سماج کو کیسے سمجھا جائے؟

| تحریر: ظفراللہ |

سماجیات ہمیشہ سے ایک مشکل اور پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ قدرتی مظاہر کی حقیقت اور ان پر غلبہ پانے کا عمل تو بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھالیکن سماجی حقائق،انسانی رویے اور سماجی ارتقا کے بارے میں سمجھ بوجھ کا آغاز گزشتہ دو صدیوں سے زیادہ مربوط شکل میں نظر آتا ہے۔ بالخصوص اس کی معروضی وجوہات سرمایہ دارانہ انقلاب کے بعد خرد افروزی کے دور میں پیوستہ ہیں جب تمام قسم کی قدرتی سائنسز اور سماجی سائنسز میں ما بعدالطبیعیاتی فکر کی بجائے مادی طریقہ کار کا غلبہ ہوا۔ تاریخ کے اندر یہ بہت بڑی جست تھی جو انقلابات کی مرہونِ منت ہے۔
سماج کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ایک خود رو طریقے سے تشکیل پاتا ہے، مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور پھر نئی شکل میں سامنے آتا ہے جس کی کوئی ٹھوس اور معروضی بنیادیں نہیں ہیں اور نہ ہی اسکا کسی معاشی طریقہ اور طرز سے کوئی تعلق ہے۔ یہ ایک سطحی اور فروعی طریقہ کار ہے جس کے نتیجے میں ہم معاشرے کو صرف موضوعی حوالے سے دیکھتے ہیں ۔ تاریخ چند افراد اور حکمرانوں کے کنٹرول میں نظر آتی ہے جو اس کو روبوٹ کی طرح اپنی مرضی اور پسند سے کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔ انسانی رشتوں اور رویوں کی سطحی انداز سے وضاحت کی جاتی ہے اوراس کو فرد کے انفرادی مزاج اور رویے کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے ۔ سوچنے کا یہ طریقہ کار ازل سے حکمران طبقے اور آج کل کے لبرلز کا خاصہ رہا ہے۔ہر عہد کے حکمران طبقے کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ سوچ کا یہ طریقہ کارپورے سماج پر مسلط کیا جائے جس کو ذرائع ابلاغ، صحافت ، تاریخ کی کتابوں ، دانشوروں اور نصاب کے ذریعے سماج میں رہنے والے عام لوگوں کی سوچ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ سوائے چند استثنائی ادوار کے، جس میں لوگ اس سوچ کو جھٹک کر مادی حقائق کا ادراک حاصل کرنے لگتے ہیں، انقلابات یہیں سے جنم لیتے ہیں۔
سما ج کو سمجھنے کا دوسرا طریقہ جدلیات کا ہے، جس میں تاریخ کی وضاحت موضوع اور معروض کے حوالے سے، ماضی اور مستقبل کے حوالے سے، فرد اور حالات کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ جس کے مطابق افراد مکمل طور آزاد بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ جہاں سماج کی تبدیلی اور ارتقا کی معروضی وجوہات ہوتی ہیں جن کے تال میل اور باہمی تعلق سے سماجی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں، وہیں افراد کا کردار بھی ہوتا ہے، مذہب بھی ان پر اثر انداز ہوتا ہے اور ثقافت ، آرٹ، خاندان اور معاشی نظام جیسے عوامل ٹھوس کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے حالات بھی آتے ہیں جب ناقابلِ تسخیر اور خدائی طاقت رکھنے والے سیزر جیسے حکمران بھی عام لوگوں کی طرح بے بس ہو جاتے ہیں اور اسپارٹا کے جانوروں سے بھی بد تر سمجھے جانے والے غلام تاریخ کا دھارا موڑ ڈالتے ہیں۔ بظاہر پر انتشار نظر آنے والے سماج میں بھی ایک نظم و ضبط ہوتا ہے ۔ ان عوامل کو سائنسی بنیادوں پر علل اور معلول کے تناظر میں سمجھنا ہی جدلیاتی طریقے کو باقی طریقوں پر فوقیت بخشتا ہے۔ لیکن عام حالات میں انسانوں کی وسیع اکثریت حکمران طبقے کے ہتھکنڈوں اور علم پر اس کے کنٹرول کی وجہ سے معاشرے کو اس طریقے سے سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔لوگ مخصوص’’ انقلابی ادوار‘‘ میں خودبخود اس شعور کو حاصل کر لیتے ہیں، تاریخ کے میدان میں اترتے ہیں اور پھر زمانے کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
سوچنے کے اس طریقہ کار کی بدولت انسانی سماج کو مادی بنیادوں پر نہ صرف سمجھا جا سکتا ہے بلکہ اس کو بدلنے کا طریقہ کار بھی وضع کیا جا سکتا ہے۔ جدلیاتی منطق کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن مارکس اور اینگلز نے اسے مادیت سے جوڑ کر نہ صرف مربوط کیا بلکہ ایک ٹھوس طریقہ کار اور فلسفیانہ نظام کی بنیاد رکھی۔ عام پائے جانے والے مغالطے کے برعکس مارکس اور اینگلز نے کبھی بھی ’’صرف معاشی نظام‘‘ کو ہی سماجی ارتقا کا محرک قرار نہیں دیا بلکہ مذہب ،آرٹ، ثقافت، خاندانی ڈھانچوں جیسے عوامل کے کردار کو بھی تسلیم کیا۔ لیکن اینگلز نے وضاحت کی کہ معاشی رشتوں اور ذرائع پیداوار کی معیاری سطح کا کردار بہرحال فیصلہ کن ہوتا ہے جن کی بنیاد پر ریاست جیسے بالائی ڈھانچے تعمیر ہوتے ہیں اور اخلاقیات متعین ہوتی ہیں۔
کسی بھی معاشی نظام کی ترقی اور تنزلی سماج کے ہر پہلو کو متاثر کرتی ہے۔آج بطور ایک معاشی نظام ، سرمایہ داری کے بحران نے ہر سماجی رشتے کو مسخ کر دیا ہے اور معاشرے کا تانا بانا ہی ادھڑ رہا ہے۔سماجی تعاون اور اجتماعی سوچ سے وابستہ انسانیت کے عظیم احساسات کو انفرادیت ، لالچ، مفاد پرستی اور حرص کی گہری کھائی میں دفن کر دیا ہے۔ ہر فرد سماج، فطرت اور اپنے آپ سے بیگانہ ہے اور ’’بھیڑ میں بھی تنہائی‘‘ کا احساس ہے۔کوئی کام نہ بھی ہو تو ہر کسی کو ہر وقت جلدی ہے، جہاں رشتہ اور تعلق نہیں ہے وہاں بھی دشمنیاں بہت ہیں۔ بہت گہری دوستیاں معاشی عوامل کے زیر اثر ایک پل میں ٹوٹ جاتی ہیں، انتہائی ’خلوص‘ کے ساتھ دھوکے اور فریب کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ ہر فرد انفرادی بقا کی جنگ میں سب کو کچل کر آگے بڑھنے میں مصروف ہے لیکن حالات پھر بھی ویسے ہی ہیں۔ایک دوسرے سے محبت اور یقین جیسے لطیف جذبات کو نفرت اور شک کا گھن لگ چکا ہے۔اولاد اور والدین کے رشتے کو بھی اس نظام نے کچے دھاگے سے لٹکا دیا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ یہ حسد، نفسا نفسی، عداوت اور سازش ہمیشہ سے تو سماجی معمول نہیں تھا۔ ’’معاشی ترقی‘‘ کا راگ الاپنے والوں کے پاس ان رشتوں کی تنزلی کی کیا وضاحت ہے؟
مارکسزم معاشرے، انسانی رشتوں اور رویوں کی تشریح انفرادی حوالے سے نہیں کرتا بلکہ اس وقت کے حاوی معاشی اور سماجی نظام کے حوالے سے کرتا ہے۔ یہ معاشی نظام کے بالواسطہ اور بلا واسطہ اثرات ہوتے ہیں جو انسان کو سماج دشمن اور انسان دشمن بناتے ہیں۔ اسی لیے مارکسزم فرد کی انفرادی اصلاح کے نظریے کا قائل نہیں ہے۔ آپ رائج الوقت حالات کے اندر رہ کر ایک حد تک ہی لوگوں کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ لیکن نظام کا کردار حاوی ہوتا ہے جو مجموعی طور پر معاشرے کے ہر فرد پر اثرات ڈالتا ہے ۔ ماں باپ بچوں کی پرورش اور تربیت پر انفرادی طور پر زور لگا کر ظاہری طور پر مہذب نظر آنے والے روبوٹ تو بنا سکتے ہیں جو ہر راہ چلتے انکل کو سلام بھی کرتے ہیں، بڑوں کا احترام بھی کرتے ہیں، لیکن سکول، گلی محلے، نصاب، میڈیاوغیرہ کے سماجی اثرات پر قابو نہیں پا سکتے۔
بسوں اور ویگنوں میں ایک ایک روپے پر لڑائیاں کیسے ختم ہو سکتی ہیں؟لین دین میں ہیرا پھیریاں کوئی ’’انسانی فطرت‘‘ تو نہیں ہیں۔ ایک زہریلے عدم تحفظ اوربے یقینی کے احساس نے معاشرے کے ہر فرد کو جکڑ اہوا ہے جس کے نتیجے میں لوگ ان غیر انسانی رویوں کے عادی ہو گئے ہیں۔سماجوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ ایک معاشی نظام، جس پر پورے سماج کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، زوال کا شکار ہوتا ہے تو سماج کا ہر پہلو زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ یہ اس نظام کی ناکامی، متروکیت اور تاریخی استرداد کی علامت ہوتی ہے۔ان حالات میں نہ کوئی بڑا ادب تخلیق ہو سکتا ہے نہ عظیم فن پارے سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ اس سب کے لئے فرصت، ذہنی آسودگی اور رجائیت بنیادی شرائط ہیں۔ ایک رجعتی عہد میں گہری مایوسی اور بد گمانی کا راج ہوتا ہے ۔ اچھائی، برائی، عظیم اور گھٹیا پن کے معنی الٹ میں بدل جاتے ہیں ۔ سوچ میں تاریکیاں ور بصیرت میں ویرانی ہوتی ہے۔لوگ جب تاریخی عمل میں بذاتِ خود اترتے ہیں تو ’ سماجی تبدیلی کے آغاز کے ادوار‘ شروع ہوتے ہیں اور اگر محنت کشوں اور پسے ہوئے طبقات کو درست قیادت میسرآجائے تو اس کی راہنمائی میں تاریخ ایک جست کے ذریعے اگلے مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔ 2011ء کی عرب بہار کے دوران ’انقلابِ مصر‘ میں روزنامہ ڈان کے ایک رپورٹر نے تحریر اسکوائر کا نقشہ کچھ یوں کھینچا تھا: ’’مصری لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت بد تمیزہیں، راہ چلتی عورتوں کو چھیڑنا اور پرس کھینچنا ان کا معمول ہے، جابجا گلیوں میں گندگی کے ڈھیر ہیں، گالم گلوچ، چوری چکاری سماجی معمول ہیں۔لیکن آج حسنی مبارک کے خلاف اٹھنے والی انقلابی تحریک کے مرکز تحریر اسکوائر میں 20 لاکھ لوگ موجود ہیں لیکن یہاں پر مٹی اور کوڑے کا ایک ذرہ تک نہیں۔ ہزاروں نوجوان پولی تھین کے بیگ اٹھا کر گندگی اور کوڑا کرکٹ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایک طرف ڈسپینسریاں ہیں جہاں رضاکار ڈاکٹر زخمیوں کا علاج کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ لاکھوں کے اس اجتماع میں اگر کسی نے موبائل فون چارج کرنا ہے تو وہ یا لائن میں کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرے یا فون رضا کاروں کو جمع کرا کے اپنا ٹوکن لے کر مظاہرے میں چلا جاتا ہے۔ رضاکار فون چارج کر کے لاکھوں لوگوں میں واپس اس کو دے آتے ہیں۔‘‘
یہ انقلابی عمل سے گزرنے والے سماج کی صرف ایک معمولی سی جھلک ہے۔ جب لوگ اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے اجتماعی طور پر آگے بڑھتے ہیں تو سوچ، رویے اور نفسیات یکسر بدل جاتے ہیں۔ پاکستانی عوام کے بارے میں بھی ’’غیر مہذب‘‘ ہونے کا ایسا ہی تاثر پایا جاتا ہے لیکن یہ اسی سطحی سوچ کی پیداوار ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے ۔ اس کے بر عکس سماجی ارتقا کو جدلیاتی بنیادوں پر سمجھتے ہوئے نہ صرف تمام سماجی مسائل کی وضاحت کی جا سکتی ہے بلکہ ان کی جڑ یعنی سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کو اکھاڑ کر نئے سوشلسٹ سماج کی تشکیل بھی کی جا سکتی ہے!