بارے اس کی نظمیں ہم عصر حقیقت کے مسلسل تجربے سے الفاظ اور ان کے معنی میں تبدیلی لا رہی ہیں۔ نظم ’اگست ۵۵‘ کا ڈکشن:

چاند دیکھا تری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پر شفق
ملتی جلتی ہے شبِ غم سے تری دید اب کے

یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ عام سی عشقیہ شاعری ہے اوربعض قارئین کو سادہ اور سطحی معنی کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اس کے ہم عصر مطالب شاید اس اعتراض کو بھی پیدا کریں کہ فیض کی انقلابی شاعری جمالیات کے ’ازلی قوانین‘ سے متصادم ہے۔ فیض کا اپنا کوئی رنگ نہیں، وہ متضادات میں رہ سکتا ہے۔ پہلی نظم میں اس کی توقعات کا پورا نہ ہونا بے عمل مایوسی نہیں بلکہ:

نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

دوسری نظم میں تضادات میں شدت شاعرانہ سوچ میں بھی وسعت لاتی ہے:

پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے

شاعر کی تخیلاتی دنیا موجود حقیقت ہی سے اپنے خدو خال پاتی ہے لیکن اپنی تشکیل میں اس کی تعیین اپنے آپ میں، اپنے آپ کے لیے (مکمل) دنیا ہے۔ خارج کے مختلف تجربے جب ادب پارے میں ایسا باہمی تعلق بنائیں تو ان میں ہرجزو فعال بھی ہے اور مجہول بھی۔ فعال اس لیے کہ دوسرے اپنے جوہر کی تشکیل اس سے جڑت کی وجہ سے پا رہے ہیں اور یہ خود اپنا معنی اس کُلیت سے حاصل کر رہا ہے۔ یہ کثرت باہمی ارتباط اور اس کے نتیجے میں بننے والی کُلیّت ہے۔ اسی بنا پر بعض اوقات شاعر کی تخلیق کی گئی دنیا خارجی حقیقت سے قدرے مختلف نظر آتی ہے لیکن اسی وجہ سے ادب پارہ خارج کا زیادہ سچا، فعال اور وسیع عکس ہے۔ شاعر زندگی کے تجربوں کی جمالیاتی تنظیم کرنے سے کسی ایک تجربے سے آگے جا کر زیادہ بڑی حقیقت کی تخلیق کرتا ہے۔ حقیقت کے اس خاص انعکاس کی خوبی ہے کہ بیان کردہ معروض کا ٹکڑا خود ادب پارے کی اندرونی دنیا اور خارج میں قابلِ فہم ہونے کے ساتھ اس قابل ہوتا ہے کہ اس کا باز تجربہ کیا جاسکے۔ اس بنا پر یہ کہنا خام خیالی ہو گا کہ ادب کی تخلیق کر دہ دنیا حقیقت کا متبادل ہے، یا یہ کہ قاری اسے واہمے کی دنیا گردانتا ہے جس کا اس کے کسی تجربے یا مشاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ قاری کااپنے کسی ایک تجربے کا ادب میں بیان کیے گئے کسی واحد تجربے سے موازنہ نہیں بلکہ ادب پارہ جب کُل کی وسعت ہو تو قاری بھی اس میں اپنی زندگی کے تجربات سے ہم آہنگی پاتا ہے۔ ان معنوں میں ادب پارے کی وسعت ایک شدت بھی ہے۔ جب زندگی کے کسی ٹکڑے کو بیان کیا جاتا ہے تواس کے مختلف پہلوؤں کی ترتیب ادب پارے کی حرکت ہے۔ یہ عمومیت کی تخصیصیت ہے۔ اس لحاظ سے مختصر سی نظم اپنی شدت میں اتنے ہی معنی دیتی ہے جتنا کوئی رزمیہ یا منظوم ڈرامہ۔ معروض کے ٹکڑے کی ہمہ گیریت اور اس کا اپناخاصہ، تناسب وہ عوامل ہیں جو کسی نظم کے ہےئت کے قوانین کے ساتھ مل کر اس کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ فیض کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اس کے شاعرانہ وِژن کی تخلیق کا محرک معاشرہ ہے، اب تک تو یہ معاشرہ تاریخ بناتا رہا، فیض احمد فیض نے اس معاشرے کو اپنی شاعری سے نئی شکل دینے کی کوشش کی۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اس مشن کو کیسے مکمل کرتے ہیں۔