تعلیمی اداروں میں بڑھتے جبر سے کیسے لڑا جائے؟

تحریر: اویس قرنی

گزشتہ چند سالوں سے تعلیمی اداروں میں انتظامیہ اور ریاست کی دھونس شدت اختیار کر چکی ہے۔ ’’قانون نافذ کرنے والے اداروں‘‘ کی تعلیمی اداروں میں کاروائیاں اس امر کی غمازی کر رہی ہیں کہ ریاست نوجوانوں خصوصاً طلبہ سے کس قدر خوف زدہ ہے۔ پچھلے عرصے میں تحریک انصاف کی طرف بالخصوص درمیانے طبقے کے نوجوانوں کے رجحان کا مظہر دیکھنے میں آیا۔ اس سے اگرچہ ایک مسخ شدہ انداز میں ہی سہی لیکن نوجوانوں کی ایک پرت میں کچھ سیاسی ہلچل ضرور پیدا ہوئی۔ پاکستان کی تاخیر زدہ اور نااہل سرمایہ داری کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں میں بالعموم 1980ء کے بعد سے نوجوانوں کو سیاست سے کاٹنے کی روایت موجود رہی ہے کیونکہ یہاں کی ریاستی اور سیاسی اشرافیہ نوجوانوں کے سیاسی تحرک کے قابو سے باہر ہو جانے سے خوفزدہ رہی ہے۔ کیونکہ اِس سرمایہ داری میں اتنی سکت نہیں ہے کہ نوجوانوں کی امنگوں کی تکمیل ہو سکے۔ اب اِس نظام میں بڑے پیمانے پر نیا روزگار پیداہو سکتا ہے نہ ہی تعلیمی اخراجات میں کوئی بڑی اور مستقل کمی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی تین دہائیوں میں طلبہ یونین پر پابندی برقرار رکھنے سمیت نوجوانوں کے سیاسی کردار کو ایک منظم انداز میں پیچھے دھکیلا گیا۔ اس تمام عرصے میں چھوٹی چھوٹی علاقائی مزاحمتیں تو سامنے آئیں لیکن نوجوانوں کی کوئی ملک گیر تحریک نہ ابھر سکی۔ لیکن پھر نیولبرل سرمایہ داری میں ایک نئی مڈل کلاس کی پیدائش کیساتھ جڑا تحریک انصاف کا مظہر ناگزیر طور پر ’’یوتھ‘‘ کیساتھ وابستہ تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف، جو مروجہ سیاست اور ’سٹیٹس کو‘ ہی کی ایک جماعت ہے، نے بلند و بانگ دعووں اور جھوٹے وعدوں سے درمیانے طبقے کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں بے دریغ استعمال بھی کیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یہ جماعت جتنی تیزی سے بے نقاب اور ناکام ہو رہی ہے اور جس ڈھٹائی سے اپنے نام نہاد ’’منشور‘‘ سے انکاری ہو چکی ہے اس سے ماضی میں تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے بہت سے نوجوانوں میں ایک نیا تذبذب، غم و غصہ اور سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اور جب نوجوان اپنی نفرت اور غصے کا اظہار کرتے ہیں تو یہ حکومت اپنے سے پہلے والوں کی نسبت زیادہ ڈھٹائی اور جبر و تشدد کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
حالیہ عرصے میں یونیورسٹیوں میں فیسوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے مظاہرے آنے والے طوفانوں کی جھلکیاں پیش کر رہے ہیں۔ فیسوں سے ہٹ کے بھی بظاہر چھوٹے نظر آنے والے ایشوز مثلاً ہاسٹلوں میں رہائش، صفائی، انٹرنیٹ، جنریٹر اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے مسئلے پر بھی احتجاج نظر آ رہے ہیں۔ اس سے نام نہاد نئے پاکستان کی کٹھ پتلی حکومت اور اس کے آقاؤں کو سنجیدہ پریشانی لاحق ہے جس کا اظہار تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی دھونس سے ہوتا ہے۔ نوجوانوں کی بنتی ہوئی تحریک کو اب زور و جبر سے توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اتنی پولیس اب تھانوں میں نہیں ہوتی جتنی تعلیمی اداروں میں گھسا دی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں سے طلبہ کی جبری گمشدگی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نوجوانوں کی ثقافتی محفلوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ کلاس رومز سے ہٹ کے طلبہ کسی صورت مل کر نہ بیٹھ سکیں اور تبادلہ خیال نہ کریں۔ طلبہ کے پرامن مظاہروں پر اندھی طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کی حالیہ مثالیں جموں و کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد اور قائد عوام یونیورسٹی نوابشاہ ہیں۔
29 جنوری کو جامعہ کشمیر سٹی کیمپس مظفرآباد میں طلبہ کے پرامن احتجاج پر پولیس کی بھاری نفری نے کریک ڈاؤن کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد کوئی انقلابی سرکشی نہیں بلکہ طلبہ کے لیے پارکنگ کی فراہمی کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے پورا کرنے کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے پہلے بھی کئی بار یقین دہانی کرائی جا چکی تھی۔ لیکن پولیس کی طرف سے تشدد کے استعمال نے طلبہ کو منتشر کرنے کی بجائے مزید مشتعل کردیا۔ پتھراؤ کا تبادلہ ہوا جس سے بیس کے لگ بھگ طالب علم شدید زخمی ہوئے۔ پولیس کی جانب سے ربڑ کی گولیوں ، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے ردعمل میں طلبہ کی بڑی تعداد نے یونیورسٹی کے سامنے کی شاہراہ بند کر دی۔ غم و غصہ عام شہریوں تک بھی پھیل گیا۔ شہری انتظامیہ نے پولیس کے ذریعہ جامعہ کشمیر کا گھیراؤ کر کے طلبہ کو پسپا کرنے کا ہر حربہ اختیار کیا لیکن احتجاج وسعت اختیار کرتا گیا۔ جامعہ کشمیر میں ہونے والی پولیس گردی کے مناظر کسی طور بھی سرینگر میں ہونے والی بھارتی ریاست کی جارحیت سے کم نہ تھے۔ یونیورسٹی کی فضا آنسو گیس سے دھواں دھار ہو چکی تھی اور کیمپس میدانِ جنگ کی تصویر پیش کر رہا تھا۔ کئی گھنٹوں پر محیط پولیس اور نوجوانوں کے مابین جھڑپ میں جو طلبہ ہسپتالوں میں مرہم پٹی کے لیے پہنچے ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ نوجوانوں نے جامعہ کے اندر ہی اپنی مدد آپ کے تحت میڈیکل کیمپ لگایا جہاں فوری اور ابتدائی علاج و مرہم پٹی کے فرائض خود طالب علموں نے سر انجام دئیے۔ رات کو احتجاج کا زور ٹوٹنے کے بعد پولیس کی جانب سے طلبہ رہنماؤں پر کریک ڈاؤن کیے گئے۔ ہاسٹلوں پر چھاپے مارے گئے۔ لیکن طلبہ کی جانب سے آئندہ روز پھر سے احتجاج منظم کیا گیا اورادارے کے تدریسی عمل کو وائس چانسلر نے غیر معینہ مدت کے لیے معطل کردیا۔ تاحال طلبہ میں ایک بے چینی اور غیض و غضب کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔ طلبہ کے خلاف بغیر نامزدگی کے تشویشناک دفعات کے ساتھ ریاست کی مدعیت میں مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ صورتحال کے معمول میں آنے اور حکومت کی جانب سے وقتی پسپائی کے بعد ایسے حربوں کو طلبہ کے خلاف استعمال کیا جاتاہے۔ انہیں سزائیں دی جاتی ہیں۔ ایسی ایف آئی آرز کا مقصد مظاہرین کو بعد میں انتقام کا نشانہ بنانا ہو تا ہے۔ جن کا فی الفور خاتمہ اب اولین مطالبات میں شامل ہے۔ مظفر آباد یونیورسٹی کی اِس طلبہ تحریک کیساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر نوجوانوں نے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سمیت لاہور، دادو اور حیدرآباد میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے اور سوشل میڈیا پر بھی پولیس گردی کی شدید مذمت کی گئی۔
اسی طرح 28 جنوری کو رات گئے قائدعوام یونیورسٹی نوابشاہ کے ہاسٹلوں میں پولیس اہلکاروں نے دھاوا بول دیا اور کئی طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے قبل یونیورسٹی میں مختلف طلبہ گروہوں میں جھڑپ ہوئی تھی لیکن معاملات معمول میں آنے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کے احکامات پر پولیس کے ذریعے ہاسٹلوں سے بلا تفریق لاتعداد نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ بہت سے طلبہ کومارا پیٹا بھی گیا۔ مسلح ریاستی اداروں کی اس بے لگام وحشت اور بدمعاشی کے خلاف بھی ملک بھر کے بیشتر شہروں میں طلبہ نے احتجاج منظم کیے۔
پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں میں پولیس کی مداخلت مسلسل شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں رینجرز اور پولیس کی مداخلت اور طلبہ کے ساتھ جھڑپیں آئے روز سننے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں تعلیمی اداروں کی سکیورٹی ذمہ داریاں ریٹائرڈ فوجی افسران کی نجی کمپنیوں کو سونپنے کی زہریلی واردات کی جا رہی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی جدوجہد ملک بھر کے نوجوانوں کے لیے تقویت کا باعث بنتی رہی ہے۔ ایسے میں اب یونیورسٹی انتظامیہ نے ’’کیمپس منیجر‘‘ کا ایک نیا عہدہ متعارف کرایا ہے۔ پرووسٹ اور ریزیڈنٹ آفیسرز کے عہدہ جات کو یکسر ختم کرتے ہوئے ’کیمپس منیجر‘ کی ذمہ داری حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک ’کرنل‘ کو سونپی گئی ہے۔ یہ عہدہ اب وائس چانسلر کے بعد سب سے زیادہ اختیارات والا عہدہ ہے۔ اپنی طاقت اور رعونت کے زعم میں کیمپس منیجر نے 31 جنوری کی شام کو کچھ ہاسٹلوں کے کمروں کے تالوں کو توڑتے ہوئے طلبہ کا سامان باہر پھینک دیا اور اپنے تالے لگا دئیے۔ جس کے خلاف آئندہ روز یکم فروری کو ادارے کی تمام کونسلوں پر مبنی قائدین سٹوڈنٹس فیڈریشن (QSF) کی جانب سے مظاہرے کی کال پر بیشتر طلبہ نے احتجاج ریکارڈ کروایا اور اس واقعے کی شدید مذمت کی۔ مظاہرین و طلبہ رہنماؤں نے تعلیمی اداروں میں مسلح اداروں کی کسی بھی قسم کی مداخلت کی سخت مخالفت کی۔
یہی حال ہمیں پشاور یونیورسٹی میں نظر آتا ہے جہاں خصوصاً پشتون تحفظ موومنٹ کے ابھار کے بعد کیمپس کو چھاؤنی بنا کے رکھ دیا گیا۔ پشاور یونیورسٹی کے طالب علموں کی جرات اور استقامت کو توڑنے کے لیے کیمپس کی تمام تر ’’سکیورٹی‘‘ ایک ریٹائرڈ فوجی اہلکار کی نجی کمپنی کے حوالے کر دی گئی ہے۔ جہاں ماضی میں ایک چیک پوسٹ ہوا کرتی تھی اب دسیوں بنا دی گئی ہیں۔ ہاسٹل میں مقیم طلبہ اپنے ہاسٹل کے علاوہ کسی اور ہاسٹل میں داخل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی انکو آپس میں کہیں کھڑا ہونے دیا جاتا ہے۔ لیکن پھر پشاور یونیورسٹی میں ہی فیسوں میں کمی سمیت بجلی اور گیس کی سہولیات کے حصول کے لیے خصوصاًہاسٹل میں مقیم طلبہ کے روزانہ کی بنیاد پر مسلسل مظاہرے اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال پنجاب یونیورسٹی لاہورکی ہے۔
انتظامیہ کی ملی بھگت سے تعلیمی اداروں کو اس طرح قید خانہ جات بنانا بے مقصد نہیں ہے۔ جہاں یہ اقدامات انتظامیہ و ریاست میں خوف کی غمازی کر رہے ہیں وہاں یہ نوجوانوں کی انقلابی صلاحیت اور معاشرہ میں انکے کردار کو بھی عیاں کر رہے ہیں۔ طاقت رکھنے والوں کو بخوبی احساس ہے کہ وہ چنگاری انہی تعلیمی اداروں سے ہی پھوٹے گی جو ان کے استحصالی نظام کو راکھ کر دے گی۔
آج حالات یہ ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بنیادی انسانی ضروریات عیاشی کے زمرے میں آتی ہیں۔ دراصل آج کے عہد میں تعلیمی اداروں، خواہ سرکاری ہوں یا نجی، کی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے طالب علم کوئی ایسی مخلوق ہیں جن کو صرف کتابوں اور استادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ سیاست پر پابندی کی کئی دہائیوں کے دوران یہی سوچ پورے سماج پر مسلط کی گئی ہے۔ ’’پڑھائی‘‘ کے علاوہ تعلیمی اداروں کی طلبہ کی طرف کوئی ذمہ داری نہیں بنتی‘ سوائے دیوہیکل فیسوں کی شکل میں مال بٹورنے کے۔ اول تو یہاں اعلیٰ تعلیم تک رسائی ہی اتنی مشکل اور مہنگی ہوچکی ہے جس کا محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ دوسرا اساتذہ کی شدید قلت ہے اور کتابوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی ان تعلیمی اداروں تک رسائی بنا پاتا ہے تو ٹرانسپورٹ سے لے کے ہاسٹلوں تک بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔ گیس اور بجلی کے ہیٹروں کااستعمال تو گویا گناہ ہے۔ گرم پانی کی سہولیات نہیں ہیں۔ کمروں کی صفائی کا کو ئی بندوبست نہیں ہے۔ کیمپسوں میں کوئی میڈیکل ایمرجنسی کی سہولت یا ڈسپنسری نہیں ہے۔ لائبریریوں کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ کھیل کے مواقع ناپید ہیں۔ جبکہ ان سب کے پیسے فیسوں میں وصول کیے جاتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کی اذیت سے سارا ملک بلبلا رہا ہے اور ہاسٹلوں کی صورتحال تو اور بھی دگرگوں ہے۔ لیکن اگر نوجوان اپنے ان جائز حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو پھر ان پر ریاستی جبر کی انتہا کر دی جاتی ہے۔
طلبہ کی تعلیمی ادارے کے انتظامی معاملات تک رسائی اور فیصلہ سازی میں شمولیت ان کا بنیادی حق ہے۔ یہ ادارے انہی کی بدولت ہیں، انہی کے وجود سے ہیں، انہی کے پیسوں پہ چلتے ہیں۔ ایسے میں ان کے بغیر کوئی فیصلہ سازی کیسے ممکن ہے؟ یہ منطق ہی بے بنیاد ہے۔ آج طلبہ کو اپنے حقوق کی جدوجہد میں منظم ہونا ہو گا۔ چار دہائیوں پر محیط فیصلہ سازی سے جبری بے دخلی کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی۔ مندرجہ بالا واقعات کے تناظر میں طلبہ یکجہتی پر مبنی ہونے والے مظاہرے اس لڑائی کی طرف ایک اہم پیش قدمی ہے جس میں انقلابی طلبہ محاذ (RSF) ، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) اور دیگر ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے نوجوانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی میں یہ لڑائیاں اہم سنگ میل ثابت ہوں گی۔
انقلابی نظریات اور دور رس سائنسی تناظر سے لیس طلبہ کی ایک منظم قوت ہی تعلیمی اداروں میں ریاست اور انتظامیہ کی بے جا دھونس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس میں طالبات کا بھی کلیدی کردار بنتا ہے جن کی ہراول شمولیت کے بغیر کوئی بڑی تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی۔ گزشتہ عرصے میں مختلف چھوٹے بڑے احتجاجوں میں طالبات کی شمولیت بھی ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ طلبا و طالبات کی انقلابی تنظیم ہی ان جبر و استحصال کی طاقتوں کیساتھ ٹکرا سکتی ہے اور ان کے نظام کے خاتمے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔