[تحریر: لال خان]
زخموں کے ماروں سے زیادہ زخموں کی تکلیف کون جانتا ہے؟ غربت اور ذلت، محرومی اورمحتاجی، بیگانگی اور تضحیک کو برداشت کرلینے سے زخموں کے درد اور روح کے روگ ختم نہیں ہوتے۔ برداشت یقیناًاذیت ناک ہوتی ہے لیکن محرومی اور بے بسی کے اعشارئیے بھی کسی ذی شعور انسان کے لئے کم تکلیف دہ نہیں ہیں۔ المیہ یہ ہے یہ اعداد و شمار عالیشان ہوٹلوں میں ہونے والی کانفرنسوں میں اسی نظام کے رکھوالوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں جو تمام تر بربادی کی بنیادی وجہ ہے۔ حکمران طبقات کے نمائندوں کو غربت کا جائزہ پیش کرنا ایسے ہی ہے جیسے قاتل کو مقتول کی لاش کی تفصیلات بتائی جارہی ہوں۔ غربت کو سرمائے کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ یہاں غربت پر بھی ’’ریسرچ‘‘ ہوتی ہے اور پھر ’’ سیکولر‘‘ اور مذہبی جماعتوں اور این جی اوزسے لے کر دن رات عوام کا خون چوسنے والے ’’مخیر حضرات‘‘ خیرات کا منافع بخش کاروبار کرتے ہیں۔ ہمارے بھورے انگریز حکمران جو انگریزی جرائد بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ان میں پچھلے عرصے کے دوران بھوک اور غربت پر بہت سے اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں نے ان اعدادوشمار کو ’’چونکا دینے والے‘‘ قرار دیا ہے۔ پتا نہیں کون چونکا ہوگا؟ جن پر یہ عذاب بیت رہے ہیں انکے چونکنے کی حس ہی اس نظامِ زر نے مار دی ہے اور جو عذاب ڈھا رہے ہیں وہ چونکنے سے رہے!
عوام کی اکثریت کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ایک چیلنج بن کے رہ گیا ہے جس ایک اظہار خوراک پر خرچ ہونے والے فی کس آمدن کے حصے سے ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی آمدن کا بڑا حصہ پیٹ کی آگ کی نذر ہوجاتا ہے۔ 84 ممالک پر ہونے والے اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق ایک عام پاکستانی خاندان کی کل آمدن کاتقریباً پچاس فیصدہ حصہ خوراک پر ہی خرچ ہوجاتا ہے جس کی بنیادی وجہ کم آمدن اور مہنگی خوراک ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں یہ شرح صرف 6 سے 7 فیصد ہے۔ حیران کن طور پر دنیا کی 40 فیصد بھوک پالنے والے ہندوستان کا ’’اوسط‘‘ خاندان بھی اپنی آمدن کا 25 فیصد خوراک پر خرچ کرتا ہے۔ (عصمت شیخ، ایکسپریس ٹریبیون، 4 اگست 2014ء)
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں غذائی قلت یہاں کا سماجی معمول بن کے رہ گئی۔ آبادی کی وسیع اکثریت صحت بخش خوراک سے یکسر محروم ہے۔ حکومت کے اپنے غذائی سروے کے مطابق 60 فیصد آبادی غذائی عدم استحکام کا شکار ہے یعنی آمدن میں معمولی کمی یا خوراک کی قیمتوں میں ذرا سا اضافہ انہیں باقاعدہ بھوک سے دوچار کر سکتا ہے۔ آبادی کے اس حصے میں 50 فیصد خواتین اور بچے شدید غذائی قلت سے دوچار ہیں۔ 21 نومبر 2013ء کو ڈان میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ خوفناک انکشافات سے لبریز ہے۔ رپورٹ میں قومی غذائی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر 44 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر نامکمل نشونما کا شکار ہیں اور 2001ء کے بعد ایسے بچوں کی تعداد میں 3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 35 فیصد اموات کی براہ راست وجہ غذائی قلت ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس صورتحال کو ’’ایمرجنسی‘‘ قرار دیا ہے۔ غذائی سروے میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف تین فیصد بچے ایسے ہیں جنہیں بنیادی غذائی ضروریات کے مطابق خوراک میسر ہے۔
خوراک کی بڑھتی قیمتیں (Food Inflation) غربت میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔ ایشین ترقیاتی بینک کے مطابق خوراک کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ 2.2 فیصد ملکی آبادی (تقریباً 34 لاکھ افراد) کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیتا ہے۔ 2013-14ء کا معاشی سروے پیش کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے خود اعتراف کیا ہے ملک کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ سروے میں مزید درج ہے کہ 2ڈالر فی کس یومیہ کو معیار بنایا جائے تو 60 فیصد سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے۔ 7فروری 2015ء کو ڈیلی ٹائمز میں شائع ہونے والی SDPI کی رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ پاکستانی ہر سال خط غربت سے نیچے گر رہے ہیں۔ 14 ستمبر 2014ء کو ڈان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں نیم سرکاری ادارے IPR کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’’2008ء کے بعد سے آمدن کی عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بیس فیصد غریب ترین آبادی کی حقیقی آمدن 22فیصد گری ہے …یہ ایک المیہ ہے کہ پونے چار کروڑ لوگوں کو دو وقت کی خوراک بھی میسر نہیں ہے اور وہ بھوکے رہنے پر مجبور ہیں۔ ‘‘
مملکت خداد میں پینے کا صاف پانی بھی کسی مراعت سے کم نہیں ہے۔ 2001ء سے 2010ء کے درمیان PCRWR نامی غیر سرکاری ادارے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق شہروں میں 15فیصد اور دیہاتی علاقوں میں 18فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ 80فیصد سے زائد آبادی بیکٹیریا، آرسینک، نائیریٹ اور سلفر ملا پانی پینے پر مجبور ہے۔ آلودہ پانی جان لیوا بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ 17اپریل 2012ء کو پاکستان ٹوڈے میں شائع ہونیو الی رپورٹ کے مطابق ملک میں 40فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہے۔ بچوں میں ہونے والی 60فیصد اموات کی وجہ غلیظ پانی ہے جو ڈھائی لاکھ بچوں کو ہر سال موت کی وادی میں دھکیل دیتا ہے۔ 22مارچ 2014ء کو دی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے CMHلاہور میڈیکل کالج میں کمیونٹی میڈیسن کے ماہر محمد اشرف چوہدری کا کہنا تھا کہ ’’80 فیصد بیماریوں کی وجہ گندا پانی ہے…یہ ایک المیہ ہے کہ 66 سال میں ملک کی کوئی واٹر پالیسی ہی وضع نہیں کی گئی ہے…واٹر ٹیبل ہر سال ایک سے دس فٹ تک نیچے گررہا ہے اور 2020ء تک عین ممکن ہے کہ پاکستان کو سرکاری طور پر پانی کی قلت سے دوچار ملک قرار دے دیا جائے۔‘‘
اس نظامِ زر نے عالمی سطح پر جو بھوک پھیلائی ہے اس کا اندازہ اقوامِ متحدہ کی ذیلی غذائی تنظیم FAO کی رپورٹ سے ہوتا ہے جس کے مطابق 7.1 ارب آبادی کے اس سیارے پر ہم 10 ارب افراد کی غذا پیدا کررہے ہیں، پھربھی 2 ارب انسان غذائی قلت کا شکار ہیں۔ درحقیقت آدھی سے زیادہ نسل انسان کسی نہ کسی سطح کی غذائی قلت میں مبتلا ہے۔ آج دنیا کی صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہ اس سے بھی بدتر ہے جس کا تذکرہ ساحرلدھیانوی نے اپنے اشعار میں کیا تھا۔ 1944ء کے قحط بنگال کے بارے میں ساحر لدھیانوی کی نظم پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھی گئی ہو۔ بڑے سے بڑے اعدادوشمار بھی افلاس اور بھوک کا احساس ان اشعار سے بہتر بیان نہیں کر سکتے۔
جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ اِن پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا
کہ نسلِ آدم وحوا بلک بلک کے مرے
ملیں اِسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اسکی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
زمیں کی قوتِ تخلیق کے خداوندو
ملوں کے منتظمو، سطلنت کے قرزندو
پچاس لاکھ افسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظامِ زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
یہ اشعار اس نظام کی ہر قدر کو ٹھوکر مارنے والا ساحر جیسا انقلابی ہی کہہ سکتا ہے۔
آج غریبوں کی سیاست کر کے سرمایہ داری کو تحفظ دینا گلی سڑی سوشل ڈیموکریسی کی مجرمانہ پالیسی ہے۔ دوسری جانب خیرات کے ذریعے ڈاکہ زنی چھپانے والے سرمایہ داروں کی شان میں قصیدے لکھے جاتے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا غریبوں کی غربت کا رونا تو بہت روتا ہے ہے لیکن انقلابی سوشلزم کے ذریعے اس ذلت او راستحصال سے نجات کا سائنسی پروگرام دیا جائے تو بات گول کر دی جاتی ہے۔ عوام کے قہر کو مذہب اور جمہوریت کے خوابوں میں تحلیل کردیا جاتا ہے۔ لیکن آنسو بہا کر بھی اپنے خون پسینے سے اس سماج کی تمام دولت پیدا کرنے والے محنت کشوں کو کسی ہمدردی اور ترس کی ضرورت نہیں۔ جو سماج کو چلاتے ہیں، وہ اس کو روک بھی سکتے ہیں۔ اور جو روک سکتے ہیں وہ اسے یکسر بدل بھی سکتے ہیں!
متعلقہ:
پاکستان: گندم کا بڑھتا ہوا بحران