[تحریر: لال خان]
1997ء میں سی آئی اے کے سازشی دانش ور سیمول پی ہٹنگٹن کی جانب سے پیش کئے جانے والے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظرئیے کا مقصد رجعت کی ایک نئی لہر کو دنیا بھر کے انسانوں پر مسلط کرنا تھا۔ اس نظرئیے کے ذریعے امریکی سامراج نے نفرت اور تعصب کے جو بیج بوئے تھے ان کی فصل اب پک کر تیار ہوچکی ہے۔ ہٹنگٹن ’’ویت نام کے قصاب‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ ایک گھاگ اور عیار سفارتکار بھی تھا جو امریکی ریاست کے سامراج عزائم کے تحفظ کے لئے کسی بھی پیمانے کی خونزیری کروانے سے دریغ نہیں کرتا تھا۔
سامراجی قوتوں کے جبر کو مسلط کرنے کے لئے مختلف تصورات اور مفروضے گھڑنے والے ٹنگٹن جیسے نظریہ دان تاریخ کے ہر عہد میں پائے جاتے ہیں۔ قدیم روم کے حکمرانوں اور نظریہ دانوں نے تاریخ میں پہلی بار اپنی سامراجی سلطنت کے پھیلاؤ کے لئے ’’تقسیم کر کے حکمرانی‘‘ (Divide & Rule) کا ہتھکنڈا استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ روم کے شہنشاہ جلا وطن بادشاہوں اور شہزادوں کی خوب میزبانی کرتے تھے، ان کو مالی امداد دیتے تھے اور پھر اپنی سلطنت کے پھیلاؤ کے لئے انہیں بطور ایجنٹ استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد سے آج تک کی تمام سامراجی ریاستوں نے یہی روش اختیار کی ہے۔ قوم، ملک، مذہب، نسل اور دوسرے تعصبات کو ابھار کر محنت کش عوام کی جڑت میں دراڑیں ڈال کے بغاوتوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا جاتا ہے۔
’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا نظریہ ہزاروں سال پرانے مذہبی تعصبات اور منافرتوں کا زہر آج کے عہد میں دوبارہ پھیلانے کے لئے گھڑا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم اور برطانوی سلطنت کے انہدام کے بعد نسل انسانی کی سب سے بڑے بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ نوآبادیاتی انقلاب تھا جو دنیا کے بیشتر سابق نوآبادیاتی ممالک میں قومی آزادی کے مرحلے سے آگے بڑھ کے سامراج کے استحصالی معاشی نظام کے خاتمے کی طرف گامزن ہوگیا تھا۔ انقلابات کی اس لہر کو روکنے کے لئے سی آئی اے نے بھاری مالی سرمایہ کاری کے ذریعے مذہبی جنون کو خود پروان چڑھایا تھا۔ مسلمان آبادی والے ممالک میں بائیں بازو کے سیاسی رجحانات کو دبانے کے لئے اسلامی بنیاد پرستی کو منظم کیا گیا۔ جماعت اسلامی اور اخوان امسلمون جیسی پولیٹیکل اسلامسٹ پارٹیوں کا ابھار اسی دور میں ہوا تھااور یہ مذہبی قوتیں کھلے عام ’’کافر کیمونزم‘‘ کے مقابلے میں امریکی سامراج کی حمایت کا پرچار کرتی تھیں۔
سوویت یونین کے انہدام اور افغانستان میں امریکی ڈالر جہاد کے خاتمے کے بعد ہٹنگٹن نے اسلامی بنیاد پرستی کو الٹ انداز میں استعمال کرنے کی پالیسی وضع کی۔ ماضی کے ’’مجاہدین‘‘ اور ’’فریڈم فائٹرز‘‘ کو اب دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ سوویت یونین کے بعد سامراج کو ایک نئے دشمن کی ضرورت تھی۔ جب حقیقی دشمن دستیاب نہ ہوں تو سامراج جعلی دشمن تراش لیتا ہے۔ چنانچہ اسلامی بنیاد پرستوں کی وحشت کو ایک طرف مغربی ممالک کے عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تو دوسری طرف دہشت گردی کی کاروائیوں کے ذریعے مسلمان ممالک کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا رکھا گیا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس کے ذریعے محنت کش عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کے ساتھ ساتھ سامراجی جارحیت کے جواز بھی تراشے جاسکتے ہیں۔
سامراج کی طرز پر پاکستان کے مقامی حکمرانوں اور کارپوریٹ میڈیا نے ’’طالبان‘‘ کا مفروضہ ترتیب دے رکھا ہے۔ عوام کو تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ’’طالبان‘‘ کوئی یکجا اور منظم قوت ہیں۔ پھر اس بے بنیاد مفروضے سے ’’مذاکرات‘‘، فوجی آپریشن اور ’’جنگ بندی‘‘ جیسے مزید مفروضے برآمد کئے جاتے ہیں۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بات اگر تھوڑی آگے بڑھے تو امریکی ڈرون کام دکھا جاتا ہے۔ ڈرون حملہ نہ ہو تو ’’طالبان‘‘ کے درجنوں گروہوں کی آپسی رخنہ اندازی دہشت گردی کی ایسی وحشیانہ کاروائیوں پر منتج ہوتی ہے کہ سارا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ مذاکرات کے حالیہ قسط میں یہی ہوا ہے جس کے بعد ’’محدود فوجی آپریشن‘‘ کیا گیا۔ پھر یہ آپریشن بھی بند کردیا گیا اور ’’طالبان‘‘ نے ’’جنگ بندی‘‘ کا اعلان کردیا۔ ابھی دائیں بازو کے سیاسی رہنما ’’جنگ بندی‘‘ پر شادیانے بجا ہی رہے تھے اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کا اندوہناک واقعہ پیش آگیا۔ اس واقعہ کے ذمہ داری کسی غیر معروف جہادی تنظیم نے قبول کی ہے جو بقول ’’طالبان‘‘ کے ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
مذہبی دہشت گردوں اور بنیاد پرستوں کے بے شمار گروہوں کو ’’طالبان‘‘ کہا جائے یا کچھ اور نام دیا جائے، یہ قطعاً بھی ایک تنظیمی، سیاسی، نظریاتی اور معاشی اکائی نہیں ہیں۔ ان کے ایک تنظیم یا تنظیموں کا منظم اور یکجا اتحاد ہونے کا جعلی مفروضہ حکمرانوں اور ریاست کے مکار پالیسی سازوں نے مینوفیکچر کیا ہے جس کا مقصد عوام کو مسلسل تذبذب، کنفیوژن اور خوف میں مبتلا رکھنا ہے۔ کچھ دن پہلے شائع ہونے والی ایک مشہور روزنامے کی رپورٹ کے مطابق صرف شمالی وزیرستان میں ’’طالبان‘‘ کے 43 گروہ آپس میں اور حکومت کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ دوسرے قبائلی علاقے شامل کئے جائے تو ایسے دہشت گرد گروہوں کی تعداد 54 ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں متحرک 12 غیر ملکی گروہ اس کے علاوہ ہیں۔ ’’تحریک طالبان پاکستان‘‘ کے ڈھیلے ڈھالے ڈھانچے میں شامل چند ایک گروہ بھی بڑی حد تک خود مختیار اور آزاد ہیں۔ 54 گروہوں میں سے صرف دو (وزیرستان میں مولوی نذیر اور میران شاہ میں حافظ گل بہادر) سے ریاست کی بات چیت چل رہی ہے۔ ان کے علاوہ حکومت کا خیال ہے کہ ولی الرحمٰن گروپ اور عصمت اللہ معاویہ گروپ کے ’’پنجابی طالبان‘‘سے کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے۔ یوں 54 میں 50 گروہوں سے بات چیت کاسرا بھی نہیں مل رہا ہے۔ علاوہ ازیں ان گروہوں کی داخلی ٹوٹ پھوٹ نئے گروہوں کو جنم دیتی رہتی ہے۔ اسی طرح نام اور رہنما بھی بدلتے رہتے ہیں۔ مذاکرات کرنے والوں کے اپنے پیروکاروں میں سے زیادہ انتہا پسند عناصر ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ وفاداریاں بیچی جاتی ہیں اور ’’خدمات‘‘ کرائے پر دی جاتی ہیں۔ کسی کو نہیں پتا کہ کون، کب، کن مفادات اور کس کے اشاروں پر کس کا اتحادی ہے اور کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ کس کی آستین میں سانپ ہے اور کس کی بغل میں خنجر، کوئی نہیں جانتا۔ اس پیچیدہ گھن چکر میں ریاست کے لئے امن اور جنگ دونوں مشکل ہوگئے ہیں۔ مذاکرات اور جنگ کے ادھورے مراحل ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اورآنیو الے دنوں میں بھی ایسا ہوتا رہے گا۔
ریاست کے معاہدے ان گروہوں کے ساتھ ہیں جو افغانستان میں امریکہ سے برسر پیکار ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستانی ریاست اور امریکی سامراج کے تعلقات پچھلی ایک دہائی میں کافی نازک رہے ہیں۔ ان ’’اچھے‘‘ طالبان پر عام طور پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ پاکستانی ریاست کے اندر بھی اس معاملے میں اختلافات اور دھڑے بندی موجود ہے۔ کوئی ٹھوس پالیسی نہ بن سکنے کی یہ ایک اور اہم وجہ ہے۔ بگڑتے ہوئے ملکی حالات اور مسلسل قتل و غارت گری کے پیش نظر فوج کے اندر نچلی اور درمیانی سطح پر بے چینی اور دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ فوجی ماہرین لمبے عرصے تک مصنوعی مذاکرات اور جنگ بندیوں کا انتظار نہیں کریں گے۔ بدعنوان اور کمزور سویلین حکمران فوج کی مرضی کے خلاف کوئی آزادانہ پالیسی بنانے سے قاصر ہیں۔ جس طرح یہ واضح ہوا ہے کہ طالبان کوئی تنظیمی اکائی نہیں ہیں بالکل اسی طرح آنے والے دنوں میں یہ بھی پوشیدہ نہیں رہے گا مختلف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ’’اندر‘‘ سے کس کس کے کیا کیا ناطے ہیں، چور اور محافظ کہاں کہاں پر دوست ہیں اور جرم و انصاف کے مشترکہ مفادات کیا ہیں۔
مذہبی بنیادپرستوں کے نظریاتی اختلافات ثانوی نوعیت کے ہیں۔ اصل لڑائی کالے دھن کی بندر بانٹ پر ہے۔ دہشت گردی کے اس کاروبار میں ’’دہشت‘‘ ہی میابی کی ضمانت ہے۔ یہ درحقیقت گینگ وار ہے۔ جس کا خوف، دبدبہ اور دہشت جتنی زیادہ ہوگی بھتے، سمگلنگ اور دوسرے جرائم پر مبنی معیشت میں اس کا حصہ بھی اتنا ہی بڑھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات سے امن قائم ہوسکتا ہے نہ ہی ریاست میں وہ یکسوئی اور جڑت ہے کہ آپریشن سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کر سکے۔ جب تک دہشت گردی کی جڑ یعنی کالے دھن کے کاروبار اور سرمائے کو کاٹ نہیں دیا جاتا یہ امر بیل کی طرح سماج کا گلا گھونٹتی رہے گی۔