قرض خور حکمران، بدحال عوام

[تحریر: لال خان]
موجودہ حکومت اپنے ’’ہنی مون‘‘ کے سو دنوں میں ایسا کوئی بھی اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے عوام کی حالت زار میں بہتری آئی ہو یا معاشی بحران کے زخموں کا درد سہل ہوا ہو۔ جس رفتار سے افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے وہ شاید پاکستان کی معاشی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ میڈیکل سائنس کی مشہور مثال ہے کہ ’’بلڈ پریشر ایک خاموش قاتل ہے۔ ‘‘اگر ہم غور کریں تو دہشت گردی کی خونریزی اور تباہ کاریوں، سرحدی جھڑپوں، لاپتہ افراد کے لواحقین کی چیخ و پکار، طالبان سے مذاکرات کے شور،جو ڈیشل ایکٹوزم، میڈیا پر نان ایشوز کی بھرمار اور سماجی بربادی کے واقعات کی طغیانی کے نیچے عوام پر ہونے والے معاشی اور اقتصادی حملے دراصل کسی خاموش قاتل سے کم نہیں ہیں۔ معاشی قتل عام کی خاصیت ہے کہ یہ واضح طور پر نظر نہیں آتا بلکہ خاموشی سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کی کھائی میں دھکیلتا چلا جاتا ہے۔ بھوک سے مر جانے والے بچوں، طبی سہولیات کے فقدان کے باعث نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی گنوا دینے والی ماؤں، ادویات اور علاج خریدنے کی صلاحیت سے محروم مرتے ہوئے بزرگوں اور بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی کرنے والے نوجوانوں کا قاتل کون ہے؟ کیا منافع کی ہوس پر مبنی یہ نظام زر غریبوں کے قتل عام کا سب سے بڑا اوزار نہیں ہے؟
سرمایہ دارانہ نظام آبادی تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے ذریعے انتہائی بنیادی ضروریات زندگی خریدنے کی سکت سے محنت کش طبقے کو محروم کرتا چلا جارہا ہے۔ روپے کی قدر جس تیزی سے گر رہی ہے اس سے افراط زر اور مہنگائی خطرناک شرح سے بڑھ رہی ہے، نتیجتاً پٹرولیم اور بجلی کے داموں میں ہونے والے ہوشربا اضافے سے دوسری تمام تر ضروریات زندگی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ روپے کی قیمت میں کمی کی بنیادی وجوہات میں ملکی و غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی اور حکومتی اخراجات کے لئے نوٹ چھاپنے کا عمل، زر مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائرسر فہرست ہیں۔ روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کے لئے 23 ستمبر کو حکومت نے مختلف بینکوں سے 625 ملین ڈالر کا ہنگامی قرضہ حاصل کیا ہے ، تاہم اس سلسلے میں کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس سے پیشتر آئی ایم ایف سے لیا جانے والا 6.6 ارب ڈالر کا قرضہ پچھلے قرضوں پر سود کی ادائیگی پر صرف ہوجائے گا۔ ’’ایشیا ٹائمز‘‘ کے مطابق نجی بنکوں اور سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر 34 فیصد تک سود ادا کیا جارہا ہے۔ روپے کی قیمت جوں جوں گرتی ہے قرضوں اور سود کی ادائیگی کی شرح میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے تحت پاکستان کو جون 2014ء تک 2.2 ارب ڈالر ملیں گے جبکہ اسی عرصے میں حکومت آئی ایم ایف کو سود کی مد میں تین ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کرے گی۔ روپے کی قدر مزید گرنے سے سود کی یہ رقم مزید بڑھ جائے گی۔ دیہاتوں میں غریب مزارعوں اور کسانوں کو قرضے دے کر نسل در نسل جکڑنے والے بنیوں سے یہ نظام کہیں زیادہ جابر اور مکار ہے۔ بھاری سود کی ادائیگی کے علاوہ سامراجی قرضوں کی شرائط انتہائی سفاکانہ ہوتی ہیں۔ یہ عالمی سطح کی ڈاکہ زنی ہے۔ آئی ایم ایف نے جن شرائط ہر حالیہ قرضہ دیا ہے ان میں بالواسطہ ٹیکسوں اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں اضافہ، کھاد سے لیکر ادویات تک ہرچیز پر حکومتی سبسڈی کا خاتمہ، بڑے پیمانے کی نجکاری اور حکومتی شعبے کی تنظیم نو شامل ہیں۔ تنظیم نو یا ’’ری سٹرکچرنگ‘‘ جیسے بظاہر بے ضرر معلوم ہونے والے الفاظ کا مطلب بڑے پیمانے پر مزدوروں کی بے دخلی اور مستقل ملازمتوں کی بجائے ٹھیکہ داری نظام کے تحت کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز ملازمین سے انتہائی کم اجرتوں اور حقوق کے ساتھ کام لینے کا عمل ہے۔ مسلم لیگ حکومت نے 65 سرکاری صنعتوں اور اداروں کو ان وحشی پالیسیوں کا نشانہ بنانے کا پروگرام پیش کر دیا ہے۔ ان اداروں میں سے تیس کو ستمبر کے اواخر جبکہ باقی کو دسمبر میں اس پالیسی کا نشانہ بنایا جائے گا۔
آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کا بنیادی مقصد ہی سامراجی اجارہ داریوں کے منافعوں میں اضافہ اور سامراجی حکومتوں کی معاشی و اقتصادی حاکمیت کوبرقراررکھنا ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران روزِ اول سے سامراجی اداروں اور اجارہ داریوں کے پارٹنر اور کمیشن ایجنٹ کا کردار ادا کرتے آرہے ہیں،لیکن دولت اور منافع خوری کی اس ہوس کا خمیازہ ہمیشہ محنت کش عوام ہی بھگتتے ہیں۔ سرمائے کی جمہوریت میں عوام کو نہ کبھی نمائندگی ملی ہے اور نہ مل سکتی ہے۔ بجلی پیدا کرنیوالی نجی کمپنیوں کو سینکڑوں ارب روپے ادا کئے گئے ہیں۔ یہ فیاضی کس مد میں دکھائی گئی ہے؟ بجلی کی پیداواری لاگت کیا ہے اور یہ کمپنیاں کس ریٹ پر حکومت کو بجلی فروخت کررہی ہیں؟ 23 ستمبر کو سینٹ کو دی جانے والی واپڈا حکام کی بریفنگ کے مطابق واپڈا کے تحت پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت ایک روپیہ 37 پیسے فی یونٹ ہے جبکہ اسی طریقے سے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنی 13 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فروخت کر رہی ہے۔ سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی لوٹ مار کی یہ صرف ایک جھلک ہے۔ 1995ء میں بے نظیر حکومت کی جانب سے بجلی کی پیداوار کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے بعد سے پاکستانی عوام سے لوٹے گئے اربوں ڈالر کا تخمینہ لگایا جائے تو دل دہل جاتا ہے۔
وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب نے کہا ہے کہ وہ مزید 12 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں، یہ صرف آغاز ہے۔ تاہم پچھلے ساٹھ سالوں کے دوران پاکستان کو ملنے والے مجموعی قرض سے کہیں زیادہ رقم واپسی اور سود کی مد میں ادا کی جاچکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تیسری دنیا کے ممالک کو قرض یا امداد کی مد میں ملنے والا ہر ایک ڈالر اپنے ساتھ 14 ڈالر ملک سے باہر لے جاتا ہے۔ یہ قرضے کئی بار ادا ہونے کے باوجود بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ صورتحال اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پرانے قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی کے لئے نئے قرضے درکار ہیں۔ جواز یہ پیش کیا جارہا ہے اگر سود کی ادائیگی وقت پر نہ کی گئی تو پاکستان کو دیوالیہ قرار دے دیا جائے گا ، جس سے عالمی معاشی ریٹنگ گر جائے گی اور معیشت منہدم ہوجائے گی۔ چنانچہ حکمرانوں کی اس معیشت کودیوالیہ پن سے بچانے کے لئے عوام کا دیوالیہ نکال دیا گیا ہے۔ اس ملک میں اگر کوئی ’’دیوالیہ‘‘ نہیں ہوا ہے تو وہ یہاں کے سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں جن کی دولت میں اضافے کی رفتار بڑھتی ہی جارہی ہے۔ پاکستان کے ننانوے فیصد عوام پر حکمرانی کرنے والا یہ ایک فیصدی طبقہ اپنا سرمایہ یہاں لگاتا ہے، نہ ہی یہاں رکھتا ہے۔ عوام کے ہڈیوں سے نچوڑا گیا یہ سرمایہ آف شور بنکوں اور ٹیکس ہیونز میں رکھا جاتا ہے۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق ان ٹیکس ہیونزمیں دنیا بھر کے حکمرانوں نے 32 ہزار ارب روپے چھپا رکھے ہیں۔ یہ اتنی دولت ہے کہ اس سے دنیا بھر میں بھوک، غربت اور قلت کا درجنوں بار خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ حکمران کب تک ملکی سالمیت، حب الوطنی، مذہبی تعصب اور اس جیسے دوسرے نعروں اور رجحانات کو استعمال کر کے عوام کو لوٹتے رہیں گے؟ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ 1968ء میں یہ حد پار ہوگئی تھی جب حکمرانوں کے ایوان لرز گئے تھے اور طاقت کئی مہینوں تک گلیوں، بازاروں، فیکٹریوں،مزدور بستیوں اور کھیتوں کھلیانوں میں محنت کش عوام کے پاس تھی۔ اس بار یہ طاقت حکمرانوں کے ایوانوں میں واپس نہیں جانے دی جائے گی، شاید یہ ایوان ہی باقی نہ بچیں گے۔ ۔ ۔

متعلقہ:
ن لیگ کی حکومت: کیا عوام پچھتائیں گے؟
زوال پزیر سماج کی بے بس قیادت
مہنگائی مار گئی!