تحریر: لال خان
14 اگست کو پاکستان کی ’آزادی‘ کی سترویں سالگرہ کے موقع پر ایک نوجوان جوڑے، بخت تاج اور غنی رحمان، کو گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کرنے کے’جرم‘ میں انکے والدین اورمرد رشتہ داروں نے کراچی کی ایک پسماندہ کچی آبادی میں بجلی کے کرنٹ سے ہلاک کر دیا۔ لیکن انکے پکڑے جانے سے قبل، ان کے بھاگ کر شادی کرنے کی خبر پھیلنے لگی۔ قبائلی کمیونٹی کی تنگ نظری اور رجعت کے ردعمل کے خوف سے رحمان کے والد افضل، تاج کے والد حکمت سے ملے اور شادی کی تجویز دی اور ا نکو راضی کرنے کے لیے ’سوارہ‘ کی بھی پیشکش کی (اپنے خاندان سے کسی لڑکی کو شادی کے لیے پیش کرنا)۔ اس نے اپنی دو بیٹیوں کو شادی کے لیے پیش کیا، تاج اور رحمان کی شادی کے تمام اخراجات اٹھانے اور ایک بیل دینے کا وعدہ کیا۔ پریس رپورٹس کے مطابق تاج کے والدین نے افضل کی اس پیشکش کو قبول کر لیا۔ دونوں خاندانوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔
تاہم علی بروہی گوٹھ، شیرپاؤ کالونی اور مسلم آباد میں مقیم مہمند قبیلے کے درجن سے زائد عمائدین نے 15 اگست کو معاملے کے حل کے لیے جرگہ بلایا۔ ایک رجعتی ’بزرگ‘ سرتاج خان عرف شاگلئی نے معاہدے کو مسترد کیا اور جرگے پر حاوی ہو کر والدین کو اپنے ہی بچوں کو قتل کر کے سزا دینے پر مجبور کیا تا کہ قبیلے اور خاندان کی’عزت‘ کو بچایا جا سکے۔ مبینہ طور پر لڑکا اور لڑکی کے والدین نے اپنی جان کے خوف سے بچوں کو بے ہوش کر کے چارپائی سے باندھ کر بجلی کے جھٹکوں سے انہیں موت کی نیند سلا دیا۔ انکی لاشوں کو رات کی تاریکی میں دفن کر دیا گیا۔ ان کی موت پر کسی طرح کی رسومات ادا نہیں کی گئیں۔ جب اس وحشیانہ جرم کا پتہ چلا تو بدھ 13 ستمبر کو قبر کشائی کر کے انکی لاشیں نکالی گئیں۔ فارنسک تجزیے سے انکے جسم پر تشدد اور کرنٹ کے نشانات پائے گئے۔ رپورٹس کے مطابق رحمان کا والد افضل فیصلے کے خلاف تھا لیکن اسکے ایک رشتہ دار کے بقول جرگے کے ایک رکن نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے فیصلہ تسلیم نہیں کیا تو اس کے آبائی علاقے میں طالبان انکے خاندان کے باقی افراد کو برباد کر دیں گے۔
جیسے جیسے یہ نظام معاشی بحران میں مزید دھنستا جا رہا ہے اور بڑھتی ہوئی محرومی اور ذلت کے ساتھ سماجی بوسیدگی زیادہ ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے غیرت کے نام پر قتل کے جرائم کی وحشت بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ جرائم روزانہ کی بنیاد پر اور تشویشناک انداز میں بڑھ رہے ہیں۔ ان ہولناک وحشتوں، جن میں زیادہ تر محکوم طبقات کی خواتین ہی نشانہ بنتی ہیں، کی جانب ریاست کی نااہلی اور حکمران طبقات کی لاپرواہی انکی بے توجہی اور تغافل سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ وحشیانہ عمل کسی دورافتادہ دیہات یا قبائلی علاقے میں نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور نسبتاً جدید شہر کراچی میں ہوا۔
ایک جدید صنعتی شہر میں اس طرح کا رجعتی پسماندہ عمل دراصل پاکستانی سرمایہ داری کے سماجی و معاشی ارتقا کے مخصوص طرز کی پیداوار ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ ریاست اور نظام کی ناکامی ہے۔ 1950ء کی دہائی کے اواخر سے دنیا کے نئے تھانیدار اور سامرا ج، امریکہ کی سربراہی میں نئی ابھرنے والی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے نسبتاً وسیع صنعت کاری اور سرمایہ کاری کی۔ یہ دراصل بعد از جنگ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں معاشی ابھار کا نتیجہ تھا جو 1970ء کی دہائی کے وسط تک جاری رہا۔ پاکستان کی معاشی نمو بھی نئی بلندیوں کو پہنچی اور 1960ء کی دہائی میں 9 فیصد تک پہنچ گئی۔
لیکن یہ معاشی نمو سماجی انفراسٹرکچر کے ارتقا سے مطابقت نہیں رکھتی تھی جو ایک نسبتاً مناسب طرز زندگی کے لیے لازمی ہوتا ہے۔ معاشی نمو دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے مزدوروں، جن کی اکثریت غیر ہنرمند تھی، کی اجرتوں اور آمدنیوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس طرز ارتقا نے نئے تضادات کو جنم دیا جو ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں ایک عوامی بغاوت کی شکل میں پھٹ پڑے جس میں اس نومولود پرولتاریہ نے اس وقت کی صنعتی اور سیاسی جدوجہد میں اپنے جوش و ولولے سے ایک انقلابی کردار ادا کیا۔ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدور اس تحریک میں طبقاتی بنیادوں پر متحد تھے اور قومی، لسانی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصبات تقریباً ختم ہوچکے تھے جبکہ آج کراچی کو انہی تعصبات نے چیرپھاڑ رکھا ہے۔ ستر کی دہائی میں پرولتاری جدوجہد کا مرکز کراچی کی پٹھان کالونی ہوتی تھی جہاں زیادہ تر پشتون مزدور اور انکے خاندان رہتے تھے۔
جب سے طبقاتی جدوجہد زوال پذیر ہوئی اور سیاست اور سماج میں ریاست کی درپردہ قوتیں داخل ہوئیں، لسانی اور اور علاقائی تعصبات کو ہوا دی گئی۔ حکمران طبقات نے مذہبی اور فرقہ وارانہ رجحانات کو پروان چڑھایا تاکہ مزدوروں کو تقسیم کرکے اپنے منافعے اور استحصال کو بڑھا سکیں۔ ضیاالحق کی وحشی آمریت نے مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیاد پرست رجحانات کو شہ دے کر سماج پر سیاہ رجعت مسلط کی۔ بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں نے مزدوروں کو تقسیم کرنے کی پالیسی جاری رکھی اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی سیاست کی بنیاد علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات پر رکھی۔ عوام کی روایتی سیاسی پارٹیوں اور اکثر ٹریڈ یونین قیادت نے یا تو مزدور تحریک سے غداری کی یا بیرون ملک پرکشش ملازمتوں کے لیے چلے گئے۔ معاشی بحران مزید گھمبیر ہونے کی وجہ سے صنعتی منافعوں کا انحصار زیادہ سے زیادہ جرائم اور بھتہ خوری پر ہونے لگا۔ ان بھتہ خوروں، مافیا اور غنڈوں نے مذہبی، تنگ نظر قوم پرستی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کا سہارا لے کر کراچی کی معیشت میں لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا۔
اس ذلت سے نجات کے لیے بڑے پیمانے پر ٹریڈیونین اور طبقاتی جدوجہد کی غیر موجودگی میں سماج، ثقافتی اور معاشی بیگانگی کا شکار ہو گیا۔ ان حالات نے مزدوروں کو مذہبی فرقوں اور علاقائی تعصبات کی سیاست کرنے والوں کی گود میں ڈال دیا۔ ان کمیونٹیز کے امیر لوگ ان کی قیادت کرنے لگے اور انہیں اپنے معاشی مفادات اور مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ان کا اہم ہتھیار رجعتی مذہبی، قومی، سماجی اور ثقافتی پسماندگیوں اور تعصبات کو اس طرح مسلط کرنا تھا کہ یہ کمیونٹی ان کی جاگیر بن جائے جسے وہ سیاست میں بلیک میلنگ اور اپنے غنڈوں کے ذریعے لوٹ مار کے لیے استعمال کر سکیں۔ ان بچوں کے بہیمانہ قتل کے ذمہ دار بھی وہی تنگ نظر قوم پرست، مذہبی اور ثقافتی ڈان ہیں جنہوں نے اس جاگیر پر اپنی دولت اور طاقت کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ عمل ایک ایسے عہد کا وقتی مظہر ہے جہاں سطحی طور پر ایک نیم رجعت حاوی ہے اور مزدور تحریک ایک عارضی جمود کی حالت میں ہے۔
پاکستان کے اس طرز کے سماجی و معاشی ارتقا کی ’مشترک اور غیر ہموار ترقی‘ کے مارکسی نظریے سے وضاحت کی جاسکتی ہے جسے لیون ٹراٹسکی نے پیش کیا تھا۔ پاکستان جیسا ایک پسماندہ یا نسبتاً قدیم سماج، ترقی یافتہ یا زیادہ جدید سماج کی ثقافت کے بعض خدوخال کو اپنا لیتا ہے اور ایک زیادہ جدید ثقافت بھی ایک پسماندہ ثقافت کے بعض حصوں کو اپنا سکتی ہے یا اس میں مدغم ہوسکتی ہے۔ یہ عمل بعض اوقات مثبت یا منفی نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ مثبت اثرات کراچی میں مزدوروں کی بغاوت اور جدوجہد ہے۔ منفی اثرات آج کے سماجی بحران کے دور میں ثقافتی اور اخلاقی گراوٹ ہے جہاں عورت کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے اور فرقہ وارانہ تعصبات وحشت کو جنم دیتے ہیں۔ پسماندہ اور جدید ادوار سے تعلق رکھنے والی ثقافتی رسومات، ادارے، روایات اور طرز زندگی بھی کسی ایک ملک میں مشترکہ، تقابلی اور غیرمعمولی انداز میں باہم جڑے ہوتے ہیں۔
اس بوسیدہ سماجی معاشی نظام کی بیماری کی علامات کراچی میں ہونے والے اس طرح کے واقعات ہیں۔ قانون اور انتظامی تبدیلیوں سے ان سماجی بیماریوں کا خاتمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ سب بحران زدہ نظام کی پیداوار ہیں۔ کراچی دوبارہ ابھرے گا۔ پاکستان کے پرولتاریہ کے اس گڑھ میں طبقاتی جدوجہد دوبارہ ابھرے گی۔ اگر یہ فتح مند ہوئی تو اس طرح کے رجعتی رجحانات کی بنیادوں کو ہی ختم کر دے گی جو سماج کو بربریت کی طرف لے جا رہے ہیں۔
متعلقہ: