| تحریر: اویس قرنی |
ہر خوشی اور جشن کا دن پاکستان میں محکوموں و مظلوموں کے لیے ماتم کی صفیں سجا دیتا ہے۔ عید کے تہوار ہوں، شادی کا جشن یا پھر کرسمس اور نئے سال کے آمد کی تقریبات، ایک طرف تو شرفا و امرا اپنے محل نما بنگلوں میں موسیقی اور مشروبات کے ساتھ محو ہوتے ہیں تو دوسری طرف درجنوں غریب افراد غیر معیاری، سستی اور زہریلی شراب پی کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ محفلوں کا آغاز تو پُررونق اہتمام اور جوش سے بھرپور ہوتا ہے مگر محفل اپنے انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی سسکیوں اور آہوں کی نذر ہوجاتی ہے۔
کچھ دن قبل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کرسمس کی تقریب میں 42 افراد زہریلی شراب کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور کئی افراد شدید متاثر ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو بینائی سے محرومی کا خطرہ لاحق ہے۔ حادثے کے شکار لوگوں کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کوئی ایسی طبی سہولیات مہیا ہی نہیں ہیں جن کی مدد سے ان کی جان بچائی جا سکتی، جس کی وجہ سے انکو فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں منتقل کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ ایک عیسائی تہوار کی تقریب تھی لیکن مرنے والوں میں مسلمان اور عیسائی دونوں شامل ہیں۔ اسی سال اکتوبر میں 13 افراد جہلم میں کچی شراب سے مارے گئے۔ 2014ء میں عید کی چھٹیوں کے دوران حیدر آباد میں 20 افراد اور کراچی میں 30 سے زائد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس طرح سے ہر سال سینکڑوں افراد زہریلی شراب کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج تک کسی بحریہ ٹاؤن یا ڈی ایچ اے یا پھر نام نہاد مہذب لوگوں کے لیے بنائی گئی بڑی بڑی سوسائٹیوں سے ایسی کوئی خبر موصول کیوں نہیں ہوئی؟ کیا وہاں پر ایسی پینے پلانے کی محفلیں نہیں سجتیں؟ ایسی خبریں ہمیشہ چھوٹے اور پسماندہ علاقوں سے ہی کیوں گردش میں آتی ہیں۔ اس زر کے نظام میں ماتم اور موت بھی دولت و حیثیت دیکھ کر ہی نمودار ہوتی ہے۔ یہ سستی زہریلی شراب کبھی بھی اپنا راستہ ان بحریہ ٹاؤنوں میں نہیں بنا سکی کیونکہ منڈی کے قوانین کے مطابق اس کی مارکیٹ ہی وہی مفلوج و محکوم ہیں جن کی آمدنی بہت قلیل ہوتی ہے، جنہیں دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کاموقع اس ارزاں تفریح کی بدولت ہی میسر آتا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیش آنے والا واقعہ بھی ان غریب عیسائیوں کے ساتھ ہی پیش آیا جو اس مملکت خداداد میں قانونی طور پر شراب تو خرید سکتے ہیں مگر یہ افتدگان خاک اس ’قانونی شراب‘ کو کچھ پیسوں کے عوض انہی بڑی بڑی سو سائٹیوں میں پر رونق محفلیں سجانے والے لونڈوں کے ہاتھ بیچ کر اپنے لیے سستی ’دارو‘ کی شکل میں موت خرید لاتے ہیں۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی جغادریوں سے مصالحت کے لیے پاکستان میں شراب پر قانونی طور پر پابندی لگائی، جو کہ اپنی اساس میں ایک موقع پرستانہ سیاسی فیصلہ تھا نہ کہ اخلاقی یا منطقی۔ اور یہ کام اسی بھٹو نے کیا جس نے لاہور کے جلسہ عام میں بڑی گرج سے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’’ہاں! میں شراب پیتا ہوں، ان سرمایہ داروں کی طرح غریبوں کا لہو نہیں پیتا۔‘‘ اس فیصلے سے پہلے شاید ہی کبھی کسی نے سنا ہو کہ کوئی انسان شراب پینے کی وجہ سے مارا گیا ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالمانہ اور رجعتی قوانین اور لوگوں کی سماجی اور نجی زندگیو ں میں مداخلت، سماجی اور ثقافتی مسائل کو حل کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ کبھی بھی قوانین بنا دینے سے کسی برائی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان پابندیوں سے کہیں زیادہ مضر اثرات جنم لیتے ہیں۔ حکمران طبقات کی منافقت کا یہ عالم ہے وہ خود ہر طرح کی بلا نوشی اور جنسی بد مستیوں کی رنگ رلیاں مناتے ہیں جبکہ عوام کے لیے شراب پر اور دیگر سماجی اور ثقافتی پابندیاں عائد ہیں۔ جب شراب نوشی سماجی زندگی میں ایک مسئلہ اور سماجی و معاشی ترقی میں رکاوٹ بن جائے تو اس صورت میں اس پر پابندی کا مناسب جواز موجود ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس پابندی کے محرکات سراسر رجعتی ہیں اور اس پابندی کی نوعیت نجی زندگی میں منافقانہ مداخلت کی ہے۔
77ء کی پابندی کے بعد شراب کی طلب اور رسد میں کمی کی بجائے ہو شربا اضافہ ہوا ہے، اور صرف یہی نہیں بلکہ کئی نئی شراب ساز کمپنیاں بھی بنی ہیں۔ پابندی کے بعد ہونے والوں دنگوں میں جہاں بڑے پیمانے پر شراب کی دکانوں (وائن شاپس) کو برباد کیا گیا وہاں جتنی سکت تھی اس کے مطابق لوگوں نے بوتلوں پر قبضے بھی کیے۔ وہ جن کے پاس شراب خریدنے کی قوت نہیں تھی، انہوں نے ان دنگوں اور فسادات کے دوران اپنی پیاس بجھائی۔ اور یہ اس پابندی کا صرف آغاز تھا!
اس خطے کی ہزاروں سالوں کی اپنی زرخیز تاریخ، ثقافت اور روایت ہے۔ آج بھی گلگت اور ہنزہ میں گھریلو طور پر بنائی جانے والی وائن اورشراب (ہنزہ واٹر) مہمانوں کو پیش خدمت کیے جانے والے مشروبات میں سب سے آگے ہے۔ اگرچہ اب یہ کمرشلائزیشن اور خاص طور پر چینی مداخلت کی وجہ سے اپنی تاریخی حیثیت کھو چکی ہے اور اسکے معیار میں بتدریج گراوٹ آرہی ہے۔ اسی طرح سے سوات اور چترال جیسی جنت نظیر وادیوں میں اس کی اپنی ایک تاریخ موجود ہے۔ یہی کیفیت ہمیں بلوچستان میں بھی ملتی ہے۔ سندھ کے شہروں میں وائن شاپس کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کے دیگر علاقوں سے نسبتاً آسانی سے شراب کا حصول ممکن تھا۔ حال ہی میں ان وائن شاپس پر پابندی لگانے پر بھی زور دیا گیا ہے جس سے شراب کی بلیک میں فروخت سے قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وائن شاپس کی موجودگی کے باوجود یہاں بھی آئے روز لوگ کچی شراب سے اموات کا شکار ہوتے ہیں، جس کی وجہ ایک بار پھر غربت اور پسماندگی ہے۔ پنجاب اور کشمیر کے علاقوں میں کبھی کسی دور میں تو شاید علاقائی بنیادوں پر ایسے مشروبات پائے جاتے ہوں، مگر آج ایسا کم ہی نظر آتا ہے۔ ہر قوم کی اپنے انداز میں بنائی گئی شراب تاریخی ارتقا کاایک اہم ترین جزو رہا ہے۔ جیسا کہ فریڈرک اینگلز اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘ میں لکھتا ہے کہ عہد بربریت کے آخری دور، جس کے بعد نسل انسان نے تہذیب میں قدم رکھا، کی بڑی حاصلات میں تیل نکالنا اور شراب بنانا ایک اہم قدم تھا۔
دوسری طرف یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی دانشور، تجزیہ نگار، کالم نگار، بزنس مین، جرنیل یا سیاست دان ایسا ہوگا جس کوکبھی اس بلا نوشی کا اتفاق نہ ہوا ہو۔ یہ ایک بے پردہ راز ہے کہ اس ملک کے تقریباً تمام سربراہان وسکی کو ایک پسندیدہ ترین مشروب کے طور پر نوش کرتے رہے ہیں، چاہے وہ یحییٰ، ایوب یا پھر مشرف کی آمریتیں رہی ہوں یا بھٹو اور زرداری کی جمہوریتیں۔ مضحکہ خیز المیہ ہے کہ یہ اس مملکت خداداد کا حال ہے جس میں عام آدمی کے لئے شراب پینا ممنوع ہے۔ لیکن ’اوپر‘ سے پابندی کے باوجود نیچے صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں شراب نوشی کی فی کس شرح ہندوستان کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔
آج کی جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے عہد میں بے شمار ’شرفا‘ کی ویڈیوز اور کہانیاں گردش میں رہتی ہیں جو بند کمروں اور بعض اوقات کھلی شاہراہوں پر بوتلوں کے ساتھ ٹہلتے اور اٹکیلیاں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، پھر چاہے وہ ’علما کونسل‘ کے مولانا طاہر اشرفی ہوںیا پھر کوئی گنڈاپور اس کو شہد کی بوتل قرار دے رہا ہو۔ یہ لوگوں پر کفر کے فتوے صادر کرنے والے وہی کام سرے عام کرتے پھرتے ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، جب کہ ایک غریب لاچار اسی ’جرم‘ کی پاداش میں مہینوں سالوں تک پابند سلاسل رہ سکتا ہے۔ یہی طبقاتی نظام کا طبقاتی قانون ہے۔ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ نے تمام مقدم اداروں اور ایوانوں میں ہونے والی وارداتوں کو کچھ بے نقاب کیا تھا۔ اس میںیحییٰ خان کے دور میں حکومتی ایوانوں کی رنگ رلیوں کا واضح ذکر موجود ہے اور اسی طرح سے فوجی محاذوں کا بھی۔ آفیسرز میس کے عشائیے تب بھی شراب کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے۔ پاکستان کی سب سے پرانی انٹرپرائز اور سب سے بڑی بریوری (مری بریوری) کا چیف ایگزیکٹو حالیہ حکمران پارٹی کا وزیر ہے اور اس کے آباؤ اجداد بھی اسی کاروبار سے وابستہ تھے۔ ایک طرف پاک بھارت دشمنی کی فضادونوں ممالک میں گرمائی جا رہی ہے تو دوسری طرف مری بریوری کی باقاعدہ فرنچائز بنگلور کی کمپنی کے ساتھ اشتراک میں کھولی جا رہی ہے اور نہ جانے کتنے ایسے کاروبار کیے جا رہے ہیں لیکن لوگوں میں دشمنی کی منافرتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ راولپنڈی میں واقع اس بریوری کے سامنے کی کشادہ شاہراہ ایک بنگلے کی طرف جاتی ہے جو کبھی مری بریوری کے بانی خاندان کی رہائش گاہ ہوتا تھا اور آج کل پاکستان کے چیف آف جنرل سٹاف کا مسکن ہے جو اس فیکٹری کو انتہائی محفوظ مقام بنا دیتا ہے۔
شراب نوشی کی ایک اہم وجہ صحت مند تفریح کا بحران بھی ہے۔ معاشی زوال کے شکار اس معاشرے میں تفریح کے مواقع بھی عوام کے لئے معدوم کر دئیے گئے ہیں۔ معاشی بحران اپنا اظہار فن، ثقافت، ادب اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے زوال میں کرتا ہے۔ اس گھٹن اور محرومی کے معاشرے میں لوگوں کی وسیع اکثریت تفریح اور تخلیق کے مواقع سے محروم ہے۔ نئی نسل کسی صحت مند تفریح کے بغیر پروان چڑھ رہی ہے۔ کھیلوں کے میدان ویران ہوگئے ہیں یا ان پر بلڈر مافیا اور ملاؤں نے قبضے کر لئے ہیں۔ شراب سمیت دیگر تمام لتوں سے چھٹکارہ ایک تعمیری اور صحت مند متبادل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن غربت سے اٹے سماج میں تفریح جب تک پیسوں کی مرہونِ منت رہے گی تب تک کسی سماجی برائی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے، چاہے اسکے لیے جتنے مرضی قوانین بنادئیے جائیں۔
’’پابندی کے ذریعے ملک بھر میں شراب کو فروغ دینے والے نظام کا خاتمہ انقلاب کے آہنی اثاثوں میں سے ایک ہے۔‘‘ ( لیون ٹراٹسکی)
متعلقہ: