تحریر: عمر شاہد
رواں سال برس نومبر میں اعلانِ بالفور (Balfour Declaration) کو سو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اعلانِ بالفور کے ذریعے برطانوی سامراج نے مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا کھلا کھلم ارادہ ظاہر کیا۔ 2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کی جانب سے صہیونی رہنما والتھر روتھ چائلڈ کو لکھا گیا یہ خط تاریخ میں ’اعلانِ بالفور‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک اور خفیہ معاہدہ تھا جسے ’سائیکس پیکوٹ معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ سلطنتِ عثمانیہ کے گرنے کے بعد فرانسیسی سفارتکار فرانکس جورجیش پیکوٹ اور برطانوی عہدہ دار سر مارک سائیکس کے درمیان مئی 1916ء میں طے پایا۔ اس معاہدے میں ایک صیہونی ریاست کا قیام بھی شامل تھا۔ اکتوبر انقلاب کے بعد بالشویک تمام تر خفیہ سفارتی دستاویزات کے ساتھ ساتھ اس سازشی معاہدے کو بھی منظرِ عام پر لے کر آئے جس سے سامراجیوں کو بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی اور محنت کشوں کے سامنے ان کی اصلیت عیاں ہوئی۔ یہ سازشی سمجھوتے جنگ کے بعد کے عرصے میں سامراجی لوٹ مار اور خطے کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے کئے گئے تھے۔
اعلان بالفور کے صد برس پورے ہونے پر برطانیہ میں حکومتی سطح پر جشن منایا گیا۔ اس موقع کی مناسبت سے 2 نومبر 2017ء کو لندن میں برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی جانب سے پر تکلف ڈنر کا اہتمام کیا گیا جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سمیت 150 سے زائد اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے اعلان کیا کہ برطانیہ کو فخر ہے کہ اُس نے سر زمین فلسطین پر اسرائیل کے قیام کو عمل میں لایا اور اس بات پر بھی فخر ہے کہ اُس نے یہودیوں کو اعلان بالفور پیش کیا۔ اس سے پہلے 30 اکتوبر کو برطانوی سیکرٹری برائے خارجہ امور بورس جانسن نے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران انتہائی ڈھٹائی سے اعلان بالفور کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک صدی کے بعد بھی برطانیہ اعلان بالفور کے نامکمل اہداف کے حصول کے لئے اپنی مدد جاری رکھے گا۔‘ سامراجی حلقوں میں جہاں اس معاہدے کا جشن منایا گیا وہیں مشرق وسطیٰ کے باسیوں پرسامراجی لکیروں کے زخموں کی اذیتوں، انتشار اور ظلم و استحصال کی وحشتوں کا موازنہ شاید ہی کسی اور خطے کے باسیوں سے کیا جا سکے۔ جبر مسلسل کے سو سال بعد بھی فلسطین کے عوام نجات کے نہ صرف متلاشی ہیں بلکہ اس کے لئے جدوجہد میں سرگرم ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کا عہد مشرق وسطیٰ کے لئے اہم تبدیلیوں کا دور ثابت ہوا۔ خلافت عثمانیہ کے جنگ میں شامل ہونے اور اس کی زوال پذیری نے مشرق وسطیٰ میں نہ ختم ہونی والی ہولناکیوں کا باب کھول دیا۔ جنوری 1915ء میں اپنے جنگی اتحادیوں کی ایما پر خلافت عثمانیہ کی فوج نے برطانوی سامراج کے زیر تسلط مصر کے علاقے نہر سوئز اور وادی سینا پر حملہ کر دیا، جس کے بعد برطانیہ کو اپنے سامراجی عزائم کے لئے اس کے قریبی علاقے فلسطین کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوا۔ اس اہمیت کے پیش نظر برطانوی لبرل صیہونی نواز سیاست دان سر ہربرٹ سیموئیل نے برطانوی کابینہ کولکھے گئے خط میں تجویز کیا کہ فلسطین میں یہودی وطن کا قیام برطانیہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی سر ہربرٹ سیموئیل بعد میں فلسطین میں برطانیہ کاپہلا ہائی کمشنر (یعنی سفیر) مقرر کیا گیا تھا۔ برطانو ی سامراج ایک جانب صیہونیوں کی حمایت کر رہا تھا تو دوسری جانب اس کی جانب سے میک موہن عرب رہنماؤں کو ترکی کی خلافت عثمانیہ سے آزادی کی یقین دہانی کروا رہا تھا۔ 1915ء اور 1916ء میں میک موہن نے شاہ حسین کو خطوط لکھے تھے، جن میں ان کی حمایت کے بدلے میں عرب ممالک کو ’’آزادی‘‘ دینے کا یقین دلایا تھا۔ اپریل 1917ء میں عالمی جنگ کے اتحادی بلاک میں امریکہ کی براہ راست شمولیت کے بعد ستمبر میں برطانوی کابینہ میں اس خودمختیار یہودی ریاست کی تجویز کو باقاعدہ پیش کیا گیا، لیکن کابینہ نے فوری طور پر اس کو منظور نہیں کیا۔ یہاں سے دل برداشتہ ہونے کے بعد سخت گیر صیہونی حلقوں نے امریکی صدر ووڈرو ولسن سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ووڈرو ولسن نے تجویز دی کہ ابھی اس حد تک جانے کا مناسب وقت نہیں ہے، لہٰذا زیادہ سے زیادہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ صیہونیوں سے اظہار ہمدردی کے لئے ایک بیان جاری کر دیا جائے۔ لیکن 1917ء میں بالشویک انقلاب اور 1918ء میں جرمنی میں انقلابی تحریک کے بعد برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ لائڈ جارج اور امریکی صدر ولسن نے اس ہدف کے حصول کے لئے اقدامات کرنے پر سنجیدگی کا اظہار کیا۔ اسی پس منظر میں جیمز بالفورنے مذکورہ بالا تاریخی خط لکھا جسے بعد میں اعلانِ بالفور کے نام سے جانا گیا۔ فرانس اور اٹلی کی حکومتوں نے 1918ء میں اس اعلان کی توثیق کی۔ اتحادی طاقتوں کی توثیق کے بعد اسے 1920ء کے معاہدہ سان ریمو کا حصہ بنایا گیا۔ جولائی 1922ء میں لیگ آف نیشنز نے اسے فلسطین مینڈیٹ کی دستاویز میں شامل کیا۔ 1922ء میں امریکی ایوان نمائندگان (کانگریس) نے ایک مشترکہ قرارداد کے ذریعے فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی حمایت کی۔
برطانیہ میں حکومت کی تبدیلی اور علاقائی طور پر تحریکوں اور طاقت کے توازن میں تبدیلی کے باعث جون 1922ء میں ونسٹن چرچل نے اپنے وائٹ پیپر میں وضاحت کی کہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی گھر سے مراد کوئی علیحدہ مملکت نہیں بلکہ ثقافتی اعتبار سے یہودیوں کی خود مختاری ہے۔ امریکن کمیٹی آف انکوائری کی رپورٹ کے مطابق پہلی عالمی جنگ سے پہلے فلسطین کی کل آبادی چھ لاکھ نواسی ہزار تھی اور اس میں یہودیوں کی تعداد فقط پچاسی ہزار یعنی 10 فیصد تھی۔ لیکن پس منظر میں یہود آباد کاریاں مسلسل جاری رہیں اور 1922ء تا 1929ء کے درمیانی عرصہ میں یہودیوں کی آبادی بڑھ کر 28 فیصد تک ہو گئی۔ 1925ء میں برطانوی سامراج اور صہیونی آبادکاریوں کے خلاف فلسطینیوں نے عام ہڑتالیں کیں، 1929ء میں خونریز تصادم ہوا جس میں 133 یہود ی اور 116فلسطینی مارے گئے۔ لیکن عوام اور محنت کشوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ 1930ء کی دہائی کے اوائل میں فلسطینیوں کی برطانوی استعمار کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال ہوئی جو کہ 170 دن جاری رہی اور 1936ء سے 1939ء کے تین سالوں میں نوآبادکاری کے خلاف عظیم تحریک نے جنم لیا۔ لیکن ان تحریکوں کو برطانوی سامراج نے صیہونی ملیشیا ’’Haganahُُ‘‘ کے ساتھ مل کر بدترین جبر سے کچل دیا، سینکڑوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ہزاروں کو اپنے ملک سے ہی جلا وطن کر دیا گیا اور کئی ایک کو وحشت ناک کیمپوں میں اذیتیں دیں گئیں۔ اپنی عوامی بنیادیں بنانے کے لئے برطانیہ نے 1939ء میں اپنے وائٹ پیپر میں یہودیوں کی نقل مکانی کی ڈھکے چھپے الفاظ میں مخالفت کی اور اس میں یہودیوں کی جانب سے فلسطینی زمین خریدنے پر بھی ’پابندی‘ عائد کی گئی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج کی کمزوریوں، نازی جرمنی کی جانب سے یہودیوں کے قتل عام (ہولوکاسٹ)، مشرق وسطیٰ میں انقلابی تبدیلیوں اور امریکی سامراج کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے باعث خطے میں برطانوی اثر و رسوخ میں کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے امریکی سامراج کی مدد سے ڈیوڈ بن گورین نے اپنی صیہونی ملیشیا کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھتے ہوئے یہاں صیہونی آبادکاریاں جاری رکھیں۔ 1949ء تک صہیونی فلسطین کے 75 فیصد حصے پر قابض ہو چکے تھے۔ اس دوران سامراج نے اپنے تابعدار ادارے اقوام متحدہ کے ذریعے خطے میں غیر اپنے جبر کو ’قانونی ‘ شکل دی۔ 1947ء میں اقوامِ متحدہ کی قراردار نمبر 181 نے فلسطین کے بٹوارے کا اعلان کیا جس میں مقامی فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک فلسطین کا 47 فیصد علاقہ دیا گیا۔ ٹراٹسکی نے اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے سے بھی ایک عشرہ پہلے لکھا تھا ’’صیہونیت یہودی سوال کو حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس سے فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کا تنازعہ مزید خطرناک اور درد ناک ہو رہا ہے۔‘‘ اس خونریز بٹوارے میں سٹالن اسٹ بیورو کریسی نے بھی سامراجی عزائم کی مکمل حمایت کی۔ اقوام متحدہ میں انہوں نے اس قرار داد کی حمایت کی اور مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کی آڑ میں سامراجی مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔ ’’اقوام متحدہ‘‘ کے نام سے پہچانی جانے والی مغربی سامراج اور سٹالن ازم کی مکروہ مفاہمت کے ذریعے 1948ء میں اسرائیل کی پیدائش کے بعد سے مسئلہ فلسطین مشرق وسطیٰ کے سینے پر ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے۔ خطے میں تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ’’امن مذاکرات‘‘ کا نہ رکنے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عوام صیہونیت کی وحشت، اسلامی بنیاد پرستی کی رجعت، متعلق العنان بادشاہتوں کے جبر اور سامراجی استحصال کے ہاتھوں تاراج ہو رہے ہیں۔
فلسطینی تنظیم برائے آزادی (PLO) 1964ء میں قائم ہوئی اور آغاز سے ہی اس پر بائیں بازو کے رحجانات غالب رہے۔ اس نے 1988-89ء تک سامراجی تقسیم کو نہیں مانا بلکہ ایک متحدہ فلسطین کے قیام کی جدوجہد کرتی رہی۔ فلسطینی عوام کی جدوجہد اور دباؤ کو ہی پی ایل او کی قیادت نے 1993ء کے اوسلو معاہدے میں استعمال کیا جہاں سامراجیوں نے ’’دو ریاستی حل‘‘ (Two State Solution) پیش کرتے ہوئے فلسطینیوں کو کئی بڑی رعایات دینے کا وعدہ کیا جس کے نتیجے میں نام نہاد فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی۔ فلسطین کی تحریک آزادی کو سبوتاژ کرنے اور اِسے قومی آزادی کی تحریک سے ایک مذہبی بنیاد پرست تحریک میں تبدیل کرنے کے لئے اسرائیلی موساد کی پس پردہ حمایت سے ’حماس‘کھڑی کی گئی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد تحریک میں ’پی ایف ایل پی‘ جیسے سوشلسٹ رجحانات بڑی حد تک پسپائی میں چلے گئے۔ علاوہ ازیں تاریخ نے ثابت کیا کہ اسرائیل جیسی طاقتور اور وحشی ریاست کو بندوق کے زور پر شکست نہیں دی جا سکتی۔
2011ء میں ابھرنے والے عرب انقلاب نے مشرق وسطیٰ کے عوام کے شعور کو جھنجھوڑا اور تمام تر تعصبات کے خلاف طبقاتی جڑت کی جھلک نظر آئی۔ عرب انقلاب میں اسرائیل میں صیہونی حکمرانوں کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہرے انتہائی اہمیت کے حامل تھے جنہیں کارپوریٹ میڈیا نے بڑی عیاری سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی۔ آج مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی ناکامی مکمل طور پر عیاں ہو چکی ہے۔ درحقیقت سرمایہ داری کی سفارت میں اِس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی نیت ہے نہ اہلیت۔ مسئلہ فلسطین کا حل صرف انقلابی طریقے سے ہی ممکن ہے۔ نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے جو حقیقی معاشی، سماجی اور سیاسی آزادی کی ضامن سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لائے گا۔